اسلامی معارف

حضرت فاطمہ معصومہ(ع) کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر

تحریر: سیدہ نہاں خاتون نقوی- متعلمہ بنت الہدیٰ تابعہ المصطفی العالمیہ قم

 فہرست مندرجات

عظمت حضرت فاطمہ معصومہؑ

حضرت فاطمہ معصومہ (س) سے منقول احادیث

۱۔ حدیثِ غدیر

۲۔ حدیثِ منزلت

۳۔ حدیثِ حُبِّ آلِ محمدؐ

۴۔ طہارتِ امام حسین ؑ

۵۔ حدیثِ معراج

عظمت حضرت فاطمہ معصومہؑ

حضرت فاطمہ معصومہؑ حضرت امام موسٰی کاظم   ؑ کی بیٹی، امام علی رضا ؑ کی بہن اور امام محمد تقی جواد   ؑ کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد ۱۷۳ ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق ۱۸۳ ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسٰی کاظم   ؑ کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔

شیخ عباس قمی فرماتے ہیں:

“امام موسٰی کاظم   ؑ کی صاحبزادیوں میں سب سے با فضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں،  جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں؛ آپ کا نام فاطمہؑ اور سب سے مشہور لقب معصومہؑ ہے۔ یہ لقب انہیں امام  علی ابن موسٰی الرضا   ؑنے عطا فرمایا تھا۔حضرت فاطمہ معصومہؑ بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا   ؑ سے بہت مانوس تھیں، انہیں کے پرمہر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں(منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸) ۔

اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یہی کافی ہے  کہ امام وقت نے تین بار فرمایا: «فَدَاهَا أَبُوهَا»  یعنی باپ اس پر قربان جائے۔چنانچہ  کتاب”کشف اللئالی” میں مرقوم ہے کہ ایک دن کچھ شیعیان اہل بیت  ؑ مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے، جن کا جواب وہ امام موسٰی کاظم   ؑ سے لینا چاہتے تھے۔ امام   ؑ کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام   ؑ کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔ حضرت معصومہ ؑ گھر میں موجود تھیں۔

آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیئے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسٰی کاظم   ؑ سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام   ؑ نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: «فَدَاهَا أَبُوهَا» یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ ؑ کی عمر بہت کم تھی، لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔(کریمہ اہل بیتؑ، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی) ۔

مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی(رہ) اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں کہ:

“حضرت معصومہ ؑ کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا (س) کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا(س) کی قبر کی جگہ معلوم کرنے کے لئے ایک چلہ ( خاص عمل) شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر   ؑ اور حضرت امام جعفر صادق   ؑ کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام   ؑ نے انہیں فرمایا: «عَلَيْكَ بِكَرِيمَةِ اَهْل ِ الْبَيت» یعنی تم کریمہ اہلبیت (س) کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام   ؑ سے عرض کی: “جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے  پورا کیاہے کہ حضرت فاطمہ(س) کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں۔” امام ؑ نے فرمایا: “میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ ؑ کی قبر ہے”۔ پھر فرمایا: “کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے”۔

حضرت امام رضا   ؑ کے مجبوراً شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ  بھائی حضرت امام رضاؑ کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں، راستہ میں جب ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے، لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کر دیا اور جنگ چھیڑ دی، جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے(دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹) ۔ حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا: مجھے شہر قم لے چلو، کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے(زندگانی حضرت معصومہ، آقائے منصوری، ص۱۴)۔ اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں۔

بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور حضرت فاطمہ معصومہ ؑ کو اہل قم نے گلبارن کرتے ہوئے موسٰی بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے(دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی، ص۱۲) ۔

بی بی مکرمہؑ نے۱۷ دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری، اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں، اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے۔ اورجس جگہ آج حرم مطہر حضرت معصومہ ؑ ہے، یہ اس زمانے میں “بابلان” کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسٰی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔ حضرت معصومہ ؑ کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا، جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے، آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ ؑ کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ ؑ کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کرکے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسٰی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی   ؑ کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ ؑ کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا   ؑ اور حضرت امام محمد تقی جواد   ؑ تھے(تاریخ قدیم قم ،ص۲۱۳) ۔

امام علی ابن موسٰی الرضا   ؑ فرماتے ہیں:

«مَن زارَها بِقُمَّ كَمَن زارَني»۔

 یعنی جس نے قم میں معصومہ ؑ کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی(مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹)۔

حضرت معصومہ ؑ کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومینؑ سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ امام صادق   ؑ فرماتے ہیں:

«إِنَ لِلّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکَةُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ(ص) حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِینَهُ وَ إِنَ لِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ هُوَ الْکُوفَهُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ بَلْدَةٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیهَا امْرَأَهٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَةَ فَمَنْ زَارَهَا وَ جَبَتْ لَهُ الْجَنَةُ»۔

 یعنی “خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے اور عنقریب میری اولاد میں سے موسٰی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے(ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵)۔

ایک اور روایت کےمطابق آپ کی زیارت کا اجر بہشت بیان کیا گیاہے جیسا کہ حضرت امام جواد   ؑ نے فرمایا:

“جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت سے میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ اہل بہشت ہوگا(کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶)۔

حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ ؑ بنت امام موسٰی کاظم   ؑ کے ہم پلہ نہیں ہے۔امام جعفر صادق   ؑ اس بارے میں فرماتے ہیں:

«تدخل بشفاعتها شیعتنا الجنة باجمعهم»۔

یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام  کے تمام شیعه بہشت میں داخل ہو جائیں گے”۔( سفینة البحار، شیخ عباس قمی،  ج ۲، ص ۳۷۶)۔

جناب معصومہ کی شہادت۲۸ سال کی عمر میں  ماہ ربیع الثانی کی دس یا بارہ تاریخ کو سن ۲۰۱ ہجری میں ہوئی(وسیلہ معصومہ، ص۶۵) ۔

حضرت فاطمہ معصومہ (س) سے منقول احادیث

یہاں حضرت فاطمہ معصومہ  ؑ سے منقول اہم حدیثوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔

۱۔ حدیثِ غدیر

وہ احادیث جن کو حضرت فاطمہ معصومہ  ؑ نے نقل فرمایا ہے، ان میں سے ایک مشہور و معروف حدیث، حدیثِ غدیر ہے:

«حَدَّثَتْنَا فاطمة وَ زینبُ و أُمُّ کلثوم بناتُ موسی بنِ جعفرٍ قُلنَ: حدَّثَتْنَا فاطمة بنتُ جعفرِ بنِ محمدٍ الصادقِ، حَدَّثَتْنی فاطمة بنتُ محمَّدِ بنِ علیٍّ، حَدَّثَتْنی فاطمة بنتُ علیِّ ابنِ الحسینِ، حَدَّثَتْنی فاطمة و سکینة ابْنَتَا الحسینِ بنِ علیٍّ عَن أُمِّ کلثومٍ بنتِ فاطمة بنتِ نبیٍّ عَن فاطمة بنتِ رسولِ اللَّه قَالتْ: أَنَسِیتُم قَولَ رَسُولِ اللَّه یومَ غدیرِ خُم: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاه فَعَلِیٌّ مَوْلَاه»۔

