اسلامی معارف

تحریک عاشوراء کی خصوصیات اور مقصد حسینی

حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای(مدظلہ العالی) کے بیانات کی روشنی میں

 نوٹ: مندرجہ ذیل تحریر حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای(مدظلہ العالی)  کے بیانات و خطبات سے اقتباس  ہیں جو آپ کے آثار سے متعلق ویب سائٹ(www.khamenei.ir )  پر شائع ہوتے رہیں ہیں۔(ادارہ)

فہرست مندرجات

تمہید

تحریک عاشوراء کی اہم خصوصیات

۱۔ اخلاص

۲۔عقل و منطق

۳۔وقار

۴۔بیکسی و مظلومیت

۵۔ روحانیت و بندگی

مقصد قیام حسینیؑ؟

تو پھر کیا قیام کا مقصد شہادت تھا  ؟

ایک واجب کو انجام دینا

اسلام کا ایک اہم رکن

سچائی کا خاتمہ ہو جاتا

زینبی ؑکردار

ہنر مندانہ گفتگو

 تمہید

عاشور کا واقعہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ یہ محض تاریخی واقعہ نہیں تھا، یہ واقعہ امت اسلام کے لئے ایک ثقافت، ایک دائمی تحریک اور ابدی قابل تقلید نمونے کا سرآغاز تھا (25 جنوری 2006)۔  حقیقت یہ ہے کہ حسینؑ ابن علی  ؑ نے اپنے جہاد کی برکت سے اسلام کو نئی زندگی دی(24 مئی 1995)۔  ایسا واقعہ منفرد خصوصیات اور اوصاف کا حامل ہے جو اسے تاریخ کے دیگر واقعات اور انقلابات سے ممتاز بناتے ہیں اور اسی وجہ سے عاشور کے قیام نے اسلام کی تقدیر سنوارنے اور اس کی حفاظت میں بڑا بنیادی کردار ادا کیا۔

تحریک عاشوراء کی اہم خصوصیات

تحریک عاشوراء کی متعدد خصوصیات میں سے بعض حسب ذیل ہیں؛

۱۔ اخلاص

قیام حسینی کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک اخلاص ہے۔ حسینؑ ابن علیؑ کی تحریک صرف اور صرف، خالصتا اللہ کے لئے، دین کے لئے اور مسلمانوں کی اصلاح کے لئے تھی، اس میں کسی طرح کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ یہ جو حسین ابن علی  ؑ نے فرمایا: «انّی لم اخرج اشراً و لابطراً و لاظالماً و لامفسداً» یہ خود نمائی نہیں ہے، اپنا لوہا منوانا مقصد نہیں ہے، اپنے لئے نہیں، کسی چیز کی طلب کے لئے نہیں، نمائش کے لئے نہیں۔ ذرہ برابر ستم اور فساد اس تحریک میں نہیں ہے۔ «و انما خرجتُ لطلب الاصلاح فی امّة جدّی» یہ بڑا کلیدی نکتہ ہے۔ انّما: بس یہی، یعنی کوئی دوسرا ہدف و مقصد اس پاکیزہ نیت، آفتاب کی مانند جگمگاتے ذہن کو مکدر نہیں کر سکتا (16 جنوری 1994)۔

یہی اخلاص امام حسین  ؑ کے قیام کی ابدیت کا ضامن ہے؛امام حسینؑ  کا عمل ایسا ہے جس میں سوئی کی نوک کے برابر بھی کسی اور نیت کی آمیزش نہیں ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ خالص عمل آج تک باقی ہے اور تا ابد باقی رہے گا (16 جنوری 1994)۔

