
حضرت امام رضا علیہ السلام اور تبلیغ غدیر
تحریر: مولانا سید معظم حسین زیدی۔ طالبعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران
فہرست مندرجات
امام رضاؑ اور تذکرہ امامت و غدیر
۱۔حدیث سلسلۃ الذہب اور امامت اہل بیتؑ
۲۔مامون سے پہلی ملاقات اور ذکر امامت اہل بیتؑ
۳۔مرو کی جامع مسجد میں مسئلہ امامت پر بحث و بیان
۴۔انکار امامت اہل بیتؑ، سبب ضلالت و گمراہی
۶۔ معارف دینی کا خلاصہ اور عقیدہ امامت
۷۔تبلیغ غدیر، ایک اہم ذمہ داری
۸۔ غدیر کے دن، نیک کاموں کا اجر و ثواب
الف: روز غدیر مومن کے ساتھ خوشروئی سے ملنے کا ثواب
ب: غدیر کے دن اطعام مومن کا ثواب
ج: غدیر کے دن مومن روزہ دار کو افطار کرانے کا ثواب
ھ: روز غدیر برادر مومن سے ملاقات کا ثواب
و: روز غدیر، عبادت اور رشتہ داروں پرخرچ کا اجر و ثواب
۱۰۔معرفت غدیر کی اہمیت اور فائدے
مقدمہ
خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء و مرسلین کی بعثت کا سلسلہ قائم کیا اور سب سے آخر میں اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیؐ کو مبعوث کرکے ختم رسالت و نبوت کی مہر لگادی۔ رسول ختمی مرتبتؐ نے بھی اپنی مکمل زندگی میں اپنی رسالت اور الہی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا اور اپنی عمر کے آخری مرحلے تک ہدایت و رہنمائی فرماتے رہے اور پھر حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں سوا لاکھ حاجیوں کا مجمع تھا، حج سے واپس ہوتے ہوئے غدیر خم کے مقام پر ٹھہر کر اپنی آخری اور اہم ترین ذمہ داری کو بہ حکم خدا تعمیل و تکمیل کرتے ہوئے، مولائے کائنات علی ابن ابی طالبؑ کی خلافت و جانشینی اور اپنے بعد ہادی امت ہونے کا اعلان کیا اور پھر اس بات پر لوگوں کا اقرار اور ان سے بیعت بھی لی تاکہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے۔
رسول ختمی مرتبتؐ کی رحلت کے بعد آپ کی عترت اور آپ کے اہل بیت ؑنے ہدایت امت کے عظیم بار کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور ہمیشہ امت اور انسانیت کی ہدایت کے لئے کوشاں رہے. اسی تعلق سے وہ ہمیشہ واقعۂ غدیر اور اس کے اہم پیغام کو، جسے ہم رسولؐ کے بعد الہی خلافت یا امامت ولایت اہل بیتؑ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں اور جس کا اقرار یا انکار، انسان کی ہدایت و ضلالت اور اس کی سعادت و شقاوت میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے؛ جا بہ جا، قدم بہ قدم، منزل بہ منزل گوشزد کرتے رہے۔ مولائے کائنات حضرت علیؑ اور بضعۃ الرسول حضرت فاطمہ زہراؑ کی ذات سے لے کر آپ کی اولاد معصومینؑ نے بھی غدیر اور اس کے اس عظیم پیغام کو پہنچانے اور پہچنوانے میں ذرّہ برابر کوتاہی نہیں کی۔
امام رضاؑ اور تذکرہ امامت و غدیر
ہمارے اٹھویں امام، حضرت علی ابن موسی الرضاؑ بھی انہی ذوات مقدسہ میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں کثرت کے ساتھ مسئلہ امامت و خلافت الہی کو مسلمانوں کے درمیان پیش کیا، اسے ایک منصب الٰہی بتایا جس میں انسان کا ذرّہ برابر دخل نہیں ہے، دین اسلام میں اس کی عظمت و اہمیت سے لوگوں کو روشناس کرایا اور اور ساتھ ہی ساتھ غدیر کی عظمت، روز غدیر کی فضیلت، معرفت غدیر کے فوائد اور غدیر سے اعراض و انکار کے عظیم خطرات و نتائج سے بھی آگاہ کیا۔ یہاں بعض اہم مطالب و مباحث کا ذکر کیا جارہا ہے جوحضرت امام رضاؑ کی احادیث اور آپ کی عملی سیرت پر مشتمل ہے:
۱۔حدیث سلسلۃ الذہب اور امامت اہل بیتؑ
اگرچہ آپ کے زمانہ میں حاکم وقت مامون عباسی، جسے دنیا کا شاطرترین اور مکارترین حاکم اور خلفائے بنی عباس کا سب سے بڑا سیاست دان کہا جاتا ہے، اس نے بھی جب آپ کو “مدینہ” سے زبردستی “مرو” بلایا تو جب آپ شہر “نیشاپور” کے نزدیک پہنچے اور اہل سنت کے اکابر علماء و محدثین کے عظیم اجتماع نے جب آپ سے طلب حدیث کیا تو آپ نے ان کی درخواست پر ایک بہت اہم اور نفیس حدیث شریف، ان کے درمیان قرائت فرمائی جسے حدیث “سلسلۃ الذہب” کہا جاتا ہے، جسے علماء و محدثین کے اس عظیم اجتماع نے بہ غور سنا بھی اور مرقوم بھی کیا، آج بھی یہ حدیث شریف فریقین کی کتابوں میں موجود ہے۔
