اسلامی معارف

حضرت فاطمہ کلابیہ؛ ام البنین علیہاالسلام

تحریر: نہاں نقوی صاحبہ۔ طالبہ: جامعۃ المصطفی(ص) العالمیہ۔ قم ایران

جناب فاطمہ زہرا(علیہاالسلام) کی شہادت کے بعد حضرت ام البنین (علیہاالسلام) وہ خاتون تھیں جو امیرالمومنین علیؑ سے ازدواج کرکے گھر میں آئیں۔

آپ کی وفات بھی بی بی زہراؑ کی شہادت کے ایام کے ساتھ ہے۔ آپ 13 جمادی الثانی سن 64 یا ۷۰ ہجری میں وفات پائیں۔ لہذا مناسب ہے کہ یہاں آپ کے سلسلے میں چند اہم باتوں کا ذکر کیا جائے:

۱۔ حضرت ام البنینؑ کا خاندانی اعتبار سے بنی کلاب قبیلے سے تعلق تھا۔ آپ کا اصلی نام “فاطمہ کلابیہ” تھا لیکن حضرت فاطمہ زہراؑ کے احترام میں آپ نے شادی کے بعد اپنا نام بدل کر “ام البنین” رکھ دیا تھا اور مدینہ میں آپ اسی نام سے مشہور ہوئیں۔

۲۔ حضرت ام البنینؑ ، شادی کے بعد سے ہمیشہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے فرزندوں لئے ایک مہربان ماں اور خادمہ کی طرح رہتی تھیں۔ جس دن آپ شادی کرکے امام علیؑ کے گھر تشریف لائیں تو حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسینؑ  بیمار تھے۔ آپ آکر فورا دونوں شہزادوں کی خدمت میں مشغول ہوگئیں اور ایک مہربان ماں اور پرستار کی طرح دونوں شہزادوں کی شفایابی کے لئے خدمت کرتی رہیں یہاں تک  کہ شہزادے شفایاب ہوگئے۔

۳۔ حضرت ام البنینؑ کو امیرالمومنین ؑ سے چار بہادر اور عظیم بیٹوں  یعنی حضرت عباس علمدار کربلا، عبداللہ، جعفر، عثمان کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا۔

۴۔ بی بی ام البنینؑ نے اپنے چاروں بیٹوں کی تربیت صرف اور صرف مولا حسینؑ کی خدمت میں فنا اور قربان ہونے کے لئے کی تھی، اسی وجہ سے معرکہ کربلا کے وقت آپ نے فوراً اپنے تمام بیٹوں کو کربلا بھیج دیا اور آپ کے تمام بیٹے مولا حسین ؑ پر قربان بھی ہوئے۔

۵۔ آپ اپنے بیٹوں کے بجائے شہزادی کائنات حضرت فاطمہ زہراؑ کے بیٹوں سے نہایت محبت کرتی تھیں چنانچہ جب اسیران کربلا کے مدینہ واپسی کی خبر آئی تو خبرسنانے والے بشیر سے ام البنین ؑپوچھتی ہیں کہ:  “یا بشیر اخبرنی عن ابی عبداللّه الحسینؑ

اولادی و من تحت الخضراء کلهم فداءٌ لابی عبداللّه الحسینؑ”

“اے بشیر! مجھے میرے بچوں کے بارے میں نہیں بلکہ اباعبداللہ الحسینؑ کے بارے میں بتاؤ، میری تمام اولاد اور روئے زمین پر موجود تمام لوگ ابوعبداللہ پر قربان ہوجائے”۔

۶۔ حضرت ام البنینؑ نے اپنی زندگی کو جناب فاطمہ زہراؑ کے مقصد اور مشن اور اہداف کو آگے بڑھانے اور آپ کے اولاد کی خدمت کے لئے وقف کررکھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کربلا کے بعد آپ ہمیشہ شہیدوں کی یاد اور ان کے مقصد کو زندہ رکھنے کے لئے مرثیہ، مجالس کا اہتمام کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کی قربانیوں کو بھلا کر جنت البقیع جاتی تھیں اور امام حسینؑ کی یاد میں نشان قبر بناتی تھیں اور مرثیے پڑھتی تھیں۔

