اسلامی معارف

فاطمہ(س)؛ مقربہٴ بارگاہِ الٰہی

فاطمہ(س)؛ مقربہٴ بارگاہِ الٰہی

خداوندعالم نے قرآن مجید میں نیک لوگوں کے لئے جنت کی نعمتوں کا ذکر فرماتے ہوئے بیان کیا کہ:

«كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ- وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ-كِتَابٌ مَرْقُومٌ-يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ-إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ»؛

“یاد رکھو کہ نیک کردار افراد کا نامہ ٔاعمال علیین میں ہوگا اور تم کیا جانو کہ علیین کیا ہے؛ ایک لکھا ہوا دفتر ہے جس کے گواہ مقربین ہیں، بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے “(سورہ مطففین، آیت ۱۸-22)۔

 ان آیات میں “مقربین ” کے بارے میں حضرت امام صادقؑ نے فرمایا: مقربین سے مراد رسول اللہؐ، امیرالمومنینؑ، فاطمہؑ، حسنؑ، حسینؑ ہیں.

(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۷، ص ۴۶۲؛ تفسیر قمی، ج ۲، ص ۴۱۰؛ بحارالانوار، ج ۳۶، ص ۱۴۵) ۔

اسی طرح دوسری روایت کے مطابق حضرت امام حسنؑ نے فرمایا کہ قرآن میں جہاں بھی “ابرار ” یعنی نیک لوگوں کا ذکر آیا ہے اس سے مراد ہم اہل بیتؑ ہیں؛

«لِأَنَّا نَحْنُ أَبْرَارٌ بِآبَائِنَا وَ أُمَّهَاتِنَا وَ قُلُوبُنَا عَلَتْ بِالطَّاعَاتِ وَ الْبِرِّ وَ تَبَرَّأَتْ مِنَ الدُّنْیَا وَ حُبِّهَا وَ أَطَعْنَا اللَّهَ فِی جَمِیعِ فَرَائِضِهِ وَ آمَنَّا بِوَحْدَانِیَّتِهِ وَ صَدَّقْنَا بِرَسُولِهِ»؛

اس لئے کہ ہم ہی وہ ہیں جو آباء و اجداد اور ماؤں کے لحاظ سے نیک و پاکیزہ ہیں اور ہمارے دل اطاعت الہی اور نیکیوں کے لئے شیفتہ ہیں اور دنیااور اس کی دوستی سے بیزار ہیں، ہم نے اللہ کے تمام واجبات کی اطاعت کی اور ہم نے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسولؐ کی کامل طور پر تصدیق کی ہے “

(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۷، ص ۴۶۲؛ المناقب، ج ۴، ص ۲) ۔

قرآن کی  مذکورہ آیات اور روایات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ (س) اور اہل بیتؑ وہی حقیقی «نیک لوگ» (الأبرار) اور «مقربین» ہیں ۔ ان حضرات نے پاکیزگی، کامل ایمان، خدا کی اطاعت، زہد اور دنیا سے بے رغبتی کے ذریعے اللہ سے ایسی قربت حاصل کی جو وجودی اور اخلاقی کمال کی بلند ترین منزل ہے۔

یہ قربت نہ نسب کی بدولت ہے، نہ صرف اعزاز کے لیے دی گئی ہے—بلکہ یہ ان کے عمل، عقیدے، خلوص دل اور روحانی صفائی کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے وہ نیکی کے معیار اور ہدایت کے لئے سرچشمہ ہیں۔

ہر مؤمن کا فرض ہے کہ وہ عقیدتی طور پر ان حضرات کو قرآنی «مقربین» مانے، اور اخلاقی طور پر ان کے کردار کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے—یعنی دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرے، اللہ کی اطاعت کا شوق رکھے، اور معنوی قرب کے راستے پر چلتے ہوئے خود کو ان حضرات اور اللہ کے قریب لے جائے۔

حضرت فاطمہ زہراؑ (س) کی زندگی اس راستے کی روشن اور زندہ مثال ہیں۔ آپ نے قربِ الٰہی کے لیے ایسا عملی کردار اپنایا کہ آج بھی ہر مؤمن کے لیے نیکی، پاکی اور سچے ایمان کی بہترین اسوہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button