اسلامی معارف

حضرت معصومہ قمؑ کا علمی مقام

تحریر: مولانا مہدی رضا رضوی ۔ طالب علم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران

 فہرست مندرجات

تمہید

الف: دوسروں کے سوالات کے علمی جوابات

ب: نقل حدیث

۱۔ حدیثِ غدیر

۲۔ حدیثِ منزلت

۳۔ حدیثِ حُبِّ آلِ محمدؐ

۴۔ طہارتِ امام حسین علیہ السلام

۵۔ حدیثِ معراج

تمہید

حضرت فاطمہ معصومہ علیہا السلا م ایسے  خاندان میں کہ جو علم و تقویٰ اور اخلاقی فضائل کا سرچشمہ تھا، پیدا ہوئیں اور پروان چڑھیں، آپکی تربیت  آغوش عصمت و طہارت،   معصوم باپ اور  پاکدامن  ماں میں  ہوئی  اور شفقت پدری سے محروم ہونے کے بعد اپنے عظیم المرتبت بھائی حضرت امام علی رضاؑ سے تربیت و تعلیم حاصل کی ہے لہذا آپؑ بہت سے کمالات و فضائل کی حامل تھیں یہاں پر ہم آپ کے سامنے صرف مقام علمی کو مختصر طور پر اشارہ  فرمارہےہیں۔

حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کے بھائی حضرت امام علی رضاؑ نے آپؑ اوردوسرے بہن بھائیوں کی تربیت کی ذمہ داری اُٹھائی ، تقریبا  ۱۰ سے ۲۷ سال کی عمر تک اپنے معصوم بھائی کی تربیت میں زندگی بسر کی۔  بلکہ حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی تقریباً تمام اولادیں ہی آپؑ اور امام علی رضاؑ کی تربیت کے سبب بلند و بالا مقام اور عام و خاص کے زبانزد ہو گئے۔لیکن ان سب کےدرمیان حضرت امام علی رضاؑ کے بعد آپؑ کی بہن فاطمہ معصومہ ؑ ،علمی و اخلاقی اعتبار سے سب سے بالاتر ہیں۔ جس کی دلیل   آپؑ کے بارے میں آئمہ اطہارؑ کے فرامین اور توصیفات میں دیکھی جاسکتی ہے۔

الف: دوسروں کے سوالات کے علمی جوابات

حضرت فاطمہ معصومہؑ کے اہم ترین وقابلِ توجُّہ فضائل میں سے آپؑ  کا صاحبِ علم کثیر ہونا ہے  جو آپؑ نے اپنے والدِ گرامی حضرت امام موسیٰ کاظمؑ سے میراث میں پایا تھا۔ آپؑ اپنے والدِ بزرگوارؑ اور اپنے بھائ حضرت امام علی رضاؑ کی تربیت سے بہت عظیم مقام پر فائز تھیں۔ آپؑ نے بہت سے لوگوں کے سوالات کےجوابات دئیے جسکی وجہ سے  آپؑ کے والدِ بزرگوارؑ نے یہ جملہ فرمایا: ’’فَدَاهَا أَبُوهَا‘‘۔(بارگاہِ فاطمہ معصومہؑ ، تجلی گاہِ فاطمہ زہراؑ، آیت اللہ سید جعفر میر عظیمی، ج۲، ص۲۷)۔

تاریخ میں ملتا  ہے کہ ایک روز حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کے کچھ شیعہ آپؑ کی زیارت، ملاقات اور اپنے کچھ مسائل معلوم کرنے کی غرض سے مدینہ آئے لیکن جب وہ آپؑ کے بیت الشرف پہنچے اور ملاقات کی درخواست کی تو معلوم ہوا کہ حضرتؑ مسافرت پر تشریف لے گئےہیں اور معلوم نہیں ہے کہ کب تک واپس آئیں گے، تب ان لوگوں نے واپس جاتے ہوئے اپنے اپنے سوالات تحریر کیے اور حضرتؑ کے بیت الشرف پہنچا دیئے، تاکہ جب کبھی دوبارہ مدینے آنا ہوا تب اِن سوالات کے جوابات مل جائے ، لیکن ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اُن کو ان کے سوالات کے جواب موصول ہو گئے جنھیں حضرتؑ کی دخترِ نیک اختر حضرت فاطمہ معصومہؑ نے دیئے تھے جب وہ لوگ واپس جا رہے تھے تو رستہ میں ضرت امام موسیٰ کاظمؑ  سے ملاقات ہو گئی، انہوں نے اپنے آنے اورسوالات کے بارے میں سب کچھ حضرتؑ سے بیان کر دیا۔ آپؑ نے ان جوابوں کو لیا اور دیکھا تو کامل اور اطمینان بخش پایا اور اپنی بیٹی کی عظمت اور احترام میں تین مرتبہ فرمایا: ’’فَدَاهَا أَبُوهَا‘‘(ملاحظہ فرمائیں: الفاطمۃ المعصومۃ ؑ، محمد علی معلم، ص۷۷)۔