۲۔عقل و منطق

امام حسین  ؑ کی تحریک عقل و منطق پر استوار تحریک تھی۔ اسلامی معاشرہ امام کا معاشرہ ہے۔ لیکن بنی امیہ نے اسلام میں امامت کی جگہ ملوکیت اور بادشاہت رائج کر دی (9 جون 1996)۔  ایسے حالات میں مسند اقتدار پر بیٹھنے والا یزید نہ تو عوام الناس سے کوئی رابطہ رکھتا تھا، نہ اس کے پاس علم تھا، نہ پرہیزگاری تھی، نہ پاکدامنی تھی، نہ پارسائی تھی، نہ راہ خدا میں جہاد کا کوئی ماضی تھا، نہ اسلام کے روحانی امور پر اس کا کوئی عقیدہ تھا، نہ اس کا طرز عمل مومنانہ تھا، نہ گفتار حکیمانہ تھی۔ اس کی کوئی بھی خصوصیت پیغمبرؐ سے مشابہت نہیں رکھتی تھی۔ ایسے حالات میں حسینؑ ابن علی  ؑ کے لئے جو پیغمبرؐ کی جانشینی کی مکمل شائستگی رکھتے تھے، ایک مرحلہ پیش آیا اور آپ نے قیام کیا(14 اپریل 2000)۔

حسینی تحریک اس حکمرانی کے خلاف بغاوت کی فکر پر مبنی تھی جس نے اسلامی امت پر سب سے بڑا انحراف مسلط کر دیا تھا۔

اس تحریک میں عقل و منطق کا عنصر حضرت ؑکے بیانوں میں نمایاں ہے۔ تحریک کے آغاز سے پہلے بھی، مدینہ میں آپ کی موجودگی کے وقت سے آپ کے یوم شہادت تک۔ یہ نورانی بیانات بڑی پختہ منطقی فکر کو پیش کرتے ہیں (25 جنوری 2006)۔ جیساکہ حضرتؑ دشمن فوج سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «ایّها النّاس، انّ رسول‌ الله (ص) قال: «من رأی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرام الله، ناکثاً لعهد الله، مخالفاً لسنّة رسول‌ الله یعمل فی عباد الله بالاثم و العدوان ثم لم یغیّر بقول و لا فعل کان حقّاً علی الله ان یدخله مدخله» یعنی اگر معاشرے میں کوئی کسی حاکم کو دیکھے جو ظلم کر رہا ہے، حرام خدا کو حلال سمجھتا ہے، حلال خدا کو حرام قرار دیتا ہے، حکم الہی کو نظر انداز کرتا ہے، اس پرعمل نہیں کرتا، دوسروں کو اس پر عمل کی ترغیب نہیں دلاتا، یعنی لوگوں کے درمیان گناہ، عناد اور ظلم کر رہا ہے، بدعنوان، ظالم و جابر حکمراں ہے جس کا مکمل مصداق یزید تھا: «و لم یغیّر بقول و لافعل» اور اپنی زبان اور عمل سے اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتا تو «کان حقّاً علی الله ان یدخله مدخله» اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس خاموش تماشائی، بے پرواہ اور بے عمل شخص کو اسی ظالم کے انجام میں مبتلا کرے گا، یعنی اسے اسی کی صف میں اور اسی کے زمرے میں قرار دے گا۔ یہ پیغمبر نے فرمایا ہے (9 جون 1995)۔ 

۳۔وقار

حضرت امام حسینؑ کے قیام کی ایک اور خصوصیت تھی وقار؛ امام حسینؑ کی تحریک وقار کی تحریک تھی۔ یعنی حق کے وقار، دین کے وقار، امامت کے وقار اور اس راستے کے وقار کی تحریک تھی جو پیغمبر نے پیش کیا تھا۔ امام حسین  ؑ وقار کا مظہر تھے اور جب ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہو گئے تو مایۂ فخر و مباہات قرار پائے۔ یہ حسینیؑ وقار و افتخار ہے۔ کبھی کوئی شخص ایک بات کہتا ہے۔ اپنی بات کہہ دیتا ہے اپنا ما فی الضمیر بیان کرتا ہے لیکن اس بات پر قائم نہیں رہتا بلکہ کبھی پسپائی بھی اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے شخص کو افتخار کرنے کا حق نہیں ہے۔ افتخار کا حق اس انسان، اس قوم اور اس جماعت کو ہے جو اپنی بات پر قائم رہے اور جو پرچم اس نے بلند کر دیا ہے اسے کسی طوفان اور کسی ہوا کے جھونکے سے گرنے نہ دے۔ امام حسین  ؑ نے اس پرچم کو بڑی مضبوطی سے تھامے رکھا (29 مارچ 2002)۔

