
ماہ رجب المرجب کے فضائل و مناسبات
تحریر: مولانا سید مھدی رضا رضوی۔ متعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران
فہرست مندرجات
مقدمہ:
رجب کا مہینہ سال کے سب سے زیادہ فضیلت والے تین مہینوں رجب، شعبان اور رمضان میں سے ہے اور ان مہینوں کو سال کے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں بلند درجہ حاصل ہے۔ بیان ہوا ہے کہ اسلام سے قبل عصر جاہلیت میں بھی اس مہینے کا بہت احترام کیا جاتا تھا اور اس کا ایک اہم اور ممتاز مقام تھا دور جاہلیت کے عرب اس ماہ کی عظمت، بزرگی، شرافت، پاکیزگی، طہارت، شان و شوکت، فضیلت و برتری اور دعاؤں کی مقبولیت کے لحاظ سے اس کی آمد کے منتظر رہتے تھے، نیز ہر قسم کے نزاع و کشمکش اور جنگ و جدال سے گریز اور اس کو ناجائز اور حرام سمجھتے تھے۔ لیکن اسلام نے اس کی قدر و منزلت، اہمیت، فضیلت اور شرافت کو مزید ارفع و اعلیٰ اور بلند و بالا کردیا۔اس مختصر تحریر میں رجب المرجب کے متعدد فضائل اور بعض اہم تاریخی مناسبات کو پیش کیا جارہا ہے:
رجب المرجب کا احترام
رسول خدا ؐ کے صحابی ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐنے فرمایا: «رسول اللّه صلى الله عليه و آله: ألا إنَّ رَجَبًا شَهرُ اللّهِ الأَصَمُّ، وهُوَ شَهرٌ عَظيمٌ، وإنَّما سُمِّيَ الأَصَمَّ لِأَنَّهُ لا يُقارِنُهُ شَهرٌ مِنَ الشُّهورِ عِندَ اللّهِ عز و جلحُرمَةً وفَضلاً، وكانَ أهلُ الجاهِلِيَّةِ يُعَظِّمونَهُ في جاهِلِيَّتِها، فَلَمّا جاءَ الإِسلامُ لَم يَزدَد إلاّ تَعظيمًا وفَضلاً »؛ آگاه ہوجاؤ کہ رجب خدا کا ماہ اصم اور عظیم مہینہ ہے اور اسے “اصم ” اس لئے کہا جاتا ہے کہ خداوند عالم کے نزدیک اس ماہ کی عظمت اور حرمت سے زیادہ کسی ماہ کی حرمت نہیں ہے اور جاہلیت کے لوگ بھی اس مہینے کا احترام کرتے تھے اور جب اسلام کا ظہور ہوا تو اس کی فضیلت و عظمت میں اضافہ ہی ہوا ہے(فضائل الاشهر الثلاثة، ص۲۴ / ۱۲، ثواب الأعمال، ص ۷۸ / ۴)۔ یہ ایک منظر تھا کہ رسول خداؐ نے اس ماہ سے متعلق ہمیں دکھلایا ہے اور عقلمندوں کے لئے اتنا اشارہ کافی ہے کہ اس کے باطنی اسرار کے پیچھے چکر لگا ئیں تا کہ ماہ رجب کی حقیقت اور واقعیت تک رسائی حاصل کریں ایسی حقیقت کہ جس کے بارے میں معصومینؐ کی متعدد روایات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ: “رجب نهر في الجنة اشد بياضاً من اللبن واحلى من العسلک”؛ رجب جنت میں ایک نہر ہے جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے(المقنعہ، ص۳۷۳؛ مسارّ الشيعہ، ص۵۶؛ مصباح المتهجّد، ص۷۹۷)۔
این الرجبیون؟
اس ماہ میں کوشش کرنے والے، عبادت گزار اور مراقبت اور اپنی حفاظت کرنے والے ایک خاص گروہ کے لوگ ہیں کہ جنھیں روز قیامت تمام مومنین کے درمیان مشخص نام سے پکاریں گے اور انہیں خداوند عالم کے مخصوص انعام واکرام اور بشارتوں سے نوازیں گے، اس دن کہ جس دن اس پکارنے والے کی آواز عرش کے اندر سے آئے گی۔