یعنی  ’’حضرت امام موسیٰ کاظم   ؑ کی بیٹیوں حضرت فاطمہ معصومہ  ؑ، زینبؑ اور اُمّ کلثومؑ نے بیان کیا ہے کہ ہم سے حضرت امام جعفر صادق   ؑ کی بیٹی فاطمہؑ نے نقل کیا اور اُن سے حضرت امام محمد باقر   ؑ کی بیٹی فاطمہؑ نے نقل کیا اور اُن سے حضرت امام زین العابدین ؑ کی بیٹی فاطمہؑ نے بیان کیا اور اُن سے حضرت امام حسین   ؑ کی دو بیٹیوں جناب فاطمہؑ اور سکینہؑ نے نقل کیا اور اُن سے حضرت فاطمہ زہرا ؑ (اور علی   ؑ) کی بیٹی جناب اُمّ کلثومؑ نے بیان کیا اور اُن سے اُن کی والدہ رسولِ اکرم ؐ کی دخترِ نیک اختر حضرت فاطمہ زہرا  ؑ نے بیان فرمایا کہ آپؑ نے (لوگوں سے) ارشاد فرمایا: کیا تم لوگ حضرت رسولِ اکرم ؐ کی فرمائش بھول گئے کہ آپؐ نے روزِ غدیر خم فرمایا تھا: جس کا میں مولا ہوں اس  کے علیؑ مولا ہیں۔‘‘

(الغدیر، عبدالحسین امینی، ج۱، ص۱۹۷، دارالکتب العربی، طبع چہارم، ۱۳۹۷ھ ق، بیروت، لبنان)

۲۔ حدیثِ منزلت

 حضرت فاطمہ معصومہ  ؑ نے مذکورہ سلسلہ سند کے ساتھ حدیثِ منزلت کو بھی نقل فرمایا ہے:

«حَدَّثَتْنَا فاطمة و زینبُ وَ أُمُّ کلثوم بناتُ موسی بنِ جعفرٍ … عن فاطمة بنتِ رَسولِ اللَّه قَالَتْ: أَ نَسِیْتُمْ قَوْلَه: (قَالَ لِعَلِیٍّ عَلَیه السَّلَامُ: یَا عَلِیُّ) أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَة هارُونَ مِنْ مُّوسی»۔

یعنی   ’’حضرت امام موسیٰ کاظم   ؑ کی بیٹیوں، حضرت فاطمہ معصومہ  ؑ، زینبؑ اور اُمّ کلثومؑ نے … حضرت فاطمہ زہرا  ؑ بنتِ رسولِ اللہ ؐ سے نقل فرمایا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: کیا تم لوگ رسولِ خدا ؐ کی فرمائش بھول گئے کہ آپؐ نے حضرت علی   ؑ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: اے علیؑ! تیری نسبت مجھ سے ایسی ہی ہے جیسی ہارونؑ کی موسیٰؑ سے تھی۔‘‘ (الغدیر، عبدالحسین امینی، ج۱، ص۱۹۷)

۳۔ حدیثِ حُبِّ آلِ محمدؐ

حضرت فاطمہ معصومہ  ؑ نے حضرت امام جعفر صادق   ؑ کی دخترِ نیک اختر حضرت فاطمہؑ سے، انہوں نے زینب بنت امیر المومنینؑسے اور انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا  ؑ سے نقل کیا ہے کہ رسولِ اکرم ؐ نے فرمایا:

«أَلَا مَنْ مَاتَ عَلَی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شهیداً»۔

یعنی آگاہ ہو جاؤ کہ جو بھی محبتِ اہلِ بیت  ؑ پر مرتا ہے وہ شہید کی موت مرتا ہے۔ (گنجینۂ دانشمندان، محمد شریف رازی، ج۱، ص۱۶)

۴۔ طہارتِ امام حسین ؑ

«حَدَّثَنی الحسنُ بنُ زیدٍ عن فاطمة بنتِ موسی، عن عمر بن علی بن الحسین، عن فاطمة بنتِ الحسین، عن أسماء بنت ابی بکر، عن صفیة بنت عبد المطلب، قالَتْ: لَمّا سَقَطَ الحُسَینُ عَلَیه السَّلامُ مِنْ بَطْنِ أُمِّه وَ کُنتُ وَلّیتُها، قَالَ النَّبیُّ یَا عَمَّة! هلمی إِلیَّ إِبْنی فَقُلتُ: یَا رَسُولَ اللَّه! إِنَّما لَمْ نُنظِّفْه بعدُ، فَقَالَ: یَا عَمَّة! أَنتِ تُنَظِّفِیه؟! إِنَّ اللَّه تَبارَکَ وَ تَعالَی قَدْ نَظَّفَه وَ طَهره»۔