یہ خصوصیت تحریک حسینی میں جا بجا نظر نظر آتی ہے؛ جیسا کہ امام حسین نے جب ایک شب کی مہلت لی تب بھی آپ کا انداز پروقار تھا۔ آپ جب فرماتے ہیں: «هل من ناصرٍ» طلب نصرت کرتے ہیں تب بھی آپ کا انداز پروقار ہے۔ جب مدینے سے کوفے کے سفر میں ہیں اور مختلف افراد سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے اور ان سے گفتگو ہوتی ہے اور ان میں بعض کو آپ اپنے ساتھ آنے کی دعوت دیتے ہیں تو یہ دعوت بھی کمزوری اور ناتوانی کے احساس کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ بڑی نمایاں خصوصیت ہے (25 جنوری 2006)۔

۴۔بیکسی و مظلومیت

امام حسین  ؑ ظلم و جور کے خلاف اپنی تحریک اور جدوجہد میں اسلام کے احیاء کے لئے بے کسی کے عالم میں میدان میں اترے۔

سب سے سخت جدوجہد وہ ہے جس میں انسان تنہا ہو۔ عاشورا کے واقعے میں امام حسین  ؑ کے ساتھ عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن جعفر جیسے افراد بھی جو خود خاندان بنی ہاشم اور اسی شجرہ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکے میں یا مدینے میں قیام کرنے اور آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کر پائے، امام حسینؑ کے نام کا نعرہ نہیں لگا سکے۔ ایسی جدوجہد تنہائی کی جدوجہد ہے جو سب سے سخت جدوجہد ہوتی ہے۔ ہر کوئی دشمنی پر تلا ہوا، ہر کوئی روگردانی پر مصر! امام حسین  ؑ کی جدوجہد میں بعض احباب بھی مخالف ہو گئے۔ حضرت نے ایک سے فرمایا: “میرے ساتھ آؤ” مگر اس نے نصرت کے بجائے اپنا گھوڑا امام حسینؑ کے پاس بھیج دیا اور کہا کہ آپ میرا گھوڑا استعمال کیجئے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا تنہائی ہوگی، اس سے زیادہ شدید غربت کا عالم کیا ہوگا؟! پھر اس عالم غربت کے جہاد میں آپ  کے پیارے آپ کی آنکھوں کے سامنے شہید ہو گئے(7 جون 1994)۔

امام حسین  ؑ کی مظلومیت آپ کی اسی تنہائی کا نتیجہ ہے۔ امام حسین  ؑ کے ساتھ ایک ہزار سے زائد افراد مکے سے روانہ ہوئے یا راستے میں آپ سے ملحق ہوئے مگر عاشور کی شب گنے ہوئے افراد آپ کے ہمراہ تھے، عاشور کے دن جب چند افراد آپ سے آکر ملے ان سب کو ملاکر مجموعی تعداد بہتر(۷۲) ہوئی۔ یہ مظلومیت ہی تو ہے۔ مگر یہ مظلومیت حقارت و ذلت کے معنی میں نہیں ہے۔ امام حسین  ؑ تاریخ اسلام کے سب سے عظیم مجاہد ہیں۔ کیونکہ آپ اس میدان میں ثابت قدمی سے کھڑے رہے، ہراساں نہیں ہوئے اور جہاد میں مشغول رہے۔ مگر اس عظیم ہستی کی جتنی عظمت ہے مظلومیت بھی اتنی ہی شدید ہے۔ آپ جتنے عظیم انسان ہیں اتنے ہی مظلوم بھی ہیں۔ عالم غربت میں آپ شہید ہوئے (1 جولائی 1992)۔

