اسلامی معارف

حضرت فاطمہ زہراؑ سے حضرت فاطمہ معصومۂ قمؑ کی دس شباہتیں

تحریر : مولانا سید رعایت حسین رضوی۔ طالب علم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ ، قم ایران۔

 فہرست مندرجات

اشارہ

۱۔ ولادت سے پہلے ہی خوشخبری اور نام گزاری

٢‌۔نام اور لقب میں اشتراک

۳۔مدافع ولایت

۴۔ علمی بلندی

۵۔ مقام شفاعت

۶۔ زیارت ماثورہ

۷۔کریمہ

۸۔شہرت خاص و عام

9۔کفو اورہمسر

۱۰۔ثواب زیارت قبر مطہر

 

اشارہ

اس مقالے میں بطور اختصار 10 شباہتیں جو جناب فاطمہ معصومہ قمؑ اور آپ کی جدہ ماجدہ جناب فاطمۃ الزہراؑ  میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے ان کو بیان کیا جارہا ہے:

۱۔ ولادت سے پہلے ہی خوشخبری اور نام گزاری

جیسا کہ جناب فاطمہ زہراؑ کی ولادت سے پہلے رسول خدا ص کو نعوذ باللہ ابتر کے طعنے دیے جاتے تھے جس سے آپ کا دل غمگین ہو جایا کرتا تھا اس لیے خدا نے قرآن میں خیر کثیر یعنی کوثر کا ذکر کر کے اپنے حبیب کو جناب فاطمہ زہراؑکی ولادت کی خبر دی اور جبرائیل کے ذریعے سے خدا کی طرف سے آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا ٹھیک اسی طرح سے جناب فاطمہ معصومہؑ کی ولادت سے پہلے ہی آپ کی ولادت کی خبر تمام شیعوں کو دی جاتی ہے اور آپ کا نام بھی ولادت سے پہلے ہی رکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث میں ملتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں:

“عنقریب میری نسل سے ایک با کرامت خاتون قم میں دفن ہوں گی کہ ان کا نام فاطمہ ہے”(بحارالانوار، ج 60، ص 216)۔

٢‌۔نام اور لقب میں اشتراک

حضرت معصومہؑ کا نام حضرت فاطمہ زہراؑ کے ہمنام ہے اور اس ہمنام ہونے میں کئی وجوہات پوشیدہ ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ دونوں شخصیات نے علم اور عمل کے میدان میں اپنے تمام حریفوں اور رقیبوں پر سبقت حاصل کر لی تھی  اور دوسری شباہت یہ کہ آپ دونوں کی ذات شیعوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے روکیں گی۔ اسی طرح جناب فاطمۃ الزہراؑ کا لقب “معصومہ” تھا کہ جس کی گواہی خود آیہ تطہیر دیتی ہے۔ اور جناب فاطمہ معصومہ قمؑ کو بھی امام معصوم ( یعنی حضرت امام علی رضاؑ) نے معصومہ کے لقب سے نوازا ہے۔

۳۔مدافع ولایت

حضرت فاطمہ زہرا ؑنے اپنی پوری زندگی ولایت حقہ(ولایت حضرت امیرالمومنین علیؑ) کے دفاع میں گزار دی یہاں تک کہ آپؑ کو اس راہ میں شہید کر دیا گیا، اسی طرح حضرت معصومہؑ نے بھی اپنی جدہ ماجدہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے زندگی بھر ولایت حقہ(ولایت امام علی رضاؑ اور ولایت ائمہ معصومینؑ) کی ترویج کی اور کئی حدیثوں کو اپنے چاہنے والوں کے لئے نقل فرمایاجیسے کہ حدیث غدیر حدیث منزلت وغیرہ وغیرہ اور زیادہ تر حدیثیں جو آپ سے نقل ہوئی ہیں وہ ولایت اور امامت حضرت علیؑ کو ثابت کرتی  ہیں۔ اس طرح آپؑ نے اپنے امام وقت کے ساتھ ساتھ تمام گذشتہ معصوم اماموں ؑکی ولایت اور امامت کو ثابت کرنے  کے لئے عملی اور زبانی کوشش فرمائی ہے۔

۴۔ علمی بلندی

مقام علمیت حضرت زہراؑ  اظہر من الشمس ہے کہ آپ علم ما‌ کان و ما یکون کی منزل پر فائز تھیں آپ ہی کے علم کے جریان سے مستفیض ہوتے ہوئے جناب معصومہؑ  نے بھی علم حاصل کیا ۔ چنانچہ  جب شیعوں کا ایک گروہ  کچھ سوالات لے کر امام کے گھر آیا اور وہاں امام کو نہ پاکر انتظار کے بعد واپس پلٹنے لگا تو گھر کے خادم نے آنے کی وجہ دریافت، جب انہوں نے سوالات پیش کئے تو حضرت معصومہؑ نے ان سوالات کا جواب دیاجن کو لے کر وہ گروہ لوٹنے وقت راستہ میں امامؑ سے ملتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنے سوالات و معصومہؑ کی جانب سے دیئے گئے جوابات کو جب امام کاظمؑ کی خدمت میں  پیش کیا تو امامؑ ان کو دیکھ کر تین بار فرمایا: “فداھا ابوھا” اس کے بابا اس پر فدا ہو(محمد محمدي اشتهاردي، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص 133)۔ اور یہی الفاظ رسول خداؐ نے جناب فاطمہ زہراؑ کے لئے بھی استعمال فرمائے تھے۔ (احقاق‌الحق، ج 10، ص 185 و 186)۔