حدیث سلسلۃ الذہب کے بارے میں اسحاق ابن راہویہ کہتے ہیں کہ جب ابو الحسن رضاؑنے نیشاپور کے پاس پہونچے اور وہاں سے مامون کی سمت جانے لگے تو اصحاب حدیث کا ایک گروہ آپ کے ارد گرد جمع ہوگیا اور آپ سے عرض کرنے لگا: اے فرزند رسول! آپ ہمارے پاس سے ایسے ہی گزر جائیں گے اور کیا ہمیں کوئی ایسی حدیث نہیں سنائیں گے جس سے ہم استفادہ کر سکیں؟۔ اس وقت آپ اپنی عماری میں تشریف فرما تھے، آپ نے اپنے سر کو باہر نکالا اور فرمایا: میں نے اپنے والد موسیؑ ابن جعفرؑ سے، انہوں نے اپنے والد جعفرؑ ابن محمدؑ سے اور انہوں نے اپنے والد محمدؑ ابن علیؑ سے اور انہوں نے اپنے والد علیؑ ابن الحسینؑ سے اور انہوں نے اپنے والد حسینؑ ابن علیؑ ابن ابی طالبؑ سے اور انہوں نے اپنے والد امیرالمومنین علیؑ ابن ابی طالبؑ سے اور انہوں نے رسول اللہؐ سے اور رسول اللہؐ نے جبرئیلؑ سے اور جبرئیلؑ نے اللہ تعالی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ:
«لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ حِصْنِي فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِي أَمِنَ مِنْ عَذَابِي ّ»
“(کلمۂ) لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے اور جو میرے قلعے میں داخل ہو گیا میرے عذاب سے نجات پا گیا”۔
پھر اسحاق ابن راہویہ کہتے ہیں کہ جب سواری تھوڑا اور آگے بڑھنے لگی تو دوبارہ امام نے ندا دی اور ارشاد فرمایا:
«بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا»۔
“(لیکن) اس کی کچھ شرطیں ہیں اور میں بھی اس کی شرطوں میں سے (ایک) ہوں”۔(شیخ صدوق، التوحيد،ج ۱، ص ۲۵؛ شیخ صدوق، عيون اخبار الرضاؑ، ج ۲، ص ۱۳۵؛ طبری، بشارة المصطفی لشیعة المرتضی، ج ۱، ص ۲۶۹؛ قندوزی، ینابیع المودة، ص۳۸۵)۔
واضح رہے کہ مذکورہ حدیث کو اہل سنت کے بہت سے محدثین و علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ لیکن حدیث کے آخری جملے کو صرف قندوزی نے ینابیع المودۃ میں نقل کیا ہے۔
اسی طرح حدیث سلسلۃ الذہب کو شیعہ محدثین نے بھی اپنی کتابوں میں متعدد عبارات کے ساتھ ذکر کیا ہے؛ جن میں کچھ اہم روایات کو یہاں بیان کیا جارہا ہے:
ایک نقل کے مطابق یہ حدیث اس طرح بیان ہوئی ہے کہ«یقول الله: انى انا الله، لااله الا انا فاعبدونى، من جاء منکم بشهادة ان لااله الاالله بالاخلاص دخل حصنى ومن دخل حصنى أمن من عذابى»؛ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں خدا ہوں میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، تم سب میری عبادت کرو اور جو شخص خلوص کے ساتھ«لا اله الا الله» کی گواہی دے وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگیا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے نجات پاگیا(شیخ صدوق،عیون اخبار الرضاؑ، ج۲، ص۱۳۴)۔
دوسری روایت کے مطابق بیان ہوا کہ خداوندمتعال جو تمام سرداروں کا سردار ہے، فرمایا کہ: «انى انا الله، لااله الا انا، فمن اقرّ لى بالتوحید دخل حصنى ومن دخل حصنى امن من عذابى»؛ میں خدا ہوں میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے،جو شخص میری توحید کا اقرار کرے گا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگیا اور جو شخص میرے قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔(اربلی، کشف الغمة، ج۲، ص۴۰۴)۔
اسی طرح ایک نقل کے مطابق آیا ہے کہ خداوندمتعال فرماتا ہے کہ: «إنّي أنا اللّهُ ، لا إلهَ إلّا أنا وَحدي ، عِبادي! فَاعبُدوني . وَليَعلَم مَن لَقِيَني مِنكُم بِشَهادَةِ أن لا إلهَ إلَّا اللَّهُ مُخلِصاً بِها أنَّهُ قَد دَخَلَ حِصني ؛ ومَن دَخَلَ حِصني أمِنَ عَذابي» ؛ میں خدا ہوں، میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔ اے میرے بندوں میری عبادت کرو اور جان لو کہ جو شخص خلوص کے ساتھ «لا اله الا الله» کی گواہی دیتا ہے وہ میرے قلعہ میں داخل ہوجاتا ہے اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
اس مقام پر لوگوں نے امام رضاؑ سے پوچھاکہ اے فرزند رسولؐ! اللہ کی وحدانیت کی گواہی میں اخلاص کیا ہے؟ تو امام نے فرمایا:
«طاعَةُ اللَّهِ ورَسولِهِ، ووَلايَةُ أهلِ بَيتِهِ عليهم السلام»؛اخلاص کا مطلب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرنا اور ولایت اہل بیتؑ رکھنا ہے”۔(طوسی،الامالي،ص۵۸۹،ح۱۲۲۰؛ شیخ صدوق، التوحيد، ص۲۴، ح ۲۲؛ شیخ صدوق، عيون اخبار الرضا ؑ، ج۲،ص۱۳۴)۔
حدیث”سلسلۃ الذہب”کے بارے میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس حدیث کو سینکڑوں محدثین اور علماء نے بیان کیا ہے اور حضرت امام رضاؑ نے بھی اس حدیث کو اپنے معصوم اجداد کے ذریعہ نقل فرمایا ہے لہذا اس کو “زنجیرۀ زرّین”یا “سونے کی کڑیوں” والی حدیث کہا گیا ہے اور خود اس حدیث کے سلسلۂ سند کے بارے میں اہل سنت کا بزرگ عالم حافظ ابونعیم لکھتا ہے کہ:
“یہ حدیث اسی سند (زنجیرۀ زرّین) کے ساتھ پاکیزہ انسانوں سے ان کے پاکیزہ آباء و اجداد تک پہنچی ہے۔ اور جب یہ حدیث اسی سند کے ساتھ روایت کی گئی تو قدیم زمانے کے ایک عظیم محدث نے کہاکہ اگر یہ سند کسی مجنون(دیوانے) پر پڑھی جائے تو وہ شفاء پا جائے گا”۔(ابونعیم، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج۳، ص۱۹۲)۔
اسی طرح اس حدیث کے زرّین سلسلہ سند کے بارے میں ابن حجر ھیثمی بھی احمد ابن حنبل سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:”اگر اس حدیث کی سند کو کسی دیوانہ پر پڑھ دیا جائے تو وہ شفاء پا جائے گا”(ھیثمی، الصواعق المحرقه، ج۲، ص۵۹۵)۔
۲۔مامون سے پہلی ملاقات اور ذکر امامت اہل بیتؑ
حضرت امام رضاؑ جب مرو پہنچے اور مامون کے دربار میں داخل ہوئے اور مامون نے جب آپ کے سامنے اپنی ظاہری خلافت و حکومت آپ کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تو ابتداء میں آپ نے انکار کیا مگر جب اس کا اصرار بڑھا اور کہنے لگا کہ میں اپنے آپ کو اس خلافت سے معزول کر کے اسے آپ کے حوالے کر دینا چاہتا ہوں اور پھر آپ ہی کی بیعت کرنا چاہتا ہوں تو امام نے جو وہاں پر تاریخی جواب دیا تھا وہ واقعا خلافت الہی اور امامت اہل بیتؑ کے باب میں ہمارے لئے نہایت عظیم سرمایہ ہے۔
آپ نے مامون کے اصرار پر ارشاد فرمایا:
«إن کانَت هذِهِ الخِلافَةُ لَک وجَعَلَها اللّهُ لَک، فَلا یجوزُ أن تَخلَعَ لِباسا ألبَسَکهُ اللّهُ وتَجعَلَهُ لِغَیرِک، وإن کانَتِ الخِلافَةُ لَیسَت لَک، فَلا یجوزُ لَک أن تَجعَلَ لِی ما لَیسَ لَک».
“(اے مامون)! اگر یہ خلافت تیرا حق ہے اور خدا نے اسے تیرے لئے قرار دیا ہے تو پھر تیرے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ جو لباس (خلافت) خاص کر خدا نے تجھے پہنایا ہے اسے کسی اور کے حوالے کرے؛ اور اگر یہ خلافت تیرا حق نہیں ہے تو تجھے کس نے حق دیا ہے کہ جو چیز تیری خود کی ملکیت میں نہ ہو وہ میرے حوالے کرنے لگے؟!”۔ (شیخ صدوق، الامالی، ص۱۲۵ ، ح ۱۱۵؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ،ج ۲ ص ۱۳۹؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ج۴،ص۳۶۲)۔
۳۔مرو کی جامع مسجد میں مسئلہ امامت پر بحث و بیان
جب عبدالعزیز ابن مسلم نے امام رضاؑ کے سامنے مرو کی جامع مسجد میں جمعہ کے روز مسئلہ امامت پر ہونے والی ایک طولانی بحث و گفتگو کا تذکرہ کیا تو آپ نے مسکراتے ہوئے، عظمت و اہمیت امامت اور اوصاف امام پر ایک مفصل اور طولانی حدیث بیان فرمائی؛ جس کی ابتدا میں آپ نے فرمایا کہ خدا نے اپنے نبی کو اس وقت تک دنیا سے نہیں اٹھایا جب تک کہ قرآن کو آپ پر نازل نہیں فرما لیا اور اپنے دین کو مکمل نہیں کر لیا۔
پھر آپ نے حجۃ الوداع کا تذکرہ کرتے ہوئے، اس میں نازل ہونے والی آیت «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينا»(مائدہ، آیت۳)، کا حوالہ دیا اور پھر فرمایا امر امامت سے ہی دین منزل اتمام تک پہنچا ہے۔ پھر اس کے بعد قرآن کی رو سے جناب ابراہیمؑ کی امامت اور ان کی ذریت میں روز قیامت تک، یہ الہی عہدہ ظالمین کو نہ مل پانے کی بات ذکر فرمائی۔ قرآن مجید میں اس سلسلے میں فرماتا ہے :«وَإِذِ ٱبتَلَىٰٓ إِبرَٰهِـۧمَ رَبُّهُۥ بِكَلِمَٰت فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاما قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهدِي ٱلظَّـٰلِمِين»؛ “اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیمؑ کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں۔ انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟۔ ارشاد ہوا کہ یہ عہدۂ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔ اور ان کی ذریت میں روز قیامت تک، یہ الہی عہدہ ظالمین کو نہ مل پانے کی بات ذکر فرمائی”(بقرہ، آیت124)۔
