
طہارت کی مکمل تجلی
“إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا”؛ (سورہ احزاب، آیت۳۳)۔ یعنی بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت ؑ کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔
آیتِ تطہیر قرآن مجید کی وہ عظیم الشان آیت ہے جو صرف ایک اخلاقی یا روحانی تعلیم نہیں دیتی، بلکہ اسلامی عقیدے کی ایک بنیادیعنی عصمتِ اہلِ بیت (علیہم السلام)—کی قرآنی دلیل ہے۔ اور اس آیت کے نزول کے مطابق مخاطبین میں سے ایک مرکزی ہستی، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو حاصل ہیں۔ آپ گویا قرآن کی نگاہ میں “طہارت کی مکمل تجلی” ہیں۔ چنانچہ آیت کے نزول کے حوالے سے نقل ہوا ہے کہ جب اہل بیت ؑ اطہار، چادر میں جمع ہوئے تو رسول خداؐ نے دعا فرمائی: «اللّٰهُمَّ هٰؤُلاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَاذْهَبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا»”یااللہ! یہ میرے اہلِ بیتؑ ہیں، انہیں ہر طرح کی برائی و ناپاکی سے دور رکھنااور ایسے پاک و پاکیزہ رکھنا جو حق ہے۔اور اسی چادر کے واقعہ میں خداوندمتعال نے حضرت فاطمہ زہراؑ ہی کو مرکزی حیثیت بنا کر جبرئیلؑ کے سوال کے جواب میں پنجتن پاکؑ کو اس طرح پہنچوایا تھاکہ: «و هم فاطمة و أبوها و بعلها و بنوها»؛ اے جبرئیلؑ، چادر کے اندر فاطمہ ؑ ہیں، ان کے بابا ہیں، ان کے شوہر ہیں اور ان کے بیٹے ہیں(عوالم العلوم ، بحرانی، ج۱۱ ص۹۳۰۔ غرر الاخبار، ج۱، ص۲۹۸)۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ آخرحضرت فاطمہ زہراؑ کو طہارت کا مرکز کیوں بنایا گیا ہے۔جواب یہ ہے کہ آیتِ تطہیر صرف ظاہری پاکیزگی کی بات نہیں کرتی، بلکہ باطنی، روحانی، عقیدتی اور اخلاقی ہر قسم کی ناپاکی اور نواقص سے مکمل پاک ہونے کی بات بیان کرتی ہے—یعنی مقام”عصمت” کو بیان کرتی ہے۔ اور عصمت وہ مقام ہے جہاں انسان گناہ سے بالکل محفوظ ہوتا ہے، نہ صرف عمل میں، بلکہ خیال، نیت اور ارادے میں بھی۔ اور حضرت فاطمہ زہراؑ کی زندگی اس عصمت کی زندہ مثال ہے کیونکہ آپؑ بچپن سے آخر عمر تک عبادت، ذکر اور ریاضت میں مصروف رہیں۔ ایسی عبادت کہ آپ کے قدموں میں ورم آ جاتا تھا۔ آپ غربت کے باوجود دوسروں کی ضروریات زندگی کے لئے مرکز اور پناہ گاہ تھیں، دوسروں کو کھانا دے دیتی تھیں اور خود بھوکی سو جاتی تھیں۔ پیغمبراکرمؐ کی وفات کے بعد جب آپ کا حق چھینا گیا، تو آپ تن تنہا کھڑی ہوئیں، امامت و ولایت الہیہ امیرالمومنینؑ کا دفاع کیا اور آخری سانس تک کسی بھی مشکل کے سامنے سرنہیں جھکایا۔ آپ کی زندگی میں نہ کوئی جھوٹ تھا، نہ حرص، نہ حسد، نہ دنیا کی محبت—صرف اللہ اور اس کے رسول ؐ اور امام وقت کی محبت تھی۔ یہی وہ صفات ہیں جن کی وجہ سے آپ “سیدۃ نساء العالمین”—یعنی تمام جہان کی خواتین کی سردار—قرار پائیں اور ایک مکمل اسوہ حسنہ بنیں جہاں ظاہری اور باطنی لحاظ سے کسی طرح کا نقص و عیب نہیں تھا۔ اور خداوندمتعال نے اسی پاکیزہ زندگی اور تجلی طہارت کی وجہ سے آپ کی آغوش کو معصوم اماموں سے بھر دیا اور آپ نو معصوم ہستیوں کی ماں قرار پائیں۔
دور حاضر میں جہاں خواتین کو یا تو “گھر کی چار دیواری” میں قید کردئیے جانے کی فکر ہے یا پھر “مکمل آزادی” کے نام پر ان کی عزت اور وقار کو پامال کیا جاتا ہے، حضرت فاطمہ زہراؑ بہترین اور اعلیٰ نمونہ حیات کی حامل معتدل زندگی ایک مسلم خاتون کے لئے بے مثال نمونہ ہے جہاں آپ ایک ہی وقت میں عابدہ، خطیبہ، مجاہدہ، صابرہ، طاہرہ، اور مکمل معنی میں بہترین رہنما تھیں، وہی منفرداور بے مثال ماں، بیٹی و بیوی تھیں — اورعملی طور پر“وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا” کی مکمل تصویر تھیں جن کا دامن کردار کامل، جامع اور دائمی نمونہ عمل ہے۔
پروردگار عالم سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت فاطمہ زہراؑ کے اس پاکیزہ سایۂ ولایت میں جگہ دے اور ہمیں آپ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔




