
مقصد عزائے امام حسینؑ
ترجمہ و ترتیب: حجۃ الاسلام مولاناعابد رضا نوشاد رضوی ۔ طالب علم جامعۃ المصطفی(ص) العالمیہ۔ قم
فہرست مندرجات
عزائے سید الشہداء ؑ معاشرہ کی حیات کا سبب
۳۔ سیرت و کردار معصومین ؑ سے آشنائی
مقدمہ
امام کے مقصد قیام سے مختلف نہیں ہے۔ ائمہ معصومین ؑ کی سیرتِ عزاسے یہی نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ جن اغراض و مقاصد کے تحت امام عالی مقام نے قیام کیا اور بارگاہ رب العزت میں نذرانۀ جاں پیش کیا ، مجموعی طور پر وہی اغراض و مقاصد عزاداری کے بھی ہیں۔ چنانچہ اگر امام حسین ؑ نے اسلام کے احیاء ، انسانی اقدار کے تحفظ، قرآن کے دفاع، سنت کی ترویج، بدعت کے خاتمے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نفاذ کے لئے قیام فرمایا تھا تو آپ کی یاد و عزا کو بھی انہی اغراض و مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ جس عزاداری میں یہ عظیم اغراض و مقاصد نہ پائے جاتے ہوں وہ عزائے امام حسین ؑ پر مکمل طور پر منطبق نہیں ہو سکتی۔
امام جعفر صادق ؑ،سید الشہداء ؑ کی زیارت اربعین میں آپ کے مقصد قیام کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَكَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَيْرَةِ الضَّلَالَ»؛(تهذيب الاحكام،ج۶،ص۱۱۳ )۔
“اے اللہ! انہوں نے تیرے بندوں کو جہالت و گمراہی سے نجات دینے کے لئے قیام کیا۔”
لہذا ضروری ہے کہ مجالس و مراسم عزا میں بھی یہی اثر پایا جائے اور آپ کا تذکرہ یوں کیا جائے کہ عالم انسانیت کے لئے چراغ ہدایت قرار پائے۔ امام محمد باقر ؑ بھی فرماتے ہیں:
«إِنَّ فِي اجْتِمَاعِكُمْ وَ مُذَاكَرَتِكُمْ إِحْيَاءَنَا وَ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَنَا مَنْ ذَاكَرَ بِأَمْرِنَا وَ دَعَا إِلَى ذِكْرِنَا»(وسائلالشيعة،ج ۱۶،ص۳۴۸ ، باب استحباب تذاكر فضل الأئمة)۔
تمہارے اجتماعات و مذاکرات میں ہمارا (ہماری سیرت کا) احیاء ہوتا ہے اور ہمارے بعد لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو ہمارے امر کا تذکرہ کرے اور لوگوں کو ہمارے ذکر کی طرف دعوت دے۔
مجالس و محافل اور ذکر اہل بیت اطہار ؑ کے سلسلے میں ایسی تمام روایات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان مجالس و محافل کا مقصد خالص اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و ترویج ہے جو اہل بیت اطہار ؑ کی سیرت و کردار اور احکام و فرامین کے ذکر کے ذریعہ قابل حصول ہے۔
عصر غیبت کے بعد علماء کی سیرت بھی یہی رہی ، چنانچہ انہوں نے بھی با مقصد عزاداری کا سلسلہ جاری رکھا۔ صرف عزاداری برائے عزاداری نہیں کی بلکہ اسے کربلائی تہذیب و ثقافت،اصل اسلامی تعلیمات اور علوم محمد و آل محمد ؑ کی تبلیغ و ترویج کا ذریعہ بنایا تاکہ دنیا میں اسلامی و انسانی اقدار کو تحفظ فراہم ہو سکے۔
عزائے سید الشہداء ؑ معاشرہ کی حیات کا سبب
تاریخی واقعات ہر معاشرہ کی تہذیب و ثقافت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ان واقعات سے حاصل ہونے والے سبق، عبرتیں اور تجربے قوموں کا عظیم سرمایہ ہوتے ہیں۔ لہذا اس سرمایہ کی حفاظت اور اس کا احیاء ضروری ہے، اس لئے کہ ان واقعات سے معاشرہ کی حیات وابستہ ہوتی ہے۔
ان تمام واقعات میں انقلاب کربلا ایک عظیم اور نمایاں حیثیت کا حامل نظر آتا ہے۔ قیام کربلا بظاہر نصف روز کے اندر شروع ہوکر ختم ہوجانے والا ایک تاریخی واقعہ ہے لیکن یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس کے اعلیٰ الہی و انسانی مقاصد و پیغامات اس کی جاودانی کا سبب بنے ہیں۔ یہ وہ پیغامات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر عالم انسانیت اپنے مطلوبہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔
کربلا صرف ایک جغرافیا کا نام نہیں بلکہ ایک الہی مکتب، مقدس آئیڈیالوجی اور انسانیت کو فروغ دینے والی روحانی یونیورسٹی ہے جہاں سے عزت و سربلندی، حریت و آزادی، عدل و انصاف اور مخالفت ظلم و استکبار کا درس ملتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تمام دیگر تاریخی واقعات و انقلابات کے برخلاف چودہ صدیاں گذر جانے کے باوجود کربلا آج بھی زندہ ہے اور تا قیامت اس کے سنہرے مقاصد و پیغامات اس کی بقا کے ضامن ہیں۔
جب اموی حکومت کی بربریت، نا انصافی اور جنایات اپنے عروج پر پہنچیں اور امام حسین ؑ نے روح اسلام، قرآن اور انسانیت کو رفتہ رفتہ نابودی کی طرف جاتے دیکھا تو آپ نے ان حالات کے خلاف قیام کر نا ناگزیر پایا اور پھر اپنے لہو سے جبین اسلام پر کربلا نامی ایک ایسی عبارت تحریر کر دی جو تا قیام قیامت عالم انسانیت کو اصل اور خالص اسلام سے روشناس کراتی رہے گی۔
اگر کربلا نسل در نسل اپنی اصل شکل و صورت کے ساتھ منتقل ہوتی رہے تو یہ عظیم قربانی انسانی معاشرہ کو حیات عطا کرتی رہے گی۔ لیکن خدا نخواستہ اگر اسے فراموشی کے سپرد کیا گیا اوراس کی اصل حیثیت اور مقاصد و پیغامات میں تحریف کی گئی یا اس میں اوہام و خرافات کی آمیزش کی گئی تو نقصان بھی انسانی معاشرہ کا ہی ہوگا۔ ائمہ معصومین ؑ نے عزائے امام حسین ؑ کے انعقاد پر جو اسقدر تاکید کی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ کربلا نامی انسان سازی کا یہ الہی مکتب ہر زمانہ میں معاشرہ کے بجھتے وجود میں روح حیات پھونکتا رہے اورشمشیر پر خون کی فتح، ظلم پر عدل کی جیت اور باطل پر حق کی کامیابی کی یہ داستاں قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے مشعل فروزاں ٹھہرے۔
ائمہ معصومین ؑنے لوگوں کو بھی عزائے امام حسین ؑ کے انعقاد کی دعوت دی ہے اور خود بھی مجالس عزا منعقد کی ہیں۔
امام سجاد ؑ کربلا کے بعد جب تک زندہ رہے واقعہ کربلا کو یاد کرکے روتے رہے اور اتنا روئے کہ آپ کا شمار ” بکّائین” یعنی بہت زیادہ گریہ کرنے والوں میں ہوا۔ آپ کے گریہ کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ کے سامنے پانی لایا جاتا تھا تو کربلا والوں کی تشنہ لبی کو یاد کر کے گریہ فرماتے تھے(صدوق، خصال، ج ۱، ص ۱۳۱)۔
امام محمد باقر ؑ بھی عزائے سید الشہداء کا انعقاد کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس عمل کی تاکید فرماتے تھے۔ ایک مجلس عزا میں کمیت نے نوحہ پڑھا تو امام نے بہت گریہ فرمایا اور انہیں دعائیں دیں(شیخ طوسی، مصباح المتهجد، ص ۷۱۳)۔
اما م موسیٰ کاظم ؑ فرماتے ہیں کہ جب ماہ محرم آتا تھا تو پھر میرے بابا امام جعفر صادق ؑ کبھی ہنستے نہیں تھے بلکہ آپ پر غم و اندوہ کے آثار نمایاں رہتے تھے اور آپ کے رخسار آنسؤوں سے تر ہوجاتے تھے، یہاں تک کہ روز عاشورا آپ کا یہ غم شدید ہوجاتا تھا اور مسلسل روکر فرماتے تھے یہ وہ دن ہے جس میں میرے جد حسینؑ بن علی ؑ کو شہید کر دیا گیا۔