یعنی ’’حسن ابن زید نے حضرت فاطمہ بنتِ موسیٰ علیہما السلام سے اور انہوں نے امام زین العابدین   ؑ کے فرزند عمر اشرف سے اور انہوں نے امام حسین   ؑ کی بیٹی فاطمہؑ سے اور انہوں نے اسماء بنتِ ابوبکر سے اور انہوں نے صفیہ بنتِ عبد المطلبؑ سے نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت امام حسین   ؑ کی ولادتِ باسعادت ہوئی، میں حضرتؑ کی دائی کے طور پر خدمت میں موجود تھی، اُس وقت رسولِ اکرم ؐ نے مجھ سے فرمایا: اے پھوپی جان! میرے بیٹے کو مجھے لاکر دیں۔ میں نے عرض کی: اے رسولِ اللہؐ! ہم نے ابھی بچے کو غسل نہیں دیا اور پاک نہیں کیا ہے۔آپؐ نے تعجب سے فرمایا: اے پھوپی جان! کیا آپ اس بچے کو پاک کریں گی؟! اس کو خداوندِ عالم نے پاک و پاکیزہ خلق فرمایا ہے۔‘‘ ( العقیلۃ والفواطم، حسین شاکری، ص۱۹۷)

۵۔ حدیثِ معراج

حضرت فاطمہ معصومہ  ؑ نے جن احادیث کو نقل فرمایا ہے، ان میں سے ایک معروف و مشہور حدیث، حدیثِ معراج ہے کہ جو اس طرح نقل ہوئی ہے:

«حَدَّثَتْنِی فاطمة بنت موسی بن جعفرٍ … عن فاطمة بنتِ رسولِ اللَّه قالتْ: سَمِعتُ رسولَ اللَّه، یَقولُ: لَمّا أُسْرِیَ بِی إِلَی السَّمَآءِ دَخَلتُ الجَنَّة فإِذا أَنا بِقَصرٍ مِن دُرَّةِ بَیضاءَ مَجوفَة وَ عَلیها بابٌ مُکَلَّلٌ بِالدُّرِ وَ الیَاقوتِ وَ عَلَی البابِ سترٌ فَرَفعتُ رَأسی فإِذاً مَکتوبٌ عَلَی البابِ: لَا إِلَه إِلَّا اللَّه، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّه، عَلِیٌّ وَلِیُّ الْقَومِ»۔ یعنی ’’حضرت امام موسیٰ ابن جعفر الکاظمؑ کی بیٹی حضرت فاطمہ معصومہ  ؑ نے روایت نقل فرمائی ہے … حضرت فاطمہ زہرا  ؑ سے کہ آپؑ نے فرمایا: میں نےرسولِ خدا ؐسے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس وقت مجھے آسمان پر معراج کے لیے لے گئے اور میں بہشت میں پہنچا تو میں نے اپنے آپ کو ایک سفید موتیوں کے قصر میں پایا جس کا دروازہ دُرّ و یاقوت سے بنا ہوا تھا اور اس کے اُوپر ایک پردہ لٹکا ہوا تھا میں نے اپنے سر کو بلند کیا تو اس پر یہ تحریر لکھی ہوئی دیکھی:«لَا إِلَه إِلَّا اللَّه، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّه، عَلِیٌّ وَلِیُّ الْقَومِ»۔ (الشیعۃ فی احادیث الفریقین، سید مرتضیٰ ابطحی، ص۱۱۹۔  مستدرک سفینۃ البحار، علی نمازی شاہرودی، ج۶، ص۱۴)۔

والسلام علیکم

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button