یہی چیز اس تحریک اور اس راہ کے شہیدوں کی عظمت کا راز بھی ہے؛ شہدائے کربلا کی عظمت اسی وجہ سے ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے فریضے کو سمجھا، فریضہ راہ خدا اور راہ دین میں جہاد تھا۔ وہ دشمن سے نہیں ڈرے، تنہائی سے نہیں گھبرائے، وحشت میں مبتلا نہیں ہوئے، اپنی تعداد کی کمی کو دشمن کے سامنے اپنی پسپائی کا جواز نہیں بنایا۔ یہی چیز انسان کو، کسی رہنما اور کسی ملت کو عظمت عطا کرتی ہے۔ دشمن کی کھوکھلی عظمت سے نہ ڈرنا (1 جولائی 1992)۔

۵۔ روحانیت و بندگی

اللہ کے سامنے سر تسلیم خم رکھنا، یہ بھی ایسی خصوصیت ہے جو کربلا کی پوری تحریک میں ہر جگہ جلوہ گر ہے۔ امام حسین  ؑ نے مختلف مواقع پر اپنے عمل سے اس خصوصیت کا مظاہرہ کیا۔

امام حسین  ؑ کے طرز عمل میں روحانیت، وقار اور سربلندی کے ساتھ ہی ساتھ بندگی اور اللہ کی بارگاہ میں سراپا تسلیم رہنا بھی وہ خصوصیت ہے جو نمایاں ہے۔ یہ چیز تمام مراحل میں رہی۔ جب سیکڑوں بلکہ ہزاروں خطوط اس مضمون کے ساتھ آئے کہ ہم آپ کے شیعہ اور مخلص افراد ہیں اور کوفہ و عراق میں آپ کے منتظر ہیں تو آپ کسی غرور میں مبتلا نہیں ہوئے۔ جب آپ نے تقریر کی اور فرمایا: «خط الموت علی ولد آدم مخط القلاده فی جید الفتاة» موت کی بات کی۔ نہیں کہا کہ ہم ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے۔ آپ نے دشمن کو دھمکیاں نہیں دیں اور حمایت کرنے والوں کو کوفہ میں بڑے بڑے عہدے دینے کا لالچ نہیں دیا۔ آپ نے خالص اسلامی انداز میں معرفت میں ڈوب کر اپنی تحریک آگے بڑھائی، بندگی اور تواضع کے ساتھ جدوجہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سب کے ہاتھ ان کی جانب پھیلے ہوئے ہیں اور لوگ ان سے اظہار عقیدت کرتے ہیں۔ جب کربلا میں آپ کے سو سے بھی کم ساتھیوں کو تیس ہزار اوباشوں کے لشکر نے گھیر لیا اور ان سب کی جان خطرے میں پڑ گئی تب بھی آپ کے چہرے پر کہیں دور دور تک اضطراب نہیں تھا (14 اپریل 2000)۔

مقصد قیام حسینیؑ؟

حضرت امام حسینؑ سے کہا جاتا تھا کہ پورا مکہ اور مدینہ آپ کا احترام کرتا ہے اور یمن میں آپ کے اتنے چاہنے والے ہیں ۔ کہیں بھی  چلے جائیے تا کہ نہ آپ کو یزید سے کوئی مطلب ہو اور نہ یزید کو آپ سے کوئی سروکار ۔ اتنے شیعہ، اتنے چاہنے والے، اتنے پیرو کار  ہیں آرام سے زندگی بسر کیجئے، خدا کی عبادت کیجئے اور اس کے دین کی تبلیغ کیجئے آخر یہ قیام کس لئے؟ آپ کا کیا مقصد ہے ؟

