
تولیٰ اور تبریٰ
تحریر: مولانا سید کمیل عباس رضوی ۔ طالب علم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران
فہرست مندرجات
شیعہ نقطہ نظر میں تولی کا تصور
مقدمہ
تولی فروع دین میں سے ہے اور اس کا معنی ہے اللہ، دینی پیشواؤں اور ائمہؑ سے دوستی اور ان کی ولایت کو قبول کرنا۔ تولی کا مقابل تبری ہے جس کا معنی اہل بیت ؑ کے دشمنوں سے بیزاری اور دوری اختیار کرنا ہے۔ شیعہ روایات میں تولی کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں، اللہ کی خاطر دوستی اور محبت کو ایمان کا مضبوط ترین اور پختہ ترین دستاویز (حلقہ) قرار دیا گیا ہے۔
بعض دیگر احادیث میں، اہل بیتؑ سے محبت اور ان کی ولایت کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دشمنوں سے دشمنی اور بیزاری کو دین کی تکمیل قرار دیا گیا ہے۔ نیز، اہل بیت ؑ کی محبت اور ان کی ولایت کو قبول کرنا ان نعمتوں میں سے بتایا گیا ہے جن کے بارے میں قیامت کے دن توحید اور نبوت کے بعد پوچھا جائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ شیعہ مذہب میں اور حتیٰ کہ بعض اہل سنت میں بھی تولی کو دینی واجبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت سے مفسرین اور علماء نے آیت مودت کی بنیاد پر رسول اللہؐ کے اہل بیتؑ کے ساتھ دوستی اور محبت کو واجب قرار دیا ہے۔
تولیٰ کے لیے کئی مراتب (درجات) بیان کیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا پہلا یا سب سے کم درجہ محبت اور دوستی ہے، جو محض ایک قلبی معاملہ ہے۔ اور جب یہ محبت ولایت پذیری یا محبوب (اہل بیتؑ) کی سرپرستی کے عقیدے کے ساتھ مل جاتی ہے تو تولی کا اعلیٰ ترین درجہ، یعنی ولایت، وجود میں آتا ہے۔
تولی اور تبری کے لغوی معنی
“تولّی” باب تفعّل کا مصدر ہے جس کی اصل “ولی” ہے۔ یہ دو طرح سے استعمال ہوتا ہے: (تَوَلّیٰ، تَوَلّیٰ عَنْ)۔
پہلی صورت (تَوَلّیٰ) کے متعدد معانی ہیں، جن میں سے اہم یہ ہیں: کسی سے دوستی رکھنا، اس کی اطاعت و پیروی کرنا، اسے ولی (سرپرست/ دوست) بنانا اور اس کی مدد و نصرت کرنا.( لسان العرب، ج۱۵، ص۴۰۸)۔
دوسری صورت (تَوَلّیٰ عَنْ) کے معنی ہیں پیٹھ پھیرنا، روگردانی کرنا یا منہ موڑ لینا۔
تبری “ب-ر-أ” کے مادے سے ہے، جس کے معنی ہیں: عیب و نقص سے دوری اختیار کرنا، بیماری سے شفایاب ہونا، اور کسی چیز سے دوری اختیار کرنا/الگ ہوجانا، (راغب اصفهانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن،، ص۱۲۱، «برأ»)۔
تولی اور تبري کے اصطلاحی معنی
اصطلاح میں، یہ ترکیبی (تولی و تبری) درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوتی ہے: اللہ سے دوستی، اللہ کے دوستوں (انبیاء، معصوم اماموں اور مومنین) سے دوستی، اور اللہ کے دشمنوں اور انبیاء و اولیاء الہی کے دشمنوں سے دشمنی۔ نیز اہل بیت محمدؐ کی ولایت پر ایمان، ان سے محبت اور ان کے دشمنوں سے عداوت رکھنا، اور اللہ کی راہ میں دوستی اور دشمنی رکھنا۔ (فتحالله، احمد، معجم الفاظ الفقه الجعفری، ص۱۳۰)۔
