
مرج البحرین؛ حضرت امام علیؑ و شہزادی کائنات فاطمہ زہراؑ کی مثالی شادی
تحریر: مولانا سید مہدی رضا رضوی۔ طالبعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران
فہرست مندرجات
٤- اطاعت الہی میں مددگار اور حصول ثواب
٥- محبت، انس اور سکون کی ضرورت کا پورا ہونا
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مہر
اشارہ
شادی بیاہ انسان اور بشریت کی بقا اور سماج و معاشرے کی پاکیزگی کا بہترین وسیلہ ہے کیونکہ انسان فطری طور پر محبت و سکون کا خواہاں ہے اور بغیر ساتھی کے ناقص ہے چاہے پھر وہ علم و ایمان اور اخلاقی فضائل میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ حاصل کر لے لیکن اس وقت تک کمال مطلوبہ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اپنے لیے ایک ساتھی کا انتخاب نہ کریں جو اسے محبت اور سکون بھری زندگی عطا کرے۔
خداوندعالم سورہ روم آیت نمبر 21 میں ارشاد فرماتا ہے کہ :
«وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ».
“اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑا بنایا تاکہ تم اس سے چین و سکون حاصل کرو اور تم لوگوں کے درمیان پیار اور الفت پیدا کر دیا ۔
اسی طرح پروردگارعالم، سورہ بقرہ، آیت 187 میں ارشاد فرماتا ہے کہ :
«هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ »؛ عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم مرد عورتوں کے لیے”۔ یعنی میاں بیوی ایک دوسرے کو کامل کرنے والے، ایک دوسرے کی آبرو اور راز کے محافظ اور دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں، جس طرح سے انسان لباس کے بغیر معاشرے میں سر بلندی کی زندگی نہیں گزار سکتا اور ہر وقت اپنے نقص کا احساس کرے گا ویسے ہی بغیر ساتھی کے انسان مکمل نہیں ہے جسے قرآن کی تعبیر میں “لباس” کہا گیا ہے یعنی جس طرح سے لباس زینت کا سبب بنتا ہے ویسے ہی بہترین ساتھی بھی انسانی زندگی کے لیے ایک مکمل زینت کا سبب ہے۔
شادی ایک طبیعی اور فطری مسئلہ ہے لہذا اسلام میں اس سلسلے میں بہت زیادہ تاکید ہے اور اسے بشریت کی بقا کا ضامن قرار دیا ہے کیوں کہ شادی بیاہ صرف ظاہری اور مادی امور کا نام نہیں کہ میاں اور بیوی ایک دوسرے سے نزدیک ہوں بلکہ کچھ روحانی اور نسل کی بقا کی ضرورت اسی شادی پر موقوف ہے۔
شادی بیاہ کی اہمیت
دین اسلام اور شریعت محمدیؐ میں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے جسے ہم قرآن مجید و احادیث کی روشنی میں قولی اور عملی صورت میں یوں بیان کرسکتے ہیں:
الف- قولی صورت
قرآن اور حدیث میں اقوال کی صورت کچھ مندرجہ ذیل باتوں کی طرف اشارہ ملاحظہ فرمائیں:
١- عفت اور پاکدامنی کی حفاظت
انسان کی خواہشات جب قدرتی اور فطری طریقوں سے پوری ہوتی ہے تو اس طرح سے انسان معصیت سے اور گناہوں سے دور رہتا ہے کہ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں :
“جس نے شادی کی اس نے آدھے دین کو بچا لیا یا جو کوئی بھی چاہتا ہے کہ خدا سے پاک و پاکیزہ حالت میں ملاقات کرے وہ ضرور شادی کرے”۔
٢- رشد و تکامل
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
«رَكعَتانِ يُصَلِّيهِما مُتَزوِّجٌ أفضَلُ مِن سَبعينَ رَكَعةٍ يُصَلِّيها غَيرُ مُتَزَوِّجٍ» (بحار الانوار ، ج 103 ، ص 219 )۔
“شادی شدہ انسان کی دو رکعت نماز غیر شادی شدہ انسان کی 70 رکعت نماز سے بہتر ہے”۔
٣- نسل میں برکت
رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:
