
(۱)
علم و عرفان میں وہ حد سے سوا ہو جائے
جس پہ معصومۂ قمؑ تیری عطا ہو جائے
کیسے کہہ دوں میں خدا، اس کا بھلا ہو جائے
جس سے معصومۂ کونینؑ خفا ہو جائے
آل احمدؑ کا حرم ہے، تیرا روضہ بی بیؑ
کیوں نہ جنت کی طرح، اس کی فضا ہو جائے
طالب حق کو، حقیقت ہی نظر آتی ہے
لاکھ مسموم، زمانہ کی فضا ہو جائے
کیوں نہ تعریف کرے اس کی، زبان معصومؑ
مثل عباس جریؑ، جس کی وفا ہو جائے
کیا مقابل میں لڑیں آن کے مرحب، عنتر
نام حیدرؑ ہی سے جب روح فنا ہو جائے
پھر یزیدوں کے، مقابل ہے حسینیؑ لشکر
پھر بہتر کی صدا، ایک صدا ہو جائے
مثل دعبل جو مجھے لہجہ عطا ہو جائے
حق ذرا، مدحت مولا کا، ادا ہو جائے
در مولا کے سوا، سر نہیں جھکتا میرا
چاہے اس بات پہ، یہ سر ہی جدا ہو جائے
محفل ِ شاه ِ خراسانؑ، بپا ہو جائے
آلِ مامون کا، ہر زخم، ہرا ہو جائے
اس کی الفت سے ملے کیوں نہ رضایت رب کی
نام ہی جس کا زمانے میں، رضاؑ ہو جائے
بول بالا ہو عدالت کا، ہر اک گوشہ میں
یوسف زہراؑ، اگر جلوہ نما ہو جائے