۷۔ حضرت ام البنینؑ  ایک شیردل، بہادر خاتون تھیں، آپ ایثار و قربانی کا عظیم مجسمہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی قربانیوں اور عظمتوں کو اہل بیت اطہارؑنے ہمیشہ یاد فرمایا ہے۔

۸۔ جناب فاطمہ زہراؑ اور آپ کی اولاد کا جو احترام جناب حضرت ام البنینؑ  نے  عملی طور پر کرکے ہمیں دکھایا ہے وہ ہم سب کے لئے نمونہ عمل ہے۔اسی کا نتیجہ تھا کہ اہل بیتؑ اور خاندان عصمت و طہارت کے بزرگان نے بھی جناب حضرت ام البنینؑ  کااحترام کیا اور آپ کی عظمتوں کو ہمارے میں بیان فرمایا ہے؛ یہاں چند اہم نمونوں کا ذکر کیا جارہا ہے:

الف: امام علیؑ کے بھائی جناب عقیل ابن ابیطالبؑ بیان کرتے ہیں کہ: “عربوں میں ام البنین کے باپ داداؤں سے زیادہ کوئی بہادر نہیں تھا”۔ شاید اسی وجہ سے جناب امام علیؑ  نے جناب عقیل سے شادی کے لئے لڑکی تلاش کرنے کے لئے کہا تو فرمایا تھا کہ: “میں ایسے خاندان کی عورت سے شادی کرنا چاہتاہوں جس سے میرے لئے بہادر اور شجاع بیٹا پیدا ہو”۔ او ر نتیجہ بھی یہی ہوا کہ حضرت عباس علمدار اور آپ کے بھائیوں جیسے شیردل اور بہادر بیٹے پیدا ہوئے جن کی مثال معصومینؑ کے بعد کہیں نہیں ملتی ہے۔

ب: جناب شہید اول بیان کرتے ہیں کہ “ام البنینؑ ایک بامعرفت اور بافضیلت خاتون تھیں۔ آپ خاندان اہل بیتؑ  کی بہ نسبت خالص محبت اور بےحد لگاؤ رکھتی تھیں۔ اور اپنے آپ کو پوری طرح ان کے لئے وقف کر دیا تھا، یہی وجہ تھی کہ خاندان نبوت کے افراد کے نزدیک آپ کی منزلت بہت بلند تھی اور وہ آپ کا خاص احترام کیا کرتے تھے۔ خوشی اور عید کے دنوں میں آپ کی خدمت میں آتے تھے اور آپ سے احترام کا اظہارکرتے تھے۔ “

۹۔ حضرت امام حسینؑ ، جب کربلا کے لئے روانہ ہورہے تھے اور حضرت ام البنینؑ کے بیٹے آپ سے خداحافظی کے لئے حاضر ہوئے تو اس ماں نے بیٹے سے اظہار محبت و الفت کے بعد یوں فرمایا:

اے میرے بیٹوں۔ اے میرے عزیزو۔ میرے مولا حسینؑ کی آنکھ اور دل بن کر رہنا۔ اور ہمیشہ آپ کے فرمانبردار رہنا۔

تم سب حسین ؑ  پر قربان ہو۔ کبھی بھی ان سے دور نہ ہونا۔ اپنے خون کے آخری قطرے تک ان کی حمایت کرنا۔

 حضرت ام البنینؑ کے یہ جملے در اصل رہتی دنیا تک خاص طور پر جوانوں کے لئے عظیم پیغام ہے کہ “ہمیشہ اپنے وقت کے امام کے اشارے پر حرکت کرنا ہی اصل زندگی ہے”۔

۱۰۔ حضرت ام البنینؑ کی ذات ان عظیم شخصیتوں میں سے تھیں جنہوں نے حضرت فاطمہ زہراؑ کی اولادوں خاص طور پر حضرت امام حسینؑ کی عزاداری کو پھیلانے اور فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔  چنانچہ حضرت ام البنینؑ کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ:

“عن جعفر ب بُكِيَ الحُسَينُ عليه السلام خَمسَ حِجَجٍ، و كانَت اُمُّ جَعفَرٍ الكِلابِيَّةُ تَندُبُ الحُسَينَ عليه السلام وتَبكيهِ وقَد كُفَّ بَصَرُها، فَكانَ مَروانُ وهُوَ والِ المَدينَةِ يَجيءُ مُتَنَكِّرا بِاللَّيلِ حَتّى يَقِفُ ، فَيَسمَعُ بُكاءَها ونَدبَها”۔