« تَنَاکَحوا تَناسَلوا تَکثُروا فَاِنّی اُباهی بِکُمُ الاُمَمَ یَومَ القِیامَة»
” شادی کرو اور صاحب اولاد ہو جاؤ اور اس طرح اپنی تعداد میں اضافہ کرو کیونکہ میں قیامت میں دوسری امتوں کے درمیان افتخار کروں گا”۔(جامع الأخبار، تاج الدين شعيرى، ص۱۰۱)۔
٤- اطاعت الہی میں مددگار اور حصول ثواب
ایک مومن انسان اگر ایک مومنہ اور با سلیقہ بیوی رکھتا ہو تو وہ اطاعت الہی اور حصول ثواب میں اس کے لیے مددگار ہے بلکہ اپنی خواہش کو جائز طریقے سے پوری کرنا ثواب اور اجر کا باعث ہے جیسا کہ حضرت ابوذر غفاری نے رسول خدا ؐکی خدمت میں عرض کی، کیا یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ اپنی زوجہ کے ساتھ نزدیکی کر کے لذت حاصل کریں اور آخرت میں ہمارا یہ کام ثواب کا باعث بھی بنے؟ رسول خداؐ نے فرمایا: اگر ایسے کام کو ناجائز طریقے سے انجام دے تو کیا گنہگار نہ ہوں گے؟ جناب ابوذر نے عرض کی: ہاں گنہگار ہونگے ۔تب رسول خداؐ نے فرمایا: اسی کام کو اگر جائز طریقے سے انجام دو گے تو اجر و ثواب کے مستحق ہو گے۔
٥- محبت، انس اور سکون کی ضرورت کا پورا ہونا
خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
«وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ» (سوره روم، آیت٢١)۔
معصومینؑ کی تعلیمات میں شادی بیاہ کےسلسلے سے احادیث اور روایات کے علاوہ خود معصومینؑ کی ازدواجی زندگی ہمارے لیے ایک بہترین آئیڈیل اور نمونہ ہے۔ جس میں سے خود حضرت علیؑ اور فاطمہ زہراؑ کے ازدواجی زندگی قیامت تک کے لیے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے جسے ہم اس تحریر میں مختصر طور پر قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔
ب: عملی صورت
اس میں کوئی کوئی شک نہیں کہ اہل بیتؑ، ہدایات اور نصیحتوں پہ پہلے خود عمل پیرا نہ ہوں لہذا تاریخ اور احادیث میں ایسے نمونے مل جائیں گے جس میں اگر کوئی حلال چیز کے لئے بھی کسی کو روکا تو پہلے اس پر خود عمل کیا اس کے بعد کسی کو منع کیا ہے مثال کے طور پر خرمے اور بچے کا واقعہ۔
لیکن اس مقالے میں اختصار کے مدنظران تمام واقعات اور نمونوں سے گریز کرتے ہوئے اصل موضوع “مرج البحرین” یعنی امام علی ؑاور فاطمہ زہراؑکی شادی کے عنوان سے کچھ باتوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود و مطلوب ہے۔
پہلی ذی الحجه؛ شادی کی تاریخ
حضرت فاطمہؑ اور حضرت علیؑ کی شادی شیعہ تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے کیونکہ شیعہ ائمہ کا سلسلہ اسی شادی کا ثمر ہے۔ بعض احادیث کے مطابق رسول اکرمؐ نے وحی الٰہی سے حضرت علی ؑ کی شادی کی۔ اس شادی کی تاریخ کے بارے میں کئی آراء ہیں اور مشہور قول کے مطابق یہ شادی ہجرت کے دوسرے سال ذی الحجہ کی پہلی تاریخ میں ہوئی جبکہ آپ دونوں کے درمیان نکاح کے صیغے پیغمبر اکرمؐ نے پہلے ہی جاری کر دیئے تھے۔ بعض محققین کے مطابق عقد کے دس مہینے بعد رخصتی ہوئی تھی۔
حدیثی کتابوں کے مطابق حضرت علیؑ سے پہلے مہاجرین و انصار میں سے کئی شخصیات نے پیغمبر اکرمؐ سے حضرت فاطمہ زہرا ؑ کا رشتہ مانگا تھا لیکن پیغمبر اکرمؐ نے ان رشتوں کی مخالفت فرمائی اور فرمایا: “یہ امر خدا پر ہے”۔ یعنی خدا کی مرضی کے مطابق یہ شادی ہونا ہے۔
شادی کے انتظامات