شیعہ نقطہ نظر میں تولی کا تصور
تولی کی اصطلاح تبری (نفرت رکھنا) کے مقابلے میں اسلامی فرقوں کی کتب میں استعمال ہوئی ہے۔ شیعہ منابع کے مطابق، تولی سے مراد دوستی کرنا، تصدیق کرنا، اتباع اور خدا، پیغمبرؐ اور ائمہؑ کی ولایت کو قبول کرنا ہے۔ بہت سی احادیث میں اہل بیت ؑ بالخصوص حضرت علی ؑ سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے۔ سید ہاشم بحرانی نے اس سلسلے میں اہل سنت کے طریقے سے، ۹۵ احادیث اور شیعہ کے طریقے سے کئی طریقوں سے احادیث کو نقل کیا ہے(رجوع کریں: هاشم بَحْرانی، غایة المرام، ج۶، ص۷۲ـ۹۱)۔ اسی طرح دوسرے علماء نے بھی حضرت علیؑ اور دیگر ائمہؑ کے محبین و موالیین کی فضیلت کے باب میں کئی روایات نقل کی ہیں۔(فضل اللہ بن روزبهان، وسیلة الخادم الی المخدوم، ص ۳۰۰)۔ ابن روزبہان کے بیان کے مطابق، اہل سنت بھی اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبرؐ اور ان کی آلؑ کی دوستی (تولا) اور ان کے دشمنوں سے بیزاری (تبری) ہر مومن پر واجب ہے اور جو شخص انہیں اپنے امور کا والی و متصرف نہ جانے یا ان کے دشمنوں سے تبری نہ کرے، وہ مومن نہیں ہے۔
شیخ یوسف بحرانی کے مطابق، شیعہ احادیث میں اس باب پر زور دینے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل بیتؑ سے محبت درحقیقت ان کی امامت کو قبول کرنا اور انہیں وہ مقام دینا ہے جو ان کا حق ہے۔ اس لیے اس معاملے میں ان پر کسی دوسرے کو مقدم کرنا درحقیقت محبت کے دائرے سے خارج ہونا ہے۔ (یوسف بحرانی، الشهاب الثاقب، ص۱۴۴)۔
بنیادی طور پر کسی شخص سے سچی اور کامل محبت کا لازمہ اس کی موافقت، تصدیق اور اتباع کرنا ہے۔(بهبهانی، مصباح الهدایة فی اثبات الولایة، ص۲۹۸ـ۲۹۹) اس لیے وہ محبت جو تولی یعنی ائمہؑ کی ولایت کو قبول کرنے، ان کے سامنے تسلیم ہونے اور ان کے مخالفین سے نظری و عملی طور پر تبری کرنے پر منتج نہ ہو، اصلاً محبت شمار نہیں ہوتی، جیسا کہ ایک حدیث کے مطابق آل محمدؑ کی مخلصانہ ولایت و محبت کا کمال ان کے دور و نزدیک کے دشمنوں سے تبری کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ (رجوع کریں: مجلسی،بحارالانوار، ج۲۷، ص۵۸ـ۵۹)۔ لہٰذا، ان محبت و عداوت اور ولایت و برأت پر، جس پر روایات میں بار بار زور دیا گیا ہے، ائمہ کی ولایت و سرپرستی اور دنیوی و اخروی تمام امور و مسائل میں ان کی مرجعیت کو قبول کرنے (یعنی تولی) کے معنی میں ہی سمجھا جانا چاہیے۔
اسی بنیاد پر، بارہ ائمہؑ کی امامت کی تصدیق — جس کا لازمہ یہ ہے کہ ان کی عصمت، خدا و رسول اکرمؐ کی طرف سے ان کے مقام کے منصوص ہونے، دنیا و آخرت کے امور کی صلاحیت سے آگاہ ہونے اور لہٰذا ان کے اوامر و نواہی کی اطاعت کے وجوب پر اعتماد کیا جائے— ایمان کے تحقق کے اصولوں میں سے اور بلکہ امامت مذهب کے ضروریات میں شمار ہوا ہے۔ (رجوع کریں: شهید ثانی، المصنفات الاربعة، ص۴۰۴ـ ۴۰۵)۔ اسی وجہ سے، ولایت اور فطری طور پر اس کا قبول کرنا نماز، زکات، حج اور روزے کے ہمراہ اسلام کے ارکان میں سے بلکہ اس کا اہم ترین رکن سمجھا گیا ہے (رجوع کریں:برقی، المحاسن، ج۱، ص۲۸۶)۔ اور نیز تولی، تبری کے ہمراہ ان تمام صیغوں (کلمات) کا تشکیل دینے والا حصہ ہے جو صحیح دین و ایمان کے اظہار کے لیے ائمہ کی طرف سے انشا یا توثیق کیے گئے ہیں اور جن پر زور دیا گیا ہے۔( رجوع کریں: مجلسی، بحارالانوار، ج۶۶، ص۲، ۴ـ۵، ۱۴)۔