۵۔ مقام شفاعت

حضرت معصومہؑ بھی روز محشر اپنی جدہ جناب فاطمۃ الزہراؑ  کی طرح اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے جیسا کہ ہم زیارت نامے میں پڑھتے ہیں: “اشفعی لنا فی الجنۃ”۔ اسی طرح  حضرت  امام جعفر صادقؑ کی حدیث  میں آیا ہے کہ: «… و تَدخُلُ بِشَفاعَتِها شِيعَتي الجَنَّةَ بِأجمَعِهِم »۔(بحارالانوار، ج۶۰، ص۲۲۸)۔

۶۔ زیارت ماثورہ

حضرت معصومہؑ کی عظمت کے بارے میں یہ بات بھی خاص اہمیت کی حامل ہے کہ ہمارے پاس آپ کے لئے بھی امام معصوم کی طرح زیارت نامہ موجود ہے۔ جب کہ غیر معصومینؑ میں سے حضرت ابوالفضلؑ اور حضرت علی اکبرؑ اور شہیدان کربلاؑ کے علاوہ کسی کے لئے ماثور و مروی زیارتنامہ  نہیں پہنچا ہےاور یہ حضرت معصومہؑ کا زیارت نامہ آپ کے بلند مقام اور منزلت کی تصدیق کرتا ہے باوجود اس کے کہ آپ امام معصوم نہیں ہیں لیکن آپ کی عظمت اتنی ہے کہ آپ کے لئے زیارت نامہ وارد ہوا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جناب معصومہؑ  زیارت نامہ کے اعتبار سے بھی اپنی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہراؑ سے شباہت رکھتی ہیں البتہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے  لئے مختلف طرح سے زیارت نامے نقل ہوئے ہیں اور جناب معصومہ ؑ کے زیارت نامے کو امام علی رضاؑنے بیان فرمایاہے۔

۷۔کریمہ

حضرت معصومہؑ خود اپنی زندگی میں لوگوں کے لئے کرم و سخاوت کا مرکز تھیں اور شہادت کے بعد ہمیشہ سے آپ کا روضہ مبارک ضرورت مندوں اور غریبوں کے پناہ گاہ رہا ہے اور تمام لوگ شیعہ، سنی خاص طورپر خصوصی توجہ اور عقیدت کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں اور آپ کے خوان کرم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بی بی معصومہؑ  ہر مطالبہ گر کے لئے کرم فرمائی و حاجت روائی کرتی ہیں۔ اسی لئے آپ لوگوں کے درمیان “کریمہ اھل بیت” کے لقب سے مشہور ہیں ۔آپ کی یہ سیرت بھی اپنی دادی حضرت فاطمہ زہراؑ کے کریمہ ہونے کی طرح ہے۔ شہزادی فاطمہ زہراؑ کے کرم و سخاوت کے سینکڑوں نمونے تاریخ میں بیان ہوئے ہیں۔ جس کی ایک مثال کو سورہ  دہر (سورہ انسان ) میں ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔

۸۔شہرت خاص و عام

حضرت فاطمہ زہرا ؑکی ذاتِ اقدس کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپ کا چرچہ زبان زدخاص و عام ہے۔ آپ کی معرفت و شناخت کی اہمیت، ضرورت اور اس معرفت کے آثار و برکات کے سلسلے میں متعدد روایات میں تاکید بھی ہوئی ہے(جن کے بیان کا یہاں مقام نہیں ہے)۔

 بالکل اسی طرح حضرت معصومہؑ کی عمر تقریباً 28 سال تھی لیکن جب آپؑ نے اپنے محترم بھائی امام رضا ؑ کی زیارت کے ارادے اور شیعہ تعلیمات کی ترویج کے مقصد سے ایران پہنچنے کا ارادہ کیا تو سینکڑوں بزرگ شخصیتوں نے مدینہ سے ایران تک آپ کی ہمراہی کی  اور جب شہر قم سے نزدیک ہوئیں تو اس وقت  کی معروف شیعہ شخصیات آپ کے استقبال کے لئے ٹوٹ پڑے۔اس لئے کہ آپ کی شخصیت شیعوں کے درمیان مشہور و معروف تھی یہاں تک  موسی ابن خزرج اشعری جیسے حدیث کے راوی اور امام موسی ٰ کاظمؑ کے شاگرد آپ  کو نام سے جانتے تھے ۔ اس بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شیعوں کو آپ کی معرفت تھی اور معلوم تھا کہ کون سی عظیم شخصیت ایران میں داخل ہو رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ خود آپ کی معرفت حاصل کرنے کا حکم حدیثوں میں بھی ملتا ہے جیساکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ:« من زارھا عارفا بحقھا فلہ الجنة» جو شخص معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کرے اس کو جنت نصیب ہوگی۔

