
امام علیؑ کے مثالی بھائی کی خصوصیات
تحریر: سید ه نہاں نقوی- طالبہ جامعة المصطفیؐ العالمیه قم ایران
تمہید:
پیغمبراکرمؐ کے بلافصل جانشین اورشیعوں کے پہلے امام، جن کو عظیم عظمتوں اور عدالت و انسانیت کے عالی اقدار کےباوجود دشمنوں نے چین سے جینے نہیں دیا اور ہر قدم پر نئی نئی مشکلات سے دوچار کیا اور بالآخر ماہ رمضان کی ۱۹ ویں تاریخ تھی کہ عبدالرحمن بن ملجم نامی شخص نے متعدد گروہ اور لوگوں کے بہکاوے میں آکر نماز کی حالت میں آپ کے سر مبارک پر وہ زہر میں بھجی ہوئی تلوار سے ایسا وار کیا کہ تین دن کے اندر اندر زہر کا اثر پورے جسم میں سرایت کرگیا اور ۲۱ویں رمضان سنہ ۴۰ ہجری میں شہید ہوگئے۔
آپ جب تک زندہ رہے ہمیشہ لوگوں کی ہدایت و رہنمائی اور انسانیت کو معراج و کمال تک پہونچانے کی کوششیں کرتے رہیں، پیغمبر اسلامؐ کے بعد، ظاہری طور پر منصب خلافت و حکومت سے محروم کردئیے جانے کے باوجود ہمیشہ آپ کی ایک ہی کوشش تھی کہ اسلام اور معاشرہ کی پرورش کی جائے۔
آپؑ منبر پر ہمیشہ یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ «بیشک میں تمہارے درمیان اندھیروں میں جلنے والے روشن چراغ کی مانند ہوں، جو بھی اس کی طرف رخ کرے گا وہ فائدہ اٹھائے گا، اے لوگو۔ میری باتوں کو سنو، اور اچھی طرح اپنے دل و جان میں محفوظ کرلو، اپنے دل کے کانوں کو کھلا رکھو تاکہ میری باتوں کو سمجھ سکو»(نہج البلاغہ، خطبہ 178) ۔
مذکورہ قول فقط اس زمانے کے لئے نہیں تھا جب آپ ظاہری طور پر باحیات تھے بلکہ آپ کی شہادت کے بعد بھی آپ کے ارشادات، آپ کے فرامین، آپ کے بتائے ہوئے راستے انسان کو اچھی زندگی گزارنے کے ضامن ہیں۔
امام علی ؑسے منسوب دنوں میں ہمارے لئے بہترین کام وہ ہیں جن کی خواہش آپ ہم سے کرتے ہیں یا ہمارے لئے بیان کرتے ہیں یہاں پر ایک مطلب بیان کیا جائے تو بہتر و مفید ہوگا کہ ایک دن امام علی ؑاپنے بھائی یا دوست کے بارے میں (مثال کے طور پر)، گفتگو فرما رہے ہیں اور دوسروں سے بتانا چاہ رہے تھے کہ میرا سچا بھائی اور میرے مکتب کا سچا دوست وہ ہے جن میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
امام نے اس بیان میں ۱۴ خصوصیات بیان فرمائی جن کی بنا پر جس میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہے وہ امام کا سچا بھائی اور سچا دوست شمار کیا گیا ہے؛ امامؑ فرماتے ہیں:
«كَانَ لِي فِيمَا مَضَى أَخٌ فِي اللَّهِ، وَ كَانَ (يُعَظِّمُهُ) يُعْظِمُهُ فِي عَيْنِي صِغَرُ الدُّنْيَا فِي عَيْنِهِ، وَ كَانَ خَارِجاً مِنْ سُلْطَانِ بَطْنِهِ، فَلَا يَشْتَهِي مَا لَا يَجِدُ وَ لَا يُكْثِرُ إِذَا وَجَدَ، وَ كَانَ أَكْثَرَ دَهْرِهِ صَامِتاً، فَإِنْ قَالَ بَذَّ الْقَائِلِينَ وَ نَقَعَ غَلِيلَ السَّائِلِينَ، وَ كَانَ ضَعِيفاً مُسْتَضْعَفاً، فَإِنْ جَاءَ الْجِدُّ فَهُوَ لَيْثُ غَابٍ وَ صِلُّ وَادٍ، لَا يُدْلِي بِحُجَّةٍ حَتَّى يَأْتِيَ قَاضِياً، وَ كَانَ لَا يَلُومُ أَحَداً عَلَى مَا يَجِدُ الْعُذْرَ فِي مِثْلِهِ حَتَّى يَسْمَعَ اعْتِذَارَهُ، وَ كَانَ لَا يَشْكُو وَجَعاً إِلَّا عِنْدَ بُرْئِهِ، وَ كَانَ يَقُولُ مَا يَفْعَلُ وَ لَا يَقُولُ مَا لَا يَفْعَلُ، وَ كَانَ إِذَا غُلِبَ عَلَى الْكَلَامِ لَمْ يُغْلَبْ عَلَى السُّكُوتِ، وَ كَانَ عَلَى مَا يَسْمَعُ أَحْرَصَ مِنْهُ عَلَى أَنْ يَتَكَلَّمَ، وَ كَانَ إِذَا بَدَهَهُ أَمْرَانِ يَنْظُرُ أَيُّهُمَا أَقْرَبُ إِلَى الْهَوَى، (فَخَالَفَهُ) فَيُخَالِفُهُ. فَعَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الْخَلَائِقِ فَالْزَمُوهَا وَ تَنَافَسُوا فِيهَا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِيعُوهَا، فَاعْلَمُوا أَنَّ أَخْذَ الْقَلِيلِ خَيْرٌ مِنْ تَرْكِ الْكَثِير»۔(نہج البلاغہ، حکمت289) ۔
گذشتہ ایام میں میرا ایک بھائی تھا، دینی بھائی جس میں یہ خصوصیات پائی جاتی تھی:
1 ۔ دنیا اس کی نظر میں بہت حقیر و چھوٹی تھی۔ یعنی وہ دنیا داری میں غرق نہ تھا، دنیا سے صرف اتنا ہی فائدہ اٹھاتا تھا جتنا اس کے زندہ رہنے کے لئے ضروری تھا اور آخرت کے کاموں کے لئے لازم تھا۔
2 ۔اس کا دل صرف کھانے پینے میں مشغول نہیں رہتا تھا اور اپنے شکم کا اسیر نہیں تھا۔
3 ۔وہ خاموش رہتا تھا، فالطو باتیں نہیں کیا کرتا تھا۔
4 ۔ وہ اگر بولتا تھا تو حق اور مفید بولتا تھا، اور اتنا ہی بولتا تھا جتنے میں سوال کرنے والوں کی پیاس بجھ جاتی تھی۔
5 ۔وہ ظاہر میں ایک کمزور و ناتوان انسان تھا یعنی تواضع و فروتنی ایسے کیا کرتا تھا کہ دوسروں کو کمزور لگتا تھا۔
6 ۔جب راہ خدا میں جہاد و مقابلہ کرنے کی بات آتی تھی تو میدان کا بے نظیر مجاہد تھا، شیر کی طرح دھاڑتا تھا اور جیسے بیابان میں سانپ حرکت کرتا ہے ویسے تیزی سے دوڑتا تھا۔
7 ۔ وہ عدالت و دادگاہ میں حاضر ہونے سے پہلے اپنی دلیلوں کو بیان نہیں کرتا تھا۔
8 ۔کوئی بھی اس کے کاموں کے بارے میں (عذر کو قبول کرنے کی صورت میں) اس کے عذر کو سننے سے پہلے ملامت نہیں کرتا تھا۔
9 ۔وہ کسی بھی درد و مشکل کے بارے میں شکایت و گلہ نہیں کرتا تھا مگر یہ کہ جب اس درد و مشکل سے نجات پالیتا تھا۔
10 ۔وہ جو کچھ بھی کہتا تھا اس پر خود عمل کرتا تھا، اور جو کچھ عمل نہیں کرتا تھا اس کو کسی سے کرنے کے لئے نہیں کہتا تھا۔
11 ۔جب وہ کسی دوسرے شخص سے بات کرتا تھا جیسے ہی سامنے والے سے حق بات کو سن لیتا تھا تو اسے قبول کرلیتا تھا اور اس کے سامنے تسلیم ہوجاتا تھا۔
