
تسبیح حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام)
تحریر:مولانا سید معظم حسین زیدی۔ طالب علم جامعۃ المصطفی(ص) العالمیہ۔ قم ایران
فهرست مندرجات
تسبیح حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام)
حضرت فاطمہ زہراؑ اور تسبیح الہی
خلقت عالم و آدم ؑسے پہلے آپؑ کی خلقت اور تسبیح
عالم انوار کی مخلوقات اور ملائکہ کو تسبیح کی تعلیم
تسبیح فاطمہ زہراؑ کی علت تشریع اور سبب ورود
تسبیح فاطمہ زہراؑ کی کیفیت اور صحیح طریقہ
تسبیح فاطمہ زہراؑ کے اہم آثار و برکات
۵۔ دوری شیطان اور قرب رحمان کا ذریعہ
۷۔ حمد و عبادت الٰہی کا بہترین ذریعہ
تمہید
یوں تو کائنات کی ہر شے خداوند عالم کی تسبیح میں مصروف ہے مگر اس اشرف مخلوق انسان کو خداوند عالم نے یہ خاص شرف بخشا ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار اور مخصوص ادراک و شعور کے ساتھ خداوند عالم کی تسبیح کرتے ہوئے، کائنات کے اس نظام کے ہم آہنگ ہوتے ہوئے، خود کو غافلین کی فہرست سے نکال کر ذاکرین کے زمرہ میں داخل کر لے یا پھر اپنی بے توجہی، عدم علم و آگہی، بے بصیرتی، پیروی ہوا و ہوس اور مادیات میں شدید انہماک اور مصروفیت کی بنیاد پر غفلتوں کا شکار ہو کر اسفل سافلین کا مصداق بن جائے. مقالہ حاضر میں آیات قران و احادیث معصومین علیہم السلام کی نظر میں تسبیح الہی، خاص کر تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ کی عظمت، کیفیت اور آثار و برکات پر مختصر روشنی ڈالی جائے گی۔
تسبیح الٰہی اورقرآن مجید
لفظ تسبیح اور اس کے مشتقات کا تذکرہ قرآن مجید میں تقریباً 90 مرتبہ ہوا ہے، جن میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ، سبحان ہے(محمد فؤاد عبد الباقی، المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم؛ برنامۂ جامع التفاسیر مرکز تحقیقات اسلامی نور)۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کے سات سورے ایسے ہیں جن کا آغاز ہی لفظ تسبیح اور اس کے مشتقات سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مُسَبِّحات کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں؛ سورہ صف، سورہ اعلی، سورہ حدید، سورہ جمعہ، سورہ تغابن، سورہ حشر اور سورہ اسراء؛ قرآن مجید کے وہ سورے ہیں جنہیں مُسَبِّحات کہا جاتا ہے.
لفظ تسبیح کا معنی اور مفہوم
تسبیح کے معنی سبحان اللہ کہنا اور خدا کو ہر اس چیز سے پاک و منزہ جاننا ہے جو اس کے لائق نہیں یعنی خدا کو اس کے تمام صفات سلبیہ اور ہر قسم کے نقائص، عیوب اور احتیاج سے پاک و منزہ جاننا ہے(ابن منظور، لسان العرب، ج٢، ص ٤٧١؛ خلیل بن احمد فراہیدی، العین، ج۳، ص ۱۵۱و۱۵۲)۔ در اصل اس کا مادہ اور اصلی حروف س،ب،ح ہیں؛ جس کے معنی سباحت اور تیرنے کے ہیں؛ کسی چیز کا تیرنا، خواہ وہ پانی کی سطح پہ تیر رہی ہو خواہ فضا یا خلا میں اپنے مدار پہ اپنی سطح کو برقرار رکھتے ہوئے حرکت کر رہی ہو اور چونکہ تیرتے وقت، تیرنے والی چیز یا تیرنے والے انسان کی حرکت معمولی حرکت سے زیادہ ہوتی ہے لہذا اس لفظ کے ایک معنی تیز حرکت کرنے کے بھی کئے گئے ہیں جیسا کہ راغب اصفہانی نے مفردات الفاظ القرآن میں اسی کو ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تسبیح کے اصل معنی: المر السریع فی العبادۃ؛ یعنی عبادت میں سرعت کے ساتھ حرکت کرنے کے ہیں(راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن: ص ٣٩٢). چنانچہ سورہ انبیاء کی آیت نمبر ٣٣ میں یہ لفظ اسی معنی کے لئے استعمال ہوا ہے؛ ارشاد ہوتا ہے:«وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ» ؛ وہ وہی خدا ہے جس نے رات دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو پید اکیا ہے اور سب اپنے اپنے فلک میں تیر رہے ہیں(سورہ انبیاء، آیت: ٣٣)۔
اس لحاظ سے اس لفظ کے باب تفعیل میں معنی کسی شے کو تیرانا یا اس کو اس کی سطح پر باقی رکھنے کے ہیں؛ لہذا خدا کی تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کو اس کے بلند مقام اور اس کی اعلی و ارفع شان پر برقرار رکھا جائے، اس کی ذات و صفات کے سلسلے میں کوئی ایسا تصور نہ کیا جائے جو اس کی شایان شان نہ ہو؛ اس کے لئے کسی طرح کے عجز، نقص، عیب یا محدودیت کا تصور نہ کیا جائے۔
اسی لئے قرآن مجید میں جب بھی کہیں پر خدا کے لئے کسی کی زبان سے کسی طرح کا کوئی نقص کا شائبہ یا اس کے سلسلے میں کوئی غلط تصور کی بات آئی، تو وہاں فورا لفظ سبحان اور تسبیح کے ذریعے سے اس کی تردید کی گئی؛ جیسا کہ فرشتوں نے روئے زمین پر حضرت آدم ع کے خلیفہ بنانے کی بات پر خدا سے سوال کرنے اور پھر خداوند عالم کے جواب کے بعد جو جملہ زبان پہ جاری کیا وہ یہی تسبیح کا جملہ تھا جس میں انہوں نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا: «قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ»؛ فرشتوں نے کہا: تو پاک و منزہ ہے جو کچھ تو نے ہمیں بتا دیا ہے ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے. یقینا تو ہی بہتر جاننے والا، حکمت والا ہے(سورہ بقرہ، آیت: ٣٢)۔
یا ایک دوسری جگہ پر جب خود خداوند عالم، اولوا الالباب یعنی صاحبان عقل و خرد اور ان کے اعمال و اطوار و افکار کی وضاحت کرنا چاہتا ہے تو اس طرح سے فرماتا ہے: « الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» ؛ جو اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے پروردگار ! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے(سورہ آل عمران، آیت: ١٩١)۔
اسی طرح سےقرآن مجید کے متعدد مقامات پر جو « سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ»؛ اللہ ان لوگوں کے ہر بیان سے پاک ہے(سورہ صافات، آیت: 159؛ سورہ مومنون، آیت: 91)؛ «سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ»؛ آپ کا رب جو عزت کا مالک ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں(سورہ صافات، آیت: 180)؛ «سُبْحَانَ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ»؛ آسمانوں اور زمین کا رب، عرش کا رب، پاکیزہ ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کر رہے ہیں(سورہ زخرف، آیت: 82)؛ یا « سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ» ؛ اللہ اس شرک سے پاک ہے جو یہ کرتے ہیں(سورہ طور، آیت: 43؛ سورہ حشر، آیت: 23 اور سورہ قصص، آیت: 68) جیسے جملات کا استعمال ہوا ہے وہ اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اس کے لیے کسی طرح کے ضعف، عجز، محدودیت اور شرک جیسی چیزوں کا تصور نہ کیا جائے کیونکہ یہ ساری چیزیں اس کی شان ربوبیت کے خلاف ہے.
