اسلامی معارف

نذرانہ عقیدت دربارۂ شہیدان کربلاؑ

 نتیجہ فکر: مولانا شفیع بنارسی صاحب

میرے قلم سے پہلے تو اللّٰہ لکھا گیا
پھر اُس کے بعد میں نبی اللّٰہ لکھا گیا

جب لکھ چکے دو نام تو محسوس یہ ہوا
آنکھیں ہیں بند فاطمہ زہراؑ لکھا گیا

آئی جو بات کِس کی ولایت کا حُکم ہے
بے فاصلہ غدیر کا مولا لکھا گیا

دستِ عطا سے جِس نے عطا کر دیا مجھے
وہ نامِ حسنؑ ہے جو سنہرا لکھا گیا

لاکھوں شہادتیں ہوئیں اسلام کے لئے
لیکن حُسینؑ کو ہی شہنشاہؑ لکھا گیا

زینبؑ کے دونوں لاڈلوں کا مرتبہ ہے یہ
ان دونوں کا فرات پہ قبضہ لکھا گیا

تیرہ برس کی سن نے بتایا ہے ذائقہ
قاسمؑ سے موت کا ہی سلیقہ لکھا گیا

ہوگا ضرور اِس کا بھی کلمہ کہیں لکھا
اکبرؑ کو جب رسولؐ کا چہرہ لکھا گیا

دیکھا جو میں نے غور سے غازیؑ کے علم کو
غازیؑ کے علم پر ہی سکینہؑ لکھا گیا

کیوں رو رہی ہے موت تُو کرب و بلا میں اب
کیا چھ مہینے بچے کا ہنسنا لکھا گیا

دیکھا جو میں نے بھاگتی فوجوں کو با خدا
احساس میں حسینؑ کا حملہ لکھا گیا

جس کے سبب یزید بھی خاموش ہو گیا
بیمارِ کربلاؑ کا وہ جملہ لکھا گیا

جملہ یہی تھا کس کے ہیں دادا اذان میں
نا دے سکا جواب وہ گونگا لکھا گیا

میں لکھ رہا تھا بیٹھ کے ذلت یزید کی
زینبؑ ترا وہ شام کا خطبہ لکھا گیا

سارے طبیب لکھتے ہیں نسخے مریض کو
لیکن مرا وظیفہ عریضہ لکھا گیا

میرا نہیں ہے کوئی بھی ڈالر سے واسطہ
چلتا ہے جو رضاؑ کا وہ سکّہ لکھا گیا

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button