علامه رضوی(ره)علامہ رضوی(ره) کے قلمی آثار

امام صاحب الزمان (عج) غیبت اور ہدایت

کیا غیبتِ امام زمانہ(عج) کا عقیدہ چوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہے؟ کیا امام مہدی (عج) پیدا ہوچکے ہیں یا آئندہ پیدا ہوکر ظہور فرمائیں گے؟ کیا وجود امام مہدی(عج) پر حدیثوں کے علاوہ بھی دلائل و شواہد ہیں؟ امام مہدی(عج) اگر غیبت میں موجود ہیں تو کس طرح ہدایت کرتے ہیں؟

بسمه سبحانه تعالی

امام صاحب الزمان (عج) غیبت اور ہدایت

بقلم: رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپالپوری(طاب ثراہ)

مقدمہ:

 دو ایک  بر خود غلط لوگ  اپنی کم علمی  کے باعث  یہ سمجھتے  ہیں کہ حضرت  حجت ( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی غیبت کا عقیدہ  قدیم شیعہ علماء نے شیعوں کی تسلّی  کے لئے  ایجاد کیا یہ معاذ اللہ ان علما کی سازش تھی جوتعلیل بعد الورود کے طور  پر اس وقت بروئے  کار آئی ۔جب  عام توقع کے خلاف حضرت کےظہور میں ساٹھ ستّر سال  سے زیادہ  کا عرصہ گذر  گیا۔ یعنی بالفاظ  دیگر عقیدۂ  غیبت  چوتھی صدی ہجری کی پیدا وار  ہے ۔

 لیکن واقعہ  یہ ہے کہ حضرت  حجت  بن الحسن( علیہما السلام)  کی ولادت اور  اس کے بعد غیبت کی پیشین گوئیاں حضرت رسالتمآب (ص) سے لیکر امام حسن عسکری (علیہ السلام) تک  ہرمعصوم  سے متواتر نقل ہوتی آئی  ہیں۔ ویسے جو لوگ شیخ صدوق(علیہ الرحمہ) اور ان کے ہم عصر  اساطین  مذہب  کو سازش کا مرتکب سمجھتے ہیں ان کی نظر میں  ان علماء کی روایتوں کا کیا وزن ہوگا؟

اس لئے ان روایتوں سے الگ  کچھ تاریخی واقعات اور شواہد کو یہاں پیش کرتا ہوں  تاکہ اصل  حقیقت  روشن ہوجائے ۔

وجود امام مہدی (عج) کے بارے میں تاریخی شوائد

اول:

پہلی اور دوسری  صدی ہجری میں ( یعنی حضرت  حجت(عج) کے دادا کے دادا امام  علی الرضا علیہ السلام کے دور  تک) مختلف اشخاص کی مہدویت اور غیبت  کے دعوے اس بات  کا واضح ثبوت ہیں  کہ ایک مہدی کے غائب ہوجانے  اور پھر  دوبارہ ظاہر ہونے کا  اعتقاد  شیعہ علماء یا شیعہ ائمہ (علیہم السلام) کی ایجاد نہ تھا بلکہ صدر اسلام  سے مسلمانوں کو بالعموم  یہ معلوم تھا کہ دور آخر میں  عالَم کا ایک  نجات دھندہ پیدا ہوگا جو پہلے نظروں سے  غائب ہوجائے گا اور قیامت کے قریب  دوبارہ ظاہر ہوکر دنیا کو عدل وانصاف سے  اسی طرح بھر دے گا جس طرح  وہ اس کے  پہلے  ظلم وجور سے بھری ہوگی۔

حضرت  محمد  بن الحنفیہ کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے ان کو مہدی مستور مان لیا۔ یہ لوگ ” کیسانیہ” کہلائے ۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام)  کی وفات کے بعد ایک گروہ نے  ان حضرت کی مہدویت اور غیبت  کا اعتقاد ظاہر کیا۔ یہ “نا ووسیہ” کہلائے ۔

        امام موسی کاظم (علیہ السلام)  کی شہادت  کے بعد کچھ لوگوں نے  آپ کے  مہدی اور نظر  سے غائب  ہوکر دوبارہ ظہورِمتوقع کا عقیدہ  پھیلاناچاہا۔یہ لوگ  واقفہ یا واقفیَہ   کہے جاتے ہیں ۔

 ان میں سے ہر گروہ جلدی  ہی ختم ہوگیا۔

منصور  ( عباسیوں کے دوسرے خلیفہ) نے مہدی  کے بارے  میں جو روایات عام طور  سے مشہورتھیں  ان سے  فائدہ  اٹھانے  کے لئے اپنے بیٹے کا نام محمّد اور اس  کا لقب  “المہدی” رکھا۔

محمد بن عبد اللہ (جو نفس زکیہ کہے جاتے ہیں) ان کو  بھی “محمّد” نام  کی وجہ سے  مہدی سمجھا گیا تھا۔

 بہر  حال  یہ سب  دعوے باطل تھے  اور ان کا ختم ہوجانا ہی ان کے  بطلان کی سب سے بڑی دلیل ہےکیونکہ دین ِ حق قیامت تک باقی رہنے والا ہے۔ لیکن  ان کے  بطلان  کے باجود ان سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ مہدی کے وجود،  پھر ان کی غیبت  اور اس کے بعد ان کے ظہور کا عقیدہ عام اسلامی عقیدہ  ہے جو رسولِ مقبول(ص) اور امیرالمومنین(علیہ السلام)  کی بیان کی ہوئی مشہور روایتوں  پر مبنی  ہے ورنہ سنہ 61 ھ سے لیکر 183 ھ تک اوپر بیان کئے ہوئے  مختلف گروہ  اور فرقے پیدا نہ ہوتے اور منصور  دوانیقی جیسے لوگ  ان احادیث کو نقل مہدیوں پر منطبق کرنے کی کوشش نہ کرتے ۔

مختصر یہ کہ  جس طرح  انڈیا اور پاکستان میں نقلی parkar  وغیرہ کا وجود خود اس کی شہادت دیتا ہے کہ ایک اصلی   parkar موجود ہے  جس کی یہ نقل  ہے اسی طرح مہدویت  کے غلط دعوے ایک حقیقی مہدی کے وجود کی گواہی دیتے ہیں ۔

دوسرے:

 سید اسماعیل حمیری[1]( علیہ الرحمہ) کے قصیدے، عقیدۂ  مہدویت  کی قدامت ظاہر کرتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ روایت  امیر المومنین  (علیہ السلام)سے مروی ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے،امام حسین(علیہ السلام) کی شہادت کے بعد کچھ شیعہ امیر المومنین (علیہ السلام)کے تیسرے  صاحبزادے حضرت  محمد ابن الحنفیہ کی امامت کے قائل ہوگئے۔ اگر چہ وہ حضرت خود اس عقیدے سے بیزار تھے۔بہر حال جب ان کی وفات ہوئی تو ان لوگوں نے  جو “کیسانیہ”   کہے جاتے تھے۔ یہ اعتقاد کرلیا کہ وہ مرے  نہیں  بلکہ “کوہِ رضویٰ” میں روپوش ہیں اور قیامت کے پہلے ظاہر ہوکر دنیا میں عدل وانصاف کی حکومت  قائم کریں گے۔ ابتدا ءً جناب سید اسمعیل حمیری بھی اسی عقیدہ پر تھے، پھر امام جعفر صادق (علیہ السلام)کے فیض  سےان کوہدایت  حاصل ہوئی ۔

سید اسمعیل  حمیری زبردست شاعر تھے ، دوراسلام  کے شاعروں میں ان کو وہی درجہ حاصل تھا جو  قبل  اسلام کے شعراء میں امرء القیس کا تھا۔ان کے اشعار  کی کثرت کے باوجود  لوگ ان کو یاد کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو تحفہ میں بھیجتے تھے  اور زبان  سے نکلتے ہی ان کے قصیدے تمام مشہور ہوجاتے تھے۔

جب  امام  جعفر صادق (علیہ السلام) نے انہیں  راہ راست  دکھائی  تو انہوں نے اس موقع پر کئی قصیدے   کہے۔ان میں  سے ایک قصیدے  کا یہ مطلع ثانی مشہور  ہے :

تَجَعفَرتُ بِاسمِ اللهِ واللهُ اَکبَرُ

وَاَیقَنتُ اَنَّ اللهَ یَعفُو وَ یَغفِرُ

(میں  نے اللہ  کے نام  سے  امام جعفر صادق ( علیہ السلام)  کی پیروی اختیار کی اور اللہ بزرگ ہے اور مجھے یقین ہے  کہ اللہ ( میرے  سابق  عقیدہ کو ) معاف کردے گا)۔

ایک دوسرے  قصیدے میں انہوں نے امام(علیہ السلام) کو مخاطب  کرتے  ہوئے بہت تفصیل سے اپنے سابق عقیدہ کی وجہ بیان کی ہے۔ عربی  اشعار کو بہ نظر اختصار درج نہیں کرتا ہوں۔ صرف  ترجمہ پر اکتفا کی جاتی ہے:

۳-۴) اے  اللہ کے امین ، اسے  امینِ خدا کے فرزند! میں خدائے  رحمن کی طرف رجوع کرتا ہوں اور پھر آپ کی طرف  رجوع کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں  اس عقیدہ سےجو میں دل میں راسخ کئے ہوئے  تھا اور جس کے لئے  ہر  ایک  سے مقابلہ  کرتا تھا۔

۵) محمد بن الحنفیہ کے بارے میں میرا جو عقیدہ تھا وہ آپ  کی طیّب  و طاہر  شاخ ِخاندان سے  کسی عناد اور دشمنی کی بناپر نہیں تھا۔

۶) لیکن ہمارے  پاس روایت پہنچی تھی، وصی رسول  ( یعنی امیر المومنین  علیہ السلام) کی طرف  سے (اور ظاہر ہے  کہ وہ حضرت اپنے قول میں سچے تھے )۔

۷) کہ ولی خدا غائب  ہوجائے گا، نظر  نہیں آئے گا،  سالہا سال تک ۔ جیسے کہ  ایک خوفزدہ شخص جو حالات  کی درستی کا منتظر رہتا ہے ۔

۸) اس غائب کی میراث  تقسیم کردی  جائے گی جیسے کہ وہ قبر میں پوشیدہ ہوگیا ہو۔

۹) وہ ایک عرصہ تک اسی حال میں رہے گا  پھر اچانک ظاہر ہوگا۔جیسے کہ  جدی ستارہ افق سے ظاہر ہوتا ہے۔

۱۰) وہ اللہ کی نصرت کے ساتھ خانۂ کعبہ سے روانہ ہوگا،  سرداری لئے  ہوئے  خدا کے مہیا کئے ہوئے  اسباب کے ساتھ۔

 ۱۱)  و ہ  اپنے  دشمنوں  کی طرف  اپنا عَلَم لئے ہوئے بڑھے گا اور انہیں  غیظ وغضب  کے ساتھ  قتل کرے گا۔

۱۲)اب جب  ہم  سے یہ کہا گیا کہ محمد بن الحنفیہ غائب ہوگئے  ہیں تو  ہم نے ان کی طرف  ( اس روایت  کو منطبق کرتے ہوئے) اپنا عقیدہ قائم کرلیا اور اس  بات کو غلط نہیں سمجھا۔

۱۳) اور ہم نے  یہ کہا کہ وہی مہدی ہیں اور  وہی  وہ عالِم  ہیں جن کے عدل و انصاف سے ہر پریشان حال ( آسودہ ہوکر ) زندگی بسر کرے گا۔

۱۴) لیکن جب آپ نے کہا کہ” نہیں”