اسلامی معارف

فاطمہ(س)؛ بہترین نمونہ عمل

فاطمہ(س)؛ بہترین نمونہ عمل

خداوندعالم قرآن مجید میں اپنے نبیؐ سے خطاب کرکے فرماتا ہے کہ:

«وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا»؛ اے پیغمبرؐ! اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور اس کام پر ثابت قدم رہیں (سورہ طہ، آیت ۱۳۲) ۔

 اس آیت کے ذیل میں متعدد روایات بیان ہوئی ہیں کہ آیت میں پیغمبراکرمؐ کو خاص طور پر اپنے اہل بیتؑ کو خطاب کرکے نماز کے حکم کوپہنچانے کے لئے تاکید کی گئی ہے۔ جیساکہ تفسیر میں بیان ہوا کہ: “خداوندمتعال نے اپنے پیغمبرؐ سے فرمایا کہ اس آیت میں بیان ہونے والے حکم نماز کو اپنے اہل بیتؑ سے مخصوص قرار دے اور دوسرے لوگوں کو اس میں شامل نہ کرے تاکہ لوگوں کو خداکے نزدیک اہل بیتؑ پیغمبرؐ کی عظمت اور بلندمقامی کا علم ہوجائے اس لئے کہ پہلے سب لوگوں کو نماز کے لئے حکم دیا گیا جس میں اہل بیت ؑ بھی شامل تھے لیکن پھر خصوصی طور پر اس آیت میں اہل بیتؑ کوحکم دیا گیا ہے ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرتؐ نماز صبح کے وقت حضرت علیؑ و جناب فاطمہؑ کے دروازے پر آتے تھے اور فرماتے تھے: سلام و رحمت خدا آپ لوگوں پر۔ اس کے بعد حضرت علیؑ و جناب فاطمہؑ جواب میں کہتے تھے سلام و رحمت خدا ہو آپ پر اے اللہ کے رسولؐ۔ اس کے بعد آنحضرتؐ دروازے کے دونوں قلابوں کو پکڑکر فرماتے تھے کہ: «…الصَّلَاةَ الصَّلاةَ یَرْحَمُکُمُ اللَّهُ إِنَّما یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً»؛ وقت نماز ہے، وقت نماز ہے۔ خدا تم اہل بیتؑ پر رحمت نازل کرے۔ بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیتؑ کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے (سورہ احزاب، ۳۳) ۔ آنحضرتؐ اس کام کو اپنی رحلت تک اسی طرح انجام دیتے رہے (بحار الانوار، ج ۳۵، ص ۲۰۷ و ج ۲۵، ص ۲۱۹۔ تأویل الآیات الظاهرہ، ص ۳۱۶ ۔ وسایل الشیعه، ج ۱۲، ص ۷۲) ۔

مذکورہ آیت اور اس کی تفسیر میں بیان ہونے والی متعدد روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زہراؑ اور اہل بیت اطہار ؑ کے لئے نماز کا یہ خصوصی حکم، کسی خاص تاکید کے لئے نہیں تھا کہ (معاذاللہ ) اہل بیتؑ نماز کے سلسلے میں کوئی کوتاہی کردیں گے بلکہ خداوندعالم یہاں مقام و عظمت اہل بیتؑ اور امت پر ان حضرات کی برتری کو ظاہر کرنا چاہتا تھا جیساکہ ایک دوسری حدیث میں حضرت امام رضاؑ نے قرآن میں ظاہری طور پر بیان ہونے والے ۱۲ مقامات “اصطفاء “(برتری اہل بیتؑ کے موارد) کا ذکرکرتے ہوئے، آخری مقام کے عنوان سے اس آیت کا بھی ذکر فرمایا کہ:

«وَ مَا أَکْرَمَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ أَحَداً مِنْ ذَرَارِیِّ الْأَنْبِیَاءِ بِمِثْلِ هَذِهِ الْکَرَامَةِ الَّتِی أَکْرَمَنَا بِهَا وَ خَصَّنَا مِنْ دُونِ جَمِیعِ أَهْلِ بَیْتِه»؛”اللہ تعالیٰ کسی بھی نبی کی ذریت اور ان کے اہل بیتؑ کو یہ شرف نہیں عطا فرمایا ہےکہ ان کو خصوصی طور پر نماز کا حکم دیا جائے “۔ (بحار الانوار، ج ۲۵، ص ۲۳۳؛ الامالی صدوق؛ ص ۵۳۳) ۔

مذکورہ مطالب کی روشنی میں معلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ اہل بیتؑ کو اپنے احکام کا خصوصی مخاطب بناکر شاید یہ بتا رہا ہے کہ یہی حضرات ہیں جو واقعی طور پر میرے احکام و قوانین پر عمل پیرا ہیں اور تمام انسانوں کو چاہئے کہ انہیں کی سیرت اور ان کے عمل کو اپنی زندگی کے لئے نمونہ اور آئیڈیل بناکر کامیابی اور نجات کی منزلوں تک پہنچیں۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button