ہمارے تمام ائمہ معصومین ؑ نےعزائے سیدالشہداء ؑ کو بے پناہ اہمیت دی ہے۔ ان ذوات مقدسہ کی یہ سیرت اس بات کا سبب بنی کہ چودہ صدیاں گذر جانے کے باوجود عزائے امام ؑ ایک زندہ تحریک کی صورت میں انسانی معاشرہ کو مسلسل حیات عطا کر رہی ہے اور اپنے روحانی پیغامات سے تشنگان روحانیت کو سیراب کر رہی ہے۔
ظاہر ہے کہ اہل بیت اطہار ؑ یا خود امام حسین ؑ ہمارے انعقاد عزاکے محتاج نہیں ہیں۔ اگر معصومین ؑ نے عزائے اہل بیت ؑ کے انعقاد کی تاکید کی ہے تو اس کا سبب وہ آثار و برکات اور فوائد و نتائج ہیں جو اس کے ذریعہ انسانی معاشرہ کو نصیب ہوتے ہیں۔
منجملہ:
۱۔ انسانی اقدار کی حفاظت
کربلا کے پیغامات صرف مسلمانوں یا پیروان اہل بیت ؑ کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کے لئے ہیں۔ حریت و آزادی، عدل و انصاف کا قیام، ظلم کی مخالفت، مظلوموں کی حمایت ، اچھائیوں کی ترویج ، برائیوں کا مقابلہ … یہ وہ عظیم پیغامات ہیں جن کے لئے امام حسین ؑ نے اپنی، اپنے اہل و عیال اور اصحاب و انصار کی قربانی پیش کی ہے تاکہ قیامت تک انسانی اقدار کی حفاظت ہوتی رہے۔
عہد حاضر میں ہر طرف ظلم و بربریت اور نا انصافی کا بول بالا ہے، جہاں دیکھئے نفرت کی ایک آگ لگی ہوئی ہے، بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، ایک دوسرے کے حقوق بڑی آسانی سے پامال کئے جا رہے ہیں، چاروں سمت تباہی کا ایک ایسا وحشتناک منظر ہے کہ انسانیت خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے۔ ایسے حالات میں امام حسین ؑ کے ان پیغامات پر عمل پیرا ہونے اور انہیں مشعل راہ قرار دینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ کربلا سے الہام لیتے ہوئےسماج کی ہر برائی اور ہر ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی جائے ، تحریک چلائی جائے اور یوں اپنی بیداری، زندہ دلی اور پاکیزہ انسانیت کا ثبوت بھی دیا جائے۔
جس طرح امام حسین ؑ کا مقصد صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کو ظلم و ستم سے نجات دے کر دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنا تھا، اسی طرح ہمیں بھی بلا تفریق مذہب و ملت اور سرحدوں کا لحاظ کئے بغیر ہر مظلوم کو اس کا حق دلانے اور ظالم کی مخالفت میں کوشاں رہنا ہوگا۔ اس لئے کہ کربلا سب کی ہے اور اس کا پیغام سب کے لئے ہے۔ امام حسین ؑ اور کربلا کی اسی آفاقی حیثیت کے بموجب دنیا بھر کی متعدد ظلم مخالف تحریکوں اور انقلابات کے بانیوں نے بھی امام کے قیام کو ہی اپنا آئیڈیل مانا اور آج بھی امام حسین ؑ مذہب و ملت کی قید کے بغیر کروروں دلوں میں بستے ہیں۔
خاور صدق و صفا، داور اثیار حسین کل جہاں قافلہ و قافلہ سالار حسین
جوش ؔملیح آبادی
۲۔ اتحاد
کربلا اتحاد کا مرکز و محور ہے۔ جہاں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنا سر تعظیم خم کرتے ہیں۔ امام حسین ؑ کے قیام کا ایک عظیم مقصد اصل اسلامی شریعت اور محمدی تعلیمات کی حفاظت کرکے دین کو بدعات و خرافات سے بچانا تھا تاکہ امت مسلمہ حقیقی معنوں میں امت محمدؐ رہے ، شریعت محمدیہ بے روح نہ ہو، امت مسلمہ تفرقہ کا شکار نہ ہو اور اسلامی تعلیمات میں تحریف اور بدعات و خرافات کو شامل کرکے مسلمانوں کو مرکز و محور توحید سے جدا نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر قوم کی پکار حسین ہیں۔
