اسلامی معارف

مقامات حضرت فاطمہ زہراؑ آیات کی روشنی میں

تحریر: مولانا سید کاشف محمد رضوی زیدپوری صاحب۔ طالب علم جامعۃ المصطفی(ص) العالمیہ۔ قم ایران

 فهرست مندرجات

مقامات حضرت فاطمہ زہراؑ آیات کی روشنی میں

خلاصہ مطالب

مقدمہ

قرآن کریم میں حضرت فاطمہ زہراؑ کا مقام

سورہ دخان

سورۂ قدر

سورۂ کوثر

آیات سورہ نور

آیت تطہیر اور اصحاب کساء

آیۃ مؤدت آیت ۲۳ سورہ شوریٰ

آیۃ مباہلہ

سورهٔ انسان

نتیجہ‌گیری

منابع و مآخذ

 

خلاصہ مطالب

آیات اور روایات، جو شیعہ و سنی دونوں کے یہاں معتبر ہیں، قرآن کی کئی آیات میں حضرت فاطمہؑ کا ذکر آیا ہے، لیکن ان کا نام براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا ہے، جیسے امامانِ شیعہ کے بارے میں آیا ہے۔ اہل سنت اور اہل تشیع کے محققین اور مصنفین نے مختلف آیات کو حضرت فاطمہؑ کے بارے میں سمجھا ہے۔ بعض نے ۳۰ آیات، بعض نے ۶۰ آیات جو کہ ۴۱ سورہ میں آئی ہیں، اور بعض نے ۱۳۵ آیات جو کہ ۶۷ سورہ میں آئی ہیں، حضرت فاطمہؑ کے بارے میں قرار دی ہیں۔ یہ اختلاف آیات کی نوعیت اور ان کی تخصیص کی وجہ سے ہے: کبھی ایک ہی آیت میں حضرت فاطمہؑ کے بارے میں دو مختلف موضوعات ذکر کیے گئے ہیں اور کبھی ایک آیت میں فقط حضرت فاطمہؑ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ زیادہ تر اس انتساب کا تعلق احادیث سے ہے، مگر بعض دفعہ شانِ نزول، مصداقِ آیت کے مطابق اور بعض اوقات آیات کے تفسیر یا تأویل اور بطن سے یہ انتساب کیا گیا ہے۔(مک‌اولیف، اسکندرلو و رضائی اصفهانی، «فاطمه در قرآن»، قرآن‌پژوهی خاورشناسان)۔

اس میں بنیادی طور پر مختلف تفسیری وجوہات اور اختلافات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کیسے مختلف علماء نے حضرت فاطمہؑ کے ذکر کو مختلف آیات میں دیکھا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ علمائے شیعہ و اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ یہ آیات و روایات حضرت فاطمہ زہراؑ   کے لیے بلند و بالا مقامات کو بیان کرتی ہیں۔ ان میں سے بعض اہم مقامات میں مقام اصطفاء، رضایت و غضب کا محور ہونا، بضعہ ہونے کا درجہ، صدیقہ ہونے کا مقام اور قرآن میں ان کی اہمیت جیسے سورہ دخان، سورہ قدر اور سورہ کوثر آیہ نور و سورہ انسان و آیہ مباہلہ و آیہ مودت کا ذکر کیا گیا ہے، جو ان کی فضیلت کو دیگر تمام مخلوقات پر ظاہر کرتی ہیں۔

کلیدی الفاظ: حضرت فاطمہ زہراؑ  ، اصطفاء، رضایت و غضب، صدیقہ، روایات، قرآن۔

مقدمہ

حضرت فاطمہ زہراؑ   کا مقام اور عظمت اتنی بلند ہے کہ کوئی بھی شخص، سوائے اہل بیتؑ کے، اس کے بارے میں بات نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں، بات کرنا اور کسی بات کو سننا ایک چیز ہے، اور اس بات کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا بالکل مختلف معاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رازوں میں سے ایک راز بنایا ہے، اور ان کے بارے میں یہ راز صرف اہل بیتؑ ہی جان سکتے ہیں۔ لیکن حقیقتاً، حضرت فاطمہ زہراؑ   کون ہیں کہ جن کی پہچان اور معرفت سے انسان عاجز ہے؟ کون سی ایسی گوہر نایاب ہیں کہ جن  کی خدمت میں ملائکہ کو فخر حاصل ہے؟

