اسلامی معارف

سچا دوست

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: “مَنْ كانَ الْورَعُ سَجِيَّتَهُ، وَ الْكَرَمُ طَبيعَتَهُ، وَ الْحِلْمُ خَلَّتَهُ كَثُرَ صَديقُهُ”؛  پرہیز گاری  جس کی فطرت ہو، کرم  جس کی طبیعت ہو اور حلم و بردباری جس کا لباس ہو، اس شخص کے دوست بہت زیادہ رہیں گے (بحار الانوار،ج۶۶، ص۴۰۷)۔

ورع یعنی پرہیزگاری اگر انسان کی فطرت  و عادت ہوجائے اور وہ گناہوں سے بچنے والا، پاکدامن اور دین و دنیا کی ہر برائی سے پرہیز کرنے والا ہوتواس کے لئے نیک راستے پر قائم رہنا آسان ہوجاتا ہے اور وہ معاشرتی اعتبار سے باوقار  اور لوگوں کا محبوب بن جاتا ہے ۔

کرم  وسخاوت جب انسان کی طبیعت بن جاتی ہے تو انسان ہمیشہ دوسروں پر دستِ کرم اور عطا کرنے والا ہوجاتا ہے اور دل کھول کر لوگوں کی مدد  کرنے والا اور  اپنے مال و وقت و صلاحیت و علم و ہنر کے ذریعہ بخشش و مدد کرنے  میں بخل نہیں کرتا ہے اور اس طرح اس کے لئے دوسروں کے دل جیتنا آسان ہوجاتا ہے۔

حلم یعنی  بردباری، صبر و تحمل۔ جب انسان ان چیزوں کا لباس پہن لیتا ہے تو اس کی شخصیت کا دائمی رنگ ہی اپنے غصہ و بغض کو قابو کر کے نرم مزاجی اختیار کرنا ہوجاتا ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ اپنے مخالفین کو بھی اپنی طرف جذب کرلیتا ہے۔

جب کوئی انسان ان تین صفات کا حامل ہو — یعنی پرہیزگاری اس کا پیشہ ہو، سخاوت اس کی فطرت ہو، اور صبر و برداشت اس کا لباس ہو — تو اس کی دوستیاں بہت بڑھ جاتی ہیں کیونکہ لوگ اس کی شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں، اس پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ گھلنے ملنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

اس حدیث سے یہ اخلاقی تعلیم بھی ملتی ہے کہ نیک دوست بنانے اور زیادہ دن والی دوستی کے لیے خود کو سنوارنا، اور اچھے اخلاق کو اپنانا بہت  ضروری ہے۔ یہ صفات انسان کو معاشرے میں عزت و محبت دلاتی ہیں کیونکہ ایسا ہی شخص واقعی معنوں میں ایک سچا دوست ثابت ہوتا ہےاور دوسروں کے لئے مفید  ہوتاہے جس کی وجہ سے اس کے دوستوں اور چاہنے والوں  کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button