اسلامی معارف

حضرت امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کی خصوصیات

تحریر: مولانا سید تعلیم رضا جعفری۔ متعلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ۔ قم ایران

 فہرست مندرجات

مقدمہ

حضرت امام حسینؑ  کی اہم خصوصیات

قمر بنی ہاشم حضرت اباالفضل العباسؑ کے چار منفرد مقام

مقام تسلیم

مقام تصدیق

مقام وفا

مقام خلوص و خیرخواھی

مقدمہ

امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے مہینےکی مناسبت سے آپ حضرات ؑکے بعض اہم خصوصیات و فضائل کے حوالے سےبعض اہم مطالب کا ذکر کیا جارہا ہے تاکہ آپ حضراتؑ کی حیات طیبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنے کردار و اعمال کی بہتری کے لئے کوشش کرسکیں:

حضرت امام حسینؑ  کی اہم خصوصیات

  • امام حسینؑ اپنے بھائی امام حسن مجتبیؑ کی شہادت کے بعد اپنے خاندان میں عمر کے لحاظ سے بڑے افراد کے باوجود بنی ہاشم کے شریف ترین فرد سمجھے جاتے تھے(تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۲۶)۔ اور بنی ہاشم اپنے امور و معاملات میں آپ سے مشورہ کرتے تھے اور آپ کی رائے کو دوسروں کی رائے پر مقدم رکھتے تھے(طبقات ابن سعد، ج۶، ص۴۱۴-۴۱۵)۔
  • امام حسینؑ سفید نورانی چہرے کے مالک تھے، آپ سر پر عمامہ پہنتے تھے(ناطق بالحق، ص۱۱، المعجم الکبیرطبرانی، ج۳، ص۱۰۱، طبقات ابن سعد، ج۶، ص۴۱۵)۔آپؑ سر اور داڑھی کے بالوں پر خضاب لگاتے تھے۔(طبقات ابن سعد، ج۶، ص۴۱۳)۔
  • تاریخ اور رجال کی کتابوں میں مروی ہے کہ حضرت امام حسینؑ، جناب پیغمبراکرمؐ سے شباہت رکھتے تھے(انساب الاشراف، بلاذری، ج۲، ص۳۶۶)۔ اور ایک روایت میں منقول ہے کہ آپ اخلاق و اطوار اور اقوال و گفتار میں رسول اللہؐ سے سب سے زيادہ شباہت رکھتے تھے۔(بخاری، ج۴، ص۲۱۶، سنن ترمذی، ج۵، ص۳۲۵)۔
  • امام حسینؑ اپنے اعزاء و اقارب کے ساتھ 25 بار پائے پیادہ حج بیت اللہ بجالائے (طبقات، ج۶، ص۴۱۳)۔
  • امام حسینؑ کے دشمن بھی آپ کے فضائل کے معترف تھے. چنانچہ حاکم شام معاویہ کہا کرتا تھا کہ حسین ؑبھی اپنے والد کی مانند ہیں اور غدر و حیلہ کرنے والے نہيں ہیں (کتاب الفتوح، ج۳، ص۴۰)۔ اورعمرو عاص کہا کرتا تھا کہ حسین(ع) اہل آسمان کے نزدیک اہل زمین کی نسبت محبوب ترین فرد ہیں(طبقات، ج۶، ص۴۰۸)۔
  • امام حسینؑ ہمیشہ اپنے بھائی امام حسنؑ کا احترام کرتے تھے اور بھائی کے سامنے بولنے سے پرہیز کرتے تھے (مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۴۰۱)۔کبھی بھی امام حسنؑ سے قدم آگے نہيں بڑھاتے تھے اور جہاں وہ دونوں موجود ہوتے تھے، کبھی بھی بولنے میں سبقت نہيں لیتے تھے اور اظہار خیال نہيں کرتے تھے(مشکاۃ الانوار، ص۱۷۰)۔ حتی اس کے باوجود کہ مدینہ میں جود و سخاوت کے حوالے سے شہرت تامّ رکھتے تھے (مناقب، ج۴، ص۷۳) مگر سخاوت اور بخشش میں بھی آپ کی کوشش رہتی تھی کہ امام حسنؑ کے احترام کا لحاظ رکھا جائے۔ مروی ہے کہ ایک محتاج شخص امام حسنؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام حسنؑ نے کچھ رقم امداد کے طور پر اس کو عطا کی اور پھر مزید مدد حاصل کرنے کی غرض سے امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو امامؑ نے بھائی حسنؑ کی عطا کردہ رقم کی جانکاری حاصل کرنے کے بعد بھائی کے احترام کا پاس رکھتے ہوئے، اس شخص کو امام حسنؑ کی عطا کردہ رقم کی نسبت ایک دینار کم کرکے، عطیہ دیا (الخصال، ج۱، ص۱۳۵)۔