أَيْنَ الرَّجَبِيُّونَ؛ رجب والے کہاں ہیں؟ خداوندعالم کی کرامت تمھیں مبارک ہو، اے خدا کے بندو! ۔
پیغمبر اکرمؐ کی حدیث میں ذکر ہوا کہ:
«ان الله تعالى نصب فى السماء السابعة ملكا يقال له: الداعي، فاذا دخل شهر رجب ينادى ذالک الملك كل ليلة منه الى الصباح: طوبي للذاكرين طوبى للطائعين و يقول الله تعالى: أَنَا جَلِيسٌ مَن جَالَسَنِي، وَ مُطِيعٌ مَن أَطَاعَنِي، وَ غَافِرٌ مَنِ اسْتَغْفَرَنِي، الشهرُ شَهرِى وَالعَبدُ عَبدِى، وَالرَّحْمَةُ رَحْمَتِي، فَمَن دَعَانِي فِي هذا الشَّهْرِ أَجَبْتَهُ، وَ مَن سَلَتَنِي أَعْطَيْتَهُ، وَ مَنِ اسْتَهْدَانِي هَدَيْتَهُ، وَ جَعَلتُ هذا الشَّهْرُ حَبلاً بَينِي وَ بَينَ عِبَادِي، فَمَنِ اعْتَصَمَ بِهِ وَصَلَ إِلَيَّ »؛ “خدا وند عالم نے ساتویں آسمان پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے کہ اسے داعی ( دعوت دینے والا ) کہا جاتا ہے، پس جب ماہ رجب آجاتا ہے تو وہ فرشتہ ہر شب، صبح تک آواز دیتا ہے: ذکر کرنے والوں کو مبارک ہو، اطاعت کرنے والوں کو مبارک ہو! ۔ خداوند عالم فرماتا ہے میں اس کے ساتھ ہوں جو ہمارے ساتھ ہے نیز میں اس کے ساتھ ہوں جو ہماری اطاعت کرے اور میں اسے بخشنے والا ہوں، جو مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے کہ یہ مہینہ میرا مہینہ اور یہ بندہ میرا بندہ ہے اور رحمت میری رحمت ہے کہ جو بھی مجھے اس ماہ میں پکارے گا ( مجھ سے درخواست کرے گا ) میں اس کا جواب دوں گا اور جو بھی مجھ سے مانگے گا میں اسے عطا کروں گا اور جو بھی مجھ سے ہدایت کا طالب ہو گا میں اس کی ہدایت کروں گا میں نے اس ماہ کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان ایک ریسمان ( رسی ) قرار دیا ہے، جو اس سے متمسک ہوگا وہ مجھ تک پہنچ جائے گا ۔ (فضائل و آداب ماه های رجب و شعبان، ص ٣٩ اور ۴۰ بحوالہ ۔ اقبال الاعمال، ص /۱۱۸)
ماہ رجب کی وجہ تسمیہ
مرحوم کفعمی نے اپنی مصباح میں فرمایا:
“اس مہینہ کا رجب نام رکھا ہے کیوں کہ اس کو عظمت حاصل ہے اور تعظیم و تکریم اور اسے اصب نام دیا ہے کیوں کہ بندوں پر رحمت اور مغفرت کی بارش ہوتی ہے، اور اصم کہا جاتا ہے کیوں کہ اس ماہ میں مدد مانگنے والوں کی آواز ( نالہ ) کان میں پہنچتی ہے ۔ اور کہا گیا کہ اسے اصم اس لئے کہا ہے کہ اسلحوں کے ٹکرانے کی آواز اس ماہ میں نہیں آتی ۔ اور اسی طرح نیزوں کی آواز بھی، کیوں کہ عرب اس ماہ میں نیزوں کو اپنے آپ سے جدا کر دیتے تھے اور اپنے ہاتھ میں نہیں اٹھاتے تھے “۔ (مصباح کفعمی، ص ۵۱۲۱)
صاحب تفسیر مجمع البیان کہتے ہیں:
“اس ماہ کی حرمت کا پاس ولحاظ رکھنا دیگر مہینوں کی حرمت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ عظیم ہے اور عرب ان مہینوں کو عظیم جانتے تھے اور اس حد تک کہ اگر کوئی اپنے باپ کے قاتل سے بھی ملاقات کر لیتا تھا تو ان مہینوں کے احترام کی بنا پر اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتا تھا۔ اور خداوند عالم نے سال کے مہینوں میں ان بعض مہینوں کا احترام حد درجہ مد نظر مصلحت کی وجہ سے قرار دیا ہے اور وہ ان مہینوں میں ظلم وجور سے اجتناب، ان مہینوں کی قدرومنزلت کے اعتبار سے اور ممکن ہے کہ یہ ترک اور اجتناب ظلم کے کلی طور پر ترک کرنے کا باعث ہو، کیونکہ اس طرح سے شعلہ غیظ و غضب ٹھنڈا ہو جاتا اور اسی مدت میں غیرت بھی ختم ہو جاتی ہے” (فضائل و آداب ماه رجب و شعبان، ص ۳۱۷ بحوالہ مجمع البیان، ج ۳، ص۲۷)۔
ماہ رجب اور استجابت دعا
ان مہینوں کی فضیلت و اہمیت ان میں بیان کردہ اعمال و اذکار و عبادات سے بھی ہوجاتی ہے۔ ان میں سے ایک استجابت دعا بھی ہےحتی جاہلیت کے زمانے میں بھی اگر کسی پر لعنت یا نفرین کرنا چاہتے تھے تو ماہ حرام یعنی ماہ رجب کا انتظار کرتے تھے تا کہ ان کی بدعا اور نفرین زیادہ سے زیادہ مؤثر واقع ہو، جیسا کہ سید ابن طاووس نے اقبال الاعمال میں اس سلسلہ میں تین حکایت نقل کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ماہ رجب میں استجابت دعا کے سلسلہ میں دیگر حکایتیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن انھوں نے نقل نہیں کیا ہے، کہ ہم ان حکایتوں میں سے ایک حکایت یہاں پر ذکر کر رہے ہیں:
ایک شخص ایک نابینا کے پاس پہنچ کر کہتا ہے کہ: یہ نابینا خدا سے سلامتی کی درخواست کیوں نہیں کرتا؟ اس سے کہا گیا تم اسے نہیں پہچانتے؟ یہ وہ شخص ہے جس پر بریق ( جس کا نام عیاض تھا) نے لعنت کی ہے۔ اس نے کہا عیاض سے کہو وہ میرے پاس آئے۔ پھر اس نے کہا کے مجھے بنی ضیعا کی داستان سناؤ۔ اسنے کہا یہ داستان دور جاہلیت سے مربوط ہے لہذا عصر اسلام میں تمھیں اس کی داستان نہیں سنا سکتا۔ اس نے کہا اگر اس داستان کا ذکر میرے لئے بہتر ہو تو بیان کرو۔ اس نے کہا بنی ضیعا میں دس افراد تھے کہ میں ان میں سے ایک کا داماد تھا لیکن ان لوگوں نے میری بیوی کو مجھ سے جدا کرنا چاہا میں نے ان لوگوں کو خداوند عالم اور اپنی رشتہ داری اور قرابت کی قسم دی لیکن انھوں نے میری ایک نہ سنی اور میری بیوی کو مجھ سے الگ کر دیا پھر میں نے صبر کیا یہاں تک کہ اصلی ماہ رجب آگیا۔(جابجا ہونے پر نظر کرتے ہوئے جاہلیت نے حرمت والے مہینوں کو آگے پیچھے کر دیا ہے یعنی انھوں نے ماہ رجب کو ماہ شعبان کے بعد قراردیا تھا کہ پیغمبر کے حجۃ الوداع کے خطبے میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ رجب ربیعہ قبیلہ نے فرمایا ہے لیکن اصلی رجب کہ جس میں کوئی تغیر و تبدیلی نہیں آئی اور حضرت نے فرمایا یہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے یا وہی قبیلہ مضر کا رجب ہے کہ جس کی طرف اس شخص نے اپنی حکایت میں اشارہ کیا ہے اگر میں نے قبیلہ مضر کے اصلی ماہ رجب میں نفرین و بددعا کی) پس میں نے کہا: خدایا میں اپنے پورے وجود کے ساتھ بنی ضیعا پر نفرین کر رہا ہوں کہ ان سب کے ساتھ سختی کر ایک آدمی کے علاوہ کہ وہ اندھا لنگڑا یا بے چارہ باقی رہے۔اس نے کہا: اسی لئے اس فرد کے علاوہ وہ سب نیست و نابود ہو گئے۔(فضائل و آداب ماههای رجب و شعبان، ص ١٣٣ اور ١۳۴، اقبال الاعمال میں ١٢٣ / بطبع بیروت)
