اسلامی معارف

 درد آشنا طبیب

ماہ رجب المرجب اور شعبان المعظم بابرکت اور متعدد خوشیوں والی مناسبات والے مہینے ہیں؛ جن میں سے ایک اہم مناسبت ۲۷ رجب المرجب کی تاریخ ہے جس دن ہمارے عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ؐ مبعوث بہ رسالت ہوئے یعنی دنیا میں خدائی نظام اور تعلیمات کی تبلیغ کا جو ذمہ لےکر تشریف لائے تھے، آج ہی کے دن عوام کے درمیان کھل کرانہیں پیش کرنے کے لئے مامور ہوئے اورہمارے عقیدے کے مطابق چونکہ پیغمبراکرم ؐ اپنی نوری خلقت سے ولادت ظاہری تک بھی نبی تھے اور خداوندعالم کی جانب سے آپؐ ہی کی شریعت کے لئے تمام گذشتہ نبیوں اور رسولوں کو بھیجا گیا تھالہذا آنحضرتؐکی بعثت کا دن تمام نبیوں اور تمام منتظرین کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے چونکہ اسی دن خداوندمتعال نے آخری شریعت کو رہتی دنیا تک تمام لوگوں کے لئے بھیجنا شروع کیا ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے اس عظیم آخری نبیؐ کی تمام تر تعلیمات اور آپؐ کے ذریعہ پیش کئے گئے تمام تر معارف و مسائل کی اہمیت و عظمت بھی بڑھ جاتی ہے چونکہ ان کو ہمیشہ باقی رہنا ہے اور سب کوانہیں کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ اسی بنیاد پر ان تمام تر تعلیمات کو اللہ تعالیٰ نے مکمل طور پر خالص بنا کر بھیجا اور ان تعلیمات کے حامل حضرت محمد مصطفی ؐ کی ذات گرامی کو “امّی” بناکر بھیجا یعنی مکمل طور پر دنیاوی اساتید اور معلمین سے بے نیاز اور ایسے ماحول اور علاقے میں بھیجا جہاں عربوں میں بہت ہی کم پڑھے لکھے لوگ تھے۔ یہاں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ “امّی” سے مراد “ام القریٰ ” یعنی مکہ سے منسوب ہونا ہے یا “امّی” اسے کہا جاتا ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو۔ بہرحال اتنا واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن اور دیگر معارف کو ایسی ذات کے ذریعہ ایسے ماحول اور کلچر میں نازل فرمایا جس کونگاہ میں رکھتے ہوئے کوئی بھی اس بات کو ثابت نہیں کرسکتا ہے کہ یہ قرآن یا آنحضرتؐکی دوسری تعلیمات کو کسی بھی دنیاوی معلّم، استاد یا اہل کتاب کے کسی پادری، راہب سے لیا گیا تھا؛جیساکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ: «وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ»؛ اور اے پیغمبر آپؐ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شک و شبہ میں پڑجاتے(عنکبوت، آیت48)۔ معلوم ہوا کہ قرآن یا آنحضرتؐ کی دیگر تعلیمات کا منبع زمینی اور دنیاوی نہیں تھا بلکہ یہ چشمہ صرف قلب مصطفیؐ پر پھوٹا تھا جس کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہےکہ: «وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ»؛ اور یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والا ہے، اسے جبریل امینؑ لے کر نازل ہوئے ہیں، یہ آپ ؐکے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپؐ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں” (شعراء، آیت۱۹۲-۱۹۴)۔ مذکورہ مطالب کی روشنی میں معلوم ہوا کہ معارف و تعلیمات محمدیؐ کا چشمہ زمینی نہیں ہے کہ اس کے حصول میں زمینی معلمین اور اساتذہ اور منابع اور لکھنے پڑھنے کا بھی کوئی دخل نہیں ہے اور اسی طرح آنحضرتؐ کے علوم میں بھی زمینی علوم کی خصوصیات، خاص طورپر محدودیت اور علم سے پہلے جہل کا ہونا وغیرہ نہیں ہے بلکہ تمام علوم و معارف اور حقائق آنحضرتؐ کے لئے یکساں ہیں اور اللہ کی جانب سے آپ ؐ کو تمام امور سے آگاہی اور آشنائیت عطا کی گئی ہے ۔ لہذا جو لوگ کہتے ہیں کہ محمد، رسول اللہؐ نے اپنے زمانے کے عیسائی یا یہودی علماء اور کاہنوں وغیرہ سےملاقات میں ان سے علم حاصل کیا یا ان سے دینی باتیں سیکھی تھیں وہ بالکل باطل و غلط ہے چونکہ اولاً قرآن کا منبع زمینی تھا ہی نہیں بلکہ اس کا منبع آسمانی و الہی تھا اور پھر ملاقاتیں بھی بہت محدود اور مختصر ہوئی تھیں جن میں نام و نسب کے پوچھے جانے اور بتائے جانے کا ذکر ملتا ہے اور اس سے زیادہ دیگر باتوں میں بھی آنحضرتؐ کی نبوت کے بارے میں خبروں کا ذکر ہوا ہے۔

یہاں مناسب ہے کہ ایک اہم ترین تاریخی شاہد کا ذکر کیا جائے جس سے آنحضرتؐ کی عظیم شان ومنزلت اور اس زمانے کے بڑَے بڑے پادریوں اورعالموں کی حقیقت سامنے آجائے؛ واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آپؐ کے دادا حضرت عبد المطلبؑ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے اور آپ ؐکی دیکھ بھال آپ کے چچا حضرت ابوطالبؑ کے ذمہ تھی تو ایک دن، آپؐ کی آنکھوں میں شدید درد ہونے لگا، علاقہ میں موجود تمام طبیبوں کو دکھایا گیا لیکن کوئی بھی آپؐ بب آپ کا علاج نہیں کرپایا۔ آپؐ کے چچا جو آپؐ سے بہت محبت کیا کرتے تھے، آپؐ کی دردناک حالت سے بہت پریشان ہوئے، کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ فلاں جگہ پر ایک عیسائی پادری رہتا ہے جس کا نام “حبیب” ہے، اس کے پاس اپنے بھتیجے کو لے کر جاؤ، اور اس سے دعا کرواؤ تاکہ آنکھوں کا درد ختم ہوجائے۔حضرت ابوطالبؑ نے لوگوں کے مشورے کی خبر اپنے پیارے بھتیجے کو دی، آپؐ نے فرمایا: چچا جان! میری طرف سے کوئی مانع و رکاوٹ نہیں ہے، اگر آپؐ مصلحت اسی میں سمجھتے ہیں تو لے چلئے۔

جناب ابوطالبؑ نے بڑی شان اور نہایت احترام سے آپؑ کو اونٹ پر سوار کیا اور اس عیسائی پادری کی عبادت گا ہ کی طرف روانہ ہوگئے، وہاں پہنچ کر انسانیت کے دستور کے مطابق پادری کے عبادت کدے میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی۔ اس عیسائی پادری حبیب نے اندر داخل ہونے کی اجازت دی ۔ آپ لوگ اندر داخل ہوگئے۔ کچھ دیر تک کسی طرح کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور پھر حضرت ابوطالبؑ نے بات کی شروعات کی اور کہا کہ: میرا بھتیجا محمدؐ بن عبداللہ، ایک مدت سے آنکھوں کے درد میں مبتلا ہے اور تمام طبیب اس کے علاج سے عاجز ہیں۔ لہذا ہم لوگ تمہارے پاس آئے ہیں تاکہ تم خدا کی بارگاہ میں دعا کردواور ان کی آنکھیں صحیح وسالم ہوجائیں۔اس پادری حبیب نے حضرت ابوطالبؑ کی باتیں سن کر آنحضرتؐ سے کہا: اٹھو اور میرے نزدیک آؤ۔ آپ ؐ جو ابھی کمسن تھے، اچانک اس پادری حبیب سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: “تم اپنی جگہ سے اٹھو اور میرے پاس آؤ”۔ جناب ابوطالب ؑ اپنے بھتیجے سے مخاطب ہوکر عرض کرتے ہیں: بیٹا! آپؐ کی اس طرح باتوں سے مجھے تعجب ہورہا ہے، ظاہراًمریض تو آپؐ ہیں ( اسے کیوں بلا رہے ہیں)؟

آنحضرت ؐنے فرمایا: “نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ مریض یہ پادری حبیب ہے اسے چاہئے کہ وہ میرے پاس آئے۔ آنحضرت ؐ کی باتیں سن کر وہ پادری غصہ میں کہنے لگا: “اے بچے! میری بیماری کیا ہے؟”۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا: اے پادری! تیرے بدن کی کھال میں مرض ہے تو “برص”( یعنی سفید داغ) کی بیماری میں مبتلا ہے اور سنو! ۳۰ سال ہوگئے ہیں تم اپنے مرض کی شفایابی کے لئے اللہ سے دعا کررہے ہو لیکن ابھی تک تجھے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔

پادری حبیب نے تعجب و حیرت کے ساتھ کہا: اس بات کو آپؐ کہاں سے جانتے ہیں، اس بات کو تو میرے اور اللہ کے علاوہ کوئی اور جانتا ہی نہیں ہے پھر آپؐ اس بچپنے میں کیسے جان گئے ہیں۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا: ” میں نے تمہارا یہ مرض خواب میں دیکھا ہے”۔ حبیب یہ سن کر نہایت تواضع و انکساری کے ساتھ عرض کرنے لگا: اے بچے مجھ پر بزرگواری کرو اور میرے لئے دعا کرو تاکہ خدا مجھے شفا اور آرام عطا کردے۔ آنحضرتؐ نے ایک کپڑا اپنی پیشانی اور آنکھوں پر باندھا اور اس کے بعد تھوڑی دیر میں اسے کھولا، جس سے آپؐ کے چہرے سے ایک عظیم نورظاہرہوا جس نے تمام فضا کو روشن کردیا اور حاضرین نے تمام مناظر کو دیکھا۔ آنحضرتؐ نے اس کےبعد فرمایا: “اے حبیب! اب تم اپنا کپڑا اوپر اٹھاؤ تاکہ تمام حاضرین تیرے بدن پر موجود داغ کو دیکھیں اور جو میں نے کہا ہے اس کی تصدیق کریں۔ جب اس راہب نے کپڑا ہٹایا تو تمام حاضرین نے اس کے بدن کی کھال پر برص کی بیماری کا نشان دیکھا ۔ اس وقت آنحضرتؐ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور جیسے ہی آپؐ کی دعا تمام ہوئی، آپؐ نے اپنے دست مبارک کو حبیب کے بدن پر پھیرا جس کی وجہ سے خدا کی مرضی سے وہ پادری شفا پا گیا۔ اس کے بعد آپؐ اپنے چچا جان سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: “اگر میں چاہتا کہ خداوندعالم مجھے شفادے تو دعا کرتا اور شفایاب ہوجاتا لیکن یہاں نہیں آپاتے “۔ اب دیکھئے میں اپنے لئے دعا کرتا ہوں اور پھر آپؐ نے دعافرمائی اور فوراً آنکھوں کی تکلیف سے نجات حاصل ہوگئی اور درد و مشکل کا بالکل اثر ختم ہوگیا۔(کتاب فضائل، شاذان بن جبرئيل قمّى، ص 48، ح 66 ۔ بحارالا نوار مجلسی، 15، ص382، س 7)۔

مذکورہ مطالب اور واقعہ کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ کی نبوت و بعثت سے پہلے جن اہل کتاب کے علماء، پادریوں، راہبوں اور کاہنوں وغیرہ جو بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں وہ بھی آنحضرتؐ کی ذات کی شناخت و معرفت کا ذریعہ بنیں اور خود ان لوگوں کے قلوب کے لئے روشنی و نورانیت بخشنے کا سبب ہوئیں اور اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ حضرت محمد مصطفیؐ کی ذات و شخصیت زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہیں اور آپؐ کا جلد ظہور ہونے والا ہے لہذا تمام دنیا کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ ؐکی بعثت کے استقبال کے لئے آمادہ ہوجائیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کی ذات کوتمام انسانیت کے درد و مصائب کے معالجہ اور مداوے کے لئے آمادہ کرکے بھیجنے کا انتظام کردیا ہے۔ اور آخرکار ۲۷ رجب المرجب کا عظیم دن بھی آگیا اور آنحضرت ؐ کی عالمی رسالت کا اعلان ہوگیا جس کے بعض اہداف اور آنحضرتؐ کی سنّت و سیرت کے بارے میں امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ: «وَ مِنْهَا طَبِیبٌ دَوَّارٌ بِطِبِّهِ قَدْ أَحْکَمَ مَرَاهِمَهُ وَ أَحْمَی مَوَاسِمَهُ یَضَعُ ذَلِکَ حَیْثُ الْحَاجَةُ إِلَیْهِ مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ وَ آذَانٍ صُمٍّ وَ أَلْسِنَةٍ بُکْمٍ مُتَتَبِّعٌ بِدَوَائِهِ مَوَاضِعَ الْغَفْلَةِ وَ مَوَاطِنَ الْحَیْرَةِ…»؛ آنحضرتؐ ایک طبیب تھے جو اپنی طب و حکمت کو لئے ہوئےمریضوں کی تلاش میں رہتے تھے، مرہم کو ٹھیک کرنے اور داغنے کے آلات و وسائل کو آمادہ رکھتے تھے اور اندھے دلوں و بہرے کانوں و گونگی زبانوں کے علاج کے لئے جہاں بھی ضرورت ہوتی تھی ان چیزوں سے استفادہ فرماتے تھے اور غفلت و حیرانی کے موقعوں اور موارد میں لوگوں کے علاج کی تلاش میں رہتے تھے”…(نہج البلاغہ، خطبہ106 یا ۱۰۸)۔ یہاں ہم سب پر لازم و ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو آنحضرتؐ کی منوّر و شفابخش تعلیمات کو نظام حیات کی بنیاد قرار دیں اور اسی کے مطابق عمل کریں ورنہ ہم بھی امیرالمومنینؑ کے مابقیہ کلام کی روشنی میں دنیا میں روحانی مرض اور آخرت میں بدبختی سے دوچار رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button