  • امام حسینؑ مسکینوں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور ان کی دعوت قبول کرتے تھے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور انہیں اپنے گھر میں کھانے پر بلاتے تھے اور گھر میں جو کچھ بھی ہوتا تھا انہیں کھلا دیتے تھے(طبقات، ج۶، ص۴۱۳)۔ اگر آپ نماز کی حالت میں ہوتے اور کوئی سائل مدد مانگتا تو آپ اپنی نماز مختصر کردیتے تھے اور جو کچھ آپ کے پاس ہوتا تھا سائل کو عطا کرتے تھے(تاریخ مدینہ و دمشق، ج۱۴، ص۱۸۵)
  • آپؑ اپنے غلاموں اور کنیزوں کو ان کی حسن کارکردگی کی بنا پر آزاد کردیتے تھے۔ کہا گیا ہے کہ معاویہ نے ایک کنیز کثیر مال و دولت اور لباس کے ساتھ آپ کے لئے تحفے کے عنوان سے بھجوادی تو آپ نے اس کنیز کو قرآنی آیات تلاوت کرنے اور دنیا کے فانی ہونے اور انسانوں کی موت کے سلسلے میں اشعار پڑھنے کے عوض آزاد کردیا اور تمام اموال اور کپڑے اس کو بخش دیئے (کشف الغمہ، ج۲، ص۴۷۶)۔ اسی طرح روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کے ایک غلام سے کوئی غلطی سرزد ہوئی جو سزا کا موجب تھی لیکن غلام نے قرآن مجید کی آیت: «وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ»؛ ترجمہ: اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں (آل عمران، آیت۱۳۴) پڑھ لی تو آپ نے اس کو بخش دیا اور جب اسی آیت کا اگلے حصے «وَاللہ يحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» ترجمہ: اور اللہ بھلائی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ کی تلاوت کی تو آپ نے اس کو اللہ کی راہ میں آزاد کردیا(کشف الغمہ، ج۲، ص۴۷۸-۴۷۹)۔
  • آپ ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کیا کرتے تھے، قرضداروں کی قرضوں کی ادائیگی میں سبقت کیا کرتے تھے، چنانچہ اسامہ ابن زیدبیمار پڑ گیا اور اپنا قرض ادا کرنے سے عاجز ہوا تو آپ نے اس کا قرض ادا کیا (مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۷۲-۷۳)۔ روایت ہے کہ جو زمینیں اور دوسری اشیاء آپ کو ارث کے طور پر ملی تھیں، انہيں وصول کرنے سے پہلے ہی آپ نے محتاجوں میں بانٹ دیا(دعائم الاسلام، نمعان، ج۲، ص۳۳۹)۔
  • آپ معلمین کا بہت احترام کیا کرتے تھے آپ نے اپنے بچوں کے استاد کو بہت زيادہ مال اور لباس بخشا اور اس کا منہ موتیوں سے بھر دیا جبکہ کہہ رہے تھے کہ “یہ تمہاری محنت کا معاوضہ نہیں ہوسکتا(مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۷۳-۷۴)۔
  • مروی ہے کہ راتوں کو یتیموں اور مسکینوں کے لئے اشیاء و خورد و نوش پہنچانے کے لئے بوجھ اٹھانے کے اثرات آپ کی شہادت کے وقت آپ کی پیٹھ پر نمایاں تھے(مناقب، ج۴، ص۷۳)۔
  • آپؑ اپنے والدین کی شان و احترام میں کسی کی گستاخی کو برداشت نہیں کرتے تھے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جب مروان نے آپ کی والدہ ماجدہ بنت رسول حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی کی تو آپ نے شدت کے ساتھ اس کا جواب دیا (الاحتجاج طبرسی، ج۲، ص۲۳)۔ اسی طرح امویوں کی طرف سے امام علی علیہ السلام کے براکہنے اور گستاخی پر شدت کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتے تھے۔(طبقات، ج۶، ص۴۰۹-۴۱۰)۔

اسی طرح کربلا کے واقعہ میں بھی امام حسینؑ کے فضائل و اخلاقیات کے بے شمار نمونہ ظاہر ہوئے ہیں جن کی روشنی آج بھی دنیائے انسانیت و بشریت محسوس کر رہی ہے۔

قمر بنی ہاشم حضرت اباالفضل العباسؑ کے چار منفرد مقام

مولاۓ کائنات حضرت علی علیہ السلام کے عظیم الشان فرزند، حضرت امام حسنؑ و امام حسینؑ اور جناب زینبؑ و ام کلثومؑ کے بے مثال بھائی کی ولادت بھی ماہ شعبان کی ۴ تاریخ سنہ ۲۶ ہجری میں ہوئی تھی۔ اس مناسبت سے یہاں حضرت اباالفصل العباسؑ کی کچھ اہم خصوصیات اورآپؑ کے اہم مقامات کا ذکر کیا جارہا ہے۔

حضرت عباسؑ ان عظیم الشان شخصیتوں میں سےہیں جن کو ہمارے معصوم اماموںؑ نے ان کے  زیارت نامے میں کچھ خاص مقامات سے یاد فرمایا ہے اورجن کو مولا اباالفضل العباسؑ نے اپنی عملی زندگی میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور انہیں مقامات اور خصوصیات کی وجہ سے آپ دوسرے غیر معصوم شہیدوں میں سب سے ممتاز نظر آتے ہیں:

امام صادقؑ سے مروی زیارت نامے کے مختصر جملوں میں ان چار مقامات کو یوں بیان کیا گیا ہے:

“أَشْهَدُ لَکَ‏ بِالتَّسْلِیمِ‏ وَ التَّصْدِیقِ وَ الْوَفَاءِ وَ النَّصِیحَةِ لِخَلَفِ النَّبِیِّ الْمُرْسَل”؛ میں گواہی دیتا ہوں اے اباالفضل العباس آپ کے لئے کہ آپ یادگار نبی مرسلؐ، حضرت امام حسینؑ کے سامنے تسلیم، تصدیق، وفاداری اور خلوص و خیرخواہی کے مقام پر فائز تھے۔ (کتاب کامل الزیارات، ص۲۵۶)۔

یہاں ان چار مقامات کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

مقام تسلیم

آنحضرتؐ کے فرمان کے مطابق “دنیا مشکلات و بلاؤں سے بھری ہوئی جگہ کا نام ہے”(اعلام الدین، ص۳۴۲) لہذا ان مشکلات و بلاؤں اور مصیبتوں کے مقابلے میں کبھی انسان اللہ پر توکل کرتا ہے، کبھی صبر کرتا ہے کبھی مقام رضا رکھتا ہے اور کبھی مقام تسلیم رکھتا ہے۔ ان تمام مقامات میں سب سے عظیم مقام “مقام تسلیم” ہوتا ہے۔ اس لئے کہ علماء کے مطابق:

“مقام توکل میں جو کچھ اللہ انسان کے لئے مقدر کرتا ہے اس کو اپنی پسند سے بالاتر سجھتا ہے، اپنے امور میں اللہ کو خود سے بہتر وکیل و چارساز جانتا ہے لہذا اگر اس کی پسند کے خلاف اللہ کوئی حکم دیتا ہے، امر کرتا ہے تو اسے مان لیتا ہے”۔

“مقام توکل سے بڑھ کر مقام رضا ہوتا ہے اس میں انسان خدا کے ارادے و خوشنودی کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور خدا کی پسند کو اپنے لئے پسند کرتا ہے یعنی مشکلات کے مقابلے میں کبھی نا رضایتی کا اظہار نہیں کرتا ہے کامل طور پر صبر و تحمل کرتا ہے۔ خدا کے ارادے اور پسند میں اپنے ارادے اور پسند کو فنا کردیتا ہے”۔

لیکن مقام تسلیم ان دونوں سے بڑھ کر ہے مقام تسلیم وہ ہوتا ہے جہاں انسان اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا ہے، ہر چیز کو مولا کے حوالے کردیتا ہے یہاں اپنے ارادے یا ارادے کے خلاف ہونےیا اسی طرح اپنی پسند یا ناپسند کا سوال ہی نہیں ہوتا ہے کہ انسان کہے کہ جو خدا نے میرے لئے ارادہ کیا یا جو اس نے میرے لئے پسند کیا وہی میرا ارادہ یا میری پسندی ہے۔ بلکہ منزل تسلیم میں انسان خود کو یا جو کچھ اس کے پاس ہوتا ہے پورے وجود کو مولا کے حوالے کردیتا ہے۔

جناب عباس علمدارؑ، دنیا کی سختیوں کے مقابلے میں مقام توکل، مقام رضا سے بڑھ کر مقام تسلیم پر فائز تھے آپ نے اپنے مولا کے سامنے اپنے پورے وجود کو اس طرح تسلیم کردیا تھا کہ آپ کے اندراپنے ارادے و پسند یا خلاف ارادہ یا ناپسند کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، بلکہ جو کچھ آپ کے لئے تصور کیا جاسکتا تھا وہ سب آپ نے اپنےمولا کے حوالے کردیا تھا۔

