
شخصیت حضرت امام رضاؑ بزرگان اہل سنت کی نگاہ میں
تحریر: مولانا سید تعلیم رضا جعفری۔ طالبعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران
شخصیت حضرت امام رضاؑ بزرگان اہل سنت کی نگاہ میں
فہرست مندرجات
1۔حسن بن هانی ۔ابونواس (196ق) | ۲۔ محمد بن عمر واقدی (207 ق) | ۳۔حسن بن سهل (215 ق) | ۴۔ مامون (218 ق) | ۵۔عباس (تیسری صدی هجری) | ۶۔ ابراهیم بن عباس (218 ق) | ۷۔عبدالجبار بن سعید (229 ق) | 8. ابوالصلت هَرَوی (236 ق) | ۹۔ ابوزرعه(261 ق)۔ ابو مسلم طوسی (242ق) | ۱۰۔ احمد بن یحیی بلاذری (279 ق) | ۱۱۔ نوفلی (تیسری صدی هجری) | ۱۲۔ ابوبکر بن خُزَیمه (311 ق) و ابوعلی ثقفی (328 ق) | 13۔محمد بن یحیی صولی (335 ق) | ۱۴۔علی بن حسین مسعودی شافعی (346 ق) | ۱۵۔ ابن حبّان بُسْتی شافعی (354 ق) | ۱۶۔حسین بن احمد مهلبی (380 ق) | ۱۷۔ابوالحسن علی بن عمر دارقطنی بغدادی شافعی (385 ق) | ۱۸۔ حاکم نیشابوری شافعی (405 ق) | ۱۹۔ احمد بن علی خطیب بغدادی شافعی (463ق) | ۲۰۔علی بن هبة اللَّه ابن ماکولا (475 ق) | ۲۱۔ابوسعدعبدالکریم بن منصور تمیمی سمعانی شافعی (562 ق) | ۲۲۔ابوالفرج ابن جوزی حنبلی (597 ق) | ۲۳۔ جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمن بن علی قرشی تمیمی بکری بغدادی (597 ق) | ۲۴۔مجد الدین ابن اثیر جَزَری شافعی (606ق) | ۲۵۔ ابوالقاسم عبدالکریم رافعی شافعی (623 ق) | ۲۶۔ شیخ محی الدین محمد بن علی طائی حاتمی اندلسی (638 ق) | ۲۷۔ محب الدین ابوعبداللَّه معروف به ابن نجار بغدادی شافعی (643 ق) | ۲۸۔محمد بن طلحه شافعی (652 ق) | ۲۹۔ سبط بن جوزی حنفی (654 ق) | ۳۰۔ ابن ابی الحدید معتزلی (656 ق) | ۳۱۔محمد بن یوسف گنجی دمشقی شافعی (658 ق) | ۳۲۔ عمر بن شجاع الدین محمد بن عبدالواحد موصلی شافعی (660 ق) | ۳۳۔شمس الدین ابن خلّکان شافعی (681ق) | ۳۴۔ عماد الدین اسماعیل ابوالفداء دمشقی شافعی (732 ق) | ۳۵۔ شمس الدین ذهبی شافعی (748ق) | ۳۶۔ زین الدین ابن وردی حلبی شافعی (749 ق) | ۳۷۔خلیل بن اِیبَک صَفَدی شافعی (764ق) | ۳۸۔عبداللَّه بن اسعد یافعی یمنی مکی شافعی (768 ق) | ۳۹۔محمد بن عبداللَّه ابن بطوطه (779 ق) | ۴۰۔عطاء اللَّه بن فضل اللَّه شیرازی (803ق)
مقدمہ
اسلامی تاریخ میں ائمہ اہل بیتؑ کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے، جن میں حضرت امام علی رضاؑ کی شخصیت نہ صرف شیعہ مکتب فکر کے نزدیک بلند مرتبہ ہے، بلکہ اہل سنت کے علماء اور بزرگوں نے بھی آپ کی علمی، اخلاقی اور روحانی عظمت کو سراہا ہے۔ امام رضاؑ کی فضیلت، زہد و تقویٰ، علم و حکمت، اور عوامی خدمت کے واقعات صرف شیعہ مصادر تک محدود نہیں، بلکہ سنی مصادر میں بھی آپ کے علمی مقام اور اخلاقی کمالات کے گواہ موجود ہیں۔ اس مختصر تحریر میں اہل سنت کے معتبر علماء، مورخین، اور صوفیاء کے اقوال و نظریات کی روشنی میں امام رضا ؑ کی شخصیت کے اہم پہلوؤں کو بیان کیا جارہا ہے:
1۔حسن بن هانی ۔ابونواس (196ق)
ایک دن ابونواس کے بعض اصحاب نے اس سے کہا: ہم نے تم سے بے شرم شخص نہیں دیکھا۔ تم نے ہر چیز پر یہاں تک کہ شراب پر بھی شعر کہے ہیں، جب کہ تمہارے زمانے میں علی بن موسی الرضاؑ موجود ہیں اور تم نے ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا!
ابونواس نے جواب دیا: “خدا کی قسم! میرا شعر نہ کہنا ان کی عظمت کی وجہ سے ہے کیونکہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ اس بلند مرتبت شخصیت کے بارے میں شعر کہہ سکوں”۔
پھر کچھ دیر بعد اس نے امامؑ کے بارے میں اسی بات کو اشعار کی صورت میں اس بیان کیا کہ:
قیل لی: انْتَ احسن الناس طرّا فی فنون من المقال الکلام البنیه لک جُنْدٌ من القریض جید مدیح یثْمِرُ الدُّرَّ فی یدَی مُجتَنیه فعلامَ تَرَکتَ مدحَ ابن موسی و الخصال التی تَجَمَّعْن فیه؟ قُلْتُ لا استطیعُ مَدحُ امام کان جبریل خادما لابیه |
یعنی”مجھ سے کہا گیا کہ تو گفتگو کے تمام فنون میں سب سے بہتر ہے۔ تیری تعریف کرنے والے لوگ بہت زیادہ ہیں، جو تیرے کلام سے موتی چنتے ہیں۔ پھر تو نے فرزندموسیٰ ؑ کی تعریف کیوں ترک کر دی، حالانکہ ان میں تمام خوبیاں جمع ہیں؟ میں نے کہا: میں اس امامؑ کی تعریف کرنے سے قاصر ہوں جس کے والد کے خادم جبرئیل تھے۔”(مرآة الجنان، ج2، ص 11؛ وفیات الاعیان، ج 3، ص 270و271؛ تذکرة الخواص، ص 321؛ المنتظم، ج 6، ص 125؛ الائمة الاثنی عشر، ص 98؛ النجوم الزاهرة، ج 2، ص 220؛ تاریخ الاسلام، ص 271)۔
حضرت امام رضاؑ نے ابونواس کے اشعار کو جب سنا تو آپؑ نے اس کی تشویق کے لئے ۳۰۰ دینار ہدیہ کے عنوان سے دیا تھا۔ (الاتحاف بحب الاشراف، ص314؛ احسن القصص، ج 4، ص 290)۔
سید عباس مکی حسینی، جو اہل سنت کے ادباء میں سے ہے، وہ ابونواس کے اشعار کی عظمت پر تعجب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
لا شک ان ناظم هذا العقد الجوهر یغفر اللہ ما تقدم من ذنبه وما تأخر |
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شعر کے بدلے میں اس شاعر کے گذشتہ اور آئندہ گناہ کو معاف کردیئے ہوں گے (نزهة الجلیس، ج 1، ص266)۔
واضح رہے کہ متعصب ذہبی، اس شعر پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: «قیل هذا لا یجوز اطلاقه إلاّ بنصّ و لا نصّ»؛ یہ بات مطلق طور پر اس طرح نہیں کہی جاسکتی ہے مگر یہ کہ اس بارے میں کوئی واضح نص ہو اور اس سلسلے میں کوئی نص موجود نہیں ہے۔(تذهیب تهذیب الکمال، ج، ص 45)۔
عباس مکی حسینی نے سال 201 یا 202ھ میں اہل بیتؑ کی مدح میں یہ اشعارکہے کہ:
مطهّرون نقیات جیوبهم تجری الصلاة علیهم أینما ذُکروا مَنْ لمْ یکنْ عَلَویاً حِینَ تَنْسَبُه فما له فی قدیم الدهر مُفْتَخر اللَّه لما برأ خلقا فاَتْقَنَه صفاکم و اِصْطفاکم ایها البشر فانْتم الملأ الأعلی و عِنْدکم عِلمُ الکتاب و ما جائت به السور |
“اہل بیتؑ پاک دامن اور پاکیزہ لوگ ہیں جن پر جہاں بھی ذکر ہو، درود بھیجا جاتا ہے۔ جو شخص علیؑ کی اولاد میں سے نہ ہو، اسے فخر کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ جب اللہ نے مخلوق کو بنایا تو اے اہل بیتؑ ! آپ کو چن لیا تھا۔ آپؑ بلند مقام لوگ ہیں اور آپؑ حضرات کے پاس کتاب کا علم اور سوروں کا علم ہے۔”
(وفیات الاعیان، ج 3، ص 271؛ مرآة الجنان، ج 2، ص 11؛ الائمة الاثنی عشر، ص 99؛ الوافی بالوفیات، ج 22، ص 250)۔
۲۔ محمد بن عمر واقدی (207 ق)
محمد بن عمر واقدی بیان کرتا ہے کہ:
“وکان ثقة یفتی بمسجد رسول اللہ وھو ابن نیف وعشرین سنة”
علی بن موسیٰ الرضاؑمعتمد شخصیت تھے اور بیس سال کی عمر میں مسجد رسول اکرمؐ میں فتویٰ دیتے تھے۔(تذکرة الخواص، ص 315)۔
۳۔حسن بن سهل (215 ق)
حسن بن سهل کہتا ہے کہ:
«قد جعل (مأمون) علی بن موسی ولی عهدہ من بعدہ وانہ نظر فی بنی العباس وبنی علی فلم یجد افضل ولا اورع ولا اعلم منہ»۔
مامون نے علی بن موسیٰ الرضاؑ کو اپنا ولی عہد بنایا کیونکہ اس نے بنی عباس اور بنی علی میں ان سے بہتر، پرہیزگار اور عالم تر کسی کو نہیں پایا۔(تجارب الامم، ج 3، ص 366؛ تاریخ الامم و الملوک، ج 5، ص 138؛ الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 162)۔
۴۔ مامون (218 ق)
مامون جو خود حضرت امام رضاؑ کاقاتل ہے، وہ اپنے وزیر فضل بن سہل سے کہتا ہے کہ:
«وما أعلم أحدا أفضل من ھذا الرجل»
“میں اس شخص (امام رضاؑ) سے بہتر کسی کو نہیں جانتا ہوں”۔(مقاتل الطالبیین، ص 402)۔
۵۔عباس (تیسری صدی هجری)
ابراہیم بن عباس کہتا ہے کہ میں نے عباس کو حضرت علی بن موسیٰ الرضاؑ کے بارے میں کہتے سنا کہ: «ما سُئِل الرضا عن شی ء إلا عَلِمَه و لا رأیتُ أعْلَمُ منه بما کان فی الزمان إلی وقت عصره و کان المأمون یمْتِحَنه بالسؤال عن کل شی ء فیجیبُه الجواب الشافی و کان قلیل النوم، کثیر الصوم لا یفوته صیام ثلاثة أیام فی کل شهر و یقول ذلک صیام الدهر و کان کثیر المعروف و الصدقة سرّاً و أکثر ما یکون ذلک منه فی اللیالی المظلمة و کان جلوسه فی الصیف علی حصیر و فی الشتاء علی مسح».
ابراہیم بن عباس کہتے ہیں: میں نے عباس (حضرت امام رضاؑ کے ایک معاصر) کو حضرت علی بن موسی الرضاؑ کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ:
“جو کچھ بھی حضرت علی بن موسی الرضاؑ سے پوچھا جاتا، وہ جواب دیتے تھے اور میں نے آج تک ان کے دور میں ان سے زیادہ عالم شخص نہیں دیکھا۔ مامون مختلف سوالات کے ذریعےآپؑ کی آزمائش کرتا تھا اورحضرت علیؑ بن موسیؑ ہر بار قانع کن جواب دیتے تھے۔ حضرت علیؑ بن موسیؑ کم سوتے تھے اور بکثرت روزے رکھتے تھے۔ ہر مہینے کےتین روزوں کو(ایام البیض) کبھی ترک نہیں ہوتے تھے اور فرماتے تھے کہ: “یہ تین روزے ایک سال کے روزوں کے برابر ہیں”۔ اسی طرح آپؑ بہت زیادہ نیک کام کرتے تھے، خفیہ طور پر صدقہ دیتے تھے اور یہ صدقات زیادہ تر رات کی تاریکی میں دیئے جاتے تھے۔ گرمیوں میں چٹائی پر اور سردیوں میں اون سے بنے کپڑے پر بیٹھتے تھے”( الفصول المهمة، ص 241؛ نورالابصار، ص235 و 236۔ احسن القصص، ج 4 7 ص 289)۔
۶۔ ابراهیم بن عباس (218 ق)
جب حضرت امام رضاؑ کو مامون نے ولی عہدی پر مجبور کیا، تو ابراہیم بن عباس نے مبارکباد دیتے ہوئے یہ شعر کہے کہ:
اَزالَتْ عزاءُ القلْب بعد التجلّد مصارع اولاد النبی محمد(ص) |
امام رضاؑ کو ولیعہدی کی دینے کی وجہ سے اہل بیت رسول اکرمؐ کے تمام درد و مشکلات زائل ہوگئے ہیں(الاغانی، ج 9، ص 47)۔
اسی طرح اس شخص نے امام رضاؑ کی شہادت کے موقع پر یہ اشعار پڑھے:
إِنّ الرزیة یابن موسی لم تَدَعْ فی العین بَعْدَک للمصائب مُدْمِعاً و الصَبْر یحْمَدُ فی المواطن کلّها و الصبرُ أن نبْکی علیک و نجْزعا |
اے فرزند موسیؑ ! آپ ؑ کی جدائی کی مصیبت کے بعد ، مصائب پر رونے کے لئے آنکھوں میں آنسو خشک ہوگئے ہیں۔ صبر ہر جگہ قابل تعریف و نیک عمل ہے لیکن آپ کی مصیبت میں صبر یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ آپ کے لئے گریہ کریں ۔”(نهایة الارب، ج 5، ص 169)۔
۷۔عبدالجبار بن سعید (229 ق)
عبدالجبار بن سعیدنے ایک دن منبر رسول اکرمؐ پر جاکر حضرت امام رضاؑ اور اہل بیت رسولؐ کی شان میں اس طرح شعر پڑھے کہ:
ستةُ آبائهم ما هُم هُم خیرُ من یشربُ صوبَ الغمام |
آپ (امام رضاؑ) کے چھ اجداد وہی بزرگ ہستیاں ہیں جن کی تعریف ممکن نہیں ہے اور یہ بہترین لوگ ہیں جو رحمت الہی کی بارش سے سیراب ہوتے ہیں(تهذیب الکمال، ج 13، ص 409)۔
8. ابوالصلت هَرَوی (236 ق)
ابوالصلت ہروی حضرت امام رضاؑ کی علمی بلندی کے حوالے سے کہتا ہے کہ:
«ما رأیتُ أعْلَم مِنْ علی بن موسی الرضا و لا رأه عالمٌ الاّ شَهِدَ له بمثل شهادتی»
“میں نے امام رضاؑ سے زیادہ صاحب عالم کسی کو نہیں دیکھا اور کسی بھی عالم نے ان کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ اس نے بھی میری طرح گواہی دی(مفتاح النجاة فی مناقب آل عبا، ص 179)۔
واضح رہے کہ ابوالصلت ہروی نے خود حضرت امام رضاؑسے متعدد احادیث نقل کیں، جس میں حدیث سلسلۃ الذہب بہت مشہور ہے اور ایک مدت تک امام کی خدمت میں حاضری بھی دی اور مامون کی طرف سے امام رضاؑ کو زہر دینے اور آخری وقت میں امامؑ کے حالات کو بیان کیا ہے۔اسی وجہ سے آپ کو بہت سے علماء نے شیعہ شمار کیا ہے۔ لیکن بعض بزرگ علماء جیسے شیخ طوسی(رح) وغیرہ نے ان کو اہل سنت کی شخصیات میں شمار کیا ہے(شیخ طوسی، رجال الطوسی، ص۳۹۶؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱۱، ص۴۷ و ۴۸)۔ اس کے برخلاف کچھ اہل سنت کے علماء نے آپ کو امام رضاؑ سے عقیدت اور شیعہ نظریات کی جانب مائل ہونے کی وجہ سے” شیعہ” شمار کیا ہے(عقیلی، الضعفاء الکبیر، ج۳، ص۷۰؛ ذهبی، میزان الاعتدال، ج۲، ص۶۱۶)۔
خلاصہ یہ ہے کہ اباالصلت ہروی ایک عظیم اسلامی شخصیت تھی، جنہوں نے امام رضاؑ کی خدمت سے فیض علم حاصل کرنے کے بعد امام کی علمی مرتبت کا اعتراف کیا ہے۔
۹۔ ابوزرعه(261 ق)۔ ابو مسلم طوسی (242ق)
جب حضرت امام رضا ؑ نیشاپور تشریف لائے تھے تو ان دونوں اہل سنت کی شخصیتوں نے امام کو اس طرح خطاب کیا کہ:
«أیها السید الجلیل ابن السادة الائمة بحق آبائک الطاهرین و اسلافک الاکرمین الا ما رأیتنا وجْهُک المیمون و رَوَیتَ لنا حدیث عن آبائک عن جدک نذکرک به…؛».
“اے جلیل القدر سید!اے بزرگ اماموں کے فرزند! آپ کے پاک و طاہر اجداد اور خاندان کے حق کا واسطہ، اپنے مبارک چہرے کی ہمیں زیارت کروا دیجئے اور اپنے اجداد کی کوئی حدیث ہمارے لئے بیان فرما دیجئے…”۔
(الصواعق المحرقة، ج 2 ص 594؛ ینابیع المودة، ج 3، ص 168؛ الاعتصام بحبل الاسلام، ص205؛ اسرار الشریعة، ص 224 و 223؛ اخبار الدُوَل، ص 115؛ الفصول المهمة، ص 243؛ نورالابصار، ص 236؛ مسند الشهاب، ج 2، ص 323؛ فیض القدیر، ج 4، ص489)۔
۱۰۔ احمد بن یحیی بلاذری (279 ق)
جب حضرت امام رضاؑ کے ایک فرزند کا انتقال ہوگیا تھا تو بلاذری آپ کی خدمت میں آتا ہے اور یوں عرض کرتا ہے کہ:
«أنْتَ تَجِلُّ عن وصْفِنا و نحْنُ نقصر عن عِظَتِک و فی عِلْمِک ما کفاک و فی ثواب اللَّه ما عزّاک »۔
“آپ کا مقام ہماری تعریف و توصیف سے بہت بلند ہے۔ ہم آپ کو کسی طرح کی نصیحت کرنے سے عاجز ہیں۔ آپ کے پاس کافی مقدار میں علم ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مصیبت میں اجر عنایت فرمائے”۔(نهایة الارب، ج 5، ص 168)۔
۱۱۔ نوفلی (تیسری صدی هجری)
حضرت امام رضاؑ کی مدح میں نوفلی نامی شاعر کہتا ہے:
رأیت الشیب مکروهاً و فیه و قار لا تَلیق به الذنوب إذا رَکبَ الذنوب أخو مشیب فما أحد یقول: متی یتوب؟ و داءُ الغانیات بیاض رأسی و مَنْ مُدَّ البقاء له یشیب سَأصْحِبُه بتقوی اللَّه حتّی یفَرّقُ بیننا الأجلُ القریب |
“گویا میں سفید داڑھی اور بڑھاپے کو دیکھ رہا ہوں جو ناپسندیدہ ہے، لیکن اس میں ایک وقار ہے جو کبھی گناہ کے ساتھ جمع نہیں ہوتا۔ جب کوئی بوڑھا شخص گناہ کا مرتکب ہو، تو اس کی توبہ کی امید مت رکھو۔ گویوں (گانے والوں) کا سب سے بڑا درد بڑھاپا ہے۔ وہ شخص جس کی عمر دراز ہو جائے اور اس کے بال سفید ہو جائیں۔ لہذا جب تک میری عمر ہے، میں علی بن موسی الرضاؑ ہی کی خدمت میں رہوں گا۔”(الوافی بالوفیات، ج 22، ص 251)۔
۱۲۔ ابوبکر بن خُزَیمه (311 ق) و ابوعلی ثقفی (328 ق)
حاکم نیشاپوری بیان کرتا ہے کہ:
«سَمِعتُ محمد بن المؤمل بن حسن بن عیسی یقول خَرَجْنا مع أمام أهل الحدیث أبی بکر بن خزیمة و عدیلُه أبی علی الثقفی مع جماعة من مشایخنا و هُمْ إذْ ذلک متوافرون إلی زیارة قبر علی بن موسی الرضا بطوس، قال: فَرَأیتُ من تعظیمه (ابن خزیمة) لتلک البقعة و تواضعه لها و تضرعه عندها ما تحیرنا».
“میں نے محمد بن مؤمل سے سنا کہ اس نے بیان کیا کہ: ایک دن اہل حدیث کے امام ابوبکربن خزیمہ اور ابوعلی ثقفی اور دوسرے مشایخ کے ساتھ علی ابن موسی الرضاؑکی زیارت کے لئے طوس گئے، جب کہ ہم میں سے بہت سے لوگ آپؑ کی زیارت کے لئے جاتے رہتے تھے۔ وہاں محمد بن مؤمل کہتا ہے کہ ابن خزیمہ نے امام کی قبر کے سامنے جو احترام و تواضع اور گریہ کیا اس نے ہم سب کو تعجب میں ڈال دیا۔”(تهذیب التهذیب، ج 7، ص 339)۔
13۔محمد بن یحیی صولی (335 ق)
محمد بن یحیی صولی، احمد بن یحیی نقل کرتا ہے کہ :
ایک دن شعبی نے کہا کہ : بہترین شعر کونسا ہے؟
جواب میں کہا گیا کہ وہی شعر جو انصار نے جنگ بدر میں کہا تھا کہ:
و ببئر بدر اذْ یردُ وجوههم جبریل تحت لوائنا و محمّد |
یعنی جس نے دشمنوں نے بدر کے کنویں کے پاس شکست کھائی تھی تو حضرت جبرئیلؑ اور پیغمبراکرمؐ، ہم انصار کے پرچم کے نیچے تھے۔
اس بات پر محمد بن یحیی صولی جو قضاوت کررہا تھا اس نے کہا کہ :
نہیں۔ بہترین شعر ابونواس کا ہے جو اس نے امام رضاؑ کی مدح میں کہا ہے(سیر اعلام النبلاء، ج 9، ص 388؛ الوافی بالوفیات، ج 22، ص 249)۔
واضح رہے کہ ابونواس کے شعر کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔
۱۴۔علی بن حسین مسعودی شافعی (346 ق)
حضرت امام رضاؑ کے بارے میں مسعودی لکھتا ہے کہ:
«فلم یجِدْ فی وقته أحداً أفضل و لا أحقَّ بالامر من علی بن موسی الرضا فبایعَ له بولایة العَهْد و ضَرَبَ اسمه علی الدنانیر و الدراهم».
“مامون نے اپنے زمانے میں کسی بھی فرد کو ولایت عہدی کے لئے حضرت علی ابن موسیؑ سے بہتر و برتر نہیں جانا، اسی وجہ سے آپؑ کو ولایت عہدی کے لئے انتخاب فرمایا، بیعت کروائی اور آپؑ کے نام سے درہم و دینار (سکہ) رائج کروائے۔”(مروج الذهب، ج 6، ص 33؛مرآة الجنان، ج 2، ص 10؛ تاریخ مختصر الدُول، ص 134)۔
۱۵۔ ابن حبّان بُسْتی شافعی (354 ق)
حضرت امام رضاؑ کے اجمالی تعارف میں ابن حبّان لکھتا ہے کہ:
«علی بن موسی الرضا أبوالحسن مِنْ ساداة أهل البیت و عقلائهم و جُلّة الهاشمیین و نبلاءهم یجِب أن یعْتَبر حدیثه اذا روی عنه… قد زُرْته (قبر) مراراً کثیرة و ما حَلَّتْ بی شدةٌ فی وقت مقامی بطوس فزُرْتُ قبرُ علی بن موسی الرضا صلوات اللَّه علی جده و علیه و دعوْتُ اللَّه اِزالتها عنّی إلا استجیب لی و زالَتْ عنّی تلک الشدة و هذا شی ء جرّبْتهُ مراراً فوجَدْتُه کذلک، اماتَنا اللَّه علی محبة المصطفی و اهل بیته صلی اللَّه علیه و علیهم اجمعین»۔
“علی بن موسی الرضا ؑ اہل بیت اور بنی ہاشم کے بزرگان، عقلمندوں، عظیم اور بزرگ ہستیوں میں سے ہیں۔ میں نے کئی بار ان کے مزار کی زیارت کی ہے۔ جب میں طوس میں تھا، تو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی، میں علی بن موسی الرضا (آپ پر اور آپ کے جد پر رحمت نازل ہو)کے مبارک روضے کی زیارت کرتا اور اپنی مشکل کے حل کے لئے دعا کرتا۔ میری دعا قبول ہوتی اور میری مشکل دور ہو جاتی۔ میں نے اس عمل کوکئی بارآزمایا اور ہر بار جواب ملا۔ خداوند ہمیں مصطفیٰ ؐ اور ان کے اہل بیت ؑکی محبت پر ہی موت عطا فرمائے۔”( کتاب الثّقات، ج 8، ص 457)۔
۱۶۔حسین بن احمد مهلبی (380 ق)
حسین بن احمد مهلبی خراسان کے شہر نوقان(موجودہ مشہدمقدس) اور حضرت امام رضاؑکی قبر مطہر کے سلسلے میں لکھتا ہے کہ:
«وهی مِنْ اَجَلِّ مُدُن خراسان و اَعْمَرِها وبظاهر مدینة نوقان قبر الامام علی بن موسی بن جعفر و به ایضاً قبرُ هارون الرشید و علی قبر علی بن موسی حِصْنٌ و فیه قومٌ معتکفون…».
” نوقان خراستان کا ایک عظیم اور آباد ترین شہر ہے اور اسی شہر میں حضرت امام علی ابن موسی بن جعفرؑ کی قبر مطہر ہے جس کے اطراف میں چاردیواری ہے جہاں لوگ اعتکاف کرتے ہیں(یعنی عبادت کے لئے ٹھہرتے ہیں)۔”( الکتاب العزیزی، ص 155)۔
۱۷۔ابوالحسن علی بن عمر دارقطنی بغدادی شافعی (385 ق)
امام رضاؑ کو یاد کرتے ہوئے دارقطنی لکھتا ہے کہ:
«فهو علی بن موسی بن جعفر بن محمد العلوی الحسینی، ابوالحسن الرضا یروی عن أبیه موسی بن جعفر عن آبائه عن علی»
” وہ علیؑ بن موسیٰؑ بن جعفر ؑبن محمدؑ علوی حسینی ہیں، جن کا لقب ابوالحسن الرضا ہے۔ انہوں نے اپنے والد موسیٰؑ بن جعفرؑ سے روایت بیان فرمائی ہے اور انہوں نے اپنے آباء و اجداد کے واسطے سے حضرت علیؑ سے روایات بیان فرمائی ہیں۔”(المؤتلف و المختلف، ج 2، ص 1115)۔
۱۸۔ حاکم نیشابوری شافعی (405 ق)
امام رضاؑ کے بارے میں حاکم نیشابوری بیان کرتا ہے کہ:
«و کان یفْتی فی مسجد رسول اللَّه و هو ابن نَیف و عشرین سنة، روی عنه مِنْ ائمة الحدیث، آدم بن ابی ایاس و نصر بن علی الجُهَنی و محمد بن رافع القُشَیری و غیرهم…».
حضرت امام رضاؑ ۲۰ سال سے کچھ زیادہ عمر میں مسجد رسول اکرمؐ میں بیٹھ کر فتوا دیا کرتے تھے اور اہل حدیث کے بزرگ جیسے آدم بن ابی ایاس، نصر بن علی جہنی اور محمد بن رافع قشیری وغیرہ امامؑ سے روایت نقل کرتے تھے(یعنی ان کی شاگردی میں تھے)۔(تهذیب التهذیب، ج 7، ص 339؛ فرائد السمطین، ج 2، ص 199)۔
۱۹۔ احمد بن علی خطیب بغدادی شافعی (463ق)
حضرت امام رضاؑ کے بارے میں خطیب بغدادی لکھتا ہے کہ:
«علی بن موسی الرضا و کان و اللَّه رضا کما سُمِّیَ».
“خدا کی قسم حضرت علی ابن موسی الرضاؑ ، بالکل اپنے اسم مبارک کی طرح تھے(یعنی تمام لوگ آپ کی ذات سے راضی تھے، سب کے نزدیک آپ محبوب تھے)۔(تاریخ بغداد، ج 5، ص 418)۔
۲۰۔علی بن هبة اللَّه ابن ماکولا (475 ق)
حضرت امام رضاؑ کے بارے میں علی بن هبة اللَّه ابن ماکولا لکھتے ہیں کہ:
«ابوالحسن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب… و کان من أعیان اهل بیته عِلْماً و فضْلاً».
“ابوالحسن علی ابن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب(علیہم السلام) ، اہل بیت اطہار ؑ کی بزرگ، صاحب علم و فضل شخصیات میں سے تھے”۔( الاکمال، ج 4، ص 75)۔
۲۱۔ابوسعدعبدالکریم بن منصور تمیمی سمعانی شافعی (562 ق)
حضرت امام رضاؑکے بارے میں سمعانی شافعی بیان کرتا ہے کہ:
«الرضا کان من اهل العلم و الفضل مع شرف النَسَب».
“امام رضاؑصاحبان علم و فضل میں سے تھے اور آپ کا خاندان باشرف تھا”۔(الانساب، ج3، ص74؛ تهذیب التهذیب، ج 7، ص 340)۔
۲۲۔ابوالفرج ابن جوزی حنبلی (597 ق)
حضرت امام رضاؑ کے بارے میں ابن جوزی لکھتا ہے کہ:
«و کان یفْتی فی مسجد رسول اللَّه و هو ابن نیف و عشرون سنة… و کان المأمون قد أمَر بإشْخاصه من المدینة فلما قَدِمَ نیسابور خرج و هو فی عماریة علی بغلة شهباء فخرج علماء البلد فی طلبه مثل یحیی بن یحیی، اسحاق بن راهویه، محمد بن رافع، احمد بن حرب و غیرهم فاقام بها مدة».
“حضرت امام رضاؑ۲۰ سال سے کچھ زیادہ عمر میں ہی مسجد پیغمبراکرمؐ میں فتوا دیتے تھے…اور مامون کے حکم سے مدینہ سے خارج ہوئے اور جب نیشاپور پہنچے تو وہاں سواری پر تھے اور شہر کے علماء جیسے یحیی بن یحیی، اسحاق بن راهویه، محمد بن رافع، احمد بن حرب وغیرہ آپ کے استقبال کے لئے آئے۔ “( المنتظم، ج6، ص125)۔
۲۳۔ جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمن بن علی قرشی تمیمی بکری بغدادی (597 ق)
حضرت امام رضاؑ کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ:
«علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی الهاشمی، یلقب بالرضا صدوق مات سنة 203 ه».
“علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی ہاشمی، جن کا لقب رضا ہے اور آپ سچے تھے،۲۰۳ ہجری میں دنیا سے رخصت ہوئے تھے”۔(عجائب القرآن، ص 55)۔
۲۴۔مجد الدین ابن اثیر جَزَری شافعی (606ق)
ابن اثیر لکھتا ہے کہ:
«هو ابوالحسن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن أبی طالب الهاشمی المعروف بالرضا… و کان مقامه مع أبیه موسی بن جعفر تسعا و عشرین سنة و أشهراً و عاش بعد أبیه عشرین سنة… و إلیه انتهت إمامة الشیعة فی زمانه و فضائله أکثر من أن تحصی رحمة اللَّه علیه و رضوانه».
“ابوالحسن علیؑ ابن موسیؑ… جو “رضا” کے لقب سے مشہور تھے، انہوں نے ۲۹ سال اور کچھ مہینے اپنے والد گرامی حضرت موسیؑ بن جعفرؑ کے ساتھ گزارے تھے اور والدکے بعد ۲۰ سال زندگی فرمائی اور شیعوں کے عقیدے کے مطابق ان کے بابا کے بعد امامت آپ تک پہنچی تھی، آپ کے فضائل ناقابل شمار ہیں۔ رحمت و رضوان الہی ہو آپ پر۔”(تتمةجامع الاصول، ج 2، ص 715)۔
۲۵۔ ابوالقاسم عبدالکریم رافعی شافعی (623 ق)
عبدالکریم رافعی شافعی لکھتا ہےکہ:
«علی بن موسی بن جعفر… أبوالحسن الرضا من أئمة أهل البیت و أعاظم ساداتهم و اکابرهم…».
“امام رضاؑ، اہل بیتؑ کے بزرگوں اور سادات میں سے تھے۔”(التدوین فی اخبار قزوین، ج 3، ص425)۔
۲۶۔ شیخ محی الدین محمد بن علی طائی حاتمی اندلسی (638 ق)
حضرت امام رضاؑ پر صلوات و سلام بھیجتے ہوئے محی الدین اندلسی اس طرح لکھتا ہے کہ:
«علی السرّ إلالهی و الرائی للحقائق کما هی، النور اللاهوتی و الانسان الجبروتی و الأصل الملکوتی والعالم الناسوتی مصداق معلم المطلق و الشاهد الغیبی المحقق روح الارواح و حیاة الاشباح، هندسة الموجود، الطیار فی المنشئات الوجود، کهف النفوس القدسیة، غوث الأقطاب الإنسیة، الحجة القاطعة الربانیة، محقق الحقائق الإمکانیة، أزل الأبدیات و أبد الأزلیات، الکنز الغیبی و الکتاب اللاریبی، قرآن المجملات الأحدیة و فرقان المفصلات الواحدیة، إمام الوری، بدر الدجی، أبی محمد علی بن موسی الرضا».
“راز و سرالہی، حقائق کی حقیقت کو دیکھنے والے، نورلاہوتی، انسان جبروتی، اصل ملکوتی، عالم ناسوتی، مصداق معلم مطلق، شاہدغیبی، روحوں کی روح کو کمال عطا کرنے والے، سایوں کو زندگی دینے والے، مقدس نفوس کے لئے پناہ گاہ، ہندسہ وجود کے نظام، تخلیقات میں پرواز کرنے والے،نفوس مقدس کے لئے پناہ گاہ، انسانی اقطاب کے غوث و مددگار، حجت یقینی پروردگا، ممکنہ حقائق کےمحقق، ازلی ابدیات اور ابدی ازلیات، خزانہ غیبی ، کتاب بدون شک، مجمل احدیات کے قرآن، مفصل وحدانیات کے فرقان، تمام لوگوں کے امام، تاریکیوں میں روشن چاند، حضرت ابومحمد علی بن موسیٰ الرضا پر درود و سلام ہو۔” (کتاب المناقب المطبوع آخر وسیلة الخادم الی المخدوم، ص 296)۔
۲۷۔ محب الدین ابوعبداللَّه معروف به ابن نجار بغدادی شافعی (643 ق)
امام رضاؑ کے بارے میں ابن نجار لکھتا ہے:
«… ولد بمدینة النبی… و سمع الحدیث من والده و عمومته و غیرهم من اهل الحجاز، و کان من العلم و الدین بمکان یفتی فی مسجد رسول اللَّه و هو ابن نیف و عشرین سنة».
“آپؑ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اپنے والد گرامی، چچاؤں اور دیگر اہل حجاز سے احادیث نقل فرمائی۔ حضرت علیؑ بن موسیٰؑ کا علمی و دینی مقام اس قدر بلند تھا کہ آپؑ بیس سے کچھ زیادہ سال کی عمر میں ہی مسجد رسول اکرمؐ میں لوگوں کے شرعی سوالات کے جواب دیتے تھے۔” (تاریخ بغداد، ج 19، ص135)۔
۲۸۔محمد بن طلحه شافعی (652 ق)
حضرت امام موسی کاظمؑ کی اولاد کے بارے میں شبراوی شافعی، محمد بن طلحہ شافعی سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
«کان لموسی الکاظم من الأولاد سبع و ثلاثون ولداً ما بین ذکر و انثی ، أجَلُّهم و أفْضَلُهم و أشْرَفُهم و أکمَلُهم علی بن موسی الرضا…».
“حضرت موسی کاظمؑ کے ۳۷ بیٹے بیٹیاں تھے جن میں سب سے محترم، شریف اور کامل شخصیت کے حامل حضرت علی بن موسی الرضاؑ تھے۔” (الاتحاف بحب الاشراف، ص 310)۔
اسی طرح خود محمد بن طلحہ بھی کہتا ہے کہ:
«قَدْ تَقَدَّم القول فی أمیرالمؤمنین علی و فی زین العابدین علی و جاء هذا علی الرضا ثالثهما و مَنْ أمْعَنَ النَظَر و الفِکرة وَجَدَه وارثهما فَیحْکم کونَه ثالث العلیین، فما إیمانه و علا شأنه و اِرْتفع مکانه و اتَّسع أمکانه و کثُرَ أعوانه و ظهر برهانه حتّی أحَلَّه الخلیفة المأمون مَحَلَّ مُهْجَته و أشْرَکه فی مملکته… فکانَتْ مناقُبه عَلیة و صفاته سنیة و مکارمه خاتمیة و أخلاقه عربیة و شَنْشَنته احْزمیة و نَفْسُه الشریفة هاشمیةٌ و ارومته الکریمة نبویة، فمَهْما عدّ من مزایاه کان أعْظَم منه و مهما فصل من مناقبه کان أعلا رتبة منه».
“امیرالمومنین حضرت علیؑ اور امام زین العابدین علیؑ کے بعد، یہ تیسرے علی ؑہیں۔ جو کوئی آپؑ کی صفات پر غور کرے گا، وہ جان لے گا کہ علیؑ بن موسیٰؑ حقیقت میں امیرالمومنینؑ اور زین العابدینؑ کے وارث ہیں اور یہ فیصلہ کرے گا کہ یہ تیسرے “علوی ” ہیں۔ آپؑ کے عظیم ایمان، بلند مقام اور کثیر الاصحاب ہونے کی وجہ سے مامون نے انہیں حکومت میں شریک کیا اور ولایت عہدی کی ذمہ داری سونپی… آپؑ کے مناقب عظیم، صفات بلند ہیں۔ آپ ؑ کی سیرت نبوی اور اخلاق اصیل و شریفانہ ہے۔ یہ سب آپ کو اپنے آباء و اجداد سے ورثے میں ملے ہیں۔ آپ کی روح ہاشمی اور اخلاق نبوی کا آئینہ ہیں۔ لہذا جو جتنے بھی صفات بیان کئے جائیں، وہ ان کے مقام کے سامنے کم ہیں کیونکہ وہ ہر بیان سے بلند تر ہیں۔” (مطالب السؤول، ص 295)۔
۲۹۔ سبط بن جوزی حنفی (654 ق)
امام رضاؑ کے ذکر میں ابن جوزی لکھتا ہے کہ:
«کان مِنَ الفُضَلاء الأتقیاء الأجواد».
“آپؑ بنی ہاشم کے افاضل، پرہیزگاروں اور سخادت مندوں سے تھے”۔(تذکرة الخواص، ص 321)۔
۳۰۔ ابن ابی الحدید معتزلی (656 ق)
حضرت امام رضاؑ کے بارے میں معتزلی نے لکھا کہ آپ اہل بیتؑ کے علماء اور سادات میں سے تھے۔(شرح نهج البلاغه، ج 12، ص 254)۔
اسی طرح دوسرے مقام پر بنی ہاشم کا دفاع کرتے ہوئے امام رضاؑ کے بارے میں لکھتا ہے کہ:
«المُرَشِّح للخلافة و المخطوب له بالْعَهد، کان أعْلَمُ الناس و أسخی الناس و أکرم الناس اخلاقاً»
“آپؑ مقام ولی عہد اور مقام خلافت پر فائز تھے اور تمام لوگوں سے زیادہ عالم، عطا کرنے والے اور صاحب اخلاق تھے”۔(شرح نهج البلاغه، ج12، ص254)۔
۳۱۔محمد بن یوسف گنجی دمشقی شافعی (658 ق)
گنجی شافعی لکھتا ہے :
«و الإمام بعده (موسی بن جعفر) أبوالحسن علی بن موسی الرضا(ع) مَوْلِدُه بالمدینة سنة ثمان و اربعین و منه و قُبِضَ بطوس من ارض خراسان».
“اور امام موسیٰ بن جعفرؑ کے بعد ابوالحسن علی بن موسیٰ الرضاؑ امام ہیں۔ آپ ؑ کی ولادت مدینہ منورہ میں سن 148 ہجری میں ہوئی، اور آپؑ کی شہادت خراسان کی سرزمین پر طوس (مشہد) میں واقع ہوئی۔”(کفایة الطالب فی مناقب علی بن ابیطالب، ص 457 و 458)۔
۳۲۔ عمر بن شجاع الدین محمد بن عبدالواحد موصلی شافعی (660 ق)
عمر بن شجاع الدین شافعی نے «فصل فی إلامام علی بن موسی الرضا(ع)» کے عنوان سے حضرت امام رضاؑ کے بارے میں لکھتا ہے کہ:
«علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین: قیل کان غزیر الأدب و الحِلْم و الفهم، واسعٌ الروایة، مُتْقَنُ الدرایة، مکین فی العلم، أمیناً فی الحلم، کامل الزهد و الوَرَع و الفتوة و المروة…».
“حضرت علی ابن موسی بن جعفر بن علی بن حسین(علیہم السلام)، کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ آپؑ آداب، بردباری اور فکری گہرائی کے اعتبار سے بے پناہ کمالات کے مالک تھے۔ آپ ؑ نے کثرت سے احادیث روایت فرمائیں اور حدیث کی شرح و تفہیم میں نہایت دقیق اور مضبوط موقف رکھتے تھے۔ علم و دانش کے میدان میں کامل طور پر ایک مقبول شخصیت، انتہائی صبر و تحمل کے پیکر، اور تقویٰ، خوفِ خدا، شجاعت و مردانگی کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز تھے۔”(النعیم المقیم لعترة النبأ العظیم، ص 377)۔
۳۳۔شمس الدین ابن خلّکان شافعی (681ق)
«هو أحد الأئمة إلاثنی عشر علی اعتقاد إلامامیة و ضَرَبَ المأمون اسْمَه علی الدینار و الدرهم… و استدعا علیاً فاَنْزَله احْسَن منزله… فلم یجِدْ فی وقته احدا افضل و لا احق بالامر من علی الرضا فبایعَه…».
“آپ(امام رضاؑ) شیعوں کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں جن کے اسم مبارک کو مامون نے درہم و دینار پر لکھوایا تھا … مامون نے آپؑ کو مدینہ سے طوس بلایا تھا… اس زمانے میں مامون نے علیؑ ابن موسی ؑ سے زیادہ کسی کوبھی ولایت عہدی کے لائق نہیں پایا تھا لذا آپؑ کو ہاتھوں پر بیعت کی۔”(وفیات الأعیان، ج 32، ص 269 و 270)۔
۳۴۔ عماد الدین اسماعیل ابوالفداء دمشقی شافعی (732 ق)
عماد الدین لکھتا ہے:
«و کان یقال لعلی المذکور، علی الرضا و هو ثامن الائمة الاثنی عشر علی رأی الامامیة و هو علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زین العابدین بن حسین بن علی بن ابیطالب، و علی الرضا هو والد محمد الجواد تاسع الائمة…».
“مذکورہ علیؑ کو “علی الرضاؑ” کہا جاتا ہے، اور آپؑ شیعہ امامیہ عقیدے کے مطابق بارہ اماموں میں آٹھویں امام علی الرضا ابن موسی کاظمؑ ابن جعفر صادق ؑ ابن محمد باقر ؑ ابن زین العابدین ابن حسین ابن علی بن ابی طالب کے بیٹے ہیں۔ علی الرضا ؑہی حضرت محمد جوادؑکے والد ہیں، جو نویں امام ہیں…”۔(المختصر فی اخبار البشر، ج 2ص 24)۔
۳۵۔ شمس الدین ذهبی شافعی (748ق)
شمس الدین ذہبی لکھتا ہے:
«إلامام السید أبوالحسن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی بن الحسین الهاشمی… و کان من العلم و الدّین و السؤدد بمکان».
“امام سید ابوالحسن علی رضاؑ حضرت موسی کاظم ؑبن جعفرصادقؑ بن محمد باقرؑبن علیؑ بن حسین ہاشمی کے بیٹے ہیں … آپؑ علم دین سے آگاہی، دیانتداری اور بزرگواری کے لحاظ سے بلند مقام پر فائز تھے۔” (سیر اعلام النبلاء، ج 9، ص 386 و 388؛ العِبَر، ج 1، ص 266)۔
اسی طرح دوسرے مقام پر لکھتا ہے:
“«أحَدُ الأعْلام هو إلامام… و کان سید بنی هاشم فی زمانه و اجَلُّهم و انْبَلُهم و کان المأمون یعَظِّمُه و یخْضَعَ له و یتغالی فیه حتی انه جَعَله ولی عَهْدِه مِنْ بَعْده و کتَب بذلک الی الآفاق…».
“امام رضاؑ بزرگوں میں سے ہیں۔ آپؑ امام، سردار، بزرگوار اور اپنے زمانے میں بنی ہاشم کی ممتاز شخصیات میں سے تھے۔ مامون آپ کی بے حد تعظیم کرتا تھا اور آپ کے بارے میں غلوآمیز باتوں تک کہتا تھا، یہاں تک کہ اپنا ولی عہد مقرر کر دیا…”۔(تاریخ الاسلام، ص 270)۔
اسی طرح ذہبی ایک اور مقام پر لکھتا ہے:
«کبیر الشأن له عِلْمُ و بیانٌ و وَقْعٌ فی النفوس صَیره المأمون ولِیُّ عهده لجلالته».