البتہ اسی قرآن مجید میں بعض معدود مقامات ایسے بھی ہیں جہاں پر خود خداوند عالم نے اپنی عظمت و بلندی کے اظہار اور نقائص و عیوب سے پاکیزگی کے اعلان کے لئے لفظ تسبیح اور کلمۂ سبحان کا استعمال کیا؛ جیسا کہ سورہ اسراء کی پہلی آیت میں ارشاد ہوا: «سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ» ؛ پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے(سورہ اسراء، آیت: ١)۔
تسبیح الہی کرنے والی چیزیں
ویسے تو خداوند عالم نے سورہ اسراء کی چوالیسویں آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ کائنات کی ہر شے پروردگار عالم کی تسبیح میں مشغول ہے؛ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس کی اس تسبیح کو درک کر پا رہے ہوں یا نہیں؛ ارشاد ہوتا ہے:«تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ»؛ اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو(سورہ اسراء، آیت: ٤٤)۔
اس آیت میں ان کی اس تسبیح سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں علمائے تفسیر کے درمیان ایک مفصل گفتگو اور بحث ہے جو اس مقالہ کی گنجائش سے باہر ہے؛ بعض نے اس تسبیح سے مراد ان کے فیض وجودی کو لیا ہے یعنی وہ ہر لحظہ اپنے وجود میں اپنے خالق کے محتاج ہونے کے ذریعہ خدا کی تسبیح میں مصروف ہیں؛ بعض نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی زبان حال کے ذریعہ سے یعنی اپنی نشو و نما، اپنے کمال کی سمت حرکت کرنے کے ذریعے، نظام احسن خلقت کی پیروی کرنے کے ذریعے سے تسبیح الہی میں مشغول ہیں لیکن بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں پر تسبیح سے مراد ظاہری تسبیح ہے یعنی زبان قال کے ذریعے سے وہ اللہ تعالی کی تسبیح کر رہی ہیں، اپنی ظاہری زبان سے، اپنی ظرفیت و صلاحیت اور شعور و ادراک کے ساتھ خدا کی تسبیح میں مصروف ہیں (اس سلسلے میں مزید اطلاعات اور دقیق معلومات کے لئے سورہ اسراء کی مذکورہ آیت کے ذیل میں تفسیر مجمع البیان، تفسیر المیزان، تفسیر نمونہ اور تفسیر کبیر فخررازی کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے)۔
یہ الگ بات ہے کہ ہم ان کی اس تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے یا سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جیسا کہ بعض روایات میں بھی بعض جانوروں یا پرندوں کے جملات اور ان کی بولی کو کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی کس طرح سے تسبیح میں مصروف رہتے ہیں اور کن جملات کے ذریعہ اسے پکارتے اور اسے یاد کرتے ہی۔
لیکن آیت مذکورہ کے علاوہ بعض دوسری آیتیں ایسی بھی ہیں جن میں کائنات کی بعض چیزوں کا صراحت کے ساتھ نام لے کر کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی تسبیح میں مشغول و مصروف ہیں؛ جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ملائکہ: ملائکہ کی تسبیح کا ذکر قرآن مجید کی متعدد آیات میں موجود ہے. جیسے: سورہ رعد کی مذکورہ بالا تیرہویں آیت میں بجلی کی گرج کے بعد ملائکہ کا ذکر ہے. یا ایک دوسری آیت میں اس طرح تذکرہ ہوا:
« وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ»؛ اور آپ فرشتوں کو عرش کے گرد حلقہ باندھے ہوئے اپنے رب کی ثنا کے ساتھ تسبیح کرتے ہوئے دیکھیں گے(سورہ زمر، آیت ۷۵)؛ اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہوا: « الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ»؛ جو فرشتے عرش الہٰی کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد معین ہیں سب حمد خدا کی تسبیح کررہے ہیں(سورہ غافر آیت ۷)۔ ان آیات کے علاوہ سورہ بقرہ کی تیسویں اور سورہ شوری کی پانچویں آیت میں بھی ان کے تسبیح الٰہی انجام دینے کا ذکر ہے۔
۲۔ ساتوں آسمان: ارشاد ہوتا ہے :
« تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا»؛ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو. پروردگار بہت برداشت کرنے والا اور درگذر کرنے والا ہے(سورہ اسراء، آیت ۴۴)۔
۳۔ زمین: سورہ اسراء کی مذکورہ بالا آیت میں ساتوں آسمان کے بعد زمین کے تسبیح کرنے کابھی تذکرہ ہے۔
۴۔ پہاڑ:
ارشاد ہوتا ہے:
« وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ» ؛ اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو داؤد کے لیے مسخر کیا جو ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور ایسا کرنے والے ہم ہی تھے(یا ہم ایسے کام کرتے ہی رہتے ہیں. سورہ انبیاء، آیت: ۷۹)۔
اسی طرح ارشاد ہوتا ہے:
«إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ»؛ ہم نے ان کے لئے پہاڑوں کو لَسّخر کردیا تھا کہ ان کے ساتھ صبح و شام تسبیح پروردگار کریں(سورہ ص، آیت: ۱۸)۔
۵۔ پرندے: سورہ انبیاء کی مذکورہ بالا آیت میں پہاڑوں کے بعد پرندوں کے تسبیح کرنے کا ذکر ہے۔
اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہےکہ:
«أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ»؛ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے لئے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اور فضا کے صف بستہ طائر سب تسبیح کررہے ہیں اور سب اپنی اپنی نماز اور تسبیح سے باخبر ہیں اور اللہ بھی ان کے اعمال سے خوب باخبر ہے(سوره نور: ۴۱)۔
۶۔ رعد (بجلی کی گرج): ارشاد ہوتا ہے:
« وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ»؛ اور (بجلی کی) گرج اس کی ثنا کے ساتھ اور فرشتے اس کے خوف سے لرزتے ہوئے تسبیح کرتے ہیں(سوره رعد، آیت: ۱۳)۔
۷۔ تمام موجودات و مخلوقات: سورہ اسراء کی مذکورہ بالا چوالیسویں آیت میں اور اسی طرح بعض مسبحات سوروں کی ابتدائی آیتیں جیسے سورہ جمعہ کی پہلی آیت یا سورہ نور کی مذکورہ بالا اکتالیسویں آیت میں اس بات کا ذکر آیا ہے۔ بس اس فرق کے ساتھ کہ سورہ جمعہ میں « يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ»آیا ہے سورہ نور میں « مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ» آیا ہے؛ گویا اس طرح سے یہ اعلان ہو گیا کہ ہر ذی شعور و غیر ذی شعور خدا کی تسبیح میں مصروف ہے۔اس لئے کہ عربی زبان میں عام طور پر حرف “ما” غیر ذی شعور کے لئے اور حرف “من” ذی شعور کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
حضرت فاطمہ زہراؑ اور تسبیح الہی
تسبیح الہی اور حضرت فاطمہ زہراؑکے درمیان ایک خاص تعلق اور ایک اہم رابطہ پایا جاتا ہے جس کی سب سے اہم دلیل خود تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ ہے جو خداوند عالم کی ایک خاص تسبیح اور اس کے ذکر کا ایک اہم وسیلہ اور ذریعہ ہے اور آپ ہی کے نام گرامی سے منسوب اور مشہور ہے؛ اس کی عظمت و اہمیت اور آثار و برکات پر بعد میں تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔
اس خاص تسبیح کے علاوہ خود آپ کی زندگی میں تسبیح اور ذکر الہی کا کردار و اہمیت، حتی قبل از خلقت، عالم انوار میں بھی آپ کا تسبیح و تہلیل و تحمید الٰہی میں مصروف و مشغول رہنا متعدد روایات میں وارد ہوا ہے:
خلقت عالم و آدم ؑسے پہلے آپؑ کی خلقت اور تسبیح
حضرت فاطمہ زہراؑکی نورانی خلقت اور اس زمانے میں آپ کی تسبیح و تہلیل کے سلسلے میں سدیر صیرفی، حضرت امام صادقؑ سے اور آپؑ اپنے والد بزرگوار حضرت امام باقرؑ اور وہ اپنے جد حضرت رسول خدا ؐسے نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول خدا ؐ نے ارشاد فرمایا:
«خُلِقَ نُورُ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ قَبْلَ أَنْ تُخْلَقَ اَلْأَرْضُ وَ اَلسَّمَاءُ فَقَالَ بَعْضُ اَلنَّاسِ يَا نَبِيَّ اَللَّهِ فَلَيْسَتْ هِيَ إِنْسِيَّةً فَقَالَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَاطِمَةُ حَوْرَاءُ إِنْسِيَّةٌ قَالَ يَا نَبِيَّ اَللَّهِ وَ كَيْفَ هِيَ حَوْرَاءُ إِنْسِيَّةٌ قَالَ خَلَقَهَا اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ نُورِهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ إِذْ كَانَتِ اَلْأَرْوَاحُ فَلَمَّا خَلَقَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ آدَمَ عُرِضَتْ عَلَی آدَمَ قِيلَ يَا نَبِيَّ اَللَّهِ وَ أَيْنَ كَانَتْ فَاطِمَةُ قَالَ كَانَتْ فِي حُقَّةٍ تَحْتَ سَاقِ اَلْعَرْشِ قَالُوا يَا نَبِيَّ اَللَّهِ فَمَا كَانَ طَعَامُهَا قَالَ اَلتَّسْبِيحُ وَ اَلتَّهْلِيلُ وَ اَلتَّحْمِيد»؛ حضرت فاطمہ زہراؑ کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے قبل خلق ہوا ہے؛ تو (یہ سن کر) بعض لوگوں نے سوال کر لیا: اے نبی خدا: کیا حضرت فاطمہ زہراؑ انسانوں میں سے نہیں ہیں(بشر نہیں ہیں)؟۔ تو آپ نے فرمایا: فاطمہ زہراؑ حور کی شکل میں ایک انسان (الحوراء الانسیہ) ہیں؛ پھر سوال ہوا: اے نبی خداؐ! وہ انسانی شکل میں ایک حور کیسے ہو سکتی ہیں؟ (وضاحت فرمائیں)۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے حضرت آدمؑ کی خلقت سے پہلے، اپنے نور سے فاطمہؑ کو خلق فرمایا اوریہ عالم ارواح کی بات ہے؛ اس کے بعد جب خداوندعالم نے حضرت آدمؑ کو خلق کیا اور ان کے سامنے حضرت فاطمہ زہراؑ کے نور کو پیش کیا۔ پھر سوال ہوا کہ اے نبی خداؐ! اس وقت فاطمہؑ کہاں تھیں(ان کا مقام اور ٹھہرنے کی جگہ کیا تھی)؟۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس وقت حضرت فاطمہ زہراؑ ساقہ عرش کے نیچے ایک مخصوص جگہ پر موجود تھیں۔ لوگوں نے پھر سوال کیا کہ اے نبی خداؐ! اس وقت فاطمہ کی غذا کیا تھی؟ آپ ؐنے ارشاد فرمایا:تسبیح و تہلیل و تحمید خدا، فاطمہؑ کی غذا تھی(شیخ صدوق، معاني الاخبار، ج ۱، ص ٣٩٦؛ سید هاشم بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ج۴، ص۳۳۷)۔
اس حدیث سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی خلقت ، حضرت آدمؑ کی تخلیق سے پہلے ہوئی ہے اور آپ ؑعالم انوار میں عرش الٰہی کے زیر سایہ تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتیں اور ذکر و تسبیح الٰہی سے تقویت حاصل کرتی تھیں۔ اس حدیث کے بعد والے جملات میں حضرت فاطمہ زہراؑ کی ولادت کے لئے مخصوص اہتمام اور آپؑ کے لقب “منصورہ” کی علت اور نام “فاطمہ” کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے۔
عالم انوار کی مخلوقات اور ملائکہ کو تسبیح کی تعلیم
جابر بن عبد اللہ انصاری سے منقول ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: «إِنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَنِي وَ عَلِيّاً وَ فَاطِمَةَ وَ اَلْحَسَنَ وَ اَلْحُسَيْنَ مِنْ نُورٍ فَعَصَرَ ذَلِكَ اَلنُّورَ عَصْرَةً فَخَرَجَ مِنْهَا شِيعَتُنَا فَسَبَّحْنَا فَسَبَّحُوا وَ قَدَّسْنَا فَقَدَّسُوا وَ هَلَّلْنَا فَهَلَّلُوا وَ مَجَّدْنَا فَمَجَّدُوا وَ وَحَّدْنَا فَوَحَّدُوا ثُمَّ خَلَقَ اَلسَّمَاوَاتِ وَ اَلْأَرَضِينَ وَ خَلَقَ اَلْمَلاَئِكَةَ فَمَكَثَتِ اَلْمَلاَئِكَةُ مِائَةَ عَامٍ لاَ تَعْرِفُ تَسْبِيحاً وَ لاَ تَقْدِيساً فَسَبَّحْنَا فَسَبَّحَتْ شِيعَتُنَا فَسَبَّحَتِ اَلْمَلاَئِكَةُ وَ كَذَلِكَ فِي اَلْبَوَاقِي»؛ بہ تحقیق خداوند عالم نے میرا، علیؑ کا، فاطمہؑ کا اور حسنؑ اورحسینؑ کا نور، ایک نور سے پیدا کیا پھر اس نور کو نچوڑا نچوڑنے کی طرح تو اس میں سے ہمارے شیعہ وجود میں آئے، لہذا ہم نے تسبیح الٰہی کی تو ہمارے شیعوں نے تسبیح الٰہی کی، ہم نے تقدیس الٰہی انجام دی تو ہمارے شیعوں نے تقدیس الٰہی انجام دی، ہم نے تہلیل و تمجید پروردگار کی تو ہمارے شیعوں نے تہلیل و تمجید پروردگار کی، ہم نے اس کی توحید و وحدانیت کا اقرار کیا تو ہمارے شیعوں نے بھی توحید و وحدانیت کا اقرار کیا، اس کے بعد خداوند عالم نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور پھر ملائکہ کو پیدا کیا ملائکہ ایسے ہی سو سال تک ٹھہرے رہے نہ ان کو تسبیح کرنا آتی تھی نہ تقدیس؛ جب ہم نے تسبیح کی اور ہمارے شیعوں نے تسبیح کی تو پھر اس کے بعد ملائکہ نے تسبیح کی، اسی طرح سے دوسرے امور بھی انجام دیئے، یعنی ہماری اور ہمارے شیعوں کی تقدیس و تہلیل و تمجید اور توحید کے اقرار کے بعد فرشتوں نے بھی ان چیزوں کا اقرار و اظہار کیا(علی بن عیسی اربلی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج۱، ص ۴۵۸)۔
