اسلامی معارف

جناب فاطمہ زہراؑ کی ۲۰ قرآنی خصوصیات

مولانا سید تعلیم رضا جعفری۔ طالبعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران

 فہرست مندرجات

مقدمه

۱ ۔ فاطمہ ؑکا گھر، ہدایت الہی کا مرکز

۲. مشکات الہی (چراغدان نور الہی)

۳. چمکتا ہوا ستارہ

۴. فاطمہ ؑ؛ انسان کے لئے بزرگ امتحان الہی

۵. فضیلت کا سمندر

۶. فاطمہؑ؛ کوثرِرسولخداؐ

۷. فاطمہؑ؛ شاخِ شجرۂ طیبہ

۸. فاطمہؑ؛ حقیقتِ شب قدر

۹. فاطمہؑ؛ صراط مستقیم

۱۰. فاطمہؑ؛ شرط ایمان و ہدایت

۱۱. فاطمہؑ؛ واسطہ توبہ

۱۲. فاطمہؑ؛ صالحہ بارگاہ الہی

۱۳. فاطمہؑ؛ مقرب الہی

۱۵. فاطمہؑ؛ بہترین نمونہ عمل

۱۶. فاطمہؑ اور انعام الھی

۱۷. فاطمہؑ اورعظیم کامیابی

۱۸. فاطمہؑ نمونۂ ایثار و اخلاص

۱۹. فاطمہؑ؛ خواتین اسلامی کی نمائندہ

۲۰. فاطمہؑ؛ اجر رسالت

مقدمه

قرآن مجیداللہ تعالیٰ کا حقیقی کلام ہے جونہایت متقن اور صداقت کا حامل ہے اوربلا شک و شبہ بہت سے ان حقائق کو بیان کرتا ہے جن تک انسانی ذہن کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ زہراءؑ ایک بے مثال حقیقت ہیں جن کو صرف قرآن کریم اور معصومینؑ کے کلام کے سایے میں ہی کچھ حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت اس مختصر تحریر میں قرآن مجید کی کچھ آیات کا جائزہ پیش کیا جارہا جو حضرت فاطمہ زہراؑکی ذات و شخصیت سے مرتبط ہیں:

۱ ۔ فاطمہؑ کا گھر، ہدایت الہی کا مرکز

قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا نور قرار دیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ وہ جسے چاہے اپنے نور کی طرف ہدایت کرتا ہے (سورہ نور، آیت ۳۵) ۔ اس کے بعد فرمایا: «(اللہ کا یہ نور) ایسے گھروں میں ہےجن (کی قدر و منزلت) کے بلند کئے جانے اور جن میں اللہ کے نام کا ذکر کئے جانے کا حکم اللہ نے دیا ہے، ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں (اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ دی جائیں گی۔ (سورہ نور، آیت ۳۶-۳۷) ۔ رسول اللہ ؐ جب ان آیات کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ گھر کون سے ہیں؟ تو فرمایا: “یہ انبیاء کے گھر ہیں “۔ابوبکرنے کھڑے ہوکرپوچھا: “یا رسول اللہ! کیا فاطمہؑ اور علیؑ کا گھر بھی اس آیت میں شامل ہے؟”آنحضرتؐ نے فرمایا: “نَعَمْ مِنْ أَفْضَلِهَا “؛”ہاں، یہ گھر تو اس سلسلے کی بہترین مثال ہے “۔ (الکشف و البیان، ثعلبی، چ ۱، ج ۷، ص ۱۰۷؛ بحارالانوار مجلسی، ۲۳، ص ۲۶۲) ۔ معلوم ہواہے قرآن کی روشنی میں حضرت فاطمہ زہراؑ کا گھر وہ ہے جہاں سے انسان کو نور و ہدایت الہی کی معرفت و شناخت حاصل ہوسکتی ہے ۔

۲. مشکات الہی (چراغدان نور الہی)

قرآن مجید میں اللہ کے نور کی وضاحت کے لیے ایک مثال پیش کی گئی ہے: «اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ…» “…اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے؛ اس کے نور کی مثال اس طاق کی ہے جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو…”۔ (سورہ نور، آیت ۳۵) ۔

 آیت میں اللہ کے نور کی مثال ایک چراغدان سے دی ہے جس میں چراغ رکھا ہوا ہو اور وہ چراغ شیشہ کی ایک قندیل میں ہو۔ اس آیت کے بارے میں راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادقؑ سے پوچھا کہ اس سے کون مراد ہے تو فرمایا: “وہ چراغدان فاطمہ ؑ ہیں اور چراغ حضرت امام حسنؑ اور وہ فانوس (قندیل) حضرت امام حسینؑ ہیں (مناقب الامام علیؑ ابن ابی طالبؑ، ابن مغازلی، چ ۳، ّ ۳۶۱) آیت اور روایت کا یہ بیان حقیقت میں حضرت فاطمہ زہراؑ اور آپؑ کے فرزندوںؑ کےاعلیٰ اور بلند مقام کی طرف اشارہ کررہاہے۔

۳. چمکتا ہوا ستارہ

مذکورہ آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے کہ: «…كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ …» “… اور قندیل ایک جگمگاتے ستارے کے مانند ہو جو زیتون کے بابرکت درخت سے روشن کیا جائے “۔ امام صادقؑ کے ارشاد کے مطابق یہاں ” کوکب درّی یعنی چکمتے ہوئے ستارے ” سے مراد حضرت فاطمہ زہراؑ کی ذات ہے اس لئے کہ “کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ بَیْنَ نِسَاءِ أَهْلِ الدُّنْیَا وَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّهْ ” اس لئے کہ آپ ؑدنیا اور جنت کی تمام عورتوں میں سے ایک چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں”۔ (بحارالانوار مجلسی، ج ۲۳، ص ۳۰۴؛ مناقب الامام علیؑ ابن ابی طالبؑ، ابن مغازلی، چ ۳، ص ۳۶۱-۳۶۳) ۔

۴. فاطمہ ؑ؛ انسان کے لئے بزرگ امتحان الہی

قرآن مجید کے سورہ مدثر کی آیت ۳۵ -۳۶ میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «إِنَّها لِأَحْدَى الْكُبَرِ – نَذِيراً لِلْبَشَرِ»؛”بیشک قیامت کے ہولناک حادثے بہت سخت ہیں جو انسانوں کے لئے ڈرانے والے ہیں “۔ اس آیت کے ذیل میں بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن انسانوں کا عظیم امتحان ہوگا جس کے مختلف موضوع ہونگے ان میں سے ایک مسئلہ و موضوع “حضرت فاطمہ زہراؑ” ہونگی؛ جیسا کہ امام محمد باقرؑ نے فرمایا: «إِنَّها لَإِحْدَی الْکُبَرِ نَذِیراً لِلْبَشَرِ قَالَ یَعْنِی فَاطِمَهْؑ»؛ اس آیت میں اہم مسئلہ جو تمام انسانوں کے لئے ایک ڈرانے اور ہوشیار کرنے کا مورد ہے حضرت فاطمہ زہراؑہیں (بحارالانوار مجلسی، ج ۲۴، ص ۳۳۱ ۔ تفسیر قمی، ج ۲، ص ۳۹۶) ۔ معلوم ہوا ہے حضرت فاطمہ زہراؑ ” کُبَر ” کا مصداق ہیں اور آپؑ ایک بزرگ ذات ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ دوسری روایت کے مطابق “ولایت ” کو بھی یہاں ” کُبَر ” قیامت کے عظیم مسائل و موضوعات میں سے بیان کیا گیا ہے (الکافی، ج ۱، ص ۴۳۴) ۔

۵. فضیلت کا سمندر

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: «مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ – بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ»؛ “اس نے دو دریا بہائے ہیں جو آپس میں مل جاتے ہیں- ان کے درمیان حد فا صلِ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتے ہیں “(سورہ رحمن، آیت ۱۹ ۔ ۲۰)۔  حضرت امام جعفرصادقؑ نے متعدد اقوال میں فرمایا کہ “اس آیت میں دو سمندروں سے مرادحضرت علیؑ اور جناب فاطمہؑ ہیں۔ یہ دونوں ایسے دو عمیق سمندر ہیں جن میں سے کوئی ایک دوسرے کے حق میں تجاوز و ظلم نہیں کرسکتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان ایک واسطہ ہے جو کہ رسول اللہؐ ہے اور اس عمیق سمندر کا پھل امام حسنؑ اورامام حسینؑ ہیں “(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۵، ص ۴۰۲) ۔

ان آیات کی تفسیر میں ایک بہترین روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرمؐ کے پاس عبدالرّحمن بن عوف زہری اور عثمان بن عفّان آئے۔ عبدالرّحمان نے کہا: “اے رسول خداؐ ۔ کیا آپ میرے لیے آپ کی بیٹی فاطمہؑ کی شادی کا عقد پڑھیں گے؟ میں مہر کے لئے سو سیاہ رنگ کی مادہ اونٹی اور نیلی آنکھوں والے اونٹ دوں گا، جن پر مصر کے سفید کپڑے لدے ہوئے ہوں گے اور ساتھ میں دس ہزار دینار بھی دوں گا “۔ رسول خداؐ کے صحابہ میں عبدالرّحمان اور عثمان سے زیادہ دولت مند تھے۔ عثمان نے کہا: “میں بھی اتنی ہی رقم دوں گا اور میں عبدالرّحمان سے پہلے مسلمان ہوا ہوں “۔ رسول خدا ؐ، ان دونوں کی باتوں سے بہت زیادہ ناراض ہوئے اور ایک مٹھی کنکریاں اٹھاکر عبدالرّحمان کی طرف پھینکیں اور فرمایا: “کیا تم اپنے مال سے مجھے ڈرا رہے ہو؟”اتنا کہتے ہی کنکریاں بڑے بڑے موتیوں میں تبدیل ہوگئیں اور جب ان موتیوں کی قیمت کی گئی تو ہر موتی کی قیمت عبدالرّحمان کی تمام دولت کے برابر تھی۔

اسی وقت حضرت جبرئیلؑ نازل ہوئے اور کہا: “اے احمدؐ! اللہ تعالیٰ، آپؐ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: ” علیؑ ابن ابی طالبؑ کے پاس جائیے کیونکہ ان کی مثال کعبہ جیسی ہے جس کی طرف لوگ حج کے لئے جاتے ہیں اور وہ کسی کے پاس نہیں جاتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جنت کے خزانہ دار رضوان جنت سے کہوں کہ وہ جنت کے چار باغوں کو سجا ئے اور درخت طوبی اور سدرۃ المنتهی کو حکم دیا کہ نئے زیور اور لباس اختیار کریں اور حورالعین کو حکم دیا کہ وہ آراستہ ہوکر درخت طوبی اور سدرۃ المنتهی کے نیچے کھڑی ہوں۔ اور ایک فرشتہ جس کا نام راحیل ہے اور جو فرشتوں میں سب سے زیادہ بولنے والا، شیریں زبان اور خوبصورت ہے، اس کو حکم دیا کہ وہ عرش کے کنارے حاضر ہو جائے۔ جب تمام فرشتے حاضر ہوگئے تو مجھے حکم دیا کہ میں نور کا ایک منبر نصب کروں اور راحیل کو کہا کہ وہ اس پر جائے؛ (اس کے بعد وہ اس پر گیا اور) اس نے عقد کے لئے ایک فصیح خطبہ پڑھا اور پھر حضرت فاطمہ زہراؑ اور حضرت علیؑ کا عقد پڑھا گیااورمہر میں قیامت تک کے لئےدنیا کے خمس کو فاطمہ ؑ اور ان کی اولاد کے لئے قراردیا۔میں اور میکائیلؑ اس عقد کےگواہ تھے اور خود اللہ تعالیٰ، حضرت فاطمہؑ کا ولی تھا اور درخت طوبی اور سدرۃ المنتهی کو حکم دیا کہ جو کچھ ان دونوں کے پاس زیورات، نئے لباس اور عطر ہے، اسے تقسیم کردیں اور حوروں کو حکم دیا کہ وہ اسے لیں اور قیامت تک اس پر فخر کریں۔

اللہ تعالیٰ نے اسی طرح آپؐ کو حکم دیا ہے زمین پر حضرت فاطمہؑ کا عقد آپؐ خود پڑھیں۔ اور عثمان سے کہو کہ: کیا تونے قرآن میں میری بات نہیں سنی: «مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیانِ بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا یَبْغِیانِ؟» ۔ اسی طرح کیا تو نے قرآن میں میری بات نہیں سنی کہ: «وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراًفَجَعَلَهُ نَسَباً وَ صِهْراً؟»؛”اور وہی وہ ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا ہے اور پھر اس کو خاندان اور سسرال والا بنا دیا ہے “(فرقان، آیت ۵۴) ۔

جب رسول خدا ؐنے جناب جبرئیلؑ کی یہ بات سنیں تو آنحضرتؐ نے عمّار بن یاسر، سلمان اور عبّاس کو بلایااور حضرت علیؑ سے فرمایا کہ “اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں (اپنی بیٹی فاطمہؑ سے) تمہارا عقد پڑھوں “(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۵، ص ۴۰۴؛ دلایل الإمامه، ص ۱۲) ۔

مذکورہ آیات اور روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑاور حضرت امام علیؑ کو اللہ تعالیٰ نے فضیلتوں کے دو بہترین سمندر بنایا ہے اور آپ کا خانوادہ بہترین خانوادہ ہے اور آپؑ دونوں کا عقد بھی اللہ تعالیٰ نے پڑھا اور زمین پر حکم الہی سے خود رسول خداؐ نے پڑھا ہے اور خاص طور پر حضرت فاطمہ زہراؑ کی برابری کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اور کسی میں آپؑ کے ہم شان ہونے اور ہم کفو ہونے کی صلاحیت نہیں تھی۔

۶. فاطمہؑ؛ کوثرِ رسولخداؐ

رسول اللہؐ کے یہاں جناب خدیجہؑ سے ایک بیٹا پیدا ہواتھا جس کا نام “عبداللہ ” رکھا گیا، لیکن کچھ مدت بعد ان کی رحلت ہوگئی جس کی وجہ مشرکین کا ایک سردار عاص بن وائل ایک دن رسول اللہؐ کو مسجد الحرام سے نکلتے وقت دیکھ کر کچھ بحث کرنے لگا۔ اس منظر کو قریش کے کچھ سرداروں نے دیکھا تو عاص بن وائل سے پوچھا: “تم کس سے بات کر رہے تھے؟” اس نے کہا: “اُس «ابتر» سے!”۔ اسی طرح دوسری روایت کے مطابق بے اولادی کا طعنہ دینے والوں میں عمروبن‌عاص و حکم‌بن ابی‌عاص بھی تھا (تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۸، ص ۴۲۰ ۔ بحارالانوار مجلسی، ج ۲۲، ص ۱۶۶ و ج ۱۷، ص ۲۰۹) ۔ مشرکین کی اسی طعنہ زنی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کی حمایت اور دلداری میں سورہ کوثر نازل کرکے فرمایاکہ: «إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ-فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ- إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ»؛ “بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں یقینا آپ کا دشمن ابتر (بے اولاد) رہے گا “۔

مفسرین نے “کوثر ” کو بہت زیادہ خیر و برکت قرار دیا ہے اور بیان کیا ہے: “اس سےمراد نبی اکرمؐ کی کثرت نسل ہے جو فاطمہ زہراؑ اور آپؑ کی اولاد کے ذریعہ ظاہر ہوتی رہیں گی “(تفسیرکبیر فخررازی، ج ۳۲، ص ۱۲۴ ۔ مجمع البیان طبرسی، ج ۱۰، ص ۸۳۵، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ج ۵، ص ۵۹۹-۵۶۰ وغیرہ) ۔

اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ سورہ کوثر کی تفسیر میں بہت زیادہ اقوال ہیں اور کوثر سے مراد کون ہے؟ اس حوالے سے مفسرین کے درمیان شدید اختلاف ہے لیکن سورہ کوثر کے نزول کے سبب کی روشنی میں کوثر کا سب سے عظیم اور بہترین مصداق صرف حضرت فاطمہ زہراؑ کی ذات ہی ہوسکتی ہیں جن کے ذریعہ نسل پیغمبرؐباقی ہےاور یہ الہی معجزہ ہے کہ جو لوگ بیٹے کو نسل کی بقاء کا ضامن سمجھ رہے تھے اور اپنے بیٹوں پر فخر کررہے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام طرح کے وہم و گمان کو باطل کرکے اپنے حبیبؐ کوفاطمہ ؑ جیسی بیٹی عطا فرمائی جو آنحضرتؐ کی اکلوتی بیٹی تھیں لیکن آپؑ کی نسل کثیر، ان کے باباؐ کے لئے کوثر بن گئی اور ان کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر ان کو نابود کردیا گیا۔یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک کو کثیر اور کثیر کو ابتر بنادیا۔ اللہ تعالیٰ کی اسی کرشمہ سازی پر تمام عقلیں حیران اور گنگ ہیں۔

۷. فاطمہؑ؛ شاخِ شجرۂ طیبہ

خداوندمتعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: «أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُها ثابِتٌ وَ فَرْعُها فِي السَّماءِ»؛ “کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے “(سورہ ابراہیم، آیت ۲۴) ۔

روایت کے مطابق حضرت امام باقر ؑ نے فرمایا: اس آیت میں درخت سے مراد حضرت محمدمصطفی ؐ ہے اور اس درخت کا تنہ حضرت علیؑ ہے اور اس کا پھل امام امام حسنؑ اور امام حسینؑ ہیں اور اس کی اصلی شاخ حضرت فاطمہ زہراؑ اور فرعی و جزئی شاخیں ائمہ اطہارؑہیں “(شواہدالتنزیل حاکم حسکانی، ج ۱، ص ۳۱۱؛ بحارالانوار مجلسی، ج ۲۴، ص ۱۳۹) ۔

۸. فاطمہؑ؛ حقیقتِ شب قدر

حضرت امام جعفر صادقؑ نے سورہ قدر میں “شب قدر ” کی تفسیرمیں ارشاد فرمایا کہ: «اللَّیْلَةُ فَاطِمَةُؑ وَ الْقَدْرُ اللَّهُ فَمَنْ عَرَفَ فَاطِمَةًؑ حَقَّ مَعْرِفَتِهَا فَقَدْ أَدْرَکَ لَیْلَهْ الْقَدْرِ وَ إِنَّمَا سُمِّیَتْ فَاطِمةًؑلِأَنَّ الْخَلْقَ فُطِمُوا عَنْ مَعْرِفَتِهَا»؛ لیلۃ القدر سے مراد فاطمہؑ ہیں لہذا جس نے فاطمہؑ کی قدر و منزلت پہچان لی گویا اس نے “لیلۃ القدر ” کی قدر و منزلت پہچان لی۔ اللہ تعالیٰ نے فاطمہؑ نام اس لئے رکھا کیونکہ لوگ آپ ؑ کی معرفت و شناخت حاصل کرنے سے عاجز ہیں “۔

۹. فاطمہؑ؛ صراط مستقیم

ہم روزانہ کم سے کم دس بار پروردگارعالم سےدرخواست کرتے ہیں کہ: «إِهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقیمَ»؛ پروردگار ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت فرما۔ اس آیت کے ذیل میں صراط مسقیم یعنی سیدھے راستے کے بارے میں متعدد احادیث بیان ہوئی ہیں جن میں سے ایک روایت میں ابوبرزاء نامی صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ پیغمبراکرمؐ کے پاس تھے، آنحضرتؐ نے اچانک حضرت علیؑ کو آتے ہوئے دیکھ کر آپؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: «وَ أَنَّ هَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیماً. قَالَ: عَلِیُّ‌ بْنُ‌ أَبِی‌طَالِبٍ وَ الْأَئِمَّةُ مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ هُمْ صِراطُ اللَّهِ فَمَنْ أَتَاهُمْ سَلَکَ السُّبُلَ»؛ یہ میرا راستہ ہے۔ پھر فرمایا: علیؑ ابن ابی طالبؑ اور فاطمہؑ کی نسل سے آنے والے ائمہؑ ہی کا راستہ، اللہ کی جانب سے معین سیدھا راستہ ہے جو بھی ان کی پیروی کردے گا وہی سیدھے راستے پر گامزن ہوگا (تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱، ص ۹۸) ۔اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آنحضرتؐ نے فرمایا کہ: «بیشک اللہ تعالیٰ نے علیؑ اور ان کی ہمسرگرامی (فاطمہ زہراؑ)، اور ان کے بچوں کو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے اور وہ میری امت میں علم کے دروازے ہیں جو بھی ان سے متمسک ہوگیا وہ صراط مستقم کی ہدایت پالے گا»(شواهد التنزیل، ج ۱، ص ۵۸، ح ۸۹) ۔ اس کے علاوہ بہت سی احادیث ہیں جن میں اہل بیتؑ اور حضرت فاطمہ زہراؑ کی نسل سے آنے والے معصوم اماموں ؑ کے راستے کو صراط مستقیم کہا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی ذات اللہ اور آپ ؑ کی سیرت کی روشنی میں ہم سیدھے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں اور اس کے برعکس آپؑ کی دشمنی اور مخالفت انسان کو گمراہی میں مبتلا کردیتی ہے۔

۱۰. فاطمہؑ؛ شرط ایمان و ہدایت

قرآن مجید سورہ بقرہ، آیت ۱۳۶ میں مسلمانوں کو خطاب کرکے ارشاد ہوتا ہے کہ: «قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا…»؛”کہو ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو کچھ ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے…”۔ آیت کے اس حصے کی تفسیر میں حضرت امام محمد باقرؑ نے فرمایا کہ: «إِنَّمَا عَنَی بِذَلِکَ عَلِیّاً وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ وَ جَرَتْ بَعْدَهُمْ فِی الْأَئِمّةَ»؛ “بیشک اس سے مراد علیؑ اور فاطمہؑ اور حسنؑ و حسینؑ اور ان حضرات کے بعد آنے والے امامؑ ہیں “(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱، ص ۶۸۸) ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان ذوات مقدسہؑ کے سلسلے میں جو بھی حکم دیا گیاہے اس کو ماننا اور ان حضراتؑ کی ولایت کا عقیدہ رکھتے ہوئے اسی کے مطابق عمل کرنا ایمان کا جزء قرار دیا گیا ہے اور اسی کو ہدایت کا راستہ بھی بتایا گیا ہے اور ان حضراتؑ کی مخالفت گمراہی کا سبب ہے۔ جیسا کہ بعد والی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَ إِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّما هُمْ في شِقاقٍ…»؛ اگر وہ (اہل کتاب) تملوگوں کی طرح ایمان لے آتے ہیں تو ہدایت یافتہ ہوجائیں گے اور اگر وہ مخالفت کرتے ہیں تو حق سے جدا رہیں گے “۔ اس آیت کے ذیل میں حضرت امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں: «بِحَسْبِکُمْ أَنْ تَقُولُوا مَا قُلْنَا وَ تَصْمُتُوا عَمَّا صَمَتْنَا فَإِنَّکُمْ إِذًا قُلْتُمْ مَا نَقُولُ وَ سَلَّمْتُمْ لَنَا فِیمَا سَکَتْنَا عَنْهُ…»؛ “تم مومنین کے لئے یہی کافی ہے کہ تم لوگ وہی کہو جو ہم ائمہؑ کہتے ہیں اور ان باتوں کے سلسلے میں سکوت اختیار کرلو جن کے بارے میں ہم نے سکوت اختیار کیا ہے لہذا اگر تم نے وہی کہا جو ہم لوگوں نے کہا اور جن باتوں پر ہم نے سکوت کیا اس پر تم لوگ بھی خاموش رہے تو حقیقت میں صاحب ایمان رہوگے…”۔

۱۱. فاطمہؑ؛ واسطہ توبہ

قرآن مجید میں حضرت آدم ؑ اور جناب حواؑ کے بارے میں آیا کہ جب جناب حواؑ نے اللہ کا منع کیا ہوا پھل کھالیا تھا تو خداوندعالم نے انہیں جنت سے نکال دیا تھا؛ اس موقع پر جناب آدمؑ و حواؑ نے کچھ کلمات کے ذریعہ توبہ کی تھی جس کو قبول کرلیا گیا تھا: «فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ»؛”اس کے بعد آدم نے اپنے پروردگار سے کلمات حاصل کئے (جن کے ذریعہ انہوں توبہ کی) اور ان کی توبہ قبول کر لی گئی، پرودگار بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے”۔ (بقرہ، آیت ۳۷) ۔

اس آیت کے بارے میں ابن عباس کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ؐ سے پوچھا: “جناب آدمؑ نے کون سے کلمات حاصل کئےتھے؟” آنحضرتؐ نے فرمایا: “اے میرے پرودگار! انہوں نے اللہ سے درخواست کی کہ محمدؐ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ کے حق کے واسطے سے میری توبہ قبول فرما ” (ینابیع الموده، ج ۱، ص ۱۱۲؛ الطرائف، ابن طاووس، ص ۱۱۲، ح ۱۶۶؛ الدرالمنثور سیوطی، ج ۱، ص ۱۹) ۔

۱۲. فاطمہؑ؛ صالحہ بارگاہ الہی

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہےکہ: «وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا»؛ “اور جو بھی اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرے گا وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ رہے گا، ان پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں اور یہی بہترین ساتھی و رفیق ہیں (سورہ نساء کی آیت ۶۹) ۔ اس آیت کے حوالےسے انس بن مالک کہتے ہیں کہ: ایک دن پیغمبراکرمؐ صبح کی نماز میں مشغول تھے اور محراب میں چمکتے چاند کی طرح کھڑے تھے۔ نماز صبح کے بعد میں نے عرض کیا: “اگر آپؐ مناسب سمجھیں تو اس آیت کی تفسیر فرمادیں؛ آنحضرتؐ نے فرمایا: “انبیاء ” سے مراد میں ہوں، “صدیقین ” سے مراد علیؑ بن ابی طالبؑ ہیں، “شہداء ” سے مرادمیرے چچا حمزہؑ ہیں اور “صالحین ” سے مرادمیری بیٹی زہراؑ اور ان کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔ یہ سن کر پیغمبرؐکے چچا عباس مسجد کے کونے سے اٹھ کر پیغمبرؐ کی خدمت میں آئے اور کہا: کیا میں، آپؐ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ، سب ایک ہی سرچشمے سے نہیں ہیں؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: “آپ کا کیا مطلب ہے، چچا جان؟” عباس نے کہا: “آپؐ نے میرا نام نہیں لیا اور مجھے اس مقام کا افتخار نہیں دیا!” آنحضرت ؐ نے فرمایا: “چچا جان، آپ کا کہنا صحیح ہے کہ میں اور آپؐ اور علیؑ وحسنؑ و حسینؑ سب ایک ہی سرچشمے (نسل) سے ہیں لیکن اللہ نے ہمیں اُس وقت پیدا کیا، جب نہ یہ بلند آسمان تھے، نہ یہ زمین بچھی ہوئی تھی۔ نہ عرش تھا، نہ جنت، نہ جہنم۔ ہم اس وقت بھی اللہ کی تسبیح و تقدیس کر رہے تھے جب کوئی اورتسبیح و تقدیس کرنے والا نہیں تھا۔ جب اللہ نے تخلیق کا ارادہ کیا تو اس نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا اور میرے نور سے عرش کو پیدا کیا لہذا عرش کا نور میرے نور سے ہے اور میرا نور اللہ کے نور سے ہے۔ پھر اس نے علیؑ ابن ابی طالبؑ کے نور کو پیداکیا اور اس سے ملائکہ کو پیدا کیا لہذا ملائکہ کا نور علیؑ بن ابی طالبؑ کے نور سے ہے اور علی ؑابن ابی طالبؑ کا نور اللہ کے نور سے ہے۔ پھر اس نے میری بیٹی فاطمہؑ کے نور کو پیدا کیا اور اس سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا لہذا آسمانوں اور زمین کا نور میری بیٹی فاطمہؑ کے نور سے ہے اور فاطمہؑ کا نور اللہ کے نور سے ہے اور فاطمہؑ آسمانوں اور زمین سے افضل ہیں۔ پھر اس نے حسنؑ کے نور کو پیدا کیا اور اس سے سورج اور چاند کو بنایا لہذا سورج اور چاند کا نور حسنؑ کے نور سے ہے اور حسنؑ کا نور اللہ کے نور سے ہے اور حسنؑ، سورج اور چاند سے افضل ہیں۔پھر اس نے حسینؑ کے نور کو بنایا اور اس سے جنت اور حورالعین کو پیدا کیا لہذا جنت اور حورالعین کا نور حسینؑ کے نور سے ہے اور حسینؑ کا نور اللہ کے نور سے ہے اور حسینؑ جنت اور حورالعین سے افضل ہیں۔ پھر اللہ نے اپنی قدرت سے تاریکی کو پیدا کیا اور اسے آنکھوں کے پردوں کے سامنے پھیلا دیا جس کی وجہ سے ملائکہ نے عرض کیا: “اے پاک و مقدس پروردگار، جب سے ہم نے ان اشباح (انوار پنجتنؑ) کو پہچانا ہے، کچھ برا نہیں دیکھا ہے۔ ہم ان کے مقام کی قسم دیتے ہیں کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔ اس وقت اللہ نے رحمت کی قندیلیں پیدا کیں اور انہیں عرش کے سرادق (کناروں) پر لگا دیا۔ ملائکہ نے عرض کیا: “پروردگار! یہ فضیلت کس کے لئے ہے؟ اور یہ نور کس کا ہے؟ ۔ پروردگارنے فرمایا: «هَذِهِ الْأَنْوَارُ فَقَالَ هَذَا نُورُ أَمَتِی فَاطِمةَ الزَّهْرَاءِ فَلِذَلِکَ سُمِّیَتْ أَمَتِیَ الزَّهْرَاءَ لِأَنَّ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرَضِینَ بِنُورِهَا ظَهَرَتْ وَ هِیَ ابْنَةُ نَبِیِّی وَ زَوْجَةُ وَصِیِّی وَ حُجَّتِی عَلَی خَلْقِی أُشْهِدُکُمْ یَا مَلَائِکَتِی أَنِّی قَدْ جَعَلْتُ ثَوَابَ تَسْبِیحِکُمْ وَ تَقْدِیسِکُمْ لِهَذِهِ الْمَرْأَةِ وَ شِیعَتِهَا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ»؛”یہ نور میری کنیز فاطمہ زہراؑ کا ہے؛ اسی لئے میں نے اسے “زہرا “نام دیا کیونکہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اسی کے نور سے ہوئی ہے۔ یہ میرے پیغمبرؐ کی بیٹی اور اس کے وصی کی بیوی اور مخلوق پر حجت ہے۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ قیامت تک، میں نے تمہاری تسبیح و تقدیس کا ثواب اس خاتون اور اس کے شیعوں کو دے دیا ہے “۔

اس وقت عباس اپنی جگہ سے اٹھے اور حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی پیشانی کو بوسہ دیتے ہوئے کہا: «یَا عَلِیُّؑلَقَدْ جَعَلَکَ اللَّهُ حُجَّةً بَالِغَةً عَلَی الْعِبَادِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ»؛“یاعلیؑ، اللہ نے آپؑ کو قیامت تک لوگوں پر حجت بالغہ (روشن اور واضح دلیل) قرار دیا ہے ”(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۳، ص ۲۸۶ بحارالانوار، ج ۲۵، ص ۱۶) ۔

۱۳. فاطمہؑ؛ مقرب الہی

خداوندعالم نے قرآن مجید میں نیک لوگوں کے لئے جنت کی نعمتوں کا ذکر فرماتے ہوئے بیان کیا کہ: «كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ- وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ-كِتَابٌ مَرْقُومٌ-يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ-إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ»؛”یاد رکھو کہ نیک کردار افراد کا نامہ ٔاعمال علیین میں ہوگا اور تم کیا جانو کہ علیین کیا ہے؛ ایک لکھا ہوا دفتر ہے جس کے گواہ مقربین ہیں، بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے “(سورہ مطففین، آیت ۱۸-22) ۔ ان آیات میں “مقربین ” کے بارے میں حضرت امام صادقؑ نے فرمایا: مقربین سے مراد رسول اللہؐ، امیرالمومنینؑ، فاطمہؑ، حسنؑ، حسینؑ ہیں (تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۷، ص ۴۶۲؛ تفسیر قمی، ج ۲، ص ۴۱۰؛ بحارالانوار، ج ۳۶، ص ۱۴۵) ۔

اسی طرح دوسری روایت کے مطابق حضرت امام حسنؑ نے فرمایا کہ قرآن میں جہاں بھی “ابرار ” یعنی نیک لوگوں کا ذکر آیا ہے اس سے مراد ہم اہل بیتؑ ہیں؛ «لِأَنَّا نَحْنُ أَبْرَارٌ بِآبَائِنَا وَ أُمَّهَاتِنَا وَ قُلُوبُنَا عَلَتْ بِالطَّاعَاتِ وَ الْبِرِّ وَ تَبَرَّأَتْ مِنَ الدُّنْیَا وَ حُبِّهَا وَ أَطَعْنَا اللَّهَ فِی جَمِیعِ فَرَائِضِهِ وَ آمَنَّا بِوَحْدَانِیَّتِهِ وَ صَدَّقْنَا بِرَسُولِهِ»؛ اس لئے کہ ہم ہی وہ ہیں جو آباء و اجداد اور ماؤں کے لحاظ سے نیک و پاکیزہ ہیں اور ہمارے دل اطاعت الہی اور نیکیوں کے لئے شیفتہ ہیں اور دنیااور اس کی دوستی سے بیزار ہیں، ہم نے اللہ کے تمام واجبات کی اطاعت کی اور ہم نے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسولؐ کی کامل طور پر تصدیق کی ہے “(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۷، ص ۴۶۲؛ المناقب، ج ۴، ص ۲) ۔

۱۵. فاطمہؑ؛ بہترین نمونہ عمل

خداوندعالم قرآن مجید میں اپنے نبیؐ سے خطاب کرکے فرماتا ہے کہ:

«وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا»؛ اے پیغمبرؐ! اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور اس کام پر ثابت قدم رہیں (سورہ طہ، آیت ۱۳۲) ۔ اس آیت کے ذیل میں متعدد روایات بیان ہوئی ہیں کہ آیت میں پیغمبراکرمؐ کو خاص طور پر اپنے اہل بیتؑ کو خطاب کرکے نماز کے حکم کوپہنچانے کے لئے تاکید کی گئی ہے۔ جیساکہ تفسیر میں بیان ہوا کہ: “خداوندمتعال نے اپنے پیغمبرؐ سے فرمایا کہ اس آیت میں بیان ہونے والے حکم نماز کو اپنے اہل بیتؑ سے مخصوص قرار دے اور دوسرے لوگوں کو اس میں شامل نہ کرے تاکہ لوگوں کو خداکے نزدیک اہل بیتؑ پیغمبرؐ کی عظمت اور بلندمقامی کا علم ہوجائے اس لئے کہ پہلے سب لوگوں کو نماز کے لئے حکم دیا گیا جس میں اہل بیت ؑ بھی شامل تھے لیکن پھر خصوصی طور پر اس آیت میں اہل بیتؑ کوحکم دیا گیا ہے ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرتؐ نماز صبح کے وقت حضرت علیؑ و جناب فاطمہؑ کے دروازے پر آتے تھے اور فرماتے تھے: سلام و رحمت خدا آپ لوگوں پر۔ اس کے بعد حضرت علیؑ و جناب فاطمہؑ جواب میں کہتے تھے سلام و رحمت خدا ہو آپ پر اے اللہ کے رسولؐ۔ اس کے بعد آنحضرتؐ دروازے کے دونوں قلابوں کو پکڑکر فرماتے تھے کہ: «…الصَّلَاةَ الصَّلاةَ یَرْحَمُکُمُ اللَّهُ إِنَّما یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً»؛ وقت نماز ہے، وقت نماز ہے۔ خدا تم اہل بیتؑ پر رحمت نازل کرے۔ بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیتؑ کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے (سورہ احزاب، ۳۳) ۔ آنحضرتؐ اس کام کو اپنی رحلت تک اسی طرح انجام دیتے رہے (بحار الانوار، ج ۳۵، ص ۲۰۷ و ج ۲۵، ص ۲۱۹ ۔ تأویل الآیات الظاهرہ، ص ۳۱۶ ۔ وسایل الشیعه، ج ۱۲، ص ۷۲) ۔ مذکورہ آیت اور اس کی تفسیر میں بیان ہونے والی روایت اور اسی طرح دوسری روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہراؑ اور اہل بیت اطہار کے دیگر اعضاء کے لئے نماز کا یہ خصوصی حکم، کسی خاص تاکید کے لئے نہیں تھا کہ معاذاللہ اہل بیتؑنماز کے سلسلے میں کوئی کوتاہی کردیں گے بلکہ خداوندعالم یہاں مقام و عظمت اہل بیتؑ اور امت پر ان حضرات کی برتری کو ظاہر کرنا چاہتا تھا جیساکہ ایک دوسری حدیث میں حضرت امام رضاؑ نے قرآن میں ظاہری طور پر بیان ہونے والے ۱۲ مقامات “اصطفاء “(برتری اہل بیتؑ کے موارد) کا ذکرکرتے ہوئے، آخری مقام کے عنوان سے اس آیت کا بھی ذکر فرمایا کہ: «وَ مَا أَکْرَمَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ أَحَداً مِنْ ذَرَارِیِّ الْأَنْبِیَاءِ بِمِثْلِ هَذِهِ الْکَرَامَةِ الَّتِی أَکْرَمَنَا بِهَا وَ خَصَّنَا مِنْ دُونِ جَمِیعِ أَهْلِ بَیْتِه»؛”اللہ تعالیٰ کسی بھی نبی کی ذریت اور ان کے اہل بیتؑ کو یہ شرف نہیں عطا فرمایا ہےکہ ان کو خصوصی طور پر نماز کا حکم دیا جائے “۔ (بحار الانوار، ج ۲۵، ص ۲۳۳؛ الامالی صدوق؛ ص ۵۳۳) ۔

۱۶. فاطمہؑ اور انعام الھی

خداوندعالم قرآن مجید میں پیغمبراکرمؐ سے خطاب کرکے فرماتا ہے: «وَ لَسَوْفَ يُعْطيكَ رَبُّكَ فَتَرْضى»؛ “بہت جلدی آپ کا پروردگار، آپ کو اتنا عطا کرے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے “۔اس آیت کے ذیل میں مختلف روایات میں بیان ہوا ہے کہ “پیغمبراکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ کو دیکھا کہ وہ اون کی چادر پہنے ہوئے ہیں اور ہاتھوں سے آٹا پیس رہی ہیں اور اپنے بچے کو دودھ بھی پلا رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر رسول اکرمؐ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور فرمایا: “اے میری بیٹی! دنیا کی تلخیوں کو آخرت کی شیرینی کے مقابلے میں برداشت کرو “۔ حضرت فاطمہ زہراؑنے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ۔ اور اس کی نعمتوں اور اس کی عطاؤں پر شکرہے ”۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی جس میں ارشاد ہوا کہ: “بہت جلد آپ کا پروردگار آپ کو اتنا انعام عطا کرے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے “(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۸، ص ۱۷۶؛ بحارالانوار، ج ۴۳، ص ۸۵؛ مکارم الاخلاق، ص ۲۳۵) ۔

۱۷. فاطمہؑ اور عظیم کامیابی

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ»؛ ” آج کے دن ہم نے انہیں ان کے صبر و استقامت کی وجہ سے یہ جزا دی ہے کہ وہ سراسر کامیاب ہیں “(مومنون، 111) ۔ عبداللہ ابن مسعود اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ خداوندعالم اس آیت میں اعلان کررہا ہےکہ آج کے دن علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ کو دنیا میں اطاعت، بھوک، فقر اور امتحانات الہی پر صبر کی جزا کے طور پر جنت عطا کی گئی ہےاور یقینایہی حضرات کامیاب اور حساب و کتاب کے سامنے سربلند ہیں (شواهد التنزیل، ج ۱، ص ۴۰۸، ح ۶۶۵) ۔

۱۸. فاطمہؑ نمونۂ ایثار و اخلاص

قرآن مجید کا سورہ ھل اتیٰ (دہر/ انسان) پورا اہل بیت اطہارؑ کی شان و عظمت میں نازل ہوا ہے اس سورہ میں اہل بیتؑ کے ایثار و قربانی کا خاص طورپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ حدیثی اور تفسیری کتابوں کے مطابق ایک مرتبہ حضرات حسنینؑ بیمار ہوگئے تھے، آنحضرتؐ، اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ وہاں حضرت علیؑ سے فرمایا: “اے اباالحسنؑ! بہتر ہے کہ اپنے دو بیٹوں کی صحت کے لئے نذر کرو “۔ اس کے بعد حضرت علیؑ، جناب فاطمہؑ اور خادمہ فضہ نے نذر کی کہ اگر یہ دونوں بچے صحت یاب ہو جائیں تو تین دن تک “روزہ ” رکھیں گے۔آخرکار روزہ رکھا گیا اور اہل بیتؑ کی شان میں سورہ ھل اتیٰ نازل ہوا جس میں اہل بیتؑ کے روزہ رکھنے اور افطار کے وقت ان حضرات کے ایثار اور فداکاری کا ذکر کیا گیا؛ نزول سورہ کے وقت فرشتہ وحی آیا اور عرض کیا کہ “اے محمدؐ! اللہ تعالیٰ اس خاندان کی وجہ سے آپ ؐ کو مبارکباد دیتا ہے “۔ پھر اس نے سورہ “ھل اتیٰ ” پڑھ کر سنایا۔

اس سورہ میں اہل بیتؑ کی متعدد خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے؛ خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے تین نمایاں صفات (وفای عہد، ایثار، اخلاص) کا ذکر فرمایا ہے:

«يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَ يَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا-وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا- إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَ لَا شُكُورًا»؛ یہ حضرات نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔یہ اس کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ “(انسان، ۷-۸-۹) ۔ ان آیات میں اہل بیت اطہارؑ کی عظیم خصوصیات کا ذکر ہورہا ہے جن میں حضرت فاطمہ زہراؑ کا خاص کردار ہے۔

۱۹. فاطمہؑ؛ خواتین اسلامی کی نمائندہ

نبی اکرمؐ نے جب نجران کے عیسائیوں سے حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت کے انکار کے بارے میں مناظرہ اور گفتگو کی تھی اور آنحضرتؐ کے محکم دلائل کے باوجود وہ لوگ آپؐ کی بات ماننے سے انکار کرتے رہے تو حکم خدا آیا کہ آپؐ ان لوگوں کے ساتھ “مباهلہ ” کریں یعنی جھوٹوں پر لعنت کریں؛ نبی اکرمؐ کی جانب سے مباہلہ کرنے کی پیکش کو عیسائیوں نے پہلے تو قبول کرلیا اور طے ہوا کہ دونوں طرف سے بیٹوں، عورتوں اور اپنے نفسوں کو میدان میں لایا جائے؛ آنحضرتؐ نے بیٹوں کی جگہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو، عورتوں میں جناب فاطمہ زہراؑ کو لیا اور نفسوں کی جگہ امام علیؑ کو اپنے ہمراہ لے کر میدان میں تشریف لائے۔ گود میں امام حسینؑ، ہاتھ پکڑے امام حسنؑ، آنحضرتؐ کے پیچھے جناب فاطمہؑ اور ان کے پیچھے امام علیؑ تھے۔ آنحضرت ؐ نے اپنے اہل بیتؑ سے فرمایا کہ جب میں دعا کروں تو آپ لوگ آمین کہنا۔

میدان مباہلہ میں جب نجران کے اسقف نے ان نورانی اور الہی چہروں کو دیکھا اپنی قوم سے کہنے لگا: “اگر یہ لوگ خدا سے دعا کریں گے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے تو اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا لہذا ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ ہم سب ہلاک ہو جائیں گے اور زمین پر قیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں رہے گا “۔ آخرکار ان لوگوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ دینے کی شرط پر اپنے دین پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا۔

مباہلہ کا واقعہ سورہ آل عمران کی آیت ۶۱ نازل ہونے کے بعد رونما ہوا۔ اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں اہل بیتؑ کی عظیم فضیلت و منقبت کا ذکر ہوا ہے۔ ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ: “جب یہ آیت نازل ہوئی، تو رسول اللہؐ نے علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ کو بلایا اور فرمایا: “اے پروردگار! یہ میرے اہل بیتؑ ہیں “۔ یعنی آیت میں “ابنائنا ”، “نساءئنا ” اور “انفسنا ” سے ان چار معصوموںؑ کی برتری اور فضیلت کو ظاہر ہوتی ہے کیونکہ نبی اکرمؐ نے صرف انہی چار افراد کو منتخب فرمایا تھا۔

معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں ضمیریں جمع کی استعمال ہوئی ہیں اور ظاہری طور پر بہت سے لوگوں کو ساتھ لے جایا جاسکتا تھا لیکن عالم اسلام میں جھوٹوں پر لعنت کرنے کے لئے نبی اکرمؐ نے حکم خدا سے صرف ان چاروں افراد کا انتخاب کیا تھا اور انہیں کو میدان مباہلہ میں لے کر گئے لہذا ان سے بڑے صدیق اور سچے کوئی نہیں تھے۔اور اس طرح میدان مباہلہ میں صرف حضرت فاطمہ ؑ، آپ کے بابا ؐ، آپ کے شوہرؑ اور آپ کے بچوں ہی بدولت اسلام کو عیسائیوں کے مقابلے میں عظیم فتح و کامیابی نصیب ہوئی۔

مباہلہ میں مسلمانوں کی طرف سے حضرت فاطمہ زہراؑ کی موجودگی اس بات کا بھی اعلان کرتی ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑسے افضل و برتر کوئی نہیں تھا جو مسلم خواتین کی نمائندگی کرسکے۔ صرف آپ ؑ تھیں جنہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی فرمائی تھی (تفصیل کے لئے: تفسیر اهل بیتؑ، ج ۲، ص ۶۰۸؛ بحارالانوار، ج ۳۷، ص ۲۶۴ و ج ۳۹، ص ۳۱۵) ۔

۲۰. فاطمہؑ؛ اجر رسالت

قرآن مجید میں مسلمانوں کی جانب سے اجررسالت ادا کرنے کے اظہار کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «…قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فيها حُسْناً إِنَّ اللهَ غَفُورٌ شَكُورٌ» (شوریٰ، آیت ۲۳) ۔ احادیث اور تفاسیر کے مطابق یہ آیت پیغمبراکرمؐ کے نزدیکی رشتہ داروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس میں صرف اہل بیت اطہارؑ شامل ہیں۔ جیسا کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ «لَمَّا نَزَلَتْ قُلْ لا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً الْآیَةَ قَالُوا یَا رسول اللهؐمَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِینَ أُمِرْنَا بِمَوَدَّتِهِمْ قَالَ علِیٌّ وَ فَاطِمَةَ وَ وُلْدُهُمَا»؛” جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ؐ سے پوچھا گیا کہ کون لوگ ہیں جن کی مودت کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے؟ تو آنحضرتؐ نے فرمایا: علیؑ و فاطمہؑ اور ان کے بیٹے اس سے مراد ہیں (تفسیر اهل بیت ؑ، ج ۱۳، ص ۶۰۲ بحارالانوار، ج ۲۳، ص ۲۲۹) ۔ اسی طرح ائمہ ؑ نے متعدد موقعوں پر اس آیت کے ذریعہ اپنی خاص فضیلت و منقبت کا اظہار فرمایا ہےجیسا کہ حضرت امام حسنؑ فرماتے ہیں: «أَنَا مِنْ أَهْلِ بَیْتٍ افْتَرَضَ اللَّهُ مَوَدَّتَهُمْ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ»؛ میں وہ اہل بیتؑ کی فرد ہوں جن کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہے (تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۳، ص ۶۰۰؛ بحارالانوار، ج ۲۳، ص ۲۵۱) ۔

اسی طرح حضرت امام حسینؑ نے فرمایا کہ: «إِنَّ الْقَرَابَةَ الَّتِی أَمَرَ اللَّهُ بِصِلَتِهَا وَ عَظَّمَ حَقَّهَا وَ جَعَلَ الْخَیْرَ فِیهَا قَرَابَتُنَا أَهْلَ الْبَیْتِؑالَّذِینَ أَوْجَبَ حَقَّنَا عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ»؛ ” وہ رشتہ دار جن کے بارے میں خداوندعالم نے حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے، ان کے حقوق کو بڑا سمجھا جائے اور ان کے حق میں خیر و نیکی کی جائے، وہ رشتہ داری ہم اہل بیتؑ کی ہے، جن کے حق کو خداوندعالم نے ہر مسلمان پر واجب قرار دیا ہے “(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۳، ص ۶۰۴؛ بحارالانوار، ج ۲۳، ص ۲۵۱) ۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button