بعض لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام حسین  ؑ کے قیام کا مقصد یہ تھا  کہ یزید جیسے فاسق و فاجر انسان کو حکومت سے برطرف کرکے خود حکومت کریں ۔ ہم نہیں کہتےکہ یہ بات بالکل غلط ہے البتہ آدھی صحیح ہے ۔  ان افراد کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امام حسین ؑنے سوچاکہ قیام کرتے ہیں اگر کامیاب ہوگئے تو حکومت اپنےہاتھ میں لے لیں گے اور اگر کامیاب نہ ہوئے تو واپس آجائیں گے ۔ یہ بات بالکل غلط ہے ۔

جی ہاں ! جو حکومت کی غرض سے قیام کرتا ہے وہ وہیں تک آگے بڑھتا  ہے جہاں تک ممکن ہو لیکن جہاں اس نے دیکھا  کہ اب آگے بڑھنا  ناممکن ہے تو پلٹ آتا ہے ۔ اگر کسی کا مقصد حکومت قائم کرنا ہوتا ہے تو اسے وہیں تک جانا چاہئے جہاں تک جانے کا امکان ہو لیکن جہاں سے آگے بڑھناممکن نہ ہو عقلمندی یہی ہے کہ پلٹ آئے ۔

جو شخص یہ کہتا ہے امام حکومت علوی کے قیام کے لئے اٹھے  تھے  اور اس کی مراد یہ ہو جو اوپر بیان کیا گیا ہے تو اس کا نظریہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ امام حسین ؑ کے قیام سے کہیں بھی  یہ بات سمجھ  میں نہیں آتی  ہے۔

تو پھر کیا قیام کا مقصد شہادت تھا  ؟

بعض لوگ کہتے ہیں مقصد حکومت تھا یہ سب بیکار کی باتیں ہیں بلکہ امام حسین  ؑ جانتے تھے  کہ وہ حکومت کا قیام عمل میں نہیں لا سکتے وہ تو اس لئے آئے تھے  تا کہ خدا کی راہ میں قربانی دیں اور شہید ہوجائیں ۔

ایک مدت تک لوگ اسی نطریہ کے قائل  بھہ تھےاور بعض لوگ شاعرانہ تعبیروں کے ساتھ  اسے بیان کرتے بلکہ بعض بزرگ علماء بھی  اس کے قائل ہوگئے تھے۔ اس گروہ کا کہنا تھا کہ امام عالی مقام نے دیکھا  کہ اب زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں لہٰذا شہادت کے ذریعہ ہی کچھ  کیا جائے ۔

اسلام اس بات کی بھی  اجازت نہیں دیتا اس لئے اسلام اس بات کا قائل نہیں کہ جاؤ اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالو اور قتل کر دیئے جاؤ ۔ شریعت اور دین نے جس شہادت کی بات کی ہے اس شہادت کا مطلب یہ ہے انسان ایک عظیم مقصد کی خاطر قیام کرے اور اس راہ میں اپنی جان بھی  دیدے۔ یہ ہے وہ شہادت جسے اسلامی اور دینی شہادت کہا جا سکتا ہے شہادت یہ نہیں ہے میں دوڑ کر میدان میں جاؤں تاکہ شہید کر دیا جاؤں یا شاعرانہ تعبیر میں کہا جائے کہ میرا خون ظلم و ستم کے ایوان ہلا دے اور اسے منہ کی کہانے پڑے ۔ امام حسین  ؑ کے عظیم قیام کا مقصد یہ بھی  نہیں تھا  جو کہا جاتا ہے۔

لہٰذا نہ کلی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے امام عالی مقام نے حکومت کے لئے قیام کیا اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے ان کے قیام کا مقصد شہادت تھا  ۔