اسی حدیث شریف میں آپؑ نے امام کے بارے میں کچھ اہم اوصاف و خصوصیات کا بھی ذکرفرمایا کہ: «اَلْإِمَامُ اَلْأَنِيسُ اَلرَّفِيقُ وَ اَلْوَالِدُ اَلشَّفِيقُ وَ اَلْأَخُ اَلشَّقِيقُ وَ اَلْأُمُّ اَلْبَرَّةُ بِالْوَلَدِ اَلصَّغِيرِ»؛ امام ایک رفیق مونس و ہمدم، مہربان و شفیق باپ، دلسوز اور ہمدرد بھائی اور اس ماں کی طرح ہوتا ہے جو اپنے چھوٹے بچے سے بہت زیادہ نیکی کرتی اور مسلسل اس کی بھلائی کے لئے کوشاں رہتی ہے(کلینی، الكافي، ج 1،ص 200، ح1؛ نعمانی، الغيبة، ص219، ح6؛ حرانی، تحف العقول، ص439)۔
۴۔انکار امامت اہل بیتؑ، سبب ضلالت و گمراہی
جب آپ سے امامت کے بارے میں سوال ہوا کہ امام کیسا ہوتا ہے؟۔اس کے علامات و دلائل کیا ہیں؟۔ تو آپ نے آیۂ اولی الامر کے ذریعے اس کی اطاعت کے واجب ہونے کا ذکر فرمایا جس میں آیا ہے کہ: «أَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلأَمرِ مِنكُم…» ؛ “؛ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو…”(نساء، آیت۵۹)۔ اسی طرح آیۂ ولایت کے ذریعے امام کی ولایت کے واجب ہونے کا ذکر فرمایا جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُم رَٰكِعُونَ»؛ “ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں”(مائدہ، آیت ۵۵)۔ اور غدیر خم کے روز نبی اکرمؐ کے سوال «ألَسْتُ أوْلَى بِكُمْ مِنْ أنْفُسِكُمْ»کے بعد حدیث «مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَهَذَا عَلِىٌّ مَوْلاَهُ» کے ذریعہ اس کی امامت کے وجوب کو بیان فرمایا اور پھر مولائے کائناتؑ سے لے کرا بارہ اماموںؑ کے ناموں کا تذکرہ کرنے کے بعد اسی حدیث شریف میں، اس امامت و خلافت الہی سے اعراض و انکار اور مخالفت کو انسان کی گمراہی و ضلالت اور ترک حق و ہدایت کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا «كُلُّ مَنْ خَالَفَهُمْ ضَالٌّ مُضِلٌّ تَارِكٌ لِلْحَقِّ وَ اَلْهُدَى»؛ جو بھی ان (امامان برحق) کی مخالفت کرے گا وہ خود بھی گمراہ ہوگا، دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا اور حق و ہدایت کو ترک کرنے والا ہوگا۔(حرانی، تحف العقول، 415 ؛ شیخ صدوق، عيون اخبار الرضاؑ ،ج ۲، ص ۱۲۱)۔
۶۔ معارف دینی کا خلاصہ اور عقیدہ امامت
مذکورہ روایت کے آخری جملات کا ذکر ایک دوسری روایت کے ضمن میں بھی آیا ہے۔ اس دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ مامون نے فضل بن سهل ذوالریاستین کو حضرت امام رضاؑ کی خدمت میں بھیجا۔ اس نے امام ؑ سے عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے لئے حلال و حرام، فرائض و سنن کو یکجا بیان فرمادیں کیونکہ آپ لوگوں پر اللہ کی حجت اور علم کا خزانہ ہیں۔ حضرت امام رضاؑ نے دوات اور کاغذ طلب فرمایا اور فضل سے کہا کہ لکھو:
“بسم اللہ الرحمن الرحیم؛ ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ ہم گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے، بے نیاز ہے، نہ اس کی کوئی بیوی ہے نہ اولاد۔ وہ اپنی ذات پر قائم ہے، بینا ہے، زبردست اور قائم رہنے والا ہے، ہمیشہ رہنے والا نور ہے۔ وہ دانا ہے جس پر کبھی نادانی طاری نہیں ہوتی، وہ قادر ہے جس سے عجز دور ہے، وہ بے نیاز ہے جسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ عادل ہے جو کبھی ظلم نہیں کرتا۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، اس جیسا یا اس کا کوئی مثل نہیں، نہ اس کی کوئی ضد ہےاور نہ ہی کوئی ہمسر و ہم پلہ ہے۔