“امام رضا ؑ، بلند مقام کے حاصل تھے۔ آپؑ کا علم اور بیان نہایت اعلیٰ تھا اور آپؑ لوگوں کے دلوں میں گہرا اثر رکھتے تھے۔ مامون نے آپ کے اسی رتبے کے پیش نظر آپ کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا”۔(سیر أعلام النبلاء، ج 13، ص 121)۔
اسی طرح ایک دوسرے مقام لکھتا ہے:
«و هو من الإثنی عشر الذین تعتقد الرافضة عصمتهم و وجوب طاعتهم»
“امام رضاؑ، بارہ اماموں میں سے ہیں؛ جن کے معصوم ہونے اور اطاعت کے واجب ہونے کے بارے میں رافضی(شیعہ)عقیدہ رکھتے ہیں”۔ (دول الاسلام، ج 1، ص 178)۔
اسی طرح ایک مقام پر لکھتا ہے کہ:
«یقال أفتی و هو شابٌّ فی ایام مالک»۔
“کہا جاتا ہے کہ وہ جوانی میں، مالک بن انس کے کے دور میں فتوا دیتے تھے(دین کے مسائل بیان کرتےتھے)۔” (سیر اعلام النبلاء، ج 9، ص 388)۔
اسی طرح دوسرے مقام پر لکھتا ہے:
«کان سید بنی هاشم فی زمانه و أجلُّهم و أنْبَلُهم و کان المأمون یبالغ فی تعظیمه…».
“وہ (امام رضاؑ) اپنے زمانے میں بنی ہاشم کے سردار، سب سے عظیم اور بلند مرتبہ شخصیت تھے۔ مامون ان کی تعظیم میں بہت زیادہ مبالغہ کرتا تھا…”(تذهیب تهذیب الکمال، ج 7، ص 44 و 45)۔
۳۶۔ زین الدین ابن وردی حلبی شافعی (749 ق)
زین الدین حلبی لکھتا ہے:
«و هو ثامن الائمة الاثنی عشر علی رأی الامامیة»
“امام رضاؑ شیعہ امامیہ کے نزدیک آٹھویں امام ہیں”۔(تتمة المختصر فی اخبار البشر، ج 1، ص 320)۔
۳۷۔خلیل بن اِیبَک صَفَدی شافعی (764ق)
صفدی شافعی لکھتا ہے:
«و هو أحد الأئمة الإثنی عشر، کان سید بنی هاشم فی زمانه و کان المأمون یخْضَعَ له ویتغالی فیه».
“وہ (امام رضا ؑ) شیعہ اثنا عشری کے ائمہ میں سے تھے اور اپنے زمانے میں بنی ہاشم کے سید و سرور تھے۔ مامون ان کے سامنے خضوع کرتا اور ان کے بارے میں مبالغہ آمیز باتین کہتا تھا…”۔(الوافی بالوفیات، ج 2، ص 251)۔
۳۸۔عبداللَّه بن اسعد یافعی یمنی مکی شافعی (768 ق)
«الإمام الجلیل المُعَظَّم، سلالة السادة الاکارم، أبوالحسن علی بن موسی الکاظم… أحد الأئمة الإثنی عشر أولی المناقب الذین انْتَسَب إلامامیة إلیهم فقصروا بناء مذهبهم علیه».
“ابوالحسن علی بن موسی کاظمؑ۔ عظیم المرتبت و محترم امام، بزرگان اور سادات کی نسل سے ہیں… آپ ؑ شیعہ اثنا عشری کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں اور بے شمار فضائل و مناقب کے مالک ہیں…”(مرآة الجنان، ج 2، ص 10)۔
۳۹۔محمد بن عبداللَّه ابن بطوطه (779 ق)
ابن بطوطہ اپنے سفرنامه میں مشہد الرضاؑ کے بارے میں بیان کرتا ہےکہ:
«و رَحَلْنا إلی مدینة مشهد الرضا و هو علی بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین الشهید بن أمیرالمؤمنین علی بن أبی طالب رضی اللَّه عنهم و هی أیضا مدینة کبیرة… و المشهد المکرم علیه قبةٌ عظیمةٌ فی داخل زاویةُ تجاورها مدرسة و مسجد و جمیعها ملیح البناء، مصنوع الحیطان بالقاشانی و علی القبر دکانة خشب ملبسة بصفائح الفضة و علیه قنادیل فضة معلقة و عتبه باب القبة فضة و علی بابها سِتْرُ حریر مذهبٌ و هی مبسوطة بأنواع البسط و إزاء هذا قبر هارون الرشید… و إذا دَخَل الرافضی للزیارة ضَرَب قبر هارون الرشید برِجْله و سلَّم علی الرضا»۔
“”ہم شہر “مشهد الرضاؑ” کے سفر پر گئے۔ وہ (امام رضاؑ) علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین شہیدؑ بن امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کے بیٹے ہیں۔ مشهد الرضا ایک بہت بڑا شہر تھا، جہاں آپ کی مکرم بارگاہ پر ایک عظیم گنبد تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ عمارت انتہائی خوبصورت تھی، جس کی دیواریں نفیس کاشی کاری سے مزین تھیں۔ قبر شریف پر لکڑی کا ایک صندوق تھا جس پر چاندی کا غلاف چڑھا ہوا تھا۔ ضریح مبارک کے اوپر چاندی کے فانوس لٹک رہے تھے، اور گنبد کے دروازے کا چوکھٹ بھی چاندی کا تھا جبکہ دروازے کا پردہ سونے کے دھاگوں سے بنا ہوا ریشم کا تھا۔ تمام زیارت گاہ کے فرش مختلف قسم کے قالینوں سے آراستہ تھا۔ زیارت گاہ کے قریب ہی ہارون الرشید کی قبر تھی، جہاں زائرین داخل ہوتے وقت (ہارون کے جرائم سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے) اس کی قبر پر پاؤں سے زور سے مارتے تھے، جبکہ امام رضاؑ کی قبر شریف پر سلام بھیجتے اور اس کا احترام کرتے تھے۔”(رحلة ابن بطوطة، ص 401)۔
۴۰۔عطاء اللَّه بن فضل اللَّه شیرازی (803ق)
عطااللہ شیرازی لکھتا ہے:
“علی الرضاؑ لوگوں سے ان ہی کی زبان میں گفتگو فرماتے تھے۔ امام رضاؑ سب سے فصیح بیان کے مالک اور تمام زبانوں و لہجوں کے سب سے بڑے عالم تھے… آپؑ کا مشہد اور نورانی مزار دنیا بھر کے تمام طبقات اور خطوں کے زائرین کا مرجع ہے۔”(روضة الاحباب، ج 4، ص 43؛ تاریخ الاحمدی، ص 36)۔