ایک واجب کو انجام دینا

میری نظر میں جو لوگ ” حکومت ” یا ” شہادت ” کے قائل ہیں انہوں نے ہدف اور نتیجہ کو ملا دیا ہے ۔ امام کے قیام کا مقصد یہ نہیں تھا ،امام کے قیام کا مقصد کچھ  اور تھا  البتہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے انہیں ایک ایسا راستہ طے کرنا تھا  جس کا نتیجہ دو ہی چیزیں تھیں حکومت یا شہادت امام حسین  ؑ ان دونوں چیزوں کے لئے آمادہ تھے۔ انہوں نے حکومت کے مقدمات کو بھی  فراہم کر لیا تھا  اور شہادت کی آمادگی بھی  کر چکے تھے ۔ اب جو بھی ہاتھ آتا وہی صحیح تھا، اس میں کوئی عیب نہیں تھا  لیکن ان میں سے کوئی بھی  مقصد نہیں تھا  بلکہ نتیجہ تھا  ۔ ہدف کچھ اورہوتا ہے ۔

اگر امام حسین  ؑ کے صحیح ہدف کو بیان کرنا ہے تو اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ امام عالی مقام کے قیام کا ہدف ایک ایسے واجب کی انجام وہی تھا  جو امام حسین  ؑ سے پہلے کسی نے انجام نہیں دیا تھا۔یہاں تک کہ رسول اکرم ؐ، امام علی  ؑاور امام حسن ؑنےبھی۔ (۳۰/۵/۱۹۹۵)۔

اسلام کا ایک اہم رکن

اسلام کے عملی احکام کا صرف ایک حکم جسے پیغمبرؐ نے بیان کیا تھا لیکن اس پر عمل نہیں کیا تھا ۔ اور یہ اسلامی نظام کے ارکان کا ایک اہم رکن ہے ۔ اور وہ حکم اور رکن یہ تھا  کہ جب بھی  یہ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرہ کی گاڑی پٹری سے نیچے آجائے اور اس کانظام بالکل الٹ جائے تو اس وقت امت مسلمہ کی ذمہ داری کیا ہے؟ اگر بانی اسلام تمام اسلامی احکام و قوانین بیان کرتے لیکن صرف یہ ایک حکم بیان نہ کرتے تو ان کا کام ناقص رہ جاتا لیکن انہوں  نے یہ بھی  بیان کر دیا تھا۔وہ مسلمانوں سےکہہ کر گئے تھے  اگر کسی وقت بھی  اسلامی معاشرہ اسلام کے دائرے سے باہر نکل جائے اور صاحبان قدرت و ثروت ، مسلم نما منافقین یا کوئی بھی  اسلامی سماج کا رخ بدلنا چاہے تو  اس کے مقابلے میں امت مسلمہ کو کیا کرنا ہوگا ؟ پیغمبر اکرمؐ یہ کہہ کر گئے تھے  لیکن خود عمل نہیں کر سکے کیونکہ پیغمبر اکرمؐ جب تک با حیات تھے  تب تک امت مسلمہ اور اسلامی معاشرے میں ایسا کوئی انحراف پیدا نہیں ہوا تھا۔ اسلام کا یہ رکن پیغمبر اکرمؐ نے اس لئے بیان کیا تھا  کیونکہ ان کے بعد ان کے جانشینوں کے زمانے میں ایسا ہونا عین ممکن تھا ، چاہے وہ کسی بھی  جانشین کے زمانے میں ہوتا۔ جس امام کے زمانے میں بھی  یہ صورتحال پیدا ہوتی اسے وہی کرنا ہوتا جو پیغمبر نے بتایا تھا  ۔ اگر امیر المومنین علی  ؑ کے زمانے میں ہوتا تو وہ ویسا ہی کرتے جیسا پیغمبر ؐ نے بتایا تھا  یا اگر امام علی نقی  ؑ یا امام حسن عسکری  ؑ کے زمانے میں ہوتا تب بھی  ان کی یہی ذمہ داری تھی۔ اب چونکہ یہ صورتحال امام حسین  ؑ کے زمانے میں پیش آئی لہٰذا ان کی ذمہ داری تھی  کہ وہ اس پر عمل کرتے ۔ تاکہ اسلامی نظام اور اسلامی سماج کو دوبارہ اسی حالت پر لے آتے جہاں پر وہ پہلے تھا۔ یہ امام عالی مقام کی ذمہ داری تھی  اور واقعہ عاشورا کی واقعیت اور حقیقت یہی ہے(۲۶/۱۰/۱۹۸۲)۔