یہ مقالہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے مقامات میں سے کچھ کو بیان کرے تاکہ ہم اس گوہر نایاب کی کچھ معرفت حاصل کر سکیں، جن کی نہ صرف قرآن میں تعریف کی گئی ہیں، بلکہ فریقین کی روایات میں بھی ان کی فضیلت تسلیم کی گئی ہے۔ جس کے ذریعے اہل علم کو معرفت حاصل ہو اور دشمنوں کے لیے حجت قائم ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا، رسالت اور امامت کے درمیان ایک اہم رابطے کی علامت ہیں۔

قرآن کریم میں حضرت فاطمہ زہراؑ کا مقام

قرآن کریم میں تین سورے ایسی ہیں جن میں حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا ایک اہم مقام ذکر کیا گیا ہے:

سورہ دخان

حم وَالْکتَابِ الْمُبِینِ۔ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِی لَیلَةٍ مُّبَارَکَةٍ…

(حا، میم. سوگند ہے کتاب روشنگر کی، (جسے) ہم نے ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے…(دخان ۱-۳) روایات کے مطابق، اس بابرکت رات سے مراد حضرت فاطمہ زہراؑ   ہیں۔

اس آیہ شریفہ کے تحت ایک طویل روایت آئی ہے، جس کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے، جو اس بحث سے متعلق ہے؛ امام کاظم علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک نصرانی شخص نے اس آیہ کے بارے میں سوال کیا:

فَقَالَ النَّصْرَانِی إِنِّی أَسْأَلُک أَصْلَحَک اللَّهُ قَالَ سَلْ قَالَ أَخْبِرْنِی عَنْ کتَابِ اللَّهِ تَعَالَى الَّذِی أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ نَطَقَ بِهِ ثُمَّ وَصَفَهُ بِمَا وَصَفَهُ بِهِ فَقَالَ حم. وَ الْکتابِ الْمُبِینِ. إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِی لَیلَةٍ مُبارَکةٍ إِنَّا کنَّا مُنْذِرِینَ. فِیها یفْرَقُ کلُّ أَمْرٍ حَکیمٍ مَا تَفْسِیرُهَا فِی الْبَاطِنِ فَقَالَ أَمَّا حم فَهُوَ مُحَمَّدٌ صلی‌الله علیه و آله وسلم وَ هُوَ فِی کتَابِ هُودٍ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیهِ وَ هُوَ مَنْقُوصُ الْحُرُوفِ وَ أَمَّا الْکتابِ الْمُبِینِ فَهُوَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ عَلِی علیه السلام وَ أَمَّا اللَّیلَةُ فَفَاطِمَةُ علیها السلام وَ أَمَّا قَوْلُهُ فِیها یفْرَقُ کلُّ أَمْرٍ حَکیمٍ یقُولُ یخْرُجُ مِنْهَا خَیرٌ کثِیرٌ فَرَجُلٌ حَکیمٌ وَ رَجُلٌ حَکیمٌ وَ رَجُلٌ حَکیمٌ .

ایک نصرانی (عیسائی عالم) نے امام (علیہ السلام) سے عرض کیا:

“اے فرزندِ رسول، میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، خدا آپ کی اصلاح فرمائے۔”

امام نے فرمایا: “پوچھو۔”

اس نے کہا: “مجھے اس کتابِ خدا کے بارے میں بتائیے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی اور جس کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے:

حم. وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ. إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ. فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ

“حم، قسم ہے اس روشن کتاب کی، بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا، یقیناً ہم ڈرانے والے ہیں، اس رات میں ہر حکیمانہ امر جدا اور ظاہر کیا جاتا ہے۔” (سورہ دخان، 1-4)

بتائیے اس آیت کی باطنی (باطنی و معنوی) تفسیر کیا ہے؟”

امام علیہ السلام نے فرمایا:

“جہاں تک حم کا تعلق ہے، وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

اور الکتاب المبین (روشن کتاب) سے مراد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہیں۔

اور لیلۃ (رات) سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں۔

اور خدا کا فرمان فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ یعنی ‘اس میں ہر حکیمانہ امر ظاہر کیا جاتا ہے’ — اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے (یعنی فاطمہ سے) خیرِ کثیر ظاہر ہوگا؛ ایک حکیم مرد، ایک اور حکیم مرد، اور ایک تیسرا حکیم مرد (یعنی حسن، حسین، اور مہدی علیہم السلام)۔”

یہ روایت ایک باطنی یا تأویلی تفسیر ہے، جس میں قرآن کے الفاظ کی ظاہری کے بجائے روحانی و رمزی معانی بیان کیے گئے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ حم سے مراد حضرت”محمد” صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو وحی کے حامل اور دین کے مظہر ہیں۔

الکتاب المبین سے مراد حضرت “علی” علیہ السلام ہیں جو قرآن کے مفسر، شارح، اور حقیقتِ قرآن کے مظہر ہیں۔

اللیلۃ المبارکۃ سے مراد حضرت “فاطمہ” سلام اللہ علیہا ہیں جو نورانی شب کی مانند ہیں، جن سے خیر اور ہدایت کا ظہور ہوا۔

أمر حکیم سے مراد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بطنِ مبارک سے ظاہر ہونے والی معصوم حکیم نسل ہیں جن میں  حضرات —امام حسن، حسین، اور قائم (عجل اللہ فرجہ) — ہیں جو سب کے سب “رجال حکیم” (دانشمند و معصوم امام) ہیں۔ (کافی، ج۱ ص۴۷۸)

گویا اس آیت کی باطنی تفسیر میں اہل بیتؑ کو قرآنِ مجسم اور مظاہرِ وحی کے طور پر پیش کیا گیا ہے

سورۂ قدر

“إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِی لَیلَةِ الْقَدْرِ” ؛ “بیشک ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا۔”( سوره قدر ۱)

امام صادقؑ نے اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر میں فرمایا:

“اَللَّیلَةُ فَاطِمَةُ، وَ اَلْقَدْرُ اَللَّهُ، فَمَنْ عَرَفَ فَاطِمَةَ حَقَّ مَعْرِفَتِهَا فَقَدْ أَدْرَكَ لَیلَةَ الْقَدْرِ، وَ إِنَّمَا سُمِّيَتْ فَاطِمَةَ لِأَنَّ الْخَلْقَ فُطِمُوا عَنْ مَعْرِفَتِهَا”۔ یعنی “لیلہ”(رات) سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں، اور “قدر”سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔ پس جس نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اُن کی حقیقت کے مطابق پہچان لیا، اُس نے دراصل شبِ قدر کو درک کر لیا۔ اور انہیں “فاطمہ” اس لیے کہا گیا کہ مخلوقات اُن کی حقیقی معرفت حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔”(تفسیر الفرات ص۵۸۱)۔

لہٰذا اس آیۂ مبارکہ میں “لیلہ” (رات) سے حضرت صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیہا مراد ہیں۔

شبِ قدر، جو قرآن کے نزول اور تقدیر کے فیصلوں کی رات ہے، حضرت فاطمہ زہراؑ   کے نام سے موسوم کی گئی ہے۔

وہی شبِ قدر جس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے افضل ہے۔

حقیقتاً فاطمہ زہراؑ   کی ذات کیا عظیم ہستی ہے کہ خداوند متعال نے شبِ قدر کو سمجھنے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کی شرط، حضرت زہرا کی معرفت کو قرار دیا ہے۔

جو شخص حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مقام اور حقیقت کو پہچان لے، وہ دراصل شبِ قدر کو سمجھ چکا ہے۔

شاید یہ بھی اُن عظیم الٰہی اسرار میں سے ایک راز ہو جسے صرف اللہ تعالیٰ اور اہل بیتؑ ہی جانتے ہیں، اور ہماری عقلیں اُس کے درک سے عاجز ہیں۔

سورۂ کوثر

“إِنَّا أَعْطَینَاكَ الْكَوْثَرَ”؛ “بیشک ہم نے آپ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو کوثر عطا کیا۔” (سوره کوثر ۱)

مرحوم طبرسی (رحمتہ اللہ علیہ) اس آیۂ مبارکہ کے ذیل میں فرماتے ہیں:

“ ( کوثر)سے مراد کثرتِ نسل و ذریت ہے، اور یہ بات نسلِ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں، جو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد سے ہے، واضح طور پر ظاہر ہو چکی ہے۔ کیونکہ ان کی تعداد شمار سے باہر ہے، اور بحمد اللہ ان کی نسل تا قیامت باقی رہے گی۔

یہ تفسیر اُس شانِ نزول کے عین مطابق ہے جو اس سورہ کے بارے میں نقل کی گئی ہے، کہ عاص بن وائل سهمی نے جب رسول خدا ؐ کے فرزند عبداللہ کا انتقال ہوا تو (نعوذ باللہ) آپ کو ‘ابتر’ یعنی ‘بے نسل’ کہا۔ قریش نے بھی یہی طعنہ دیا اور کہا: محمد (ص) “صنبور” ہے (یعنی جس کی نسل آگے نہیں بڑھے گی)۔

پس یہ سورہ نازل ہوا تاکہ ان کے ان بیہودہ اقوال سے پیدا ہونے والے غم و اندوہ کو رسول خدا ؐ کے دل سے دور کیا جائے اور ان کی باطل باتوں کو باطل و نابود کر دیا جائے۔” (تفسیر جوامع الجامع ج۳ ص۸۵۶)

“کوثر” دراصل لا محدود خیر و برکت کے معنی میں ہے، اور خداوند متعال نے حضرت فاطمہ زہراؑ   کو ہی اس “خیرِ کثیر” کے طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا۔

تاکہ وہ بدزبان دشمن جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو “ابتر” کہا کرتے تھے، ان کی زبانیں بند ہو جائیں۔

آیات سورہ نور

یہ آیات سورہ نور کی آیات ۳۵ سے ۳۸ کوآیات نورکہا جاتا ہے۔ روایتی بحث میں المیزان میں ایسی احادیث آئی ہیں جو ان آیات کا مصداق اہلبیت  پیامبرکو قرار دیتی ہیں اور مشکواۃ کو حضرت فاطمۂ زہراؓ سے تعبیر کرتی ہیں۔ اس کے بعد یہ وضاحت دی گئی ہے کہ ان آیات میں ذکر ہونے والے”بیوت” سے مراد انبیاء کے گھروں کا ذکر ہیں، اور ان میں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؑ کا گھر بھی شامل ہے۔ (طباطبایی، ترجمهٔ تفسیر المیزان، ۱۵:‎ ۱۹۵–۱۹۶)

اسی طرح روح‌المعانی میں بھی آیت ۳۶ کی تفسیر  سے”بیوت” کے متعلق وہی روایت آئی ہے کہ یہاں مراد انبیاء کے گھر ہیں۔ (آلوسی، روح‌المعانی، ۱۸:‎ ۱۷۴)

ابن مغازلی اپنی کتاب مناقب میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں حضرت موسی کاظمؓ سے روایت ہے کہ آیت میں ذکر ہونے والی “مِشکاة” اور “کَوکَبٌ دُرّیٌّ” کا مصداق حضرت فاطمہؑ ہیں۔ (ابن مغازلی، مناقب مغازلی، ۲۶۳–۲۶۴)

یہاں قرآن کی ان آیات کے بارے میں مختلف تفسیری روایات کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں حضرت فاطمہؑ کا ذکر اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

آیت تطہیر اور اصحاب کساء

علامہ طباطبائی نے اپنی تفسیر المیزان میں اس آیت کی جامع بحث کی ہے اور اس آیت کے مخاطب کو اصحاب کساء قرار دیا ہے۔ وہ اس بارے میں ایسی احادیث کا ذکر کرتے ہیں جو سات سو سے زائد ہیں اور جن میں سے بیشتر احادیث اہل سنت سے آئی ہیں۔ اہل سنت میں اس حدیث کے راویوں میں ام سلمة، ابو سعید خدری، سعد بن ابی وقاص، واثلہ بن اسقع، ابو الحمراء، ابن عباس، ثوبان (جو پیغمبر اسلام کے آزاد کردہ غلام تھے)، عبد اللہ بن جعفر، علی بن ابی طالب، حسن بن علی اور کئی دیگر شامل ہیں، اور ان احادیث کے قریب چالیس مختلف طرق اہل سنت میں نقل ہوئے ہیں۔

شیعہ راویوں میں علی بن ابی طالب، علی بن حسین، محمد باقر، جعفر صادق، علی بن موسی الرضا، ام سلمه، ابوذر، ابوالاسود دؤلی، عمرو بن میمون اودی اور سعد بن ابی وقاص جیسے افراد شامل ہیں اور ان کے ذریعے اس حدیث کے تیس سے زائد مختلف طرق نقل ہوئے ہیں۔ (طباطبایی، ترجمهٔ تفسیر المیزان، ۱۶:‎ ۴۶۲–۴۷۷)

الوسی نے اپنی تفسیر میں مختلف روایات کا ذکر کرتے ہوئے اہل بیت کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آیت اصحاب کساء پر نازل ہوئی ہے۔ تاہم، وہ عصمت اور طہارت کے موضوع پر شیعہ عقیدہ کو رد کرتے ہوئے اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ اہل بیت معصوم ہیں، اور اس آیت کو ایک شرط کے طور پر دیکھتے ہیں، نہ کہ ایک خبری آیت جو ماضی میں کسی واقعہ کو بیان کرے۔ (آلوسی، روح‌المعانی، ۲۲:‎ ۱۲–۲۰)۔

طبری جامع البیان میں مختلف احادیث نقل کرتے ہیں جن میں اس آیت کو علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے بارے میں  بیان کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین کا ماننا ہے کہ اس آیت سے مراد اہل بیتِ پیامبرؐ یہی افراد ہیں۔ (طبری، جامع البیان، ۲۲:‎ ۵–۷)۔

بیضاوی نے اپنی تفسیر انوار التنزیل میں کہا ہے کہ شیعہ اس آیت کو علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹوں کے بارے میں مانتے ہیں اور عصمتِ اہل بیت کے حوالے سے اس آیت کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس احتجاج کا پہلے اور بعد کے آیات سے کوئی تناسب نہیں ہے اور احادیث صرف اتنا کہتی ہیں کہ یہ لوگ اہل بیتِ پیامبرؐ میں شامل ہیں۔ (بیضاوی، انوار التّنزیل، ۴:‎ ۲۳۱)۔

فخر رازی نے تفسیر کبیر میں اس آیت کے اہل بیت کے بارے میں مختلف آراء کا ذکر کیا ہے، مگر ان کے مطابق سب سے معتبر رائے یہ ہے کہ اہل بیت میں پیغمبرؐ کے اہل خانہ، یعنی علی، فاطمہ، حسن، حسین اور ان کی بیویاں شامل ہیں۔( فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۲۵:‎ ۲۱۰)

ابن کثیر نے تفسیر القرآن العظیم میں حدیث نقل کی ہے کہ پیغمبرؐ چھ ماہ تک فاطمہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اہل بیت کو نماز کے لیے آواز دیا کرتے تھے اور حدیث کساء بھی بیان کی ہے۔( ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۶:‎ ۳۶۵–۳۷۱)

ابن عطیہ نے المحرر الوجیز میں ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق یہ آیت پیغمبرؐ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے حق میں نازل ہوئی تھی۔(ابن عطیه، المحرر الوجیز، ۴:‎ ۳۸۴)

تأویلاتُ أهل السنة میں بھی کہا گیا ہے کہ شیعہ اس آیت کو اہل بیت (علی، فاطمہ، حسن، حسین) کے بارے میں مانتے ہیں اور اس کی دلیل حدیث کساء سے لیتے ہیں۔( ماتریدی، تأویلات اهل السنّة، ۸:‎ ۳۸۲–۳۸۳)

آیۃ مؤدت آیت ۲۳ سورہ شوریٰ

المیزان میں آیت ۲۳ سورہ شوریٰ کی تفسیر میں مختلف مفسرین کی آراء کو بیان کیا گیا ہے اور ان پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس آیت میں “مَوَدَّتِ قُربیٰ” کا مفہوم، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت سے محبت قرار دیا گیا ہے — یعنی علی، فاطمہ، حسن اور حسین۔ اس کے بعد مختلف روایات کا ذکر کیا گیا ہے جو اہل سنت اور شیعہ دونوں کے حوالے سے اس مفہوم کی وضاحت کرتی ہیں۔ (طباطبایی، ترجمهٔ تفسیر المیزان، ۱۸:‎ ۵۹–۶۸، ۷۳–۷۷)

آلوسی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے ابن عباس کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں پیغمبر سے “قُربیٰ” کے بارے میں سوال کیا گیا، اور پیغمبرؐ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو اس کا جواب دیا۔ آلوسی مزید کہتے ہیں کہ اہل بیت کے بارے میں اس آیت کے نزول کے حوالے سے اتنی زیادہ احادیث موجود ہیں کہ ان کو شمار کرنا ممکن نہیں۔ آخر میں وہ حدیث سفینہ کا بھی ذکر کرتے ہیں، جس میں پیغمبرؐ نے اہل بیت کو کشتی نوح کے مانند قرار دیا ہے۔

دوسری طرف، روح‌المعانی میں شیعہ عقیدہ کے رد میں کہا گیا ہے کہ اس آیت میں “مودّت” سے مراد اہل بیت سے محبت ہے، لیکن یہ آیت اس بات پر دلیل نہیں  کہ اہل بیت کی امامت یا طاعت واجب ہے۔( آلوسی، روح‌المعانی، ۲۵:‎ ۳۰–۳۳)

جامع البیان میں طبری نے “قُربیٰ” کے مختلف معانی کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس آیت میں “قُربیٰ” سے مراد پیغمبرؐ کے قریبی رشتہ دار ہیں۔( طبری، جامع البیان، ۲۵:‎ ۱۵–۱۷)۔

فخر رازی نے تفسیر کبیر میں تفسیر کشّاف کے حوالے سے کہا ہے کہ پیغمبرؐ سے پوچھا گیا تھا کہ “قُربیٰ” سے کیا مراد ہے، اور پیغمبرؐ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو اس کا مصداق قرار دیا۔ ابن عطیہ نے المحرر الوجیز میں بھی یہی بیان کیا کہ “قُربیٰ” سے مراد پیغمبرؐ کے اہل خانہ ہیں۔ (فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۲۷:‎ ۱۶۷۔ ابن عطیه، المحرر الوجیز، ۵:‎ ۳۴)۔

ابن کثیر نے تفسیر القرآن العظیم میں علی بن حسین کی اسیری کے دوران دمشق میں ایک شخص کے ساتھ ہونے والے واقعے کا ذکر کیا ہے، جس میں اس شخص نے “قُربیٰ” کے بارے میں سوال کیا اور علی بن حسین نے اس آیت کی مدد سے اس کا جواب دیا۔ (ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۷:‎ ۱۸۳–۱۸۴)

آیۃ مباہلہ

علامہ طباطبائی کے مطابق، رویداد مباہلہ صدر اسلام کا ایک اہم واقعہ ہے، جس میں پیغمبر اسلام اور ان کے اہل بیت ایک طرف تھے اور مسیحی نجران کے لوگ دوسری طرف۔ اس واقعے میں مسیحیان نجران نے پیغمبرؐ سے عقیدہ کی درستگی پر بات کی، اور اس گفتگو کا انجام اس حد تک پہنچا کہ پیغمبرؐ نے مباہلہ کی درخواست پیش کی۔( طباطبایی، ترجمهٔ تفسیر المیزان، ۳:‎ ۳۵۰–۳۸۵ )۔

دونوں طرف کے لوگ اپنے ساتھ اپنے افراد کو لے کر مباہلے کے مقام پر پہنچے۔ جب مسیحیوں نے دیکھا کہ پیغمبرؐ اپنے سب سے قریبی افراد — علی، فاطمہ، حسن اور حسین — کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لیے آئے ہیں، تو انہیں یقین ہو گیا کہ وہ اس مباہلے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ پیغمبرؐ کا اپنی اہل بیت کے بارے میں یہ رویہ، ان کے عقیدہ کے بارے میں پختہ یقین کو ظاہر کرتا تھا۔( طباطبایی، ترجمهٔ تفسیر المیزان، ۳:‎ ۳۵۰–۳۸۵)

روح‌المعانی میں بھی، مسیحیوں کی پیغمبرؐ کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مباحثہ اور پھر پیغمبرؐ کی طرف سے مباہلہ کی پیشکش کے بعد، موجودہ روایات کو نقل کیا گیا ہے۔ اس میں ذکر کیا گیا کہ “آیت مباہلہ” میں ذکر ہونے والے افراد — یعنی علی، فاطمہ، حسن اور حسین — ہی وہ لوگ ہیں جو اس واقعے میں شامل تھے، اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت کی برتری ہے۔( آلوسی، روح‌المعانی، ۳:‎ ۱۸۸–۱۹۰)۔

اسی طرح، فخر رازی، بیضاوی (انوار التنزیل)، محلی، سیوطی، ابن کثیر (تفسیر القرآن العظیم) اور ابن عطیہ اندلسی (المحرر الوجیز) نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے کہ مباہلے میں شریک افراد علی، فاطمہ، حسن اور حسین تھے۔( فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۸:‎ ۸۹–۹۰۔ بیضاوی، انوار التّنزیل، ۵:‎۳۴۲۔ محلی و سیوطی، تفسیر الجلالین، ۳:‎ ۶۰ ۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۲:‎ ۴۶ ۔ابن عطیه، المحرر الوجیز، ۱:‎ ۴۴۷–۴۴۸)۔

سورهٔ انسان

سید محمد حسین طباطبایی، جو کہ شیعہ مفسر ہیں، اس سورہ کی تفسیر میں روایات کا حوالہ دیتے ہوئے، جو اہل سنت اور شیعہ کی کتابوں میں موجود ہیں، بیان کرتے ہیں کہ اس سورت کا شأن نزول علی اور فاطمہ اور ان کے بچے کی بیماری یا بچوں کی بیماری کے ساتھ منسلک ہے، اور اس میں نذر کا ذکر ہے جو بچوں کی صحت یابی کے لیے کی گئی تھی۔

علامہ طباطبایی روایات ترتیب نزول سورتوں، سیاق آیات اور دیگر متعلقہ روایات کی روشنی میں اس سورت کو مدنی قرار دیتے ہیں۔

وہ اہل سنت کی بعض روایات کا ذکر کرتے ہیں جن میں ایک سیاہ فام شخص کی پیغمبر سے ملاقات اور اس سورہ کے نزول کے سبب کے حوالے سے بات کی گئی ہے، لیکن علامہ طباطبایی ان روایات کی تنقید کرتے ہوئے ان کی انتساب کو رد کرتے ہیں اور اس سورت کے نزول کو اہل بیت کے متعلق ثابت کرتے ہیں۔( طباطبایی، ترجمهٔ تفسیر المیزان، ۲۰:‎ ۲۱۱–۲۲۰)۔

اہل سنت کے مفسر شہاب الدین آلوسی نے بھی مختلف روایات اور مفسروں کی آراء کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بیان کیا ہے اور اسے اہل بیت سے متعلق قرار دیا ہے۔

آلوسی نے ترمذی اور ابن جوزی کی روایات اور آیات کے ظاہری مفہوم کی روشنی میں کہا ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ علی اور فاطمہ کے بچے مدینہ میں پیدا ہوئے تھے، جو آیات کے ظاہری مفہوم سے متصادم نہیں۔

آلوسی نے اس سورہ کی لطافت بھی بیان کی کہ اس میں فاطمہ زہرا کی تعظیم کے پیش نظر کہیں “حورالعین” کا ذکر نہیں آیا بلکہ صرف “ولدان مخلدون” (ہمیشہ زندہ رہنے والے بچے) کا ذکر ہے۔(آلوسی، روح‌المعانی، ۲۹:‎ ۱۵۷–۱۵۸)

فخر رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں، زمخشری کی تفسیر البسیط سے روایت نقل کی ہے کہ علی اور فاطمہ کے بچوں کی بیماری کی داستان بیان کی گئی ہے، لیکن انہوں نے کہا ہے کہ ان آیات کا اختصاص علی، فاطمہ اور ان کے بچوں تک لازم نہیں ہے، بلکہ یہ آیات تمام نیک اور متقی صحابہ پر بھی صادق آتی ہیں، جب تک کہ خاص اطاعت یا فرمانبرداری کا ذکر نہ ہو۔( فخر رازی، تفسیر کبیر، ۳۰:‎ ۲۴۴–۲۴۵)

شوکان  اپنی کتاب فتح القدیر میں ابن مردویه سے ابن عباس کی روایت نقل کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ آیات علی بن ابی طالب اور فاطمہ زہرا کے بارے میں ہیں۔( شوکانی، فتح القدیر، ۵:‎ ۴۲۱)

نتیجہ‌گیری

آیات اور ان کی تفسیری روایات کی روشنی میں جو دونوں فرقوں کے لیے قابل قبول ہیں، حضرت صدیقه طاہرہ سلام اللہ علیھا کو بہت سے اعلیٰ مقامات اور منزلتیں حاصل ہیں جن میں مقام اصطفاء شامل ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس علم، عصمت، حجیت اور امت پر برتری ہے۔

لہٰذا اہل سنت برادران کو چاہیے کہ وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے ان مقامات کو قبول کریں، اور ان کی اطاعت کریں کیونکہ ان کی رضا و غضب کا محور حضرت صدیقه کبری سلام اللہ علیھا ہیں، جن کا تذکرہ عامہ میں بھی ہوا ہے اور یہ بات حجت ہے۔ شیعہ و سنی دونوں کے لیے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی معرفت و اطاعت ضروری ہے ۔

  منابع و مآخذ

  • قرآن کریم
  • محمد باقر مجلسی، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار، مؤسسة الوفاء، چاپ دوم بیروت ۱۴۰۴ق.
  • عیون اخبار الرضا علیه السلام ، تصحیح سید مهدی حسینی لاجوردی، انتشارات جهان، تهران ۱۳۷۸ق.
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق یوسف عبدالرحمن مرعشلی، دار المعرفة، بیروت.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه دمشق، تحقیق علی شیری، دارالفکر، بیروت ۱۴۱۵ق.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة فی تفسیر الصحابة، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و شیخ علی محمد معوض، دارالکتب العلمیة، چاپ اول بیروت ۱۴۱۵ق.
  • هیثمی، نورالدین ابوبکر، مجمع الزوائد، دارالکتب، بیروت ۱۴۰۸ق.
  • ابن قتیبه، ابومحمد عبدالله بن مسلم دینوری، الإمامة والسیاسة معروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، دارالاضواء، بیروت،چاپ اول ۱۴۱۰ق.
  • هلالی کوفی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس، تحقیق محمد باقر انصاری زنجانی، الهادی، قم، چاپ اول ۱۴۱۵ق.
  • صدوق، محمدبن علی، الامالی، ترجمه آیت الله کمره ای، چاپ چهارم، کتابخانه اسلامیه، تهران، ۱۳۶۲ق.
  • بخاری، محمد ابن اسماعیل، صحیح البخاری، دارالفکر، استانبول، ۱۴۰۱ق
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، تحقیق عبدالوهاب عبداللطیف، دارالفکر، بیروت، چاپ دوم ۱۴۰۳ق.
  • نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، دار الفکر، بیروت
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، مکتبة الداوری، قم.
  • ابن شعبة حرانی، حسن بن علی ، تحف العقول عن آل الرسول، تصحیح علی اکبر غفاری، چاپ دوم، مؤسسه انتشارات اسلامی، قم، ۱۴۰۴ق.
  • فراهیدی، خلیل بن احمد، العین، چاپ دوم، هجرت، قم.
  • ابوجعفر محمد بن حسن طوسی، الامالی، تحقیق:قسم الدراسات الاسلامیة، مؤسسة البعثة.
  • ابوجعفر محمد بن حسن طوسی، تهذیب الاحکام، تحقیق و تعلیق سید حسن موسوی خراسان، دار الکتب الاسلامیة، تهران بازار سلطانی، چاپ سوم.
  • محمد محسن فیض کاشانی، الوافی، منشورات مکتبة امام امیرالمؤمنین عامه اصفهان، تحقیق ضیاءالدین حسینی اصفهانی، چاپ اول ۱۴۰۶ق.
  • محمد بن یعقوب کلینی، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری، دارالکتب الاسلامیه آخوندی، چاپ سوم ۱۳۸۸ق.
  • فرات بن ابراهیم کوفی، تفسیر فرات کوفی، تحقیق محم کاظم، مؤسسة الطبع والنشر التابعة لوزارةالثقافة و ارشاد الاسلامی، طهران، چاپ یکم، ۱۴۱۰ق.
  • شیخ آبی علی الفضل بن الحسن طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، تحقیق مؤسسة نشر اسلامی، چاپ اول ۱۴۱۸ق۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button