ولایت اور اس کے نتیجے میں تولی کے اس تصور کے بارے میں شیعہ کے دلائل و مستندات میں سے بعض قرآن کریم کی آیات اور رسول اکرمؐ کی بہت سی احادیث ہیں جو شیعہ کی حدیثی، تفسیری اور کلامی کتب اور بعض اوقات اہل سنت کی کتب میں درج اور دقیق طور پر زیر بحث آئی ہیں۔ شیخ طوسی نے حضرت علیؑ کی امامت کی سب سے مضبوط دلیل سورہ مائدہ کی آیت ۵۵ (آیت ولایت) کو قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں “ولی” سے مراد متولی اور وہ شخص ہے جس کے ہاتھ میں امور کی تدبیر ہے اور جس کی اطاعت واجب ہے۔ نیز انہوں نے عامہ و خاصہ (اہل سنت و شیعہ) کی احادیث کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ اس آیت میں “الذین آمنوا” سے مراد عام مومنین نہیں بلکہ صرف حضرت علی ؑہیں۔ اس طرح شیخ طوسی نے اس آیت سے موالات و محبت سے بالاتر یعنی امامت کے معنی سمجھے ہیں۔(شیخ طوسی اخلاق محتشمی، ج۱، جزء۲، ص۱۷)۔
اس کے علاوہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس آیت میں “ولی”سے مراد تمام امام ہیں۔ بہت سی احادیث جن میں حدیث غدیر بھی شامل ہے، میں پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو اپنا جانشین معرفی کیا ہے اور لوگوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی ولایت کو پیغمبرؐ کی ولایت کی طرح قبول کریں۔(رجوع کریں:مجلسی، بحارالانوار، ج۳۷، ص۱۰۸ـ۲۵۳)۔ اس حدیث میں استعمال ہونے والا لفظ “مولی” اسی معنی میں ہے جو آیت ولایت میں مذکورہ لفظ “ولی” کا ہے۔ شیخ طوسی نے شعر و لغت کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس حدیث میں “مولی” بھی “أولی” کے ہم معنی ہے جو اسی حدیث کے شروع میں “أَلَسْتُ أَوْلی بکم منکم بِأنفسِکم” کے فقرے میں آیا ہے۔ نیز ان کے نزدیک (طوسی، اخلاق محتشمی، ج۱، جزء۲، ص۱۸۵)۔ یہاں “أولی” امامت کے معنی کا اظہار کرتا ہے کیونکہ یہ اس شخص کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جس کے ذمہ کسی امر کی تدبیر ہو۔ اس طرح شیعہ علماء نے متعدد دلائل، بالخصوص نقلی دلائل کی بنیاد پر ائمہ کی ولایت اور بندوں کے دینی و دنیوی امور میں ان کے حق تصرف مشروع کو ثابت کیا ہے۔ شیعہ کے اعتقاد کے مطابق، امام کے وجود اور اس کی تولی کو واجب اور لازم ٹھہرانے والی چیز دین کے معاملے میں گمان، قیاس اور وہم میں پڑنے سے روکنا ہے۔ شیعہ کے اعتقاد میں امام کا علم رائے و اجتہاد سے نہیں ہوتا بلکہ یقینی ہوتا ہے، کیونکہ وہ یہ علم یا خدا کی طرف سے علم لدنی کے ذریعے یا اپنی نفس قدسی کے ذریعے پیغمبر اور پچھلے ائمہ سے حاصل کرتا ہے۔ (رجوع کریں: شهیدثانی، المصنفات الاربعة ، ص۴۰۵)۔ اس طرح، تولی یعنی امام ؑکی ولایت کو قبول کرنا، دین کے معاملے میں یقین تک پہنچنے کی شرط ہوگی، جیسا کہ ایک حدیث کے مطابق امام باقر ؑنے خدا و رسولؐ کی تصدیق کے ہمراہ ائمہ کی تولی اور ان کے دشمنوں سے تبری کو خدا کی معرفت — جو اس کی حقیقی عبادت پر منتج ہوتی ہے — کے ارکان میں شمار کیا ہے۔ (رجوع کریں: کلینی، الکافی، ج۱، ص۱۸۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۲۳، ص۸۳، ۹۳)۔
حدیثی متون میں حبّ و تولاّی ائمہ ؑکے لیے دنیا و آخرت کی سعادت و خیر جیسے مختلف آثار و نتائج بیان ہوئے ہیں۔ نیز احادیث میں ائمہؑ سے محبت کے دنیوی و اخروی آثار ذکر ہوئے ہیں جن میں سے دنیا میں اس کی بعض آثار و نشانیاں یہ ہیں: زہد، عمل پر حرص، دین میں ورع، عبادت کی رغبت، موت سے پہلے توبہ، شب زندہ داری میں نشاط، سخاوت اور امر و نہی الہی کی حفاظت اور آخرت میں بھی اہل بیت کا محب جہنم کی آگ سے امان پاتا ہے، اس کا چہرہ سفید ہوتا ہے، اس کا نامہ عمل اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے اور وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوتا ہے۔(رجوع کریں: مجلسی، بحار الانوار، ج۲۷، ص۷۸ـ۷۹)۔
مذہب تشیع میں تبری کا مفہوم
شیعہ مذہب میں، کوئی شخص شیعہ نہیں ہو سکتا اگر وہ اہل بیت ؑ کی محبت کے ساتھ ساتھ ان کے دشمنوں کی محبت بھی دل میں رکھتا ہو۔ شیعہ احادیث و روایات میں اہل بیت کے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا اور ان سے صلح نہ کرنا واجب ہے،اور چونکہ یہ دین کے فروع میں سے ہے، اس لیے وقت اور مقام کی قید نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، شیعہ روایات سے چند احادیث نقل کی جاتی ہیں:
امام صادق ؑنے فرمایا : “وہ شخص جھوٹ بولتا ہے جو ہماری دوستی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ہمارے دشمنوں سے بیزاری نہیں کرتا”(بحارالانوار، ج 27، ص58)۔
امام رضا ؑنے فرمایا: “جو شخص ہمارے مخالفین کا احترام سے ذکر کرے اور ان کی عزت کرے، نہ وہ ہم میں سے ہے اور نہ ہم اس میں سے ہیں”(کتاب الشیعہ، شیخ صدوق)۔
پیغمبراکرمؐ حضرت امیرالمؤمنینؑ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “آپؑ کے شیعہ حق اور استقامت پر قائم ہیں اور اپنے مخالفین سے کوئی میل جول نہیں رکھتے”۔ (امالی شیخ صدوق)۔
درحقیقت تمام موجودات دو پہلوؤں یعنی ستیزہ جویی اور صلح طلبی سے مل کر بنی ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ معنی اور مفہوم پاتے ہیں، اور کبھی بھی تبری (بیزاری) کو دین سے حذف نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اللہ کا حلال قیامت تک حلال ہے اور اللہ کا حرام قیامت تک حرام ہے، اور اگر کوئی شخص ایسا کام کرے (یعنی تبری کو حذف کرے)، تو درحقیقت اس نے دین کو تحریف کر دیا ہے۔ البتہ کبھی بھی تبری کا اظہار مسلمانوں کے درمیان فتنہ پیدا کرنے اور دوسرے علاقوں جہاں اکثریت شیعہ نہیں ہے، وہاں شیعیان کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ اور اسی طرح تبری اس طرح نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مسلمان جو اہل بیت ؑسے محبت رکھتے ہیں اور شیعہ ہونے کے امکانات رکھتے ہیں، نفرت محسوس کریں اور شیعہ ہونے کا راستہ مکمل طور پر بند ہو جائے۔