سچائی کا خاتمہ ہو جاتا

امام عالی مقام جانتے تھے  کہ اگر انہوں نے یہ قیام نہ کیا تو ان کا یہ سکوت اور خاموشی رضامندی کی علامت بن جائے گی اور پھر  اسلام پر کیا مصیبت آن پڑے گی۔ جب ایک طاقت معاشروں یا کسی ایک معاشرے کے تمام وسائل پر قبضہ کر لے اور طغیان و بربریت کا راستہ پر گامزن ہو جائے، ایسے موقع پر حق و حقیقت کے علمبردار اگر خاموش بیٹھے  رہیں اور ان کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں تو گویا وہ بھی  اس طاقت کے عمل سے راضی ہیں چاہتے در حقیقت وہ راضی ہوں یا نہ ہوں ۔ یہی وہ گناہ  تھا جو اس وقت بنی ہاشم کے بہت سے بزرگوں اور صدر اسلام کی اہم شخصیات کی اولاد نے انجام دیا ۔ لیکن امام حسین  ؑ کے لئے یہ بات ناقابل برداشت تھی  اس لئے آپ نے قیام کیا ۔

واقعہ کربلا کے بعد جب قافلۂ حسینی واپس مدینہ میں آیا۔ (یعنی مدینہ مدینے سے نکلنے کے دس ، گیارہ مہینے بعد) ایک شخص امام سجاد  ؑ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگے: دیکھا  کیا ہوا ؟ کیا ملا وہاں جاکر ؟ امام نے اس کے جواب میں فرمایا: سوچو اگر نہ جاتے تو کیا ہوتا ؟!

جی ہاں! اگر نہ جاتے تو کیا ہوتا! جسم تو زندہ ہوتے لیکن سچائی دم توڑ چکی ہوتی، روح فرسودہ ہوجاتی، ضمیر مردہ ہوجاتے عقل و خرد کا جنازہ نکل جاتا اور اسلام کا نام و نشان باقی نہ رہتا۔(۱۸/۳/۲۰۰۲)۔

زینبی ؑکردار

جناب زینب ؑ کی شخصیت غم و اندوہ اور تیمارداری میں ہی خلاصہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک مسلمان خاتون کا مکمل نمونہ تھیں۔ یعنی وہ آئیڈیل جسے اسلام نے خواتین کی تربیت کے لئے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے ۔ زینب کبریٰ ؑ کی شخصیت، ایک ہمہ گیر شخصیت ہے۔ عالمہ و عاقلہ، صاحب معرفت اور ایک نمایاں انسان کہ جب بھی  کوئی ان کے سامنےکھڑا  ہوتا ہے ان کی علمی و معنوی عظمت اور معرفت کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔

ایک مسلم خاتون جس پہلو کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے یہی ہے یعنی اسلام کو اپنے وجود میں بسانا ۔

ایمان کی برکت اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے سے ایک مسلمان عورت کا دل اس قدر گشادہ ہو جاتا ہے اور وہ اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ بڑے بڑے حادثات اس کے آگےگھٹنے  ٹیک دیتے ہیں ۔

زینب کبریٰ ؑکی زندگی کا یہ پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ عاشورا جیسا عظیم واقعہ زینبؑ کو جھکا نہیں سکا ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے ظالم و ستمگر افراد کی ظاہری حشمت اور جاہ و جلال زینبؑ کو نہ للکا رسکے ۔ زینبؑ نےہمیشہ اور ہر جگہ اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا  ۔ ان کا وطن مدینہ ہو یا سخت امتحان و آزمائش کی آماجگاہ کربلا یا پھر  یزید و ابن زیاد کا دربار ہر جگہ زینب ؑثابت قدم اور سر بلند رہی اور باقی سب ان کے آگے سرنگوں ہوگئے ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے مغرور اور ستمگر افراد اس دست بستہ اسیر کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئے ۔