عصر اسلام میں دلچسپ حکایات ہیں کہ جو اس ماہ اور اس ماہ میں استجابت دعا کی اہمیت کا پتہ دیتی ہیں منجملہ ان حکایتوں میں کہ جو اپنی نوع میں بے نظیر اور اللہ کی آشکار نشانیوں میں سے، آل محمد کی گرانبہا اور بیش قیمت اکسیر کا تعارف ہے، امام صادق علیہ السلام کی دعائے افتتاح کی حکایت کہ جسے آپ نے ام داؤد کو تعلیم دی تھی۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم مہینہ میں اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ اس نے اپنے عظیم نور کو کہ جس کے لئے اس نے دنیا کی تخلیق کی ہے، اس دنیا پر درخشاں ہوگا اور عظیم بعثت کو آشکار نشانی(بينة) بنا کر، نیز اس کے گواہ (شاهد) علی ؑکو ظاہر کرے گا کہ در حقیقت خداوند عالم کی اس سنت اور روش کے مطابق کہ اس دنیا میں ساری چیز کو زوج پیدا کیا ہے اور یہ فطری ہے کہ ہدایت کا عظیم واقعہ نبی اور وصی کی شاخ ہے بلا شبہ اس ماہ رجب میں ان دو عظیم امر کو آشکار کرنا اس ماہ کی عظمت کی علامت ہے۔
ماہ رجب کی اہم مناسبات
اس ماہ کی دوسری بہت سی مناسبتیں ہیں جن کو یہاں مختصراً فہرست وار ذکر کیا جارہا ہے:
۱- رجب
رجب کی پہلی تاریخ پانچویں پیشوا امام محمد باقرؑ کی ولادت کا دن ہے جو رجب کے مہینے کی پہلی تاریخ سنہ 57 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپؑ نے اپنی بابرکت زندگی کے چار سال اپنے نانا امام حسینؑ کے ساتھ گزارے اور 35 سال تک اپنے والد امام سجادؑ کے ساتھ رہے اور والد کی شہادت کے بعد 18 سال تک زندہ رہے، جو کہ آپؑ کی امامت کا دور تھا۔ امام باقر علیہ السلام 57 سال کی عمر میں 114 ہجری کو ساتویں ذی الحجہ کو شہید ہوئے۔
۲-رجب
حضرت امام علی بن محمد الہادیؑ، شیعوں کے دسویں امام اور رہبر، رجب کی دوسری تاریخ یا رجب کی پانچویں تاریخ سنہ 212 یا 214 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب (بصریا) نام کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اور بعض روایات کے مطابق رجب کے تیسرے دن یا 25 جمادی الثانیہ 254 ہجری کو سامرہ میں شہید ہوئے۔ امام ہادی علیہ السلام اپنے والد کے ساتھ 6 سال 5 ماہ رہے اور اپنے والد کی شہادت کے بعد 33 سال زندہ رہے جو کہ آپ کی امامت کی مدت ہے۔
۱۰- رجب
نویں امام حضرت محمد بن علی الجوادؑ کی ولادت 10 رجب 195 ہجری کو ہوئی اور آپ 8 یا 9 سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے۔ مدت امامت 17 سال تک رہی۔ یعنی آپ کی بابرکت زندگی 26 سال سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن کسی بھی صورت میں، ان بزرگوں اور معصوم رہنماؤں کے لیے عمر کا کم ہونا کوئی معانی نہیں رکھتی، کیونکہ وہ خدا کے چنے ہوئے ہیں اور اپنی پیدائش کے آغاز سے ہی کامل انسان ہیں۔ (و اتیناہ الحکم صبیا)۔ امام جواد علیہ السلام کی شہادت 220 ہجری ٦ ذی الحجہ یا ایک قول کے مطابق ماہ ذیقعدہ کی آخری تاریخ بیان ہوئی ہے۔
13- رجب: میلاد امام علیؑ
اس مہینے میں سرفہرست، یوم ولادت امیر المومنین مولاالمتقین علیؑ بن ابی طالبؑ ہے۔ حضرت امیرالمومنینؑ کی ولادت 13 رجب المرجب اور ہجرت سے 33 سال پہلے خانہ کعبہ میں ہوئی۔ آپؑ خانہ کعبہ میں پیدا ہونے والے پہلے اور آخری شخص ہیں۔ اس بارے میں حافظ گنجی شافعی نے اپنی الکفایہ میں کہتے ہیں:
“امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کی پیدائش عام الفیل کے 33 سال بعد جمعہ 13 رجب کی رات بیت اللہ الحرام میں مکہ میں ہوئی۔ اس کے سوا کوئی خدا کے گھر میں پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی پیدا ہو گا اور یہ اس کے بلند مقام پر جھکنے کے لیے کافی ہے۔
شیخ صدوق امام علی ؑ کی ولادت کے بارے میں فرماتے ہیں:
یزید بن قعنب کہتا ہے کہ میں عباس بن عبدالمطلب اور بنو عبد العزی کے ایک گروہ کے ساتھ خانہ خدا کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک فاطمہ بنت اسد خانہ خدا کے پاس آئیں، اس وقت حمل کے ٩ مہینے گزر چکے تھے۔ وہ دردِ زہ میں مبتلا تھیں۔ فاطمہ بنت اسد نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اپنے خدا سے دعا کی:
“اے پروردگار! میں تجھ پر تیرے نبیوں پر اور تیری طرف سے نازل کردہ کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں اور میں اپنے دادا حضرت ابراہیم خلیلؑ کے قول کی گواہی دیتی ہوں کہ جس نے اس بیت عتیق کو بنایا، پس اس گھر کو بنانے والے کے حق اور اس جنین کے حق کا واسطہ جو میرے شکم میں ہے، میرے لیے ولادت کے ان مراحل کو آسان قرار دے”۔
یزید بن قعنب مزید کہتا ہے:
اچانک ہم نے دیکھا کہ کعبہ کے پچھلے حصہ کی دیوار میں شگاف ہوا اور فاطمہ بنت اسد خانہ خدا میں داخل ہوئیں اور ہماری نظروں سے اوجھل رہیں اور بیت اللہ کی دیوار پھر سے آپس میں مل گئیں، ہم معاملے کی حقیقت جاننے کے لیے تالا کھولنے گئے لیکن خدا کے گھر کا تالہ نہیں کھلا۔ ہم سمجھ گئے کہ یہ ایک خدائی امر ہے۔
یہاں تک کہ تین دن اسی طرح گزر گئے چوتھے دن ہم نے دیکھا کہ فاطمہ بنت اسد اپنی بانہوں میں علی ؑ کو لیکر خانہ کعبہ سے باہر نکل رہی ہیں۔
اس طرح کی تمام روایات و احادیث گواہی دیتی ہیں کہ علی مولود کعبہ ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور خدا کے گھر میں پیدا نہیں ہوا اور نہ ہو گا۔ یہ فضیلت دیگر بہت سی خوبیوں کی طرح علی کے لیے منفرد ہے اور کوئی بھی ان میں شریک نہیں ہے، حالانکہ وہ خدا کا نور، خدا کا کلام اور خدا کی ہدایت کا پرچم ہیں۔ وہ دنیا میں موجود اعلیٰ ہستی کا مجسم اور تمام روحانی کمالات اور خوبیوں کا مجموعہ ہیں۔ وہ رسول اللہؐ کے بعد روئے زمین پر سب سے افضل اور سب سے زیادہ نیک شخص ہیں۔ اس مسئلہ پر نہ صرف شیعہ مورخین، محدثین بلکہ بہت سے سنی مورخین اور علماء بھی متفق ہیں۔
۲۵۔ رجب
آج کے دن آسمان امامت کے ساتویں چمکتے ہوئے ستارہ حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کو 55 سال کی عمر سنہ 183 ہجری میں سندی بن شہک کی قید میں شہید کیاگیا۔خدا ان کے قاتلوں پر لعنت کرے۔ حضرت امام کاظم علیہ السلام – جو باب الحوائج کے نام سے مشہور ہیں، 55 سال زندہ رہے، جن میں سے 25 سال آپ کی امامت کے تھے۔
۲۷- رجب: مبعث پیغمبراکرمؐ
عید مبعث مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عظیم عیدہے۔ یہ وہ دن ہے جب رسول اللہ ؐ کو مبعوث برسالت کیا گیا تھا اور آج اسلام کی پیدائش کا دن ہے اور یہ وہ دن ہے جب لوگ اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف آنا شروع ہوگئے تھے؛ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: «هُوَ الَّذي بَعَثَ فِي الأُمِّيّينَ رَسولًا مِنهُم يَتلو عَلَيهِم آياتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتابَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفي ضَلالٍ مُبينٍ»؛اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے (جمعہ، آیت٢)۔
حضرت امیر المومنینؑ نے بعثت پیغمبراکرمؐ کے زمانے کے بارے میں اس طرح بیان فرمایا کہ:
“پیغمبرؐاس وقت مبعوث کئے گئے تھے جب لوگ جاہلیت کے دور کے فتنوں، فسادات اور آوارہ گردی میں گرفتار تھے۔وہی فتنے جس سے دین کے گھر کی رسی ٹوٹ چکی تھیں اور یقین کی عمارت کے ستون ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تھے۔ اصول دین میں اختلاف تھا اور معاملہ لوگوں کے لیے مشکوک تھا۔ گویا ان حیرتوں اور الجھنوں سے نکلنے کے راستے سے بھٹک گئے اور ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ چنانچہ حق کا راستہ نامعلوم اور وہم و ضلالت کا اندھا پن دنیا میں پھیل چکا تھا۔ وہ لوگ خدا اور اپنے رب کی نافرمانی کرتے اور شیطان رجیم کی اطاعت میں مصروف تھے، ایمان جاچکا تھا، اس کے ستون بکھر چکے تھے، جس کی نشانیاں نامعلوم اور اس کے راستے ختم ہوگئے تھے، انہوں نے شیطان کی اطاعت کی اور وہ اس کی راہوں پر چلتے جا رہے تھے اور شیطان نے ان کے ذریعے اپنے فتنوں کے جھنڈے اٹھوائے جس نے لوگوں کو پامال کیا اور وہ سب اس میں گم ہو کر پھنس گئے (نہج البلاغہ، خطبہ2)۔
خلاصہ یہ کہ ماہ رجب المرجب ایک عظیم مہینہ ہے جس کے بہت زیادہ فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں اور اس مہینے میں بہت سے اعمال و اذکار ذکر ہوئے ہیں۔ اسی طرح اس مہینے میں متعدد اہم مناسبات بھی ہیں جو ہمارے لئے خوشی اور غم کے مواقع فراہم کرتی ہیں اور ان ایام میں ہمیں اللہ تعالیٰ، پیغمبراکرمؐ اور آپ کے پاک خاندانؑ کی جانب متوجہ کرتی ہیں۔