اس حدیث میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ عالم انوار اور عالم ارواح میں شیعوں کی تسبیح کو، محمدؐ و آل محمدؑکی ذوات مقدسہ کے طفیل اور ان کی خاص تعلیمات کے سبب، ملائکہ کی تسبیح پر مقدم کیا گیا اور ایک خاص طرح کی برتری و تفوق عطا کیا گیا ہے۔
اس حدیث کو حسن بن سلیمان حلی نے بھی اپنی کتاب المحتضر میں صفحہ ٢٠٢ پر نقل کیا ہے اور اسی طرح علامہ مجلسی نے بھی اپنی کتاب بحار الانوار کی جلد ۳۷ میں صفحہ ۸۰ پر مذکورہ کتاب کشف الغمة فی معرفة الائمة سے نقل کیا ہے ۔
البتہ اس روایت کے علاوہ دوسری بہت سی روایات ایسی ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ انوار محمدؐ و آل محمدؑنے مستقیم و بلا واسطہ فرشتوں کو تسبیح و تہلیل و تقدیس الٰہی کی تعلیم عطا فرمائی، اگر انوار محمدؐ و آل محمدؑکی یہ تعلیم نہ ہوتی تو فرشتوں کو بالکل معلوم نہ ہوتا کہ خدا کی تسبیح و تہلیل و تقدیس کیا ہوتی ہے اور کس طرح سے انجام دی جاتی ہے؟۔
البتہ اس مضمون اور مفہوم کی اکثر روایات میں شیعہ کا لفظ موجود نہیں ہے(شیخ مفید، الاختصاص، ج۱، ص ۹۱۔شیخ صدوق، علل الشرائع، ج۱، ص ۵۔ شیخ هاشم بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ج۴، ص ۶۳۵ ۔ مدینۃ معاجز الأئمة الإثنی عشر و دلائل الحجج علی البشر، ج ۲، ص ۳۷۱۔ حسن بن سلیمان حلی، المحتضر، ج۱، ص ۷۹ و ۲۸۶)۔
بہرحال لفظ شیعہ کے درمیان میں ہونے یا نہ ہونے سے عظمت اہل بیتؑ میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ ان کی شان و منزلت میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں ہے اور اگر لفظ شیعہ کو درمیان میں مان بھی لیا جائے اور یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پہلے اہل بیت پھر شیعہ اور اس کے بعد فرشتوں نے تسبیح کی تو اس سے صرف یہی نہیں کہ اہل بیت کی عظمت پرکوئی حرف نہیں آئے گا بلکہ ان کی عظمت اور دوبالا ہو جائے گی کہ ان کے ماننے والوں کا، ان کے شیعوں کا یہ عالم ہے کہ ان کے توسط سے فرشتوں نے تسبیح و تقدیس الٰہی سیکھی تو پھر خود ان اہل بیت کا عالم کیا ہوگا، خود ان کی منزلت کیا ہوگی؛ اور خاص کر یہاں پر ان شیعوں کا تذکرہ ہو رہا ہے جو انوار اہل بیتؑ سے وجود میں آئے ہیں، کسی عام فرد یا کسی معمولی انسان کا تذکرہ نہیں ہو رہا ہے۔
آخر امر میں یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ یہ سب عالم انوار کی باتیں ہیں، ان کے اہل ان کو اچھی طرح سے جانتے ہیں؛ نہ ہمارے اوپر وہاں کی حقیقت روشن ہے اور نہ ہی اس کی حقیقت کو ہم کما حقہ سمجھ سکتے ہیں۔
تسبیح فاطمہ زہراؑ کی علت تشریع اور سبب ورود
شیخ صدوق اپنی کتاب علل الشرائع میں ایک طولانی روایت کے ذریعے، تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ کے ورود اور اس کی علت تشریع کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علیؑ نے بنی اسد کے ایک شخص سے بیان فرمایا: کیا میں تم کو اپنے اور فاطمہؑ کے بارے میں ایک خاص خبر سے آگاہ نہ کروں؟!۔
حضرت فاطمہ زہراؑ میرے گھر میں رسول خداؐ کی سب سے زیادہ عزیز تھیں، آپ نے اتنی زیادہ چکی چلائی کہ آپ کے ہاتھوں پر گٹا پڑ گیا تھا، کنویں سے اس قدر پانی نکالا کہ اس کا اثر آپ کے بدن پر نمایاں ہو گیا تھا اور آپ گھر میں اس قدر صفائی کرتی تھیں کہ آپ کے کپڑے خاک آلود ہو جاتے تھے، آپ چولہا جلا کر کھانا پکاتی تھیں لہذا آپ کے لباس گرد آلود نظر آتے تھے، آپ گھر اور گھر والوں کے لئے نہایت زحمت اور مشقت اٹھاتی تھیں؛ لہذا جب میں نے ایک دن یہ سنا کہ حضرت رسول خدا ؐ کے پاس کچھ غلام اور کنیز لائے گئے ہیں تو فاطمہؑ سے کہا کہ اب کی بار جب اپنے باباؐ کی خدمت میں جانا اور اگر ممکن ہوسکے تو ایک خادم کا تقاضا کرنا تاکہ وہ تمہارے کاموں میں تمہاری مدد کر سکے اور آپ کو اتنی زیادہ زحمت و مشقت سے کچھ حد تک آرام مل جائے؛ چنانچہ ایک دن جناب فاطمہ زہراؑ ، رسول خدا ؐ کے پاس گئیں اور دیکھا کہ کچھ لوگ آپ کے ساتھ بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں اس لئے شرم و حیا کی وجہ سے اپنے بابا سے کچھ بھی کہے بغیر واپس لوٹ آئیں۔
حضرت علیؑ فرماتے ہیں چونکہ رسول خداؐ یہ جان گئے تھے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کسی ضرورت کے تحت آپ کے پاس آئی تھیں اور واپس چلی گئی ہیں لہذا آپ خود ہمارے گھر تشریف لائے؛ اس وقت ہم آرام کر رہے تھے آپ حضرت فاطمہ زہرا ؑکے سرہانے بیٹھ گئے اور فاطمہ ؑنے شرم و حیا کی وجہ سے آپ سے کچھ عرض نہ کی۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: اے میری عزیز فاطمہؑ! آپ کس مقصد سے میرے پاس آئی تھیں؟۔ آپ نے دوبار یہ سوال دہرایا لیکن حضرت فاطمہؑ خاموش رہیں۔ حضرت علیؑ فرماتے ہیں: میں نے خود رسول اللہؐ کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہؐ! میں آپ سے اس کی وجہ بیان کرتا ہوں، یہ کہہ کر حضرت فاطمہ زہراؑ کی ان تمام مشقتوں اور زحمتوں کا تذکرہ کیا جو آپ اپنے گھر اور گھر والوں کے لئے انجام دیتی تھیں اور پھر عرض کیا کہ میں نے ہی ان سے کہا تھا کہ وہ آپ کی خدمت میں جائیں اور ایک خادم اور نوکر کا آپ سے مطالبہ کرلے، جو ہماری مدد کر سکے تو رسول خدا حضرت محمد مصطفی ؐ نے ارشاد فرمایا: (کیا میں) تمہیں ایک ایسی چیز بتاؤں جو تمہارے لئے اس خادم اور نوکر سے جس کا تم مطالبہ کر رہے ہو کئی درجے بہتر ہو. (یاد رکھو) جب بھی نیند سے اٹھنے لگو (بعض روایات میں ہے کہ جب بھی بستر پر جانے لگو) تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہو۔ یہ اس خادم و نوکر سے (کئی درجہ) بہتر ہے جو تمہاری خدمت کرے۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ زہراؑ نے فرط مسرت سے تین مرتبہ اپنی زبان پہ جملہ جاری کیا:
“میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے (ہر امر میں) راضی ہوں، میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے (ہر امر میں) راضی ہوں، میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے (ہر امر میں) اپنی رضایت کا اعلان کرتی ہوں”۔
(شیخ صدوق، علل الشرائع، ج٢، ص ٣٦٦)۔
روایت کے طولانی ہونے مد نظر اس کے عربی متن کو ذکر نہیں کیا گیا۔