9۔کفو اورہمسر

حضرت زہراؑ کے سلسلے میں روایات میں واضح طورپر بیان ہوا ہے کہ عام انسانوں میں شہزادی کائناتؑ کا کوئی بھی کفو و ہمسر نہیں تھا لہذا صرف امام معصوم حضرت امیر المومنینؑ ہی آپ کے ہمسر و کفو قرار پائے۔ (الفردوس،ص373، ج3، ص5130)۔ اسی طرح حضرت معصومہؑ تھیں۔ آپ کی شادی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ آپ کے لئے بھی غیر معصوموں میں کوئی کفو و ہم پلہ نہیں  تھا۔

۱۰۔ثواب زیارت قبر مطہر

حضرت فاطمہ معصومہ قمؑ کا  مزار مقدس ظاہر ہے اور حضرت زہراؑ کی قبر مبارک پوشیدہ ہے لیکن مدفن اور حرم کے لحاظ سے بھی یہاں ایک شباہت کا ذکر ہوتا ہے کہ بعض علماء اور اولیاء  نے مکاشفہ میں معصومینؑ سے یہ جواب پایا کہ تم فاطمہ زہراؑ کی قبرمطہر کے بجائے حضرت معصومہؑ کی زیارت کرو۔ وہی ثواب تمہیں حاصل ہوگا جو قبر فاطمہ زہراؑ  کے ظاہر ہونے کی صورت میں ان کی زیارت کرنے سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ مرحوم آیت اللہ سید محمود مرعشی نجفی (جو آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی (رہ) کے والد گرامی تھے) بہت زیادہ خواہش رکھتے تھے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ  کے مزارِ مقدس کی صحیح جگہ معلوم کر سکیں۔ انہوں نے ایک مجرب ختم (چالیس روزہ عبادت) کا انتخاب  کیا اور چالیس راتوں تک اس پر عمل کیا۔ چالیسویں رات، ختم اور دعا و توسل مکمل کرنے کے بعد، آپ جب آرام کرنے لگے تو خواب میں انہیں حضرت امام محمد باقرؑ  یا امام جعفر صادقؑ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی سعادت ملی۔ امامؑ نے ان سے فرمایا: “عَلَیْکَ بِکَرِیمَۃِ اَہْلِ الْبَیْتِ”؛ (تم اہل بیتؑ کی کریمہ (صاحب عزت  خاتون حضرت فاطمہ معصومہؑ) کی بارگاہ سے متمسک رہو۔

مرحوم مرعشی نجفی سمجھے کہ امامؑ کی مراد حضرت فاطمہ زہراؑ ہیں، تو عرض کی: “میں نے یہ ختمِ قرآن اس لئے کیا تھا کہ آپؑ کے مبارک قبر کی صحیح جگہ معلوم کر سکوں تاکہ بہتر طریقے سے زیارت کرسکوں۔”

امامؑ نے فرمایا: “میری مراد قم میں موجود حضرت فاطمہ معصومہ ؑ  کا مزار ہے۔”

پھر امام (ع) نے مزید فرمایا:

“بعض مصلحتوں کی بنا پر، اللہ نے حضرت زہراؑ کی قبر کو پوشیدہ رکھا ہے۔ اس لئےحضرت معصومہؑ کے مزار کو حضرت زہرا ؑ  کے مزار کی تجلی گاہ بنایا گیا ہے۔ اگر حضرت زہراؑ  کی قبر ظاہر ہوتی اور اس کی عظمت آشکار ہوتی اوراللہ جو عظمت اور جلال اس قبر مطہر کے لئے قرار دیتا وہی حضرت معصومہؑ کے مزار کو عطا کر دیا ہے۔”

اس کےبعدمرحوم مرعشی نجفی جب خواب سے بیدار ہوئے، تو انہوں نے حضرت معصومہؑ ؑ کی زیارت کے لئے ایران  کے سفر کا ارادہ فرمایا۔(کتاب “کریمہ اہل بیتؑ”؛ تألیف: جواد محدثی، ص 43)۔

اسی واقعہ کے بعد حضرت آیۃ مرعشی نجفی نے شہر مقدس قم کو اپنا مسکن بنالیا۔

خلاصہ یہ کہ حضرت معصومہؑ کی شخصیت کی طرح آپ کا مزار مقدس بھی اپنی جدہ ماجدہ حضرت زہراؑ کی طرح عظیم کرامتوں اور برکتوں کا مظہر ہے۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button