اور گواہی دیں کہ حضرت محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں، اس کے امین اور بندوں میں سے برگزیدہ ہیں جو رسولوں کے سردار اور پیغمبروںؑ کے خاتم ہیں۔ وہ تمام عالمین میں سب سے افضل ہیں، آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ کا دین تبدیل پذیر نہیں ہوگا اور جو کچھ حضرت محمدؐ لے کر آئے وہ آشکار حق ہے۔ ہم جو کچھ حضرت محمدؐ لائے اس کی تصدیق کرتے ہیں، تمام الہٰی رسولوںؑ، سابقہ انبیاءؑ اور اللہ کی حجتوںؑ کے وجود کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہم اس کی سچی کتاب (قرآن) کی تصدیق کرتے ہیں جس کے “نہ آگے سے کوئی باطل راہ پا سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ حکیم اور قابل تعریف ذات کی طرف سے نازل ہوا ہے”(فصلت، آیت۴۲)۔ اور یہ کہ قرآن دیگر تمام آسمانی کتابوں کا محافظ ہے، اس کا آغاز سے انجام تک خالص حق ہے۔ ہم اس کے محکم و متشابہ، خاص و عام، وعده و وعید، ناسخ و منسوخ اور اس کی خبروں پر ایمان رکھتے ہیں۔ کوئی بھی مخلوقین میں سے اس قرآن کے مانند نہیں لاسکتا۔
اور گواہی دیں کہ آنحضرتؐ کے بعد مومنین کے لئے رہنما اور حجت، مسلمانوں کے امور کے ذمہ دار، قرآن کے فصیح اور اس کے احکام کے جاننے والے آپؐ کے بھائی، جانشین اور وصی امیرالمومنین علی ہیں جو رسول اکرمؐ کی بہ نسبت ہارون کی مانند تھے جو موسیٰؑ کے لئے تھے۔ وہ پرہیزگاروں کے امام، سفیدرو لوگوں کےپیشوا، مومنین کے رہبر اور تمام انبیاءکے بعد ہونے والےان کے جانشینوں کے مقابلے میں سب سےبہترین جانشین ہیں۔ ان کے بعد حسنؑ و حسینؑ ایک کے بعد دوسرے امام ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور یہ سب پیغمبر کے اہل بیتؑ سے ہیں۔ اور یہی سلسلہ وہ ہے جو کتاب و سنت کے سب سے زیادہ عالم، فیصلوں میں سب سے زیادہ عادل اور ہر زمانے میں امامت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ یہ سب سے زیادہ مضبوط سہارا، ہدایت کے امام اور دنیا والوں پر حجت ہیں یہاں تک کہ اللہ زمین اور اس پر موجود ہر چیز کا وارث ہوگا اور وہ بہترین وارث ہے۔
اور گواہی دیں کہ جو کوئی ان (اہل بیتؑ) کی مخالفت کرے گا وہ گمراہ اور بہکا ہوا ہے، اس نے حق اور ہدایت کو چھوڑ دیا۔ صرف یہی اہل بیتؑ قرآن کے بیان کرنے والے اور نبوی کلام کے ترجمان ہیں۔ جو کوئی مرے اور انہیں نہ پہچانے، ان کے ناموں اور ان کے آباء کے ناموں سے ان سے محبت نہ کرے تو وہ جاہلیت کی موت مرا”(شیخ صدوق، عيون اخبار الرضاؑ، ج ۲، ص ۱۲۱)۔
۷۔تبلیغ غدیر، ایک اہم ذمہ داری
حضرت امام رضاؑ عید غدیر کےفضائل اور اس عید کے دن کے اہم آداب کا ذکر فرماتے ہوئے، اپنے آباء و اجداد کے واسطے سے مولائے کائنات سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا: «وَ لْيُبَلِّغِ اَلْحَاضِرُ اَلْغَائِبَ وَ اَلشَّاهِدُ اَلْبَائِنَ وَ لْيَعُدِ اَلْغَنِيُّ عَلَى اَلْفَقِيرِ وَ اَلْقَوِيُّ عَلَى اَلضَّعِيفِ أَمَرَنِي رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ بِذَلِكَ»؛ اس واقعہ غدیر کو ہر حاضر غائب تک اور نزدیک والا دور والے تک پہنچاتا رہے اور مالدار فقیر کی اور طاقتور ضعیف کی مدد اور نصرت کرتا رہے۔ رسول خداؐ نے مجھے ان دو چیزوں کا حکم اور دستور دیا ہے(عاملی، وسایل الشیعہ، ج١٠، ص٤٤٤؛ ابن طاووس حلی، اقبال الاعمال، ج ١، ص٤٦١ ؛ مجلسی، زاد المعاد ج۱ ص۲۰۹)۔
۸۔ بیان فضائل روز غدیر
حضرت امام رضاؑنے روز غدیر کی فضیلت کے سلسلے میں ایک بہت ہی طولانی حدیث ارشاد فرمائی ہےجسے مکمل طور پر یہاں نقل نہیں کیا جاسکتا لہذا ذیل میں کچھ فقرات کا ذکر کیا جارہاہے:
آپ ؑنے اس حدیث میں ارشاد فرمایا:
«إِذا كانَ يَوْمُ الْقِيامَةِ زُفَّتْ أَرْبَعَةُ أَيَّامٍ اِلَى اللّه ِ كَما تُزَفُّ الْعَرُوسُ اِلى خِدْرِها، قيلَ: ما هَذِهِ الْأَيّامُ؟ قالَ عليه السلام: يَوْمُ الْأَضْحى وَيَوْمُ الْفِطْرِ وَيَوْمُ الْجُمُعَةِ وَيَوْمُ الْغَدِير»؛”روز قیامت چار دنوں کو خداوند عالم کے سامنے بہت زیادہ سجا کر پیش کیا جائے گا جس طرح سے دلہنوں کو سجا کر حجلۂ عروسی کی طرف لے جایا جاتا ہے، سوال ہوا: وہ (چار) دن کون سے ہیں؟. تو آپ نے فرمایا: روز عید قربان، روز عید فطر، روز جمعہ اور روز غدیر”۔
“روز قربان و فطر اور جمعہ کے درمیان غدیر کے دن کی فضیلت بالکل ایسے ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت ستاروں کے درمیان ہوتی ہے”۔
«إِنَّ يَوْمَ اَلْغَدِيرِ بَيْنَ اَلْأَضْحَى وَ اَلْفِطْرِ وَ اَلْجُمُعَةِ كَالْقَمَرِ بَيْنَ اَلْكَوَاكِبِ»؛ “یہی وہ دن ہے جس دن جناب ابراہیم خلیل نے آتش(نمرودی) سے نجات پائی اور اس کے بعد شکر خدا کے عنوان سے اس دن روزہ رکھا”۔