علل الشرائع کی اس اہم روایت کے بارے میں کچھ اہم باتوں کا تذکرہ کردینا بھی ضروری ہے:
پہلی بات یہ کہ اس روایت کے اندر کیفیت تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ کے سلسلے میں مختصر سا فرق پایا جاتا ہے وہ یہ کہ اذکار تسبیح میں ترتیب برعکس ہے یعنی پہلے تسبیح (سبحان اللہ) پھر تحمید (الحمد للہ) اور آخر میں تکبیر (اللہ اکبر) کا ذکر ہے جبکہ تعداد اذکار میں کوئی فرق نہیں ہے؛ صرف تسبیح مقدم، تکبیر مؤخر (اور تحمید وسط میں اپنی جگہ پر موجود) ہے؛ جو شیعوں کے مشہور طریقۂ تسبیح (پہلے تکبیر پھر تحمید اور آخر میں تسبیح کی روش) کے خلاف ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کس ترتیب کو مانا جائے اور تسبیح کے کس طریقہ پر عمل کیا جائے؟
اس سوال کے مختلف جوابات دیئے جا سکتے ہیں جن میں سب سے پہلا جواب یہ ہے کہ جس طرح سے اس روایت میں صراحت کے ساتھ ذکر ہوا کہ جب سونے کا ارادہ کرو، جب بستر پہ جانے لگو، تو سوتے وقت ایسے تسبیح پڑھو؛ تو یہ تسبیح سوتے وقت سے مخصوص ہے نہ یہ کہ ہر وقت اور ہر زمانہ میں ایسے ہی تسبیح پڑھی جائے گی۔
دوسرا جواب یہ کہ شیخ صدوق نے یہاں پر اہل سنت کی سند اور ان کے طریق سے اس روایت کو نقل کیا ہے یعنی ان کے رجال سند پر بھروسہ کیا ہے ایسی صورت میں اگر اذکار تسبیح جا بجا ہو جائیں تو مشہور شیعہ روش پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ خود شیخ صدوق نے ہی اپنی ایک اور اہم کتاب “من لا یحضره الفقیه” جس کا شمار شیعوں کی کتب اربعہ میں ہوتا ہے اس میں جب اس واقعہ (جناب فاطمہ زہراؑ کے خادم طلب کرنے اور رسول خدا ؐ کے تسبیح کی تعلیم دینے کے واقعہ) کو نقل کیا ہے تو وہاں پر مشہور شیعہ ترتیب اور روش کو ہی مد نظر قرار دیا ہے(شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج١ ص ٣٢٠-٣٢١)؛ گرچہ انہوں نے اس روایت کو مرفوعاً نقل کیا ہے۔
تیسرا جواب یہ کہ اس واقعہ سے صرف نظر کرتے ہوئے جو شیخ صدوق نے اہل سنت کے طریق سے نقل کیا، خود شیعہ منابع حدیثی میں بالخصوص قدیمی منابع میں بعض بلکہ متعدد ایسی احادیث موجود ہیں جن میں تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ کی کیفیت اور روش کا صراحت کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے، جس کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے؛ ان میں سے تین اہم روایات کا تذکرہ بعد میں، تسبیح فاطمہ زہراؑ کی کیفیت اور صحیح طریقہ کہ عنوان کے ذیل میں کیا جائے گا۔
چوتھا جواب یہ ہے کہ دیگر احتمالات بھی اس سلسلے میں دیئے گئے ہیں جیسا کہ شیخ حر عاملی نے میں اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں بھی شیخ صدوق کی علل الشرائع والی روایت کے سلسلے میں نسخ اور تقیہ جیسے احتمال بھی دیئے ہیں اور آخر میں ایک اس احتمال کا بھی اضافہ کیا ہے کہ یہ روایت زیادہ سے زیادہ مذکورہ ترتیب کے جواز کی طرف اشارہ کرتی ہے، وجوب کی طرف نہیں(شیخ حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، ج٦، ص ٤٤٦)۔ انہوں نے اپنی اسی کتاب میں حضرت فاطمہ زہراؑ کی تسبیح کی کیفیت، کمیت اور ترتیب کے سلسلے میں ایک مستقل باب قرار دیا ہے جس میں روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد مشہور طریقہ تسبیح کو ہی «علیه عمل الطائفة» کہا ہے یعنی یہی شیعوں کا طریقہ تسبیح ہے(شیخ حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، ج٦، ص ٤٤٥).
تسبیح فاطمہ زہراؑ کی کیفیت اور صحیح طریقہ
تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ کی کیفیت اور اس کے صحیح طریقہ کو بیان کرنے کے لئے یہاں تین اہم روایات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے، جن کو قدیم شیعہ علماء نے اپنی اہم ترین حدیثی کتابوں میں جگہ دی ہے اور اپنی اسناد کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا ہے:
پہلی روایت
شیخ کلینی اپنی سند کے ساتھ محمد ابن عذافر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: «دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(ع)- فَسَأَلَهُ أَبِي عَنْ تَسْبِيحِ فَاطِمَةَ(ع)- فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ حَتَّى أَحْصَى أَرْبَعاً وَ ثَلَاثِينَ مَرَّةً ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَتَّى بَلَغَ سَبْعاً وَ سِتِّينَ ثُمَّ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ حَتَّى بَلَغَ مِائَةً يُحْصِيهَا بِيَدِهِ جُمْلَةً وَاحِدَةً»؛ “میں اپنے والد گرامی کے ساتھ حضرت امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے والد نے امام سے تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے ۳۴ مرتبہ شمار کرکے “اللہ اکبر” کہا پھر اس کے بعد اتنی مرتبہ “الحمدللہ” کہا کہ ۶۷ کی عدد مکمل ہوگئی (یعنی ۳۳مرتبہ)؛ پھر اس کے بعد اتنی مرتبہ “سبحان اللہ” کہا کہ ۱۰۰ کی عدد مکمل ہو گئی (یعنی ۳۳مرتبہ)؛ اس کو آپ اپنی انگلیوں پہ شمار کرتے جارہے تھے اور یہ سارے اذکار آپ نے ایک دفعہ میں بغیر کسی فاصلے اور توقف کے انجام دیئے”(شیخ کلینی، الکافی، ج۳، ص ۳۴۲؛ شیخ طوسی، تهذیب الاحکام، ج۲، ص ۱۰۵ـ۱۰۶)۔
یاد رہےکہ احمد ابن محمد ابن خالد برقی نے اپنی کتاب محاسن میں جو ان دونوں(شیخ کلینی اور شیخ طوسی کی کتابوں) سے بھی قدیم کتاب ہے، اس میں اسی روایت کو ایک الگ سند کے ساتھ ذکر کیا ہے(مراجعہ کریں: احمد ابن محمد ابن خالد برقی، المحاسن، ج۱، ص ۳۶)۔
دوسری روایت
مرحوم کلینی نے اپنی سند کے ساتھ ابو بصیر سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جس میں آیا ہے کہ:
« قَالَ (ع) فِي تَسْبِيحِ فَاطِمَةَ ص يُبْدَأُ بِالتَّكْبِيرِ أَرْبَعاً وَ ثَلَاثِينَ ثُمَّ التَّحْمِيدِ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ ثُمَّ التَّسْبِيحِ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ»؛ حضرت امام صادق ؑ نے تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ کے سلسلے میں اس طرح سے ارشاد فرمایا: یہ تسبیح ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے اس کے بعد ۳۳ مرتبہ الحمدللہ ہے اور اس کے بعد (آخر میں) ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ہے(شیخ کلینی، الکافی، ج۳، ص۳۴۲)۔اسی روایت کو شیخ طوسی نے بھی اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں جلد ۲ صفحہ ۱۰۶ پر نقل کیا ہے۔