جیسا کہ اہل بیت ؑسے روایت ہے: “حَبِّبُونَا إِلَی النَّاسِ وَ لَا تُبَغِّضُونَا إِلَیْهِمْ”۔ ہمیں لوگوں میں محبوب بناؤ اور ہمیں ان کے سامنے مبغوض (نفرت انگیز) مت بناؤ۔” (دعائم الاسلام، ج1، ص: 57)۔
اور اسی طرح امام صادق ؑسے روایت ہے: “إِیَّاکُمْأَنْ تَعْمَلُوا عَمَلًا یُعَیِّرُونَّا بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ یُعَیَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ کُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَیْهِ زَیْناً وَ لَا تَکُونُوا عَلَیْهِ شَیْناً صَلُّوا فِی عَشَائِرِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ لَا یَسْبِقُونَکُمْ إِلَی شَیْءٍ مِنَ الْخَیْْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَی بِهِ مِنْهُمْ وَ اللَّهِ مَا عُبِدَ اللَّهُ بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنَ الْخَبْءِ قُلْتُ وَ مَا الْخَبْءُ قَالَ التَّقِیَّةُ؛ ترجمہ: “تم اس کام سے بچو، جس کی وجہ سے وہ ہمیں عار دلائیں، کیونکہ برے بیٹے کے کام سے اس کے والد کو عار دلائی جاتی ہے۔ تم جن کے پاس آئے ہو (یعنی ہم اہل بیتؑ کی طرف رجوع کیا ہے) ان کے لیے زینت بنو، باعث عار نہ بنو۔ ان کی جماعتوں (مساجد) میں نماز پڑھو، ان کے بیماروں کی عیادت کو جاؤ، ان کے جنازوں میں شرکت کرو، اور وہ کسی بھی بھلائی میں تم پر سبقت نہ لے جائیں، کیونکہ تم ان سے زیادہ اس کے اہل ہو۔ اللہ کی قسم! اللہ کی کسی ایسی عبادت کی جاتی نہیں جو اسے تقیہ سے زیادہ محبوب ہو۔ میں (راوی) نے پوچھا: خبء (پوشیدہ چیز) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تقیہ۔”(کلینی، الکافی، ج2، ص: 219)۔
لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ شیعوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تبری کے اپنے محترم عقیدے کو برقرار رکھتے ہوئے، اس کے اظہار میں بہت عقلمندی اور احتیاط سے کام لیں تاکہ مسلمانوں کے شیعہ ہونے اور دنیا کے مستضعف مسلمانوں کے اہل بیتؑ سے محبت کرنے میں رکاوٹ نہ بنیں؛ خاص کر موجودہ حالات میں اور میڈیا کی سہولیات کی موجودگی میں جس میں ایک بات کے پھیلنے کے امکانات بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس بات کی تائید یا دلیل امام صادقؑ کی ایک معتبر حدیث ہے: “کُلَّمَا تَقَارَبَ هَذَا الْأَمْرُ کَانَ أَشَدَّ لِلتَّقِیَّةِ”۔ ترجمہ: جتنا یہ امر (امام زمانہؑ کا ظہور) قریب ہوتا جائے گا، تقیہ زیادہ سخت ہوتا جائے گی۔(کلینی، الکافی ،ج2، ص:220)۔