علامه رضوی(ره)علامہ رضوی(ره) کے قلمی آثار

حضرت امام علی (علیه السلام) کو کیوں شہید کیا گیا؟

پیغمبر(ص) کے بعد مسلمان اسلامی اصول اور شریعت کی پابندی میں  کیسے انحطاط کا شکار ہوئے؟ خلیفۂ سوم کیوں قتل کئے گئے؟ حضرت علیؑ نے خلافت کیوں قبول فرمائی؟ حضرت علیؑ کو کیوں شہید کردیا گیا؟

حضرت امام علیؑ کو کیوں شہید کیا گیا؟

رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی(رہ) کے قلم سے

 

“اسلام کی ابتدائی تاریخ کے ہر المیہ کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسلام علی (علیہ السلام )اور ان کے بعد کے اماموں (علیہم السلام)کی ہدایت سے محروم رہ گیا۔ یہی بہت بڑی مصیبت تھی، اس پر طرہ یہ کہ وہ خلفا٫ جو تخت سلطنت پر بیٹھے انہوں نے اپنے دنیاوی اقتدار کا پورا فائدہ اٹھایا اور عوام میں اس یقین کو رائج کیا کہ مذہب کی راہبری دنیاوی حکومت کے زیر نگرانی ہے۔ اور جو شخص بھی دنیاوی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے (چاہے جس ذریعہ سے بھی ہو) وہ دستوری اور جائز خلیفہ اور مذہبی رہنما ہے جس کو (بہ شہادتِ تاریخ) اس بات کا اختیار ہے کہ اسلامی شریعت میں ترمیم و تنسیخ کرسکے۔ اس غلط اعتقاد کی وجہ سے لوگوں نے حکمرانوں کے ہر کام کو مذہب کا معیار سمجھ لیا۔ جس کے نتیجہ میں اسلامی اصول اور شریعت کی پابندی میں انحطاط شروع ہوگیا…. “۔

علامہ رضوی (رہ)  مسلمانوں کے انحطاط کی متعدد مثالوں اور بنی امیہ کے اسلام مخالف اقدامات کو بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

“رسول مقبول(ص) کی وفات کے پچیس سال کے اندر اندر اسلامی رہنمائی کا معیار  مذاہب عالم کی طویل تاریخ کے پست ترین معیاروں کے ہمدوش ہوگیا عام طور سے مسلمان خدا کے  بندے ہونے کے بدلے سونے اور چاندی کے بندے ہوکر رہ گئے ۔ خلیفہ سوم قتل ہوئے ، اس لئے نہیں کہ وہ بنی امیہ کو توانگر سے تو انگر تر بنارہے تھے اور اس طرح اسلامی دولت کی مساوی تقسیم کے اصول کو مسخ کر رہے تھے اس لئے بھی نہیں کہ وہ اپنے خاندان والوں کو مسلمانوں کا آقا بنا رہے تھے جب کہ یہ لوگ قرآن کی نگاہ میں ملعون خاندان والے تھے۔ بلکہ صرف اس لئے کہ اسلامی دنیا کے دوسرے بڑے لوگوں کو یہ ناگوار ہو رہا تھا کہ ان کو خلیفہ صاحب نے نظر انداز کر دیا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ان کو بھی اس کا موقع ملنا چاہئے کہ وہ بھی اپنے گھروں کو سونے اور چاندی سے بھر لیں۔ ان کو بنی امیہ سے کوئی مخالفت نہ ہوتی اگر ان کو بھی اس دولت سے معتد بہ  حصہ ملتا رہتا۔

حضرت علیؑ نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ لوگوں کو اس بات کا احساس دلائیں کہ انہوں نے دوسروں کو اپنا مذہبی رہنما مان کر کیسی بھیانک غلطی کی ہے۔ حضرت علیؑ کا یہ طرز عمل ذاتی فائدہ کے لئےنہیں بلکہ اسلام کی خاطر تھا جو نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں پڑ کر لازمی طور سے مسخ ہوتا جارہا تھا۔ جب خلیفۂ دوم کے بعد آپ کو اس شرط پر خلافت پیش کی جانے لگی کہ وہ سابق کے دو خلفا٫ کی سیرت پر چلیں گے تو آپ نے اس خلافت کو ٹھکرا دیا۔ کیونکہ اس شرط کو ماننے کا مطلب یہ ہوتا کہ ان سابق خلفا٫ کی غیر قانونی خلافت پر مہر تصدیق ثبت کردی جائے۔

خلیفۂ سوم کے بعد جب لوگ  آپ کے پاس آئے  اور یہ دباؤ ڈالا کہ آپ خلیفہ ہونا قبول کرلیں تو آپ نے اس شرط کے ساتھ اسے قبول کیا کہ آپ رسول(ص) کے زمانے کے اسلام کو پھر سے قائم کریں گے۔ آپ نے یہ خیال فرمایا کہ مجھے یہ موقع مل جائے گا کہ میں اسلام کو ان بدعتوں کے جھاڑ جھنکاڑ سے پاک کردوں جن کو اسلام کے اصول سے مخلوط کردیا گیا ہے۔

لیکن حضرت علیؑ کا عدل و انصاف مسلمانوں کے مسخ شدہ لیڈروں کے کام ودہن کے لئے تلخ ثابت ہوا۔ وہ لوگ ترجیحی سلوک کے عادی ہوچکے تھے۔ اور اس غیر عادلانہ نظام کی تنسیخ ان کو انتہائی ناگوار گذری۔ اگر یہ بات نہ تھی تو آخر کون سی وجہ تھی کہ ان …لوگوں نے حضرت علیؑ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ جبکہ آپ نے اپنے مختصر دور خلافت میں اسلام کے  اس اصلی نظام کو قائم کرنا چاہا جو رسول(ص) کے زمانے میں جاری تھا۔ مسلمانوں کا نقطہ ٔ نگاہ سماجی اور معاشرتی اصول کے متعلق اس طرح بدل گیا تھا کہ وہ ان اصلاحات کو برداشت نہیں کرسکتے تھے جو حضرت علیؑ نے دوبارہ نافذ فرمائیں۔

آپ کے خلاف جنگ کے بعد جنگ برپا کی گئی اور بالآخر آپ کو مسجد کوفہ میں نماز کی حالت میں شہید کردیا گیا۔ اور اس طرح مسلمانوں نے وہ واحد موقع ہاتھ سے کھو دیا جس سے ان کا معاشرہ اسلام کے اخلاقی، معاشرتی، قانونی اور معاشی عدل و انصاف کی بنیاد پر دوبارہ قائم ہوسکتا۔

(علامہ رضوی رہ، کتاب کربلا شناسی، ص17-18۔ تلخیص)

 

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×