یہ جملہ حضرت رسولِ اکرمؐ کے اُس فرمان کی یا د دلاتا ہے جو آپؐ نے حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے متعلق فرمایا تھا  “فاطمۃ ام ابیھا” جو کہ حضرت فاطمہ معصومہؑ  کی بلندی و عظمت پر دلیل ہے۔

ب: نقل حدیث

اسلام کے دو اصلی منابع قرآن اور سنت  جو انسانوں کی ہدایت کے لیے موجود ہیں جس میں حضرت رسولِ اکرمؐ اور آئمہ طاہرینؑ کی سنّت و فرمائشات کو نقل کرنا ایک عظیم وظیفہ ہے اور جس کام کو بہترین عبادت سے تعبیر  بھی کیا گیا ہے (ملاحظہ فرمائیں: بحارالانوار، محمد باقر مجلسیؒ، ج۲، ص۱۴۵)

۱۔ حدیثِ غدیر

وہ احادیث جن کو حضرت فاطمہ معصومہؑ نے نقل فرمایا ہے، ان میں سے ایک مشہور و معروف حدیث، حدیثِ غدیر ہے: ’’حَدَّثَتْنَا فاطمةُ وَ زینبُ وأُمُّ کلثوم بناتُ موسیٰ بنِ جعفرٍ قُلنَ: حدَّثَتْنَا فاطمةُ بنتُ جعفرِ بنِ محمدٍ الصادقِ، حَدَّثَتْنی فاطمةُ بنتُ محمَّدِ بنِ علیٍّ، حَدَّثَتْنی فاطمةُ بنتُ علیِّ ابنِ الحسینِ، حَدَّثَتْنی فاطمةُ و سکینةُ ابْنَتَا الحسینِ بنِ علیٍّ عَن أُمِّ کلثومٍ بنتِ فاطمةَ بنتِ نبیٍّ عَن فاطمةَ بنتِ رسولِ اللَّهِ(ص)  قَالتْ: أَنَسِیتُم قَولَ رَسُولِ اللَّهِ(ص) یومَ غدیرِ خُم: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ‘‘؛ یعنی”حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی بیٹیوں حضرت فاطمہ معصومہؑ، زینبؑ اور اُمّ کلثومؑ نے بیان کیا ہے کہ ہم سے حضرت امام جعفر صادق ؑ کی بیٹی فاطمہؑ نے نقل کیا اور اُن سے حضرت امام محمد باقرؑ کی بیٹی فاطمہؑ نے نقل کیا اور اُن سے حضرت امام زین العابدینؑ کی بیٹی فاطمہؑ نے بیان کیا اور اُن سے حضرت امام حسینؑ کی دو بیٹیوں جناب فاطمہؑ اور سکینہؑ نے نقل کیا اور اُن سے حضرت فاطمہ زہراؑ (اور علی ؑ) کی بیٹی جناب اُمّ کلثومؑ نے بیان کیا اور اُن سے اُن کی والدہ رسولِ اکرمؐ کی دخترِ نیک اختر حضرت فاطمہ زہراؑ نے بیان فرمایا کہ آپؑ نے (لوگوں سے) ارشاد فرمایا: کیا تم لوگ حضرت رسولِ اکرمؐ کی فرمائش بھول گئے کہ آپؐ نے روزِ غدیر خم فرمایا تھا: “جس کا میں مولا ہوں اس  کے علیؑ مولا ہیں”(الغدیر، عبدالحسین امینی، ج۱، ص۱۹۷، دارالکتب العربی، طبع چہارم، ۱۳۹۷ھ ق، بیروت، لبنان)۔

۲۔ حدیثِ منزلت

 حضرت فاطمہ معصومہؑ نے مذکورہ سلسلہ سند کے ساتھ حدیثِ منزلت کو بھی نقل فرمایا ہے: ’’حَدَّثَتْنَا فاطمةُ و زینبُ وَ أُمُّ کلثوم بناتُ موسیٰ بنِ جعفرٍ … عن فاطمةَ بنتِ رَسولِ اللَّهِ(ص)، قَالَتْ: أَ نَسِیْتُمْ قَوْلَهُ: (قَالَ لِعَلِیٍّ عَلَیهِ السَّلَامُ: یَا عَلِیُّ) أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُّوسیٰ‘‘؛ ’’حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی بیٹیوں، حضرت فاطمہ معصومہؑ، زینبؑ اور اُمّ کلثومؑ نے … حضرت فاطمہ زہرا ؑ بنتِ رسولِ اللہؐ سے نقل فرمایا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: کیا تم لوگ رسولخداؐ کی فرمائش بھول گئے کہ آپؐ نے حضرت علیؑ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: “اے علیؑ! تیری نسبت مجھ سے ایسی ہی ہے جیسی ہارونؑ کی موسیٰؑ سے تھی”(الغدیر، عبدالحسین امینی، ج۱، ص۱۹۷)۔

۳۔ حدیثِ حُبِّ آلِ محمدؐ

حضرت فاطمہ معصومہؑ نے حضرت امام جعفرصادقؑ کی دخترِ نیک اختر حضرت فاطمہؑ سے، انہوں نے زینب بنت امیر المومنینؑ سے اور انہوں نے حضرت فاطمہ زہراؑ سے نقل کیا ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا: ’’أَلَا مَنْ مَاتَ عَلَی حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِیداً‘‘؛”آگاہ ہو جاؤ کہ جو بھی محبتِ اہلِ بیتؑ پر مرتا ہے وہ شہید کی موت مرتا ہے”(گنجینۂ دانشمندان، محمد شریف رازی، ج۱، ص۱۶)۔

۴۔ طہارتِ امام حسین علیہ السلام

’’حَدَّثَنی الحسنُ بنُ زیدٍ عن فاطمةَ بنتِ موسیٰ، عن عمر بن علی بن الحسین، عن فاطمةَ بنتِ الحسین، عن أسماء بنت ابی بکر، عن صفیة بنت عبد المطلب، قالَتْ: لَمّا سَقَطَ الحُسَینُ عَلَیهِ السَّلامُ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ وَ کُنتُ وَلّیتُها، قَالَ النَّبیُّ(ص) یَا عَمَّة! هَلُمّی إِلیَّ إِبْنی فَقُلتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّما لَمْ نُنظِّفْهُ بعدُ، فَقَالَ(ص): یَا عَمَّة! أَنتِ تُنَظِّفِیهِ؟! إِنَّ اللَّهَ تَبارَکَ وَ تَعالَی قَدْ نَظَّفَهُ وَ طَهَّرَهُ‘‘؛’’حسن ابن زید نے حضرت فاطمہ بنتِ موسیٰؑ سے اور انہوں نے امام زین العابدینؑ کے فرزند عمر اشرف سے اور انہوں نے امام حسین ؑکی بیٹی فاطمہؑ سے اور انہوں نے اسماء بنتِ ابوبکر سے اور انہوں نے صفیہ بنتِ عبد المطلبؑ سے نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت امام حسینؑ کی ولادتِ باسعادت ہوئی، میں حضرتؑ کی دائی کے طور پر خدمت میں موجود تھی، اُس وقت رسولِ اکرمؐ نے مجھ سے فرمایا: اے پھوپی جان! میرے بیٹے کو مجھے لاکر دیں۔ میں نے عرض کی:  یا رسولِ اللہؐ! ہم نے ابھی بچے کو غسل نہیں دیا اور پاک نہیں کیا ہے۔آپؐ نے تعجب سے فرمایا: اے پھوپی جان! کیا آپ اس بچے کو پاک کریں گی؟! اس کو  تو خداوندِ عالم نے پاک وپاکیزہ ہی خلق فرمایا ہے”(العقیلۃ والفواطم، حسین شاکری، ص۱۹۷، نشر حکمت، قم)۔

۵۔ حدیثِ معراج

حضرت فاطمہ معصومہؑ نے جن احادیث کو نقل فرمایا ہے، ان میں سے ایک معروف و مشہور حدیث، حدیثِ معراج ہے کہ جو اس طرح نقل ہوئی ہے: ’’حَدَّثَتْنِی فاطمةُ بنت موسیٰ بن جعفرٍ … عن فاطمةَ بنتِ رسولِ اللَّهِ قالتْ: سَمِعتُ رسولَ اللَّهِ(ص)، یَقولُ: لَمّا أُسْرِیَ بِی إِلَی السَّمَآءِ دَخَلتُ الجَنَّةَ فإِذا أَنا بِقَصرٍ مِن دُرَّةِ بَیضاءَ مَجوفَة وَ عَلیها بابٌ مُکَلَّلٌ بِالدُّرِ وَ الیَاقوتِ وَ عَلَی البابِ سترٌ فَرَفعتُ رَأسی فإِذاً مَکتوبٌ عَلَی البابِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، عَلِیٌّ وَلِیُّ الْقَومِ‘‘؛ ’’حضرت امام موسیٰ ابن جعفر الکاظمؑ کی بیٹی حضرت فاطمہ معصومہؑ نے روایت نقل فرمائی ہے … حضرت فاطمہ زہراؑ سے کہ آپؑ نے فرمایا: میں نےرسولِ خداؐ سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس وقت مجھے آسمان پر معراج کے لیے لے گئے اور میں بہشت میں پہنچا تو میں نے اپنے آپ کو ایک سفید موتیوں کے قصر میں پایا جس کا دروازہ دُرّ و یاقوت سے بنا ہوا تھا اور اس کے اُوپر ایک پردہ لٹکا ہوا تھا میں نے اپنے سر کو بلند کیا تو اس پر یہ تحریر لکھی ہوئی دیکھی: (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، عَلِیٌّ وَلِیُّ الْقَومِ) (الشیعۃ فی احادیث الفریقین، سید مرتضیٰ ابطحی، ص۱۱۹، طبع اول، ۱۴۱۶ھ ق، نشرِ مؤلف؛ مستدرک سفینۃ البحار، علی نمازی شاہرودی، ج۶، ص۱۴)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button