حضرت امام صادقؑ نے فرمایا: حضرت امام حسینؑ پر پانچ سالوں تک گریہ کیا گیا۔ ام جعفرکِلابی (یعنی حضرت ام البنینؑ)، امام حسین ؑ پر مرثیہ پڑھتی تھیں اور اتنا گریہ کرتی تھیں کہ آپ کی آنکھیں نابینا ہوگئیں۔ مدینہ کا حاکم مروان ناشناس بن کر آتا تھا اور آپ کے دروازے پر کھڑا کر آپ کے مرثیہ کو سن کر رونے پر مجبور ہوجاتا تھا۔(کتاب امالی شجری، ج۱، ص۱۷۵)

ایک اشکال اور اس کا جواب

شہیدوں اور مرحومین کے لئے عزاداری کے مخالفین اور کچھ نادان افراد کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ روایت غلط ہے اس لئے کہ مروان جیسا دشمن کیسے ام البنین ؑ کے گریہ کی آواز سن کر رو سکتا ہے؟ یا کیسے اہل بیتؑ کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون عزاداری اور غم منانے کے لئے اتنے بلند آواز سے مرثیہ پڑھ سکتی یا گریہ کرسکتی ہیں کہ نامحرم مرد سن کر رونے لگے؟

جوابات:

اس اشکال اور شبہہ کے مختلف جواب دیئے جاسکتے ہیں:

۱- اہل بیت اطہارؑ خاص طور پر امام حسینؑ کی مصیبت پر گریہ کرنا یا گریہ کرنے والے سے متاثر ہونا مروان جیسے دشمنوں کی طرف سے کوئی نئی بات نہیں ہے، تاریخ میں کئی دشمن اپنی سیاست اور حکومت کو بچانے کے لئے دکھاوے کے لئے روتے نظر آئے ہیں جیسے خود یزید اور ابن زیاد نے کربلا کے بعد جب لوگوں کا دباؤ بڑھنے لگا تو ظاہری طور پر گریہ کیا تھا۔ اسی طرح حضرت امام رضاؑ کو شہید کرکے خود مامون الرشید نے پورے ملک میں سوگ منوایا تھا اور گریہ کیا تھا۔ اور آج بھی اس طرح کے بہت سی مثالیں ملتی رہتی ہیں کہ مظلوموں پر ظلم کرکے، انہیں شہید کرکے خود ظالم  روتے ہوئےدکھائی دیتے ہیں۔

۲- حضرت ام البنینؑ کا  حضرت امام حسینؑ کے لئے گریہ کرنا اور مرثیہ پڑھنا متعدد روایات میں بیان ہوا ہے لہذا صرف یہ ایک روایت نہیں ہے جس کے صحیح اور غلط ہونے کا شبہہ پیدا کرکے اصل حقیقت سے انکار کیا جاسکے۔

۳- اسلام کی نظر میں کوئی خاتون نامحرم کے سامنے غم اور مظلوم کی مظلومیت کو ظاہر کرنے کے لئے گریہ کرسکتی ہے، نوحہ پڑھ سکتی ہے۔ اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔  جیسا کہ خود پیغمبراکرمؐ کے زمانے میں بھی خود پیغمبراکرمؐ کے حکم سے شہید حمزہؑ اور پھربعد میں جناب جعفرطیارؑ کی شہادت کے بعد ان شہیدوں کے گھر پر باقاعدہ عزاداری کا انعقاد ہوا، اس میں عورتیں جمع ہوئیں، نوحہ اور ماتم و گریہ ہوا، جس میں خود حضرت فاطمہ زہراؑ نے نوحہ و مرثیہ پڑھ کر گریہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبراکرمؐ کی شہادت کے بعد بھی جناب فاطمہ زہراؑ کا گریہ کرنا، کربلا کے واقعات کے بعد معصوم کی موجودگی میں اہل حرم کی خواتین کا گریہ کرنا وغیرہ سب ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ لہذا مرحوم کے لئے خاص طور پر مظلوم شہید کے لئے خواتین کا گریہ کرنا، نوحہ پڑھنا اور عزاداری کرناممنوع نہیں ہے یا شرعی لحاظ سے اس میں کوئی مشکل اور حرج نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button