زینب کبریٰؑ کی شخصیت میں ایک طرف صنف نسواں کی عطوفت و مہربانی ہے او ردوسری طرف ایک مومن انسان کے دل میں پائی جانے والی متانت، عظمت اور سکون و پایداری ، ایک مجاہد راہ خدا کی صاف اور گویا زبان ۔ ایک پاک و خالص  معرفت، جو ان کی زبان و دل سے نکلتی اور سننے والوں کو مبہوت کردیتی ہے ۔

ان کی نسوانی عظمت ، جھوٹے  بزرگوں کو حقیر و پست بنا دیتی ہے اسے کہتے ہیں نسوانی عظمت ! حماسہ اور عطوفت سے مرکب وہ عظمت جو کسی فرد میں بھی دیکھنے  کو نہیں ملتی ۔

وہ ہستی جو اپنی متین شخصیت اور پایدار روح کے ذریعہ تمام ناگوار حوادث کو سر کر جائے اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کو شجاعت و بہادری سے اپنے پیروں تلے روند ڈالے ۔ لوگوں کو درس دے اور انہیں بیدار کرے ۔ ساتھ ہی اپنے زمانے کے امام کو ایک مہربان ماں کی طرح تسلی و تشفی دے ۔ اور ان نازک حالات اور طوفان ھوادث میں یتیم بچوں کی حفاظت اور ان کی تسلی و تسکین کے لئے ایک محکم دیوار بن جائے ۔اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ جناب زینبؑ ایک ہمہ گیر شخصیت تھیں ۔ اسلام ایک عورت کو اسی طرف لے جانا چاہتا ہے (۱۵/۶/۲۰۰۵)۔

ہنر مندانہ گفتگو

میری نظر میں جناب زینب کو ادبیات و ہنر کے ذریعہ عظیم واقعات وحوادث کی حفاظت کرنے اور انہیں بچانے کا بانی کہا جاسکتا ہے ۔

اگر جناب زینبؑ نہ ہوتیں اور ان کے بعد دوسرے اہل حرم جیسے امام سجاد  ؑ نہ ہوتے تو تاریخ میں واقعہ کربلا کا نام نہ ہوتا ۔

سنت الٰہی یہی ہے کہ اس طرح کے واقعات تاریخ میں باقی رہیں ۔ البتہ سنت الٰہی کایہ ایک شیوہ اور طریقہ ہے۔ تاریخ میں ان واقعات کی بقا کا طریقہ یہ ہے کہ صاحبان اسرار، اہل درد اور وہ افراد جو ان حقائق سے مطلع ہیں وہ دوسرے کو ان سے آگاہ کریں۔ اس لئے اپنی یاد داشت کو بیان کرنا، انہیں مدون کرنا اور حقائق کو دوسرے تک منتقل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے۔ ہنرمندانہ بیان اور گفتگو اس کی ایک بنیادی شرط ہے جیسے کوفہ و شام میں جناب زینبؑ کے خطبات حسن بیان اور جذابیت کے اعتبار سے ایک ہنر مندانہ گفتگو تھی۔ ایک ایسی گفتگو کہ کوئی بھی  ایسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ جب ایک مخالف اس گفتگو کو سنتا ہے تووہ  ایک تیز تلوار کی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہنر کا اثر اپنے مخاطب سے وابستہ نہیں ہوتا۔ وہ چاہے یا نہ چاہے ہنر اپنا کام کر دکھاتا  ہے شام میں جناب زینبؑ اور امام سجادؑ نے اپنے فصیح و بلیغ اور ہنرمندانہ گفتگو کے ذریعہ یہی کام کیا(۲۲/۹/۲۰۰۵)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button