مقام تصدیق

مقام تسلیم کے بعد مقام تصدیق کی منزل ہوتی ہے، جو شخص مولا کے سامنے کامل طور پر تسلیم و پورے وجود کے ساتھ حاضر ہوتا ہے وہ ایسے مرحلے میں پہونچ جاتا ہے جہاں صاحب ولایت(مولا) کی سچائی و حقانیت کو جان لیتا ہے، عاشورا کے واقعہ میں بعض لوگ ایسے تھے جو امام حسین ؑ کے قیام کے بارے میں سوالات کرتے تھے، اشکال کرتے تھے، اپنی رایٔ اورنظر کا اظہار کرتے تھے لیکن کسی بھی تاریخ نے بیان نہیں کیا کہ کبھی بھی جناب ابوالفضل العباس علیہ السلام نے کسی بھی مسئلے کے بارے میں کوئی سوال کیا ہو، کبھی کوئی اشکال و ایراد کیا ہو، کبھی اپنی نظر پیش کی ہو، یہ وہی مقام تصدیق تھا کہ امام جو بھی کہیں یا حکم دیں اس کو انتہائی صداقت کے ساتھ عمل میں لائیں۔

مقام وفا

خداوندعالم نے قرآن مجید میں مومنین کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ “یہ وہ ہیں جو عہد و پیمان کے وفادار ہیں، کسی میثاق و پیمان کو توڑتے نہیں ہیں” (سورہ رعد، آیہ۲۰)۔ جناب عباس ابن علیؑ، وفاداری کے میدان میں عظیم و کامل ترین مصداق ہیں۔ اور کربلا کے میدان میں متعدد بار امام کی بیعت کو توڑنے کی بات سامنے آئی جیسے متعددبار دشمن کی طرف سے”امان نامہ” لایا گیا یا خود امام نے اپنی بیعت اٹھا لینے کی بات کہی لیکن ہمیشہ جناب عباس ؑ نے یہی کہا کہ: “مولاؑ کے بعد زندہ رہنے کے لئے ساتھ چھوڑ کر چلے جانا گوارا نہیں ہے اور وہ ایسا کرکے ہرگز زندہ رہنا نہیں چاہتے ہیں” یا اسی طرح دریاۓ فرات پر قبضہ کرنے کے بعد بھی تشنہ لبوں کے احترام میں وفاداری کا عظیم نمونہ تھا کہ آپ نے پانی نہیں پیا اور پوری کوشش کی کہ خیام تک پانی پہونچ جائے، ایک ایک کرکے دونوں ہاتھوں کو کٹوادیا، شہید ہوگئے، پورا وجود مولاؑ کے لئے فنا کردیا لیکن وفاداری پر حرف نہیں آنے دیا اور آج آپ مقام وفا ہی کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں۔

مقام خلوص و خیرخواھی

جناب عباسؑ نے اپنی پوری زندگی، خاص طور پر کربلا کے معرکہ میں، تمام مراحل میں ولایت و امامت کے لئے ایک مخلص ترین سپاہی کی عملی زندگی کو پیش کیا، خاص طور پر آخری لمحات میں پانی لانے کے لئے باربار سرجھکاکر حاضر ہو جا رہے تھے معلوم تھا کہ اس وقت پانی لانے کے لئے جانے کا ظاہری طور پر کویٔ فائدہ نہیں ہے لیکن جیسے ہی امام کی اجازت ملی اپنے پورے وجود  سے امامؑ کی خواہش پر ڈور گئے اور امام کے حکم اور  اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے اپنا وجودفنا کردیا۔ اور اس عالم میں فقط ایک ہی خواہش تھی کہ امام کا فرمان پورا ہوجائے۔

 خلاصہ یہ جناب عباس علمدار کربلاؑ کے یہ وہ چار عظیم مقام تھے جہاں غیر معصومینؑ کو دیکھا جائے تو آپ ہی سب سے عظیم نظر آتے ہیں اور تمام شہیدوں میں ممتاز و بالاترین مقام رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امام سجادؑ فرماتے ہیں کہ: “اللہ تعالی کے نزدیک جناب عباسؑ کی وہ منزلت ہے جس کو دیکھ کر قیامت کے دن تمام شہداء غبطہ (رشک و آرزو) کریں گے” (امالی شیخ صدوق، ص۴۶۳ )۔

مذکورہ مقامات کو پہچاننے کے بعد جناب عباس علیہ السلام سے سچی دوستی و وفاداری کا یہی تقاضا ہے کہ ہم بھی اپنے مالک، اپنے مولا و اپنے امام وقت کی بہ نسبت تسلیم و تصدیق و وفاداری و خلوص کی راہ میں جتنا ممکن ہوکوشش کریں۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button