در حسین ؑپہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لئے
اگر کربلا مرکز اتحاد ہے تو عزائے سید الشہداء کو بھی مرکز اتحاد باقی رہنا چاہئے اور اس کے ذریعہ عزاداران امام حسین ؑ کو امن و سلامتی اور اخوت و برادری کا پیغام عام کرنا چاہئے۔ عزاداری کا یہ ایک عظیم مقصد بھی ہے اور پیغام بھی جس سے غافل ہونا مقصد عزا سے انحراف کے مترادف ہے۔
۳۔ سیرت و کردار معصومین ؑ سے آشنائی
مجالس عزا دینی تعلیمات کی تبلیغ و ترویج کا مرکز ہیں۔ ان مجالس میں محمد و آل محمد ؑ کے فضائل اور ان کی پاکیزہ سیرت کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ اہل بیت اطہار ؑ کہ جو اللہ تک پہنچنے کا اکلوتا ذریعہ ہیں، ان کی سیرت و کردار پر عمل پیرا ہوکر ہی اصل اسلام سے آشنا ئی و آگاہی میسر آ سکتی ہے۔ یہ مجلسیں وہ عظیم اجتماعی سرمایہ ہیں جن کی بدولت ہمارا معاشرہ سیرت و کردار معصومین ؑ سے فیضیاب ہوکر دنیاوآخرت میں سعادت و کامرانی حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس ذکر سے اہل بیت اطہار ؑ سے روحانی قرب بھی حاصل ہوتا ہے کہ جسے یہ قرب حاصل ہوجائے وہ یقیناً نجات یافتہ ہے۔
۴۔ اصلاح معاشرہ
امام حسین ؑ نے مدینہ سے ہجرت کرتے وقت اپنے بھائی حضرت محمد حنفیہ سے مقصد قیام کو یوں بیان فرمایا تھا:
«وَ أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ»(بحارالانوار ج۴۴ ص۳۳۰)۔
میں ہوس یا خود پسندی کی بنیاد پر اور فساد و ظلم پھیلانے کے لئے نہیں نکلا ہوں بلکہ میں اپنے نانا رسول اللہ ؐ کی امت کی اصلاح کے لئے جا رہا ہوں ۔میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے نانا اور بابا علی بن ابیطالب ؑ کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں۔
ابتدائے قیام میں ہی امام نے واضح فرما دیا کہ میرا مقصد ِقیام ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، سیرت پیغمبراکرمؐ اور سیرت حضرت امیر المومنین ؑ کے ذریعہ نانا کی امت کی اصلاح کرنا ہے۔ یہ وہ مقصد اور پیغام ہے جسے امام نے اپنی زبان عصمت سے بصراحت بیان فرمایا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ آپ کی یاد اور نام پر منعقد کی جانے والی عزاداری اور مجالس غم کا مقصد بھی یہی ہے کہ اچھائیوں کی طرف دعوت دی جائے، برائیوں اور خرافات و بدعات سے روکا جائے اور سیرت محمد و آل محمد ؑ کے بیان کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح کی جائے۔
عزائے سید الشہداء ؑ کے دوران جب تاریخ کربلا بیان کی جاتی ہے اور اس واقعہ کے اسباب و محرکات، دروس اور عبرتوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے تو ہر زمانہ کا انسان ان کا انطباق اپنے معاشرہ پر کرتا ہے اور غور و فکر کے بعد سماجی برائیوں اور ان کے ازالہ کی ضرورت کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب و انصار کے اوصاف و فضائل سن اور پڑھ کر اپنے زمانہ کے سچے حسینیوں کی شناخت حاصل کرتا ہے اور شمر و یزید و ابن زیاد جیسے ملعونوں کے حرکتوں سے آشنائی کے بعد اپنے دور کے شمر و یزید و ابن زیاد کو پہچاننے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ پھر کربلا سے درس لے کر اپنی فرض شناسی کی بنیاد پر حتی المقدور معاشرہ میں اچھائیوں کی ترویج اور برائیوں سے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یقیناً یہ مجالس اور عزاداری اصلاح معاشرہ کا بہترین ذریعہ ہیں۔
کہاں تک ذکر کیا جائے کہ عزائے سید الشہداء اور ذکر محمد و آل محمد ؑ کے بے پناہ روحانی و مادی فوائد و آثار و نتائج ہیں جن کا بیان ایک مکمل کتاب چاہتا ہے۔
دشمن کی سازشوں سے ہوشیار
واقعہ کربلا کی یاد اور عزائے امام حسین ؑ کے انعقاد میں ہر لحاظ سے بہترین اہتمام کرنا چاہئے اور جہاں تک ہو سکے عظیم الشان انداز میں اس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔ ہر شخص حسب استطاعت اس اہتمام میں شریک ہو۔ لیکن اس سلسلہ میں ہوشیار و خبردار رہنے کی ضرورت ہے کہ عزائے امام حسین ؑنامی ہمارے اس عظیم سرمائے پر اسلام دشمن عناصر کی ناپاک نظر ہے۔ وہ بھی اس کی عظمت و اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ عزاداری ہی ہے جس نے مکتب کربلا کو آج تک لوگوں کے ذہن و دل میں تر و تازہ رکھا ہے اور یہی دین اسلام اور مذہب اہلبیت ؑ کی بقا کا ایک اہم سبب بھی ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس قوم سے دولت عزا نہیں چھینی جا سکتی۔ لہذا اب ان کا منصوبہ یہ ہے کہ عزاداری اور یاد کربلا کو اس کے اصل مقصد سے منحرف کر دیا جائے، مجالس کی شکل بگاڑ دی جائے، اس مرکز اتحاد کو بھی سبب تفرقہ و اختلاف بنا دیا جائے تاکہ عزاداری کا ظاہر تو باقی رہے لیکن اس کی وہ روح ختم کر دی جائے جس سے اس قوم کو صحیح اسلام اور نعمت ایمان و عمل نیز حریت و آزادی، عدل و انصاف، مخالفت ظلم ، حمایت مظلوم اور عالمی استکبار و سامراجیت کے خلاف قیام کا درس ملتا ہے۔
لیکن ہم پیروان مکتب کربلا بھی اصحاب امام حسین ؑ سے درس حریت و اتحاد لیتے ہوئے یہ عہد کرتے ہیں کہ دشمن کو اس کے منحوس عزائم اور ناپاک مقاصد میں ہرگز کامیاب نہ ہونے دیں گے ۔
لہذا عزاداری امام حسین ؑ میں شریک تمام افراد، چاہے وہ بانی مجلس ہو یا انجمن کے عہدیداران و ممبران، خطیب ہو یا نوحہ خواں، ماتمی دستہ ہو یا عام عزادار، مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان ، سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے قول و عمل سے مقاصد امام حسین ؑ کا تحفظ اور اس کی تبلیغ و ترویج کریں اور عزائے سید الشہداء کو ایک عظیم عبادت سمجھ کر انجام دیں اور اسے اللہ سے قربت کا بہترین ذریعہ سمجھیں۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی ذمہ داری مجالس کو خطاب کرنے والے علماء و خطباء پر عائد ہوتی ہے کہ وہ منبر کا صحیح استعمال کریں، اسلام اور شریعت کی پاسداری کریں، اصل سیرت و فضائل معصومین ؑ بیان کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کی کوشش کریں۔ بانیان مجالس کی بھی ایک عظیم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ صرف نیک ، متقی و پرہیزگار ،فرض شناس اور قوم کا درد رکھنے والے علماء و خطباء کو مجالس و محافل سے خطاب کے لئے مدعو کریں۔ مقصد عزا کے تحفظ اور دشمن کو اس کے ناپاک عزائم میں شکست سے دوچار کرنے کے لئے ان باتوں پر توجہ دینا بے حد ضروری ہے۔ اسی میں قوم کی کامیابی ہے۔