تیسری روایت
شیخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں ماہ مبارک رمضان کے مستحب اعمال اور مستحب نمازوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک حدیث میں ماہ رمضان کی مخصوص مستحبی نماز کے سلام پڑھنے کے بعد تسبیح فاطمہ زہرا پڑھنے کی سفارش فرمائی اور اس کے بعد پھر خود آپ نے اس تسبیح فاطمہؑ کو پڑھنے کا طریقہ بیان کیا ہے ۔ روایت کا متن اس طرح سے ہےکہ:
« فَإِذَا سَلَّمْتَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ سَبِّحْ تَسْبِيحَ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ ع وَ هُوَ اللَّهُ أَكْبَرُ أَرْبَعاً وَ ثَلَاثِينَ مَرَّةً وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ مَرَّةً وَ سُبْحَانَ اللَّهِ ثَلَاثاً وَ ثَلَاثِينَ مَرَّةً فَوَ اللَّهِ لَوْ كَانَ شَيْئاً أَفْضَلُ مِنْهُ لَعَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص إِيَّاهَا»؛ “جب دونوں رکعت مکمل کرلو اور سلام پڑھ لو تو تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ پڑھو! جو ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر، ۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ہے؛ خدا کی قسم! اگر اس تسبیح سے برتر اور افضل کوئی اور چیز ہوتی تو رسول خداؐ حتماً حضرت فاطمہ زہراؑ کو حتما اسی چیز کی تعلیم فرماتے”(شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ج۳، ص ۶۷)۔
مذکورہ تینوں روایتوں سے تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ پڑھنے کا صحیح طریقہ اور اذکار کی ترتیب بخوبی واضح اور روشن ہو جاتی ہے۔اور وہ طریقے جو آج تسبیح کے سلسلے میں ہمارے درمیان رائج ہے، اس کی اہم علت بھی یہی حدیثیں یا اس طرح کی احادیث ہی ہیں۔
تسبیح فاطمہ زہراؑ کے اہم آثار و برکات
احادیث معصومینؑ میں تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ کے بہت زیادہ آثار و برکات اور فائدے بیان کئے گئے ہیں؛ جن میں سے چند اہم چیزوں کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے:
۱۔ حسن عاقبت کی ضمانت
حضرت امام صادقؑ نے ابو ہارون مکفوف سے ارشاد فرمایا:
«یَا أَبَا هَارُونَ إِنَّا نَأْمُرُ صِبْيَانَنَا بِتَسْبِيحِ الزَّهْرَاءِ(ع) كَمَا نَأْمُرُهُمْ بِالصَّلَاةِ فَالْزَمْهُ فَإِنَّهُ لَمْ يَلْزَمْهُ عَبْدٌ فَيَشْقَى»؛”اے ابو ہارون! جس طرح سے ہم اپنے بچوں کو نماز کا حکم دیتے ہیں اسی طرح سے ان کو تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ کا بھی حکم دیتے ہیں اور اس پر مداومت رکھو، اسے مسلسل پڑھتے رہو (اسے ترک نہ کرنا) اس لئے کہ اسے مسلسل پڑھنے والا کبھی شقی اور بدبخت نہیں ہو سکتا”۔ (شیخ کلینی، الکافی، ج۳، ص۳۴۳۔شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص: ۱۶۳)۔
۲۔ ہزار رکعت نماز سے بہتر
حضرت امام صادقؑ فرماتے ہیں:«تَسْبِيحُ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ (ع) فِي كُلِّ يَوْمٍ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ صَلَاةِ أَلْفِ رَكْعَةٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ»؛ “روزانہ ہر نماز کے بعد حضرت فاطمہ زہراؑ کی پڑھنا، میرے نزدیک روزانہ ہزار رکعت نماز پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے”۔ (شیخ کلینی، الکافی، ج۳، ص ۳۴۳۔ شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص:۱۶۳)۔
۳۔بہترین وسیلۂ استغفار
محمد ابن مسلم کی روایت ہے کہ امام باقر ؑ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ سَبَّحَ تَسْبِيحَ الزَّهْرَاءِ ع ثُمَّ اسْتَغْفَرَ غُفِرَ لَهُ»؛ “جو شخص تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ پڑھے اور اس کے بعد استغفار کرے تو اللہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے”(شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص ۱۶۳)۔
۴۔ سنگینی میزان کا سبب
اسی حدیث مذکور بالا میں امام کا ایک جملہ ہے:
«هِيَ مِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَ أَلْفٌ فِي الْمِيزَانِ»؛ “یہ تسبیح زبان پر سو (عدد) لیکن میزان میں ہزار (حساب) ہوتی ہے”(شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص ۱۶۳)۔ یعنی دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ بولنے میں سو لیکن تولنے میں ہزار ہوتی ہے۔
۵۔ دوری شیطان اور قرب رحمان کا ذریعہ
اسی حدیث مذکور بالا میں امام نے ارشاد فرمایا:
«وَ تَطْرُدُ الشَّيْطَانَ وَ تُرْضِي الرَّحْمَنَ»؛ “اور اس تسبیح کے ذریعے سے شیطان دور ہوتا ہے اور رحمان راضی ہوتا ہے”(شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص ۱۶۳)۔
۶۔ گناہوں کی بخشش کا ذریعہ
حضرت امام صادقؑ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
«مَنْ سَبَّحَ تَسْبِيحَ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ ع قَبْلَ أَنْ يَثْنِيَ رِجْلَيْهِ مِنْ صَلَاةِ الْفَرِيضَةِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ وَ لْيَبْدَأْ بِالتَّكْبِيرِ»؛” جو شخص بھی نماز واجب کے بعد اپنا پیر سمیٹنے سے پہلے (یعنی نماز کی حالت سے پلٹنے، تشہد و رو بہ قبلہ کی حالت سے خارج ہونے سے پہلے) تسبیح فاطمہ زہراؑ پڑھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے؛ اور انسان کو چاہئے کہ تسبیح فاطمہؑ کی شروعات تکبیر سے کرے”(شیخ کلینی، الکافی، ج۳، ص ۳۴۲)۔
اس روایت کے آخر میں جو جملہ وارد ہوا ہے: «وَ لْيَبْدَأْ بِالتَّكْبِيرِ»؛ وہ کیفیت و ترتیب اذکار تسبیح فاطمہ زہراؑ کی طرف اشارہ ہے لہذا گذشتہ بیان میں ذکر ہونے والی تین اہم روایتوں کی طرح ، یہ روایت بھی تسبیح فاطمہ زہراؑ کے تکبیر سے شروع ہونے پر ایک بہترین شاہد ہے۔
تسبیح فاطمہ زہراؑ کے ذریعہ گناہوں کی بخشش کے سلسلے میں ایک دوسری حدیث میں حضرت امام صادقؑ سے منقول ہے کہ:
«مَنْ سَبَّحَ اللَّهَ فِي دُبُرِ الْفَرِيضَةِ تَسْبِيحَ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ ع الْمِائَةَ مَرَّةٍ وَ أَتْبَعَهَا بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ»؛” جو شخص اپنی واجب نماز کے بعد تسبیح فاطمہ زہراؑ جو کہ سو (۱۰۰) عدد (اذکار) پر مشتمل ہے، پڑھے؛ اور اس کے بعد بلا فاصلہ، لا الہ الا اللہ کہے تو خداوند عالم اس کو بخش دیتا ہے”(شیخ کلینی، الکافی، ج۳،ص۳۴۲)۔
۷۔ حمد و عبادت الٰہی کا بہترین ذریعہ
حضرت امام صادقؑ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
«مَا عُبِدَ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ التَّحْمِيدِ أَفْضَلَ مِنْ تَسْبِيحِ فَاطِمَةَ (ع)»؛ “تسبیح فاطمہ زہراؑ سے بہتر کسی اور طریقے سے اللہ کی حمد و عبادت نہیں کی گئی”(شیخ کلینی، الکافی، ج۳، ص ۳۴۲)۔
۸۔بہترین ہدیۂ الٰہی
اسی حدیث مذکور کے ذیل میں امام نے فرمایا:
«وَ لَوْ كَانَ شَيْءٌ أَفْضَلَ مِنْهُ لَنَحَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص فَاطِمَةَ (ع)»؛ “اگر کوئی چیز اس تسبیح سے افضل اور بہتر ہوتی تو حتما رسول خدا ؐ اسی چیز کو جناب فاطمہ زہراؑ کو ہدیہ کے طور پہ عطا فرماتے”(شیخ کلینی، الکافی، ج۳، ص ۳۴۲)۔
۹۔ ذکر کثیر کا مصداق
زراره بن اعین نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے ارشاد فرمایا:
«تَسْبِيحُ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ ع- مِنَ الذِّكْرِ الْكَثِيرِ الَّذِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ- اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْراً كَثِيراً»؛ “قرآن مجید میں جو خداوند عالم نے حکم دیا ہے: “اللہ کا زیادہ سے زیادہ ذکر کیا کرو، اس کا ذکر کثیر کیا کرو” توتسبیح فاطمہ زہراؑ ہی ذکر کثیر ہے”(شیخ کلینی، الکافی، ج۲ ص ۵۰۰)۔
احادیث معصومینؑ میں ذکر کثیر کرنے کے بہت سے فائدے بیان کئے گئے ہیں؛ جن میں سے بعض آثار و فوائد کے سلسلے میں چند روایات مندرجہ پیش کی جارہی ہیں:
حضرت امام صادقؑ، رسول خدا ؐ سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ ؐنے فرمایا: «مَنْ أَكْثَرَ ذِكْرَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَحَبَّهُ اللَّهُ وَ مَنْ ذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَتَانِ بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَ بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ»؛ “خدا کا زیادہ ذکر کرنے والا، خدا کا محبوب ہو جاتا ہے؛ جو خدا کو زیادہ یاد کرتا ہے وہ ہمیشہ دو چیز سے دور رہتا ہے ایک جہنم کی آگ اور دوسرے نفاق سے”(شیخ کلینی، الکافی، ج۲، ص۵۰۰)۔
اسی طرح حضرت امام صادقؑ نے فرمایا:«شِيعَتُنَا الَّذِينَ إِذَا خَلَوْا ذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيراً»؛ “ہمارے شیعہ ہی وہ ہیں جو خلوت کے وقت خدا کا زیادہ ذکر کرتے ہیں” (اپنی خلوتوں میں خدا کو زیادہ یاد کرتے ہیں)۔(شیخ کلینی، الکافی، ج۲، ص ۵۰۰)۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا: «مَنْ أَكْثَرَ ذِكْرَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي جَنَّتِهِ»؛ “جو خدا کا زیادہ ذکر کرے گا، وہ جنت میں خدا کے (فضل و کرم و رحمت کے) خاص سایہ میں رہے گا”۔ (شیخ کلینی، الکافی، ج۲، ص ۵۰۰)۔
اس کے علاوه شیخ کلینی نے کتاب الکافی میں پورا ایک باب اسی عنوان سے قائم کیا ہے:«بَابُ أَنَّ الصَّاعِقَةَ لَا تُصِيبُ ذَاكِراً»؛ خدا کا ذکر کرنے والے پر صاعقہ اور بجلی کبھی بھی نہیں گر سکتی؛ انہوں نے اس باب میں متعدد حدیثیں اس سلسلے میں ذکر کی ہیں؛ جن میں سے حضرت امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث اس طرح آئی ہے کہ: «يَمُوتُ الْمُؤْمِنُ بِكُلِّ مِيتَةٍ إِلَّا الصَّاعِقَةَ- لَا تَأْخُذُهُ وَ هُوَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ»؛ “مومن ہر طرح کی موت سے مر سکتا ہے سوائے بجلی (کی موت) کے؛ جب وہ اللہ کے ذکر کی حالت میں ہو تو اس پر بجلی آ ہی نہیں سکتی”( یعنی اس پر بجلی اثر ہی نہیں کر سکتی)۔(شیخ کلینی، الکافی، ج۲، ص۵۰۰)۔
10- دنیا کی بہترین شیٔ
حضرت امام صادقؑ نے ارشاد فرمایا:
«فَوَ اللَّهِ لَوْ كَانَ شَيْئاً أَفْضَلُ مِنْهُ لَعَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص إِيَّاهَا»؛ “خدا کی قسم! اگر اس تسبیح سے برتر اور افضل کوئی اور چیز ہوتی تو رسول خدا ؐ یقیناً اسی چیز کی تعلیم حضرت فاطمہ زہراؑکو دیتے”(شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ج۳، ص ۶۷)۔
اس روایت کا ذکر تسبیح فاطمہ زہراؑ کی کیفیت اور صحیح طریقہ کے حوالے سے مختصر وضاحت کے ساتھ گذر چکا ہے۔
11۔ ذاکرین کے زمرہ میں شمار
حضرت امام صادقؑ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ باتَ عَلى تَسْبِیحِ فاطِمَةَعلیهاالسلام کانَ مِنَ -الذَّاکرِینَ اللَّهَ کثِیراً وَالذَّاکراتِ»؛”جو مرد یا عورت تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ پڑھ کر سوئے، ان کا شمار خدا کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے مردوں اور اس کا بہت زیادہ ذکر کرنے والی عورتوں میں ہوگا”(فضل بن حسن طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج۸، ص ۵۶۱)۔
12- جسمانی بیماریوں کا علاج
تسبیح فاطمہ زہراؑ جس طرح انسان کی بہت سی روحانی اور باطنی بیماریوں کا علاج ہے؛ اسی طرح بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تسبیح انسان کی بہت سی جسمانی اور ظاہری بیماریوں کے علاج میں بھی موثرہے؛ جیسا کہ ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ ایک شخص کو کان میں سنگینی کی شکایت تھی(یعنی اسے اونچا سننے کی بیماری تھی)؛ ایک مرتبہ وہ امام صادقؑ کی خدمت میں آیا، امام نے اس سے کچھ باتیں کہیں جسے وہ کامل طور پہ سن نہیں پایا اور اس کے بعد وہ اپنی اس بیماری کے بارے میں امام سے شکایت کرنے لگا، جس کے بعد امام صادقؑ نے اس سے ارشاد فرمایا:
«مَا يَمْنَعُكَ وَ أَيْنَ أَنْتَ مِنْ تَسْبِيحِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ»؛” کس چیز نے تم کو تسبیح فاطمہ زہراؑ سے روک رکھا ہے؟(تم تسبیح فاطمہ زہراؑ کیوں نہیں پڑھتے؟)۔
اس نے عرض کیا: میں قربان جاؤں آپ پر! تسبیح فاطمہ زہراؑ کیا ہے؟(اور کس طرح پڑھی جاتی ہے؟)۔
امام نے اس سے ارشاد فرمایا:
«تُكَبِّرُ اَللَّهَ أَرْبَعاً وَ ثَلاَثِينَ وَ تُحَمِّدُ اَللَّهَ ثَلاَثاً وَ ثَلاَثِينَ وَ تُسَبِّحُ اَللَّهَ ثَلاَثاً وَ ثَلاَثِينَ تَمَامَ اَلْمِائَةِ»؛ ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر، ۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ؛ اس طرح سے کہ ۱۰۰ کی عدد پوری ہو جائے۔
وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے اس عمل کو ابھی کچھ ہی مدت انجام دیا تھا کہ جس مشکل (اور کان کی بیماری) میں مبتلا تھا، وہ بر طرف ہو گئی اور میں شفایاب ہوگیا(علی بن حسن بن فضل طبرسی، مشکاة الأنوار في غرر الأخبار، ج۱، ص ۲۷۸)۔
اس واقعہ اور اس روایت کو علامہ مجلسی نے بحار الانوار (جلد٨٢، صفحہ ٣٣٤) اور عبداللہ بحرانی اصفہانی نے عوالم العلوم (جلد١١ صفحہ ٢٩٠) اور محدث نوری نے اپنی کتاب مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل (جلد ۵، صفحہ ۳۷) میں، اسی کتاب “مشکاۃ الانوار” کے حوالے کے ساتھ نقل کیا ہے۔
13- جان و مال کی حفاظت
امام صادقؑ خود اس واقعہ کے ناقل ہیں کہ دو بھائی رسول خدا ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہم دونوں تجارت کی غرض سے شام جانے کا ارادہ رکھتے ہیں آپ ہم دونوں کو کچھ تعلیم فرمائیے. آپ ؐنے فرمایا:
«نَعَمْ، إِذَا أَوَيْتُمَا إِلَى الْمَنْزِلِ فَصَلِّيَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، فَإِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمَا جَنْبَهُ عَلَى فِرَاشِهِ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَلْيُسَبِّحْ تَسْبِيحَ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ(س)، ثُمَّ الْيَقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ، فَإِنَّهُ مَحْفُوظٌ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى يُصْبِحَ» ؛”ٹھیک ہے جس جگہ پر تمہارا قیام ہے جب وہاں پلٹ کر واپس آؤ اور نماز عشاء سے فارغ ہو جاؤ اور سونے کا ارادہ کرو تو تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ پڑھو اور اس کے بعد آیت الکرسی کی تلاوت کرو؛ اگر (رات میں) یہ عمل انجام دے کر سوئے تو صبح تک تم لوگ ہر شے سے حفظ و امان میں رہوگے”۔
اس کے بعد امامؑ فرماتے ہیں کہ: “جب وہ دونوں شام پہنچے تو کچھ چوروں نے ان کا تعاقب کیا اور جب انہوں نے وہاں ایک منزل پر قیام کیا تو ان چوروں نے کسی کو جاسوسی کے لئے ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ یہ پتہ لگائے کہ وہ دونوں کس حالت میں ہیں، جاگ رہے ہیں یا سو رہے ہیں اور اس کے بعد انہیں باخبر کرے؛ وہ شخص آیا جبکہ وہ دونوں رسول خدا ؐ کے دستور کے مطابق تسبیح فاطمہؑ اور آیت الکرسی پڑھ کے بستر پہ سوئے تھے؛ وہ جاسوس جب ان دونوں بھائیوں کی سمت آیا تو اسے سوائے دو مضبوط دیواروں کے کچھ نظر نہیں آیا، کئی مرتبہ اس نے ان دیواروں کے آس پاس چکر لگایا لیکن اسے وہاں پر کوئی بھی شخص دکھائی نہیں دیا. پھر جب وہ پلٹ کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور تفصیل بتائی تو انہیں یقین نہیں آیا، اسے جھٹلانے اور برا بھلا کہنے لگے؛ کہنے لگے کہ خدا تجھے ذلیل کرے! تو جھوٹ بول رہا ہے بلکہ تو بزدل ہے تو ان دونوں سے ڈر گیا ہے اور اس کے بعد وہ سب خود ان دونوں بھائیوں کی طرف گئے اور انہوں نے بھی بہت دقت اور غور سے ادھر ادھر دیکھا مگر انہیں بھی سوائے ان دیواروں کے کچھ اور نظر نہ آیا، نہ کوئی انسان دکھائی دیا اور نہ کسی کی آواز سنائی دی. جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو چلے گئے جب صبح ہوئی تو وہ سب ان دونوں کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ کل رات تم لوگ کہاں ٹھہرے تھے کدھر سوئے تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو یہیں پہ تھے اور یہاں سے باہر تک نہیں نکلے۔ ان لوگوں نے کہا خدا کی قسم! کل ہم لوگ یہاں آئے تھے مگر دیواروں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ اب ہمیں بتاؤ کہ یہ پورا ماجرا کیا ہے،جس کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنی پوری داستان بتائی کہ ہم اس سفر پر آنے سے پہلے رسول اللہؐ کی خدمت میں گئے تھے آنحضرتؐ نے ہم کو سونے سے پہلے آیت الکرسی اور تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ پڑھنے کی سفارش فرمائی جس کے توسط سے(آج) ہماری جان و مال کی حفاظت ہوئی”۔(احمد بن محمد بن خالد برقی، المحاسن، ج۲، ص۳۶۸)۔
مذکورہ مطالب کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ تسبیح حضرت فاطمہ ؑ ایک بہترین عمل ہے اور پروردگارمتعال کے ذکر کثیر کا کامل مصداق ہے۔ اور اس تسبیح کے سلسلے میں رسول خداؐ اور تمام معصومین ؑ نے اپنے عمل اور اپنی فرمائشات کی روشنی میں بہت زیادہ تاکید فرمائی، اس کے طریقہ اور اس کے بہت سے آثار و برکات کا ذکر فرمایا۔ خداوندمتعال کی بارگاہ میں بہ طفیل حضرت فاطمہ زہراؑ دعا ہے کہ ہم کو تعلیمات محمدؐو آل محمدؑ پر چلنے ، دیگر موجودات عالم کی طرح تسبیح الہی میں مصروف رہنے اور خاص کر تسبیح حضرت فاطمہ زہراؑ پرمداومت کرنے اور اس کی عظیم اور بے بدیل برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔(آمین یارب العالمین)۔
اہم منابع و ماخذ
قرآن مجید
المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم ۔ مفردات الفاظ القرآن ۔ کتاب العین ۔ لسان العرب ۔ معانی الاخبار۔ البرهان فی تفسیر القرآن ۔ کشف الغمة فی معرفة الائمة۔ المحتضر ۔ علل الشرائع ۔ من لایحضره الفقیه ۔ تفصیل وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعة ۔ المحاسن ۔ تہذیب الاحکام ۔ الکافی کلینی۔ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال ۔ تفسیر مجمع البیان ۔ مشکاة الانوار فی غرر الاخبار ۔ عوالم العلوم ۔ مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل۔