حضرت زہراؑ سے اجازت ملنے کے بعد رسول اکرمؐ ، امیر المومنین علیؑ کے پاس تشریف لائے اور مسکراتے ہوئے فرمایا: اے علیؑ! کیا تمہارے پاس شادی کے لیے کچھ ہے؟ آپ نے جواب دیا: اے رسولخداؐ، میرے والدین آپ پر قربان، آپ میری حالت سے خوب واقف ہیں۔ میرا سارا مال ایک تلوار، ایک زرہ اور ایک اونٹ پر مشتمل ہے۔ آپ نے فرمایا: تم جنگ اور جہاد کے لئے ماہرہو اور تم کو خدا کی راہ میں جہاد کے لئےتلوار ضروریات میں سے ہے۔ اونٹ بھی تمہاری زندگی کی ضروریات میں سے ہے لہذا تمہیں اسے اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی معاملات کو پورا کرنے، اپنے خاندان کے لیے روزی کمانے، اور اپنے سفر کے دوران اپنا سامان لے جانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ میں تجھ پر سختی نہیں کروں گا لہذا زرہ پر اکتفا کروں گا”۔ (زندگانی حضرت زهرا سلام الله علیها ، ص ۴۰۹)۔
امیر المومنین نے رسول اکرمؐ کے حکم سے زرہ بیچی اور اس کی رقم آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کردی، آپؐ نے اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا، اس میں سے ایک حصہ جہیز کے طور پر خریدنے کے لیے استعمال کیا گیا اور دوسرا حصہ عطریات کی تیاری کے لیے استعمال کیا اور تیسرا حصہ ام سلمہ کو دیا تاکہ جب شادی کی رات آئے تو وہ اسے امیر المومنینؑ کو واپس کر دیں تاکہ وہ اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کر سکیں۔(محمد کاظم قزوینی ، فاطمه زهراؑ از ولادت تا شهادت ، ص ۱۸۹)۔
خطبہ نکاح
ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی شادی کے وقت رسول خدا ؐمنبر پر گئے خطبہ ارشاد فرمایا اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
“خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ ؑ کا نکاح علیؑ کے ساتھ کروں اور اگر علیؑ راضی ہوں تو چار سو مثقال چاندی حق مہر کے ساتھ میں فاطمہ ؑ کا نکاح علیؑ کے ساتھ کر دوں۔ علیؑ نے فرمایا: میں اس پر راضی ہوں”۔(مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۳۵۰)۔
بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہؑ کی موجودگی میں خدا نے حضرت علیؑ کیلئے دوسری شادی حرام قرار دی تھی اسی لئے حضرت فاطمہ ؑکی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مہر
حضرت زہراؑ کے مہریے کے بارے میں مختلف اعداد و شمار منقول ہیں۔ 400 سے 500 درہم کے درمیان آپ کا مہر تھا جو شیعوں کے یہاں “مہر السنۃ” کے نام سے معروف ہے۔ احادیث کے مطابق امام علیؑ نے اپنی زرہ بیچ کر حضرت زہراؑ کا مہر ادا کیا۔ لہذا اس امر میں بھی ہمیں سہولت اور آسانی سے کام لینا چاہیے۔
اسکے علاوہ اللہ تعالیٰ نے جو مہر قرار دیا اس کے بارے میں رسول اللہؐ نے فرمایا: “فاطمہؑ کا مہر آسمان پر زمین کا پانچواں حصہ مقرر ہے، پس جو کوئی فاطمہؑ اور ان کی اولاد سے بغض رکھتا ہے وہ قیامت تک زمین پر حرام چلتا رہے گا”۔
ایک دوسری روایت میں امام باقر ؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ: “فاطمہؑ کا مہر دنیا کاپانچواں حصہ، ایک تہائی آسمان، چار نہریں ہیں: فرات، مصر میں دریائے نیل، نہروان اور دریائے بلخ”۔ (زندگانی حضرت زهراؑ، ص۳۵۸)۔
ولیمہ
شادی کی رسومات میں سے ایک رسم مہمانوں کو کھانا کھلانا ہے جس میں مومنین کافی خرچ کرتے ہیں بالخصوص لڑکی والوں کے لئے یہ بہت سخت اور دشوار کام ہے جس میں اکثرو بیشتر لڑکی کا باپ مقروض ہوجاتا ہے، لیکن اہل بیت ؑ کی سیرت میں ہمیں اس رسم کے لئے برعکس ملتا ہے۔
امیر المومنین علی ؑفرماتے ہیں:
“رسول اکرمؐ نے مجھ سے فرمایا: اے علیؑ! اپنی شادی اور خاندان کے لئے کافی مقدار میں کھانا تیار کرو۔ پھر فرمایا: میں گوشت اور روٹی دوں گا، کھجور اور تیل تمہارے ذمہ ہے۔ میں نے کھجوریں اور تیل تیار کیا اور آپؐ کے پاس لے گیا، آپ ؐ نے خود اپنے کپڑوں کی آستینیں لپیٹیں اور کھجوریں صاف کیں اور انہیں تیل میں ڈال کر “حیس” (خرمہ کا حلوہ) تیار کیا اور ایک موٹی بکری ذبح کی اور بہت سی روٹی تیار کیں، پھر مجھے فرمایا: اب تم جسے چاہو دعوت کرو”۔ (محمد کاظم قزوینی ، فاطمه زهراؑ از ولادت تا شهادت، ص 346)۔
امیر المومنین علی ؑفرماتے ہیں: جب میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ مسجد رسول اکرمؐ کے اصحاب سے بھری ہوئی ہے، میں نے کہا: میں آپ سب کو شادی کے ولیمہ کی دعوت دیتا ہوں۔اس کے بعد لوگ گروہ گروہ نبیؐ کے گھر کی طرف بڑھنے لگے اور میں لوگوں کی زیادہ تعداد اور کھانے کی مقدار کے کم ہونے کی وجہ سے شرمندہ ہونے لگا لیکن جب رسول اکرمؐ کو میرے ذہن میں کیا چل رہا تھا اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا: “اے علیؑ! میری دعا ہے کہ اللہ آپ کے کھانے میں برکت عطا فرمائے۔ جس کا نتیجہ تھا کہ سب لوگوں کو کھانا کھایا”… (محمد کاظم قزوینی ، فاطمه زهراؑ از ولادت تا شهادت ، ص 364- 365)۔
جہیز
جیسا کہ مشہور ہے امام علیؑ نے حق مہر کی ادائیگی کے لئے زرہ فروخت کی تھی۔ جب رقم پیغمبرؐ کو دی تو آپؐ نے اس رقم کو گنے بغیر کچھ رقم بلال کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لئے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ! اور باقی بچی رقم ابوبکر کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہوگی وہ تیار کرو۔ پیغمبرؐ نے عمار یاسر اور کچھ اور صحابہ کو بھی ابوبکر کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراءؑ کے جہیز کے لئے کچھ اشیاء تیار کریں۔
شیخ طوسی نے جہیز کی فہرست یوں لکھی ہے:
ایک قمیض جس کی قیمت 7 درہم تھی۔ برقعہ 4 درہم میں۔خیبر کی تیار کردہ عبا۔کجھور کے پتوں سے بنی چارپائی۔دو بچھونے جن کا بیرونی کپڑا موٹے کتان کا تھا ایک کجھور کی چھال سے اور دوسرا بھیڑ کی اون سے بھرا ہوا تھا۔ طائف کے تیار کردہ چمڑے کے چار تکیے، جنہیں اذخر (مکی گھاس، بوریا (چٹائی) کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے، اس کے پتے باریک ہیں جو طبی خصوصیات کی حامل ہیں) سے پر کیا گیا تھا۔ اون کا ایک پردہ۔ ہجر میں بنی ایک چٹائی (گویا ہجر سے مراد بحرین کا مرکز ہے نیز ہجر مدینہ کے قریب ایک گاؤں کا نام بھی تھا)۔ ایک دستی چکی۔تانبے کا طشت۔چمڑے کا مشکیزہ۔لکڑی کا بنا ڈونگا۔دودھ دوہنے کے لئے گہرا برتن۔پانی کے لئے ایک مشک۔ایک مطہرہ (لوٹا یا صراحی جسے طہارت وضو کے لئے استعمال کیا جاتا ہے) جس پر گوند چڑھایا گیا تھا۔مٹی کے کچھ مٹکے یا جام۔
اس مقام پر نقل ہوا ہے کہ شادی کے بعد ایک حاجت مند عورت نے جب حضرت فاطمہؑ سے کچھ مانگا تو آپؑ نے اپنا شادی کا جوڑا اسے دے دیا تھا۔(شوشتری، احقاق الحق، ج۱۰، ص۴۰۱)۔
پیغمبر اکرم ؐ کی دعا
شادی کے ولیمے کے بعد رسول خداؐ، علیؑ کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے اور فاطمہؑ کو آواز دی۔ جب فاطمہؑ نزدیک آئیں، تو دیکھا کہ رسول اللہؐ کے ساتھ حضرت علیؑ بھی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: نزدیک آجاؤ۔ فاطمہؑ اپنے باباؐ کے نزدیک آئیں۔ رسول اللہؐ نے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے ہاتھ کو پکڑا اور جب فاطمہؑ کا ہاتھ علیؑ کے ہاتھ میں دیا تو فرمایا:
“خدا کی قسم! میں نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور تمہاری عزت کی اور اپنے خاندان کے بہترین فرد کو تمہارے لئے انتخاب کیا ۔ خدا کی قسم! تمہاری شادی ایسے فرد سے کر رہا ہوں جو دنیا اور آخرت میں سید و آقا اور صالحین سے ہے ۔ تم دونوں اپنے گھر کی طرف جاؤ۔ خداوندعالم اس شادی کو تم دونوں کے لئے مبارک فرمائے اورتمہارے کاموں کی اصلاح فرمائے۔(یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ٢١٤)۔
ایک اور روایت کے مطابق رسول خداؐ نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا: ایک برتن میں میرے لئے پانی لے آؤ ، اسماء فوراً گئیں اور ایک برتن پانی کا بھر کر لے آئیں۔ آپؐ نے پانی کا ایک چلو بھرا اور اسے حضرت فاطمہؑ کے سر پر ڈالا اور پھر ایک چلو بھرا اور آپؑ کے ہاتھوں پر ڈالا اور کچھ پانی آپؑ کی گردن اور بدن پر ڈالا۔ پھر فرمایا: خدایا! فاطمہؑ مجھ سے ہے اور میں فاطمہؑ سے ہوں۔ پس جس طرح ہر پلیدی کو مجھ سے دور کیا اور مجھے پاک و پاکیزہ کیا ہے اسی طرح اس کو بھی پاک و طاہر کر دے”۔ اس کے بعد فاطمہؑ سے فرمایا: یہ پانی پئیں اور اس سے اپنے منہ کو دھوئیں اور ناک میں ڈالیں اور کلی کریں۔ پھر پانی کا ایک اور برتن طلب کیا اور علیؑ کو بلایا اور یہی عمل دہرایا اور آپؑ کے لئے بھی اسی طرح دعا فرمائی اور پھر فرمایا: “خداوندمتعال، آپ دونوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے نزدیک اور مہربان کرے اور آپ کی نسل کو مبارک اور آپ کے کاموں کی اصلاح فرمائے”۔(یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ص۲۱۵)۔
نتائج بحث
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے حضرت علیؑ اور بی بی فاطمہؑ کی زندگی کے اصول ہمارے لئے ائیڈیل ہونا چاہیے لہذا ٓخر میں چند اہم نتائج بیان کئے جارہے ہیں:
۱۔ ان دونوں ہستیوں کی زندگی سے ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کی لئے شادی میں کسوٹی معیار اور ملاک دین ایمان اور اخلاقی چیزوں کو ہونا چاہیے ۔
۲۔ شادی بیاہ میں بچوں پر اپنی مرضی نہ تھوپی جائے بلکہ ان کی مرضی کا بھی دھیان رکھا جائے، باپ یہ نہ سوچیں کہ وہ باپ ہے اس لئے مالک ہے اور بیٹی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ، جب حضرت علیؑ رشتے کے لئے رسول اکرمؐ کے پاس آئے تو آپ جانتے تھے کہ زہراؑ اس رشتے سے راضی ہیں لیکن پھر بھی آپؐ نے کہا کہ: “پہلے میں فاطمہؑ سے ان کی مرضی معلوم کرلوں”۔
۳۔ حضرت علی ؑ اور بی بی فاطمہ زہراؑ کی شادی بالکل سادگی سے ہوئی تھی جس میں نہ فضول خرچی ہوئی، نہ اسراف ، نہ دکھاوا تھا نہ کوئی ہلڑ ہنگامہ بلکہ بالکل سادہ رسم ، سادہ کھانے، سادہ ولیمے کے ساتھ تمام پروگرام انجام پائے جس میں ایمان، محبت و رحمت کا سایہ ہر طرف نظر آرہا تھا۔
۴۔حضرت علیؑ اور بی بی فاطمہ زہراؑنے سادہ زندگی گزاری لیکن ہر مرحلے میں پیار محبت، ایمان اور خدا کی اطاعت پیش نظر رہی۔
۵۔ تقسیم کار یعنی کاموں میں بٹوارا باہر کے کام حضرت علیؑ نے اپنے ذمے اور گھر کے سارے کام شہزادی ؑنے اپنے ذمے لے رکھے تھے لیکن پھر بھی حضرت علی ؑ گھر کے کاموں میں بی بی سیدہؑ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
آخر میں پروردگار سے دعا ہے کہ ہم سب کو سیرت معصومینؑ پر عمل کرنے کی توفیق دے اور سماج و معاشرے میں غیر دینی اور بے جا رسم و رواج سے سب کو محفوظ رکھے۔( آمین)۔