اسلامی معارف

نبی کریم ﷺ کی سیرت نوجوانوں کے لیے: رہنمائی، اصلاح اور تحریک

تحریر: مولانا سید ساجد حسین رضوی ۔ طالب علم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران۔

فہرست مندرجات

تمہید

پہلی گفتگو

دوسری گفتگو

تیسری گفتگو

نتیجہ

 تمہید

نوجوانی کا دور عمر کا سب سے تابناک، جذباتی، اور فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب انسان کے اندر جوش و جذبہ بھی ہوتا ہے اور تعمیرِ شخصیت کی شدید ضرورت بھی۔ اگر اس دور میں رہنمائی میسر آجائے تو یہی نوجوان معاشرے کی اصلاح، ملت کی تعمیر، اور دین کی خدمت کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔ نبی اکرم ؐ کی حیاتِ طیبہ ایک ایسا آفتابِ ہدایت ہے، جس کی روشنی ہر دور کے انسان کو راستہ دکھاتی ہے، مگر خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے آپؐ کی سیرت ایک آئینہ، ایک مشعل اور ایک انقلاب ہے۔ قرآن مجید نے نبی اکرم ؐ کی ذات کو “اسوۃ حسنہ” قرار دیا:قرٓان مجیدمیں خداوندعالم نے فرمایا:«لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ»؛”بیشک تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔(سورہ احزاب، آیت21)۔

یہ “اسوہ حسنہ” صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ آپؐ کی جوانوں سے وابستگی، ان کی تربیت، اصلاح اور انقلابی قیادت کی بے مثال مثالیں نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ احادیث و روایات میں بھی نوجوانوں کی حیثیت اور نبی اکرم ؐ کی خصوصی توجہ واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے:«إِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كَالْأَرْضِ الْخَالِيَةِ، مَا أُلْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيْءٍ قَبِلَتْهُ»؛”نوجوان کا دل خالی زمین کی مانند ہوتا ہے، اس میں جو کچھ ڈالا جائے وہ اسے قبول کرتا ہے”۔ (الکافی، ج 2، ص 2)۔

اس مضمون میں ہم سیرتِ رسولؐ کی روشنی میں نوجوانوں کی تربیت، ان سے آپ ؐکےتعلق اور موجودہ دور کے لیے اس کی معنویت پر چندگفتگو  پیش کریں گے:

پہلی گفتگو

 نبی اکرمؐ کی زندگی کا نوجوانی کا دور نہایت ہی اہم اور عبرت آموز ہے۔ وہ دور جب ایک نوجوان کی شخصیت کا کلچر بنتا ہے، جب فکری، اخلاقی اور عملی بنیادیں قائم ہوتی ہیں۔ لیکن محمدؐ کی نوجوانی صرف ایک عام نوجوانی نہیں تھی، بلکہ ایک مثالی زندگی تھی جو ہر دور اور ہر نسل کے لیے روشنی کا مینار بنی۔ رسولِ اکرمؐ  کی جوانی کی خاص بات یہ تھی کہ آپ نے نہ صرف اپنی ذات میں صداقت، امانت، اور پاکیزگی کو اپنایا بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک روشن مثال قائم کی۔ عرب کی جاہلیت میں جہاں دھوکہ، بے ایمانی، ظلم و زیادتی عام تھی، وہاں آپؐ نے ہمیشہ سچائی اور انصاف کا دامن تھاما۔ اسی لیے آپ کو “امین” اور “صادق” کے القابات سے نوازا گیا۔ امام علیؑ نے نبیؐ کی جوانی کی شان میں فرمایا:

«لقد قرن الله به من لدن أن كان فطيماً أعظم ملك من ملائكته، يسلك به طريق المكارم ومحاسن أخلاق العالم»؛”اللہ نے رسول اللہؐ کے ساتھ بچپن ہی سے ایک عظیم فرشتہ مقرر کیا تھا جو انہیں نیکیوں اور حسن اخلاق کے راستے پر چلاتا رہا”(نہج البلاغہ، خطبہ 192)۔

 نبی کریمؐ نے اپنی نوجوانی میں علم کی طلب، اخلاق کی پاسداری، اور عبادات کو معمول زندگی بنایا۔ آپ کی سیرت میں ہمیں ملتا ہے کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولے، کبھی کسی کا حق نہیں مارا، اور ہمیشہ لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہے۔ یہی وجہ ہے کہ قریش کے سردار بھی آپ کی صداقت و امانت کے گواہ تھے۔ شیخ کلینی اپنی کتاب الکافی میں امام جعفر صادقؑ کی حدیث نقل کرتے ہیں:«خیر الناس من حمل القرآن و عمل به و علمه» “سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن کو اپنے دلوں میں بسانے، اس پر عمل کرنے اور دوسروں کو سکھانے والے ہیں”(الکافی، ج 1، ص100)۔ نبی اکرمؐ نے نوجوانوں کو بھی یہی پیغام دیا کہ علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔

 امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

“نوجوانی ایسا وقت ہے جب انسان کے اندر انقلاب کی توانائی ہوتی ہے، اگر وہ توانائی صحیح رہنمائی سے روشناس نہ ہو تو وہ ضیاع کا باعث بن سکتی ہے”۔

لہٰذا، نبی اکرم ؐنے اپنی جوانی میں نہ صرف خود کو بہتر انسان بنایا بلکہ نوجوانوں کو بھی مثالی رہنمائی عطا کی۔

دوسری گفتگو

نوجوانوں کی اصلاح و تربیت سیرتِ رسولؐ  کی روشنی میں نوجوانی ایک ایسا نازک دور ہے جس میں دل و دماغ کی نگہداشت سب سے ضروری ہوتی ہے۔ نبی کریم ؐ نے نوجوانوں کی اصلاح و تربیت میں جو حکمت و مصلحت اپنائی، وہ آج کے دور کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپؐ کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ اصلاح کی بنیاد محبت، نرمی، اور اعتماد ہے، نہ کہ سختی اور جبر۔

یہاں کچھ اہم موارد پیش کررہے ہیں:

 ۱۔ رحمت و شفقت کا سلوک:  رسول خداؐ نے کبھی نوجوانوں کو جھڑک کر نہیں ڈانٹا، نہ ہی ان کی کمزوریوں کو ہیجان زدہ انداز میں پیش کیا۔ بلکہ جب ایک نوجوان نے مسجد میں پیشاب کر دیا، تو آپؐ  نے نہ صرف اسے ملامت نہیں کیا بلکہ محبت سے سمجھایا اور اخلاقی درس دیا: «إنما أنا رحمة مهداة»؛ “میں ایک دی ہوئی رحمت ہوں”(بحار الانوار، ج۲۳، ص۳۷۲)۔

یہی رحمت نوجوانوں کے دلوں کو نرم کرتی ہے اور ان میں جذبہ اصلاح و تربیت کو جگاتی ہے۔

  ۲۔ اعتماد بخشنا اور ذمہ داری سونپنا :  نبی  اکرمؐ نے نوجوانوں کو اعتماد میں لے کر ان کی صلاحیتوں کو نکھارا۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ کو صرف سترہ سال کی عمر میں فوج کا سپہ سالار بنایا گیا، یہ اس بات کی علامت ہے کہ نوجوانوں کو کبھی بھی کم عمر سمجھ کر کمزور نہیں جانا جانا چاہیے۔ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:

«الناس معادن كمعادن الذهب والفضة، خيرهم من علمهم وعمل بهم»؛”لوگ مختلف دھاتوں کی مانند ہیں، ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو علم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے” (الکافی، ج۲، ص۴۲)۔ ایسے اعتماد سے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر کامیابی کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔

 ۳۔ نفس کی پاکیزگی اور جوانی کی حفاظت:  نبیؐ نے نوجوانوں کو اپنے نفس کی صفائی اور جوانی کی حفاظت کی تعلیم دی، کیونکہ جوانی انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ رسول خداؐ سے  حدیث میں آیا ہے: «سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله»؛”اور ان میں ایک جوان ہے جو اپنی جوانی میں اللہ کی راہ میں خود کو محفوظ رکھتا ہے”۔ (صحیح مسلم)

 یہ تعلیم نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو دین و دنیا کی خدمت میں استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے، نہ کہ انہیں ضائع کرنے کی اجازت۔

 ۴۔ سوال و جواب کی حوصلہ افزائی :  نبی کریمؐ  نے نوجوانوں کے سوالات کو ہمیشہ عزت و توجہ سے سنا۔ جب نوجوانوں نے کسی مسئلہ پر سوال کیا تو آپ نے انہیں جھڑک کر نہ روکا بلکہ واضح اور آسان الفاظ میں جواب دیا۔ یہ نوجوانوں کی فکری تربیت کا بہترین طریقہ تھا جو آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ خلاصہ نبی اکرمؐ کی اصلاحی تعلیمات نے نوجوانوں کو نہ صرف علم و عمل کی طرف راغب کیا بلکہ ان میں خود اعتمادی، ذمہ داری اور پاکیزگی کے جذبات پیدا کیے۔ آج کے نوجوان کے لیے یہی اصول ایک روشن راستہ ہیں جن پر چل کر وہ نہ صرف اپنی ذات کو سنوار سکتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو بھی روشنی و امید سے بھر سکتے ہیں۔

تیسری گفتگو

نوجوانوں میں جوش و جذبہ اور سیرتِ رسولؐ کی تحریک نوجوانی وہ دور ہے جب دل میں توانائی کی لہریں اٹھتی ہیں، جذبہ بلند ہوتا ہے اور دنیا بدل ڈالنے کا جنون سر چڑھ کر بولتا ہے۔ مگر یہ جوش و ولولہ اگر درست سمت میں نہ لگایا جائے تو تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمؐ کی سیرت نوجوانوں کے اندر وہ حقیقی جذبہ اور زندگی کا مقصد پیدا کرتی ہے جو انہیں صرف دنیاوی کامیابیوں تک محدود نہیں رکھتی بلکہ دین و ایمان کی بلندیوں تک لے جاتی ہے۔

آفاقی مقصد اللہ کی راہ میں جدوجہد رسول اللہؐ نے نوجوانوں کو سکھایا کہ زندگی کا اصل مقصد اللہ کی رضا اور دین کی سربلندی ہے۔ آپ ؐنے فرمایا: «والله لو أنتم آمنتم بالله وبرسوله وجاهدتم في سبيل الله لرفعكم الله درجاتكم»”اگرتم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو گے تو اللہ تمہیں بلند درجات عطا کرے گا(بحار الانوار، ج۷، ص۱۵۸)۔ یہی جذبہ نوجوان کو دنیاوی فتوحات کے علاوہ آخرت کی کامیابی کا شعور بھی دیتا ہے۔

عزت نفس، جرات اور غیرت کی تعلیم نبیؐ نے اپنے اصحاب خصوصاً نوجوانوں کو ہمیشہ عزت نفس اور غیرت کے جذبے سے سرشار رکھا۔ حضرت علیؑ کی زندگی نوجوانی میں ایسے کرداروں سے بھری ہے جو نہ صرف دلیری بلکہ غیرت کا عملی مظاہرہ ہیں۔

 دشمن کے نظریاتی حملوں کا دفاع نوجوانوں کو آج کل نظریاتی الجھنوں، مغربی تہذیب کے فرقہ وارانہ اور اخلاقی حملوں کا سامنا ہے۔ نبی اکرمؐ کی سیرت ان نظریاتی حملوں کا بہترین جواب ہے۔ آپ کی شخصیت کی عظمت، آپ کے اخلاق اور آپ کے عمل نے دنیا کے بڑے بڑے نظاموں کو جھکا دیا۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ نبیؐ کی سیرت کو نہ صرف پڑھیں بلکہ اس سے محبت اور شعور پیدا کریں تاکہ وہ ہر قسم کی فکری اور اخلاقی جنگ میں سرخرو ہو سکیں۔

نبی کریمؐ کی سیرت نوجوانوں میں جرات، غیرت، قربانی، اور دین کی سربلندی کے جذبے کو زندہ کرتی ہے۔ نوجوان جب اپنے دل و دماغ کو سیرت کے روشن آئینے میں دیکھتے ہیں تو ان کے اندر ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی ہے، جو انہیں صرف دنیا کی دوڑ میں نہیں بلکہ دین کی راہ میں کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ (بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج 7، ص 158 ؛ قرآن مجید، سورہ قریش، آیت 6؛ الکافی، شیخ کلینی، ج 2، ص99)۔

نتیجہ

 نبی کریمؐ کی سیرت، صرف ایک تاریخی قصہ یا داستان نہیں، بلکہ وہ زندہ کتاب ہے جو ہر دل کو روشنی، ہر ذہن کو بصیرت، اور ہر نوجوان کو منزل کی سمت دیتی ہے۔ نوجوانی کا دور فکری، اخلاقی اور عملی آزمائشوں سے بھرا ہوتا ہے، لیکن اگر یہ دور سیرتِ طیبہ کی روشنی میں گزارا جائے تو یہ نہ صرف فرد کی زندگی کو سنوار دیتا ہے بلکہ پوری قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے (قرآن، احزاب: 21)۔

 رسول اللہؐ نے اپنے نوجوان اصحاب کو صرف الفاظ کی نہیں بلکہ عمل کی دعوت دی۔ آپ کی زندگی کی ہر صفت، ہر عمل، ہر قول نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ صداقت، امانت، شجاعت، تواضع، اور محبت وہ خصوصیات ہیں جو ہر نوجوان کے دل کو جلا بخشتی ہیں اور اسے حق و صداقت کی راہ پر گامزن کرتی ہیں (بحار الانوار، ج 16، ص 226)۔

 آج کا نوجوان اگر اپنی زندگی کو سیرتِ رسولؐ کے آئینے میں دیکھے، تو اسے نہ صرف اپنی کمزوریوں کا ادراک ہوگا بلکہ اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کا بھی احساس ہوگا۔ یہی شعور، یہی ولولہ، یہی جذبہ ہے جو نوجوان کو زندگی کے ہر میدان میں کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے (نہج البلاغہ، خطبہ 192)۔

 لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف مدارس اور مساجد میں بلکہ گھروں اور دلوں میں بھی سیرتِ نبویؐ کی روشنی کو پھیلائیں، تاکہ ہمارا نوجوان صرف دنیاوی ترقی کا خواب دیکھے نہ رہے، بلکہ دین و ایمان کی سربلندی کا حقیقی چراغ بنے۔

آئیے! ہم سب مل کر نبی کریمؐ کی سیرت کو اپنی زندگیوں میں اپنائیں، تاکہ ہر نوجوان، ہر فرد اور ہر نسل کو اللہ کی راہ میں ایک کامیاب مسافر بنایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button