
رسالت جہانی پیغمبر اکرمؐ اور عقیدہ ختم نبوت
ڈاکٹر سیدباقر ایلیا رضوی، معلم جامعۃ المصطفی العالمیہ قم ایران۔
فهرست مندرجات
۱۔ قرآن کا محفوظ و مصون ہونا:
مقدمہ
خاتمیت یا ختم نبوت یعنی اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ؐ کی نبوت کے خاتمے اورشریعت محمدیؐ کے آخری شریعت ہونے کا عقیدہ رکھنا ہے(المیزان طباطبایی ، ج۱۶، ص۳۲۵)۔ شریعت محمدیؐ آخری اور کامل ترین شریعت ہے۔ دنیا کے خاتمے تک اسی شریعت کے مطابق عقیدہ اور عمل قابل قبول ہوگا ۔ تمام حلال و حرام قیامت تک بدلنے والے نہیں ہیں اور شریعت اسلام کے علاوہ کوئی اور عقیدہ وعمل قابل قبول نہیں ہوگا۔ (شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ،ص۱۶۹)۔
قرآن اور احادیث کی روشنی میں خاتمیت یا ختم نبوت اور پیغمبراکرمؐ کے آخری نبی ہونے کا عقیدہ ایک بنیادی عقیدہ اور ضروریات اسلام میں سے ہے (راهنماشناسی، مصباح یزدی، ص۱۷۷)۔
خاتمیت کا عقیدہ ہمیشہ مسلمانوں کے نزدیک بلااختلاف رائج رہاہے۔ آنحضرت ؐ کے زمانے اورآپؐ کی رحلت کے بعد سے تقریباًتمام مسلمان اس بات کا عقیدہ رکھتے آئے ہیں (سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ج ۷، ص ۲۷۹)۔ اہلسنت کے امام اعظم ابو حنیفہ کا کہنا تھا:”جو شخص کسی جھوٹے مدعی نبوت (نبوت کا دعویٰ کرنے والے)سے دلیل طلب کرے وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہےکیونکہ دلیل طلب کرکے اس نے اِجرائے نبوت کے امکان کا عقیدہ رکھا ہے(یعنی نبوت ہونے کا گمان رکھااور یہی کفر ہے)”۔
ختم نبوت پیغمبراکرمؐ کا عقیدہ اکثرمسلمانوں کے درمیان بلااختلاف رہا ہے کہ لیکن کچھ دہائیوں سےبعض افرادنے دینی مسائل کے حوالے سے روشن فکری وغیرہ کے عنوان سے نئی نئی بحثیں کرنا شروع کی ہیں اور شریعت و ختم نبوت وغیرہ کے دلخواہ معنی و مفہوم کو پیش کرکے عوام کےذہنوں کو الجھانا شروع کیا۔ اسی طرح بعض منفعت پسند افراد نے فرقہ سازی کا کام شروع کیا اور نئے فرقہ بنائے جیسے شیخیت، بابیت، بہائیت ، احمدیہ وغیرہ ؛ ان فرقہ سازوں نے اپنی نئی شریعت کو میدان میں لانے کے لئے، اسی طرح خود نبی ہونے کے جھوٹے دعوے کو پختہ کرنے کےلئے شریعت و نبوت کے معنی و مفہوم ہی کو جداگانہ پیش کرنا شروع کردیا، متعدد طرح کی باتیں کہنے لگےجیسے شریعت اسلام اور نبوت پیغمبر اسلام ؐ کا دور پہلے کا دور تھا وہ گذشتہ زمانے اور جاہلیت کے دورسے لوگوں کو باہرنکالنے کے لئےتھی اور اب جاہلیت کا زمانہ ختم اورنیا زمانہ آگیا ہے لہذا اب نئی شریعت اور نئے نبی کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ بعض روشن فکر اور شکوک و شبہات میں مبتلا او ر دشمن کے آلہ کار افراد تو یہاں تک کہنے میں گریز نہیں کرتے ہیں کہ اصلاً شریعت و دین کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے انسانوں کی عقل ہی انسانوں کے لئے زندگی کے اصول و ضوابط کے بنانے اور انہیں لاگو کرنے کے لئے کافی ہے۔
مذکورہ باتوں اور شبہات پر توجہ رکھتے ہوئے ہم پر لازم ہے کہ “عقیدۂ ختم نبوت یعنی خاتمیت” کو مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کریں اور اس سلسلے میں مختلف شکوک و شبہات کے جواب دیں۔ اسی ہدف کے تحت یہاں چند اہم دلائل کو پیش اور شکوک و شبہات کے جواب پیش کئے جارہے ہیں۔
دلائل ختم نبوت
یہاں پر ختم نبوت حضرت محمدمصطفیؐ کے سلسلے میں پہلے بعض قرآنی آیات اور اسکے بعد کچھ اہم احادیث کاذکر کیا جارہا ہے:
ختم نبوت اور آیات قرآنی
۱- خاتمیت کا عنوان خود قرآن مجید سے لیا گیا ہے جس میں ہمارے نبی ؐ کے لئے«خاتَمَ النَّبِیِّینَ» کا لفظ استعمال ہوا ہے؛چنانچہ خداوندمتعال فرماتا ہے: «مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلکِنْ رَسُولَ اللّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّینَ»؛ «محمد ؐ تم مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والے(آخری پیغمبر )ہیں»(سورۂ احزاب ، آیت ۴۰)۔
واضح رہے کہ اس آیت کے ذیل میں لفظ « خاتم» کے تلفظ کے سلسلے میں مفسرین اور اہل لغت کے درمیان مختصر اختلاف پایا جاتا ہے لیکن معنی کے اعتبار سے کوئی خاص اختلاف نہیں ہے اوراس لفظ کو تقریبا ً سب نے “آخری” کے معنی میں بیان کیا ہے لہذا «خَاتَمَ النَّبِیِّینَ» کے معنی “نبیوںؑ میں سب سے آخری نبیؐ” ہے۔
بعض نے لفظ«خَاتِم» کو بر وزن «حافِظ» پڑھا ہے یعنی ختم کرنے والا۔ بعض نے اس کو بر وزن «عالَم» پڑھا ہے یعنی آخری و سب سے آخری۔ بعض نے اس کو «خاتَمَ» بروزن «ضارَبَ» پڑھا ہے جس کے معنی سلسلہ انبیاء کو ختم کرنے والا ہے ۔ لہذا اس لفظ کو کسی بھی طرح سے پڑھا جائے معنی کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے اور اس مختصر فرق کی بنیاد پر بعض اختلاف کرنے والوں کے اختلافات اور شبہات بھی بے بنیاد ہیں۔
۲- اسی طرح خداوندمتعال اپنے پیغمبرؐ سے خطاب کرکے فرماتا ہے: «قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ»؛ «آپ کہہ دیجئے کہ گواہی کے لئے سب سے بڑی چیز کیا ہے اور بتادیجئے کہ خدا ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ میں تمہیں اور جہاں تک یہ پیغام پہنچے سب کو ڈراؤں » (سورہ انعام، آیت۱۹)۔
۳۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:«وَ مَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ کافَّةً لِلنَّاسِ بَشِیراً وَ نَذِیراً»؛ (اے محمد ؐ!) ہم نے آپ کو لوگوں کے لئے بشارت دینے اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔(سورہ سبا، آیت۲۸)
۴۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ: «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ والْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ»؛ «پیغمبر ؐ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول اور نمائندہ ہوں جس کے لئے زمین وآسمان کی مملکت ہے-اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے -وہی حیات دیتا ہے اور وہی موت دیتاہے لہٰذا اللہ اور اس کے پیغمبرامی ّپر ایمان لے آؤ جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اسی کا اتباع کرو کہ شاید اسی طرح ہدایت یافتہ ہوجاؤ»(سورہ اعراف،آیت۱۵۸)۔
۵۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ: «تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا»؛«بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان(قرآن) کو نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے» (فرقان، آیت ۱)۔
۶۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہےکہ: «هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ»؛ «وہ وہی خدا ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو» (سوره صف، آیت۹ + سورہ توبہ، آیت۳۳)۔
۷۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہےکہ: «هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا»؛ «وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، اور (رسول ؐ کی صداقت و حقانیت پر) اﷲ ہی گواہ کافی ہے»(سورہ فتح، آیت۲۸)۔
۸۔ اسی طرح ارشاد ہوتاہےکہ: «وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ»؛ «اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ والوں میں ہوگا»۔
مذکورہ آیات کے علاوہ قرآن مجید کی کچھ اور بھی آیات ہیں جن سے مجموعی طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد ؐ کی نبوت، اسلامی شریعت، قرآنی پیغام کسی خاص زمانے، جگہ، افراد، طبقوں کے لئے نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں کے لئےہے، جہاں تک، جب تک پیغام پہنچتا رہےاور آخری پیغمبرحضرت محمد مصطفیؐ کے علاوہ قیامت تک کوئی بھی رسول، نبی، پیغمبرؐ نہیں آنے والا ہے ۔ اسی قرآن مجید اور شریعت اسلامی کی جگہ کوئی بھی جدید کتاب و شریعت نہیں آنے والی ہے۔ دین اسلام ہی اللہ کا پسندیدہ دین ہے جس کی تکمیل کا اعلان غدیر خم کے میدان میں اعلان ولایت و امامت کے ساتھ ہوچکا ہے۔
ختم نبوت اور احادیث
شیعہ اور اہلسنت کی کتابوں میں کئی احادیث اورروایات ، حضرت محمد مصطفی ؐ کی نبوت و شریعت کے آخری اور جہانی ہونے پر دلالت کرتی ہیں یہاں صرف چند اہم احادیث و روایات پیش ہیں:
۱۔ پیغمبراکرمؐ اپنی اور دیگر پیغمبروںؑ کی نبوت کو مثال کے ذریعہ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ: «وَ اِنَّمَا مَثَلِی وَ مَثَلُ الْاَنْبِیَاءِ کَرَجُلٍ بَنَى دَاراً فَاَکْمَلَهَا وَ اَحْسَنَهَا اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَهٍ فَجَعَلَ النَّاسَ یَدْخُلُونَهَا وَ یَعْجَبُونَ بِهَا وَ یَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَهُ فَاَنَا اللَّبِنَهُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّین» (مناقب آل أبي طالبؑ، ابن شهر آشوب، ج ۱، ص۲۳۱)۔ میری اور مجھ سے پہلے دوسرے تمام نبیوںؑ کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس نے ایک (بہترین و خوبصورت)گھر بنایا اور لوگ اس میں داخل ہوتے ہیں اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب میں ڈوب جاتے ہیں اور کہیں کہ بس اس میں ایک اینٹ کی کمی ہے ، میرا مقام اس ایک اینٹ کے جیسا ہے اور میں خاتم الانبیاء ہوں»۔
یاد رہے کہ یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ فریقین کی بہت سی کتابوں میں بیان ہوئی ہے اور معروف و مشہور حدیث ہے (صحیح بخاری،ج۳،ص۱۳۰۰؛ صحيح مسلم، ج۴، ص۱۷۹۰۔۱۷۹۱، ح۲۰ ۔۲۳؛ سنن ترمذی، ج۵، ص۱۴۷، ح۲۸۶۲۔ ؛ پیام قرآن مکارم شیرازی، ج۸، ص۴۴۷)۔
۲۔اسی طرح پیغمبراکرم ؐ کی مشہور حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ: «انَّ الرِّسالَهَ و النُّبُوَّهَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلا رَسُولَ بَعْدى وَ لا نَبِىَّ» (مسند احمد بن حنبل، ج۳، ص۲۶۷۔ شرح اصول الکافی ملاصدرا، ج۲، ص۴۵۰)؛ رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اب میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہیں آئےگا۔
۳۔ اسی طرح آنحضرت ؐ کا ارشادگرامی ہے: «میرے بعد کوئی پیغمبراور کوئی سنت نہیں اورتمہارے بعد کوئی امت نہیں اور اگر میرے بعد کوئی بھی نبوت کا دعوی کرے تو وہ جھوٹا ہے»(من لایحضرہ الفقیہ،ج۴،ص۱۶۳، الامالی مفید، ص۵۳، وسائل الشیعہ،ج۲۸،ص۳۳۷۔۳۳۸)۔
۴۔پیغمبراکرم ؐ نے خطبہ جحۃ الوداع میں کے ضمن میں فرمایا ہے کہ: «الا فَلْیُبَلّغْ شاهِدُکُمْ غائِبَکُمْ لا نَبِىَّ بَعْدى وَ لا امَّهَ بَعْدَکُمْ»؛ اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ، حاضرین پر لازم ہے کہ وہ میری ان باتوں کو تمام غائبین تک پہنچا ئے اس لئے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا اور تمہارے بعد دوسری امت نہیں آئے گی۔ اس کے بعد آپ ؐ نے تمام وصیتوں کو بیان فرماکر ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا: «اللَّهُمَّ اشْهَدْ انّى قَدْ بَلَّغْتُ» ( الخصال، ابن بابويه، ج۲، ص۴۸۷) ؛ “خدایا! گواہ رہنا کہ میں تمام باتوں کو لوگوں تک پہنچا دیا ہے”۔
۵۔مشہور حدیث “حدیث منزلت” میں آنحضرت ؐنے امام علیؑ سے مخاطب ہوکر فرمایا: «انْتَ مِنّى بِمَنْزِلَهِ هرُونَ مِنْ مُوسى الَّا انَّهُ لا نَبِىَّ بَعْدى» (الكافي، كلينى، ج ۸، ص۱۰۷)؛ “اے علیؑ!تمہاری نسبت مجھ سے بالکل ویسے ہی ہے جیسے موسیؑ کے نزدیک ہارونؑ کی تھی بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا”۔(الكافي، كلينى، ج ۷، ص ۱۰۷؛ المراجعات، شرف الدین، ۲۸۔۲۹)۔
۶۔ حدیث ثقلین بھی ختم نبوت حضرت محمدؐ پر ایک اہم دلیل ہے جس میں آنحضرتؐ نے اپنے بعد امت کی ہدایت اور رہبری کے سلسلے میں فرمایا کہ: «انِّی تَارِكٌ فِیكُمُ الثَّقَلَیْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَیْتِی فَتَمَسَّكُوا بِهِمَا لَنْتَضِلُّوا»(سلیمبنقیس هلالی، ج ۲، ص ۶۴۷)؛ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ کتاب خدا اور میری عترت میرے اہل بیتؑ۔ تم سب ان دونوں سے متمسک رہنا تاکہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوں۔
۷۔ حضرت امام علیؑ نےنہج البلاغہ میں ارشادفرمایا کہ : «امینُ وَحْیِهِ وَ خاتَمُ رُسُلِه»؛(نہج البلاغہ، ۱۷۳)حضرت محمدؐ اللہ کی وحی کے امین اور پیغمبروں کے سلسلے کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچانے والے تھے۔
۸۔ حضرت امام علیؑ نے اسی طرح نہج البلاغہ میں دیگر مقامات پر ختم نبوت کے سلسلہ میں متعدد جملات کا ذکر فرمایا ہے یہاں پر بعض جملات مندرجہ ذیل ہیں:
– «بَعَثَ اللَّهُ سُبْحانَهُ مُحَمَّداً(ص) لِانْجازِ عِدَتِه وَ اتْمامِ نُبُوَّتِهِ»؛ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ کو اپنے عہد کو پورا کرنے اور سلسلہ ٔنبوت کو کمال کرنے کے لئے بھیجا۔
– «الْخْاتِمُ لِما سَبَقَ والْفاتِحُ لِمَا انْغَلَقَ»(نهج البلاغه، خطبه۷۲)؛ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کے ذریعہ گذشتہ پیغمبروں کے سلسلہ کو تمام کیا اورالجھے ہوئے مسائل کو حل فرمایا۔
– «امینُ وَحْیِهِ وَ خاتَمُ رُسُلِه»(نہج البلاغہ، ۱۷۳)؛حضرت محمدؐ اللہ کی وحی کے امین اور پیغمبروں کے سلسلے کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچانے والے تھے۔
– «خَتَمَ بِهِ الْوَحْىَ»(نهج البلاغه، خطبه۱۳۳)؛ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کے ذریعہ وحی کا تمام کیا۔
۹۔ حضرت امام علیؑ نے عترتِ پیغمبرؐ اور ائمہؑ برحق کے سلسلے میں پیغمبراکرمؐ کے اقوال اوراوصاف کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: «…أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ(ص):إِنَّهُ يَمُوتُ مَنْ مَاتَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِمَيِّتٍ وَ يَبْلَى مَنْ بَلِيَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِبَالٍ؛ فَلَا تَقُولُوا بِمَا لَا تَعْرِفُونَ، فَإِنَّ أَكْثَرَ الْحَقِّ فِيمَا تُنْكِرُونَ…»(نہج البلاغہ، ۸۷)؛ “اے لوگو! اس حقیقت کو خاتم الانبیاء سے سیکھوکہ آنحضرتؐ نے فرمایا : جو بھی ہم میں سے اس دنیا سے جاتا ہے وہ درحقیقت دنیاسے نہیں جاتا ہے اور کوئی بھی چیز ہمارے سلسلے میں پرانی نہیں ہوتی ہے۔ جس چیز کو نہیں جانتے ہواس کے بارے میں بات نہ کرو اس لئے کہ جن چیزوں کے بارے میں ناآگاہانہ طور پر انکار کرتے ہو بہت سےحقائق انہیں ہوتے ہیں”۔
۱۰۔ پیغمبراکرمؐ کے غسل و کفن کا ذکر کرتے ہوئے امام علیؑ نے فرمایا کہ: «بِاَبِی اَنْتَ وَ اُمِّی یَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدِ انْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مَا لَمْ یَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَیْرِکَ مِنَ النُّبُوَّهِ وَ الْاِنْبَاءِ وَ اَخْبَارِ السَّمَاءِ» (نہج البلاغہ، حکمت۲۳۵)؛اے اللہ کے رسولؐ ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ کی رحلت سے وہ چیز منقطع ہوگئی جو کسی دوسرے کی موت سے منقطع نہیں ہوئی اوروہ آسمان سے اللہ کی جانب سے آنے والی خبریں ہیں۔
۱۱۔ حضرت امام صادقؑ نے فرمایا کہ: «اِنَّ اللَّهَ عَزَّ ذِکْرُهُ خَتَمَ بِنَبِیِّکُمُ النَّبِیِّینَ فَلَا نَبِیَّ بَعْدَهُ اَبَداً وَ خَتَمَ بِکِتَابِکُمُ الْکُتُبَ فَلَا کِتَابَ بَعْدَهُ اَبَدا» (مجمع البحرين طريحى، ج۶ ، ص۵۴)؛ اللہ تعالیٰ نے تمہارے پیغمبرؐ کے وسیلے سے سلسلہ نبوت کا اختتام فرمایا۔ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تمہارے لئے نازل ہونے والی کتاب(قرآن) کے ذریعہ آسمانی کتابوں کے نزول کو تمام کیا۔ اس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی۔
۱۲۔ حضرت امام صادقؑ نے فرمایا کہ: «حَلالُ مُحَمَّدٍ حَلالٌ ابَداً الى یَوْمِ الْقِیامَهِ وَ حَرامُهُ حَرامٌ ابَداً الى یَوْمِ الْقَیامَهِ لا یَکُونُ غَیْرُهُ وَلا یَجیئُ غَیْرُهُ»( کلینی، الكافي، ج۱، ص۵۸، ح۱۹)؛ “محمدؐ کے ذریعہ بیان کیا گیا حلال قیامت تک کے لئے حلال ہے اور آنحضرتؐ کی جانب سے بیان کیا گیا حرام قیامت تک کے لئے حرام ہے۔ اب اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔اور آنحضرتؐ کے علاوہ کوئی بھی ( نبیؐ) آنے والا نہیں ہے”۔
۱۳۔ اسی طرح حضرت امام صادقؑ سلسلہ انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: «…حَتَّى جاءَ مُحَمَّدٌ(ص) فَجاءَ بِالْقُرْآنِ وَ بِشَریعَتِهِ وَ مِنْهاجِهِ فَحَلالُهُ حَلالٌ الى یَوْمِ الْقَیامَهِ وَ حَرامُهُ حَرام الى یَومِ القیامَهِ» (الكافى، کلینی، ج۲، ص۱۷، ح۲)؛ یہاں تک کہ یہ سلسلہ حضرت محمد مصطفیٰؐ تک پہنچا اور آپ قرآن اور شریعت لے کر آئے۔ اب اس کے بعد آپ کے ذریعہ بیان کیا گیا حلال قیامت تک حلال اور آپ کے ذریعہ بیان کیا گیا حرام قیامت تک حرام ہے۔
مذکورہ حدیثوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ:
۱۔ خاتمیت اور ختم نبوت آنحضرتؐ کے لئے ایک عظیم شان اور بلند مقام ہے۔
۲۔ خاتمیت پیغمبراکرمؐ سے نہ صرف یہ کہ انبیاءؑ کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے بلکہ اللہ کا دین اور تمام احکام و قوانین بھی جاودانی اور ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
۳۔ خاتمیت سے مربوط احادیث میں بعض مقام پر ختم نبوت اور بعض مقام پر ختم رسالت کا ذکر آیا ہے لیکن بعض حدیثوں میں ختم نبوت و رسالت دونوں ہی باتوں کا ذکر آیا ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ آنحضرتؐ کے ذریعہ تمام ہوچکا ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا انکار، تاویل، توجیہ یا بہانہ قابل قبول نہیں ہےکہ مثلا کوئی کہے کہ حدیث میں صرف ختم نبوت کی بات کہی گئی ہے لہذا رسالت کا سلسلہ باقی ہے۔ یا ختم رسالت کی بات کہی گئی ہے لہذا نبوت کا سلسلہ باقی ہے۔
۴۔ خاتمیت پیغمبراکرمؐ کے سلسلے میں تقریبا ہر امام معصومؑ سے کوئی نہ کوئی حدیث وارد ہوئی ہے۔ علماء نے مختلف کتابوں میں ان کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ مثال کے طورپر بحارالانوار کی جلد ۱۱۰ میں «خاتَمُ النَّبِیّینَ» ؛ «خاتَمُ الرُّسُلِ» اور «خاتَمُ الْانْبِیاءِ» کے عنوان سے ۳۰۰ سے زائد حدیثیں ذکر ہوئی ہیں۔
ختم نبوت کی ضرورت؟
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ نبوت کا خاتمہ ہوجائے ؟
اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ خداوندعالم بہتر جانتا ہے کہ مقام رسالت کتنا عظیم ہے اور کس زمانے میں اس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ لیکن پھربھی مذکورہ سوال کے جواب میں علماء و متکلمین بیان کرتے ہیں کہ:
۱۔ قرآن کا محفوظ و مصون ہونا:
گذشتہ شریعتوں میں جو آسمانی کتابیں اور صحیفے اور شرائع نازل ہوئے ہیں ان میں تحریفات ہوئی ہیں جن کی اصلاح کے لئے جدید نبی و رسول آتے رہیں اور دوبارہ انہوں کی حق کی دعوت دی اور رسالت وشریعت کو اصلی راہ پر لگایا لیکن قرآن مجید اور اسلامی اصلی شریعت کی حفاظت کی ذمہ داری خود خداوندعالم نے اپنے ذمہ لے کر فرمایا: «إِنّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکرَ وَ إِنّا لَهُ لَحافِظُونَ»؛ بیشک ہم اس قرآن کے نگہبان ہیں اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرینگے(حجر،۹)۔
اسکے علاوہ دیگر آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید اورشریعت واقعی اسلام میں کسی بھی قسم کا باطل داخل نہیں ہوسکتاہے، ہر طرح کے شبہات سے محفوظ رہے گے، لہذا معلوم ہوتا ہے کہ خاتم المرسلینؐ کے بعد کسی رسول یا نبی کی ضرورت نہیں ہے، آپ چونکہ سب سے افضل و برتر نبی ہیں، آپ کے بعد کسی نبی کو نہیں بھیجا جاسکتا ہے۔
۲۔ اسلام کا جامع و کامل ہونا:
انسانیت کے علم و فہم کے منزل کمال پر گامزن ہونے اور دقیق پیغام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہونے کے ساتھ ساتھ آسمانی ادیان بھی کامل ہوتے رہے اور جدید دین و شریعت، گذشتہ دین و شریعت کے مقابلے میں زیادہ جامع و کامل طورپر نازل ہوئے یہاں تک اسلام کے آنے کے ساتھ یہ سلسلہ اپنے آخری منزل تک پہونچ گیا۔مفسر بزرگ علامہ طباطبائی اس بارے میں فرماتے ہیں: دین اس وقت اپنے انجام کے مرحلے تک پہونچتا ہے جب وہ انسان کے ضرورتوں کے تمام جہات کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے ،اس وقت کوئی دوسرا دین نہیں بھیجا جاتا ہے۔ (تفسیرالمیزان ،ج۲، ص۱۳۰)
قرآن مجید بھی اسلام کے کامل ہونے کے بارے یوں فرماتا ہے: «الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا»(سورہ مائدہ، آیت۳)«اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے»۔مذکورہ جواب کے علاوہ دیگر اور بھی جوابات موجود ہیں لیکن یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔
ایک شبہہ اور جواب
یہاں لازم ہے کہ اس بات کو بیان کیا جائے کہ بعض گمراہ فرقوں نے قرآن مجید کی بعض آیات کے کچھ الفاظ کے غیر مناسب معنی و مفہوم لوگوں کو سمجھا کر بہکانے کا کام کرتے ہیں مثلا کہتے ہیں کہ قرآن میں جو لفظ”خاتم” آیا ہے اس کے معنی ہوتے ہیں: “زینت دینے والا”پھر نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت محمد ؐ سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے یا آخری نبی نہیں ہے بلکہ وہ سلسلہ نبوت کو زینت بخشنے والے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ”خاتم” کے یہاں صحیح اور اصلی معنی “مہر “اور “ختم کرنے والے” ہی کے ہیں، نزول قرآن کے دور میں خاتم کےمعنی “مہر” یعنی انگوٹھی کے ہوتے تھے جس کو کسی خط یا لیٹر کے آخر میں تحریر کے ختم ہو جانے کی نشانی کے عنوان سے مہر بناکر لگایا جاتا تھا اس لحاظ سے بھی کوئی مشکل نہیں ہے اور چونکہ ہمارے نبی ؐ سلسلۂ انبیاء و مرسلین میں سب سے آخری تھے لہذا آپ کو “خاتم الانبیاء” یا “خاتم المرسلین” کے عنوان سے یاد کیاگیا۔
اس کے علاوہ بھی دیگر شبہات و اشکال بیان کئے جاتے ہیں مگر وہ صرف الفاظ سے کھلواڑ ہے۔
خاتمیت اور امامت کا رابطہ:
یہاں آخری مطلب کے عنوان سے یہ بات بھی ذکر کرنا مناسب ہے کہ جب ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ؐ کی نبوت و رسالت کا خاتمہ ہوگیا ہے تو کیا ہدایت و پیغام الہی کا سلسلہ بھی ختم ہوگیاہے؟
مختصر جواب یہ ہے کہ ہمارے آخری نبی ؐ خداوندعالم کی جانب سے دو طرح کے عہدہ لے کر آئے ہیں ایک نبوت و رسالت کا عہدہ اور دوسرا امت کی رہبری و ولایت کا عہدہ۔ بیشک نبوت و رسالت کا عہدہ انجام تک پہونچ گیا ہے لیکن اللہ کی طرف سے رہبری و ولایت کا سلسلے جاری ہے جو آنحضرت ؐ کے بعد ہمارے معصوم اماموں کی جانب منتقل ہوا ہے جو آنحضرت ؐ کے بعد کے امت اسلامی، شریعت و قرآن کے ہر طرح سے پاسبان ہیں۔جیساکہ حضرت صاحب الزمان (عج) بعثت پیغمبراکرمؐ اور سلسلۂ ائمہؑ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: «إنَّ اللّهَ تَعالى لَمْ يَخْلُقِ الْخَلْقَ عَبَثاً ولا أهْمَلَهُمْ سُدىً، بَلْ خَلَقَهُمْ بِقُدْرَتِهِ وَ جَعَلَ لَهُمْ أسْماعاً وَ أبْصاراً وَ قُلُوباً وَ ألْباباً، ثُمَّ بَعَثَ اِلَيْهِمُ النَبيّينَ(ع) مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرينَ، يأمُرُونَهُمْ بِطاعَتِهِ، وَ يَنهُونَهُمْ عَنْ مَعْصيَتِهِ وَ يُعَرِّفُونَهُمْ ما جَهِلُوهُ مِنْ أمْرِ خالِقِهِمْ وَ دِينِهِمْ… ثُمَّ بَعَثَ مُحَمَّداً(ص) رَحْمَةً لِلْعالَمينَ، وَ تَمَّمَ بِهِ نِعْمَتَهُ وَ خَتَمَ بِهِ أنْبياءَهُ وَ أرْسَلَهُ إلىَ النّاسِ كافَّةً…»(بحارالانوار، ج۵۳، ص۱۹۴)؛ خداوندمتعال نے مخلوقات کو بے ہودہ نہیں پیدا کیا اور انہیں بے کار نہیں چھوڑ دیا بلکہ ان کو اپنی قدرت سے پیدا کیا اور ان کے لئے آنکھ، کان، دل اور عقل کو رکھا ہے اور اس کے بعد ان کی جانب بشارت دینے والے، ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا تاکہ اللہ کی اطاعت کا حکم دیں اور اس کی نافرمانی سے منع کریں اور جو باتیں وہ لوگ پروردگار اور دین کے بارے میں نہیں جانتے ہیں ان سے آگاہ اور آشنا کریں۔ ان کے بعد اللہ نے حضرت محمد مصطفیؐ کو دنیا والوں کے لئے مبعوث فرمایا اور ان کے ذریعہ اپنی نعمت کو مکمل کیا اور پیغمبروں ؐ کے سلسلے کو ان کےوسیلہ سے اختتام تک پہنچایا، ان کو تمام لوگوں کی جانب بھیجا…پھر خداوندعالم نے پیغمبرؐ کے بعد امت کے کاموں کی ذمہ داری ان کے بھائی و چچا کے فرزند اور ان کے وارث و جانشین علی ابن ابی طالبؑ کے سپرد فرمائی اور آپ کے بعد آپ کی اولاد سے ایک کے بعد ایک جانشینی کے لئے متعین ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کے ذریعہ دین کو زندہ کیااور اپنے نور کے منزل تکمیل تک پہنچایا۔ (والسلام علیکم)