«وَ هُوَ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي نَجَا فِيهِ إِبْرَاهِيمُ اَلْخَلِيلُ مِنَ اَلنَّارِ فَصَامَهُ شُكْراً لِلَّهِ»؛ “یہی وہ دن ہے جب رسول خداؐ نے مولائے کائنات علیؑ کو مومنین کا امیر بنایا، ان کی فضیلت کا اعلان کیا، اپنا وصی و جانشین بنایا تو خداوندعالم نے بھی اپنے دین کو مکمل کردیا”۔
«وَ هُوَ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي أَكْمَلَ اَللَّهُ بِهِ اَلدِّينَ فِي إِقَامَةِ اَلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ عَلِيّاً أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَماً وَ أَبَانَ فَضِيلَتَهُ وَ وِصَاءَتَهُ فَصَامَ ذَلِكَ اَلْيَوْمَ وَ إِنَّهُ لَيَوْمُ اَلْكَمَالِ وَ يَوْمُ مَرْغَمَةِ اَلشَّيْطَانِ وَ يَوْمُ تُقْبَلُ أَعْمَالُ اَلشِّيعَةِ وَ مُحِبِّي آلِ مُحَمَّدٍ وَ هُوَ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي أَكْمَلَ اَللَّهُ اَلدِّينَ يَعْمَدُ اَللَّهُ فِيهِ إِلَى مَا عَمِلَهُ اَلْمُخَالِفُونَ فَيَجْعَلُهُ هَبٰاءً مَنْثُوراً»؛ ” اور یہی وہ دن ہے جب رسول خدا نے مولائے کائنات علیؑ کو مومنین کا امیر بنایا، ان کی فضیلت کا اعلان کیا، اپنا وصی و جانشین بنایا تو خداوند عالم نے بھی اپنے دین کو مکمل کردیا، یہ دین کے مکمل ہونے کا دن اور شیطان کی ناک زمین پہ رگڑے جانے کا دن اور شیعوں اور محبین اہل بیت ؑکے اعمال قبول ہونے اور مخالفین کے اعمال کے گرد و غبار کی طرح پراگندہ ہونے کا دن ہے “۔
«وَ هُوَ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي يَأْمُرُ جَبْرَئِيلَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنْ يَنْصِبَ كُرْسِيَّ كَرَامَةِ اَللَّهِ بِإِزَاءِ بَيْتِ اَلْمَعْمُورِ وَ يَصْعَدُهُ جَبْرَئِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَ تَجْتَمِعُ إِلَيْهِ اَلْمَلاَئِكَةُ مِنْ جَمِيعِ اَلسَّمَاوَاتِ وَ يُثْنُونَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ يَسْتَغْفِرُونَ لِشِيعَةِ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلْأَئِمَّةِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ وَ مُحِبِّيهِمْ مِنْ وُلْدِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ»؛”یہی وہ دن ہے جب خداوند عالم جبرئیل امینؑ کو حکم دیتا ہے کہ کرامت الہی کی کرسی کو بیت المعمور کے مقابل میں نصب کریں اور اس کرسی پر بیٹھیں اور سارے ملائکہ آسمان ان کے اردگرد جمع ہوں اور سب مل جل کر محمدؐ و آلِ محمدؑ کی مدح و ثنا کریں اور امیرالمومنین علیؑ اور دیگر ائمہؑ کے شیعوں اور ان کے چاہنے والوں کے لئے استغفار کریں”۔
«وَ هُوَ يَوْمُ تَنْفِيسِ اَلْكَرْبِ وَ يَوْمُ تَحْطِيطِ اَلْوِزْرِ وَ يَوْمُ اَلْحَبَاءِ وَ اَلْعَطِيَّةِ وَ يَوْمُ نَشْرِ اَلْعِلْمِ وَ يَوْمُ اَلْبِشَارَةِ وَ اَلْعِيدِ اَلْأَكْبَرِ وَ يَوْمٌ يُسْتَجَابُ فِيهِ اَلدُّعَاءُ وَ يَوْمُ اَلْمَوْقِفِ اَلْعَظِيمِ وَ يَوْمُ لُبْسِ اَلثِّيَابِ وَ نَزْعِ اَلسَّوَادِ»؛ “یہ کرب و اذیت سے دوری، گناہوں سے پاکی اور بخشش و عطا اور ہدیہ کا دن ہے؛ علم کے نشر اور بشارت کا دن اور سب سے بڑی عید کا دن ہے؛ دعا کے قبول ہونے اور موقف عظیم کا دن ہے؛ (پرانے اور) سیاہ لباس اتارنے اور نئے لباس پہننے کا دن ہے”۔
«وَ هُوَ يَوْمُ اَلتَّهْنِيَةِ يُهَنِّي بَعْضُكُمْ بَعْضاً فَإِذَا لَقِيَ اَلْمُؤْمِنُ أَخَاهُ يَقُولُ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اَلَّذِي جَعَلَنَا مِنَ اَلْمُتَمَسِّكِينَ بِوَلاَيَةِ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلْأَئِمَّةِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ»؛”یہ تہنیت اور مبارک باد دینے کا دن ہے لہذا جب کوئی مومن بھائی اپنے دوسرے مومن بھائی سے ملاقات کرے تو اس طرح سے کہے: «اَلْحَمْدُللّه ِ الَّذى جَعَلَنا مِنَ الْمُتَمَسِّكينَ بِوِلايَةِ أميرِالْمُؤْمِنينِ وَالاَْئِمَّةِ عليهم السلام»؛ حمد و تعریف ہے اس خدا کے لئے جس میں ہم کو امیرالمومنین ؑ اور ائمہ معصومینؑ کی ولایت سے متمسک رہنے کی توفیق مرحمت فرمائی”۔( ابن طاووس حلی، اقبال الاعمال، ج۱ ص۴۶۴۔ مجلسی، زاد المعاد، ج۱ ص۲۰۳۔ بحرانی اصفہانی، عوالم العلوم ج۱۵ ص۲۲۲)۔
۸۔ غدیر کے دن، نیک کاموں کا اجر و ثواب
الف: روز غدیر مومن کے ساتھ خوشروئی سے ملنے کا ثواب
مذکورہ روایت ہی میں بیان ہوا ہے کہ:
«وَ هُوَ يَوْمُ اَلتَّبَسُّمِ فِي وُجُوهِ اَلنَّاسِ مِنْ أَهْلِ اَلْإِيمَانِ فَمَنْ تَبَسَّمَ فِي وَجْهِ أَخِيهِ يَوْمَ اَلْغَدِيرِ نَظَرَ اَللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ بِالرَّحْمَةِ وَ قَضَى لَهُ أَلْفَ حَاجَةٍ وَ بَنَى لَهُ قَصْراً فِي اَلْجَنَّةِ مِنْ دُرَّةٍ بَيْضَاءَ وَ نَضَّرَ وَجْهَهُ»؛غدیر کا دن اہل ایمان سے مسکرا کر ملاقات کرنے کا دن ہے لہذا جو شخص بھی روز غدیر اپنے مومن بھائی سے مسکرا کر ملاقات کرے گا اللہ تعالی روز قیامت اس کے اوپر نظر رحمت کرے گا، اس کی ہزار حاجتوں کو پر لائےگا اور جنت میں اس کے لئے سفید موتیوں کا ایک محل بنائےگا اور اس کا چہرہ روشن اور منور ہوجائےگا۔
ب: غدیر کے دن اطعام مومن کا ثواب
«وَ مَنْ أَطْعَمَ مُؤْمِناً كَانَ كَمَنْ أَطْعَمَ جَمِيعَ اَلْأَنْبِيَاءِ وَ اَلصِّدِّيقِينَ»؛ جس نے غدیر کے دن کسی ایک مومن کو کھانا کھلایا گویا اس نے تمام انبیاء اور صدیقین کو کھانا کھلایا۔
ج: غدیر کے دن مومن روزہ دار کو افطار کرانے کا ثواب
«وَ يَوْمُ تَفْطِيرِ اَلصَّائِمِينَ فَمَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِماً مُؤْمِناً كَانَ كَمَنْ أَطْعَمَ فِئَاماً وَ فِئَاماً إِلَى أَنْ عَدَّ عَشْراً ثُمَّ قَالَ أَ وَ تَدْرِي مَا اَلْفِئَامُ قَالَ لاَ قَالَ مِائَةُ أَلْفٍ»؛ جس نے غدیر کے دن کسی ایک مومن روزے دار کو افطار کرایا تو گویا وہ ایسا ہے جیسے ایک فئام کو، دو فئام کو، تین فئام کو یہاں تک کہ امام نے دس فئام تک شمار کئے، دس فئام کو کھانا کھلایا۔
پھر سوال کیا ہے کہ فئام کا مطلب جانتے ہو؟ راوی نے کہا: نہیں؛ (آپ خود بیان فرما دیجئے!). امام نے ارشاد فرمایا کہ ایک فئام کا مطلب ایک لاکھ ہوتا ہے۔(سید ابن طاؤوس حلی، اقبال الاعمال، ج ۱، ص۴۶۴)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو غدیر کے دن کسی ایک مومن کا روزہ افطار کراتا ہے تو گویا وہ ایسا ہے جیسے ایک لاکھ لوگوں کو کھانا کھلایا ہو۔
د: روز غدیر زینت کرنے کا ثواب
«وَ هُوَ يَوْمُ اَلزِّينَةِ فَمَنْ تَزَيَّنَ لِيَوْمِ اَلْغَدِيرِ غَفَرَ اَللَّهُ لَهُ كُلَّ خَطِيئَةٍ عَمِلَهَا صَغِيرَةً أَوْ كَبِيرَةً وَ بَعَثَ اَللَّهُ إِلَيْهِ مَلاَئِكَةً يَكْتُبُونَ لَهُ اَلْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعُونَ لَهُ اَلدَّرَجَاتِ إِلَى قَابِلِ مِثْلِ ذَلِكَ اَلْيَوْمِ»؛ “اور یہ زینت کا دن ہے جو روز غدیر کے لئے زینت (نیا لباس، خوشبو اور عطر وغیرہ کا استعمال) کرتا ہے اللہ تعالی اس کے ہر گناہ کو چاہے وہ صغیرہ ہو یا کبیرہ معاف کر دیتا ہے اور اللہ اس کے پاس ملائکہ بھیجتا ہے جو اگلے سال کے روز غدیر تک کے لئے مسلسل اس کی نیکیوں کو لکھتے رہتے اور اس کے درجات کو بلند کرتے رہتے ہیں”(سید ابن طاؤوس حلی، اقبال الاعمال، ج ۱، ص ۴۶۴)۔
ھ: روز غدیر برادر مومن سے ملاقات کا ثواب
«وَ مَنْ زَارَ فِيهِ مُؤْمِناً أَدْخَلَ اَللَّهُ قَبْرَهُ سَبْعِينَ نُوراً وَ وَسَّعَ فِي قَبْرِهِ وَ يَزُورُ قَبْرَهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ وَ يُبَشِّرُونَهُ بِالْجَنَّةِ»؛ “جو شخص اس دن کسی مومن کی ملاقات کو جائے تو خداوند عالم اس کی قبر میں ستر نور بھیجتا ہے، اس کی قبر کو وسیع کر دیتا ہے اور ہر روز ستر ہزار ملائکہ اس کی قبر پر آتے ہیں اور اسے جنت کی بشارت دیتے ہیں”۔(سید ابن طاؤوس حلی، اقبال الاعمال، ج ۱، ص ۴۶۴)۔
و: روز غدیر، عبادت اور رشتہ داروں پرخرچ کا اجر و ثواب
«وَ هُوَ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي يَزِيدُ اَللَّهُ فِي حَالِ مَنْ عَبَدَ فِيهِ وَ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ وَ نَفْسِهِ وَ إِخْوَانِهِ وَ يُعْتِقُهُ اَللَّهُ مِنَ اَلنَّارِ»؛”جو شخص بھی اس دن عبادت کرتا ہے اور اپنے اوپر، اپنے گھر والوں کے اوپر اور اپنے بھائیوں کے اوپر خرچ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے رزق و روزی میں وسعت و برکت عطا کرتا ہے اور اسے جہنم کی آگ سے نجات دلاتا ہے”۔(سید ابن طاؤوس حلی، اقبال الاعمال، ج ۱، ص ۴۶۴)۔
۹۔غدیری ثقافت کی عملی ترویج
ہمارے ائمۂ معصومین ؑ ان لوگوں کی طرح نہیں ہے جو صرف دستور دیتے ہیں عمل نہیں کرتے جن کے قول و فعل میں فرق ہوتا ہے نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ اگر ہمارے ائمہ نے کچھ کہا ہے تو اس پر عمل کر کے بھی دکھایا ہے؛ لہذا اگر روز غدیر بھی مومنوں کے ساتھ نیکی، احسان، ہدیے، تحفے اور اطعام کی بات کہی ہے تو اس پر بہ نحو احسن عمل بھی کیا ہے۔
چنانچہ عمر طوسی نام کا ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے روز غدیر امام رضاؑ کو دیکھا کہ آپ کے خواص آپ کے ارد گرد جمع ہیں اور ان سب کو آپ نے افطار کے لئے اپنے یہاں روک رکھا ہے اور ان کے (اہل خانہ کے لئے) کھانا، گیہوں، ہدیے اور تحفے، لباس، یہاں تک کہ انگوٹھیاں اور جوتے تک ان کے گھروں تک بھیجے(سید ابن طاؤوس حلی، اقبال الاعمال، ج1، ص464-465۔ بحارالانوار، ج 95، ص322)۔
۱۰۔معرفت غدیر کی اہمیت اور فائدے
معرفت غدیر کی اہمیت اور فوائد کے بارے میں آپؑ ارشاد فرماتے ہیں:
«وَ اَللَّهِ لَوْ عَرَفَ اَلنَّاسُ فَضْلَ هَذَا اَلْيَوْمِ بِحَقِيقَتِهِ لَصَافَحَتْهُمُ اَلْمَلاَئِكَةُ فِي كُلِّ يَوْمٍ عَشْرَ مَرَّاتٍ وَ لَوْ لاَ أَنِّي أَكْرَهُ اَلتَّطْوِيلَ لَذَكَرْتُ مِنْ فَضْلِ هَذَا اَلْيَوْمِ وَ مَا أَعْطَى اَللَّهُ فِيهِ مَنْ عَرَفَهُ مَا لاَ يُحْصَى بِعَدَدٍ»؛ “خدا کی قسم!اگر لوگوں کو روز غدیر کی فضیلت کی صحیح معرفت ہو جاتی تو ملائکہ ہر روز دس مرتبہ ان سے مصافحہ کرتے اور میں بات کو زیادہ طولانی کرنا نہیں چاہتا ہوں (اس لئے معرفت غدیر کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ) اس دن کی فضیلت اور اس دن کی معرفت رکھنے والوں کو خداوند عالم جو کچھ عطا کرتا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ جس کا شمار اور احصاء نہیں ہو سکتا، ان کو بھی ضرور بیان کرتا”(شیخ طوسی، تهذيب الاحکام، ج ۶، ص ۲۴)۔
۱۱۔غدیر کے دن سب سے اہم کام
احمد ابن محمد ابن ابی نصر وزن، امام رضاؑ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
«يَا اِبْنَ أَبِي نَصْرٍ أَيْنَ مَا كُنْتَ فَاحْضُرْ يَوْمَ اَلْغَدِيرِ عِنْدَ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ فَإِنَّ اَللَّهَ يَغْفِرُ لِكُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ ذُنُوبَ سِتِّينَ سَنَةً وَ يُعْتِقُ مِنَ اَلنَّارِ ضِعْفَ مَا أَعْتَقَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ لَيْلَةِ اَلْقَدْرِ وَ لَيْلَةِ اَلْفِطْرِ وَ اَلدِّرْهَمُ فِيهِ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ لِإِخْوَانِكَ اَلْعَارِفِينَ فَأَفْضِلْ عَلَى إِخْوَانِكَ فِي هَذَا اَلْيَوْمِ وَ سُرَّ فِيهِ كُلَّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ»؛”اے ابن ابی نصر کے بیٹے! (دنیا میں کہیں بھی ہو لیکن) غدیرکے دن اپنے آپ کو (مولا) امیرالمومنینؑ کے پاس پہنچاؤ کیونکہ بے شک خداوندعالم تمام مومن و مسلمان مرد اور عورت کے ساٹھ سال کے گناہ کو (مولا علیؑ کی زیارت کے طفیل) بخش دیتا ہے اور اس غدیر کے دن اس نے ماہ رمضان و شب قدر اور عید فطر کے دن جتنے بھی لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کیا تھا، اس سے کئی گنا زیادہ اس دن لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے۔ اس دن ایک درہم اپنے مومن بھائی کو دینا ہزار درہم کے برابر ہے لہذا اپنے مومن بھائی پہ فضل و بخشش کرو اور انہیں خوشحال کرنے کی کوشش کرو”(شیخ طوسی، تهذيب الاحکام،ج ۶، ص ۲۴)۔
خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ خدائے کریم ہم سب کو زیادہ سے زیادہ غدیر کی معرفت عطا فرمائے اور غدیری راستے پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے والوں اور وارث غدیر امام زمانہ(عج)کے جانثاروں اور وفاداروں میں شمار فرمائے۔(آمین)۔