12 ۔وہ بولنے سے زیادہ سننے کے لئے زیادہ حریص تھا۔
13 ۔دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنے والوں کی باتوں کو سننے کے لئے آمادہ کرتا تھا۔
14 ۔جب بھی اس کے سامنے کوئی دو کام، دو مسئلہ پیش آتے تھے تو فکر کرتا تھا کہ کونسا کام اس کی نفسانی ہوس و چاہت سے زیادہ نزدیک ہے اور کونسا کام اس کے ہوا و ہوس سے دور ہے، پس ایسی صورت میں جو کام اس کے نفس و ہوس کے نزدیک تر ہوتا تھا اس کو انتخاب نہیں کرتا تھا اور جو کام اس کے عقل و ہدایت سے نزدیک ہوتا تھا اس کو انجام دیتا تھا۔
امام علیؑ نے مذکورہ خصلتوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا “تم سب پر لازم ہے کہ ان نیک اخلاقی خصلتوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو”۔
اور امام علی ؑچونکہ جانتے تھے کہ ہر ایک کے لئے ان خصوصیات کو اپنانا اور عملی جامہ پہنانا میسر و ممکن نہیں ہے لہذا مزید فرمایا: “اگر ان تمام کو اپنی زندگی میں عملی کرنے کی قدرت و طاقت تمہارے اندر نہ ہو تب بھی جتنا بھی ہوسکے انجام دو، اس لئے کہ تھوڑا سا انجام دینا بہتر ہے اس چیز سے کہ زیادہ کو بھی چھوڑ دیا جائے”۔
امام علیؑ نے جو مذکورہ خصوصیات بیان فرمائی ہیں ان کے بارے میں علماء نے بیان کیا ہے کہ جس بھائی کے سلسلے میں امام نے یہ خصوصیات بیان فرمائی ہیں، ان سے مراد ذات گرامی قدر پیغمبراعظمؐ ہیں، یا حضرت ابوذر یا حضرت مقداد تھے لیکن آیۃ اللہ خویی نے نہج البلاغہ کی شرح میں زیادہ زور اس پر دیا ہے کہ یہ خصوصیات امام نے ایک “مثالی بھائی” کے عنوان سے بیان کی ہے۔
(شرح نہج البلاغہ آیۃ اللہ خوئی، ج 21، ص 379) ۔
خلاصہ یہ ہے امام علی ؑکی نظر میں مذکورہ خصوصیات کو بیان کرنے کا مقصد کسی عظیم اخلاقی صفات کے حامل شخصیت کو بیان و توصیف کرنا ہو یا ایک مثالی و آیڈیل بھائی کی خصوصیات کو پیش کرنا ہو، لیکن مذکورہ خصوصیات وہ ہیں جو امام علی ؑکی نظر میں تمام چاہنے والوں اور آپ کی ولایت و مذہب کے رشتہ کی بنیاد پر آپ ہر دوست سے مطلوب ہیں۔ اور یہ بھی اجازت ہے کہ جتنا بھی ممکن ہوسکے ان خصوصیات کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا جائے اس لئے شاعر کے مطابق:
آب دریا را اگر نتوان کشید پس
به قدر تشنگی باید چشید
یعنی سمندر کے سارے پانی کو اگر حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے تب بھی جتنی پیاس ہو اتنا چکھنا تو لازم ہے۔ اسی قاعدے کی روشنی میں آپؑ کی یاد کے ایام اور ماہ رمضان کے مبارک ایام میں ہمارے لئے بہترین کام یہی ہے کہ ہم مذکورہ خصلتوں میں تھوڑا تھوڑا ہی سہی اپنے اندر ان کو پیدا کریں اور اگر پائی جاتی ہیں تو مزید ان کی تقویت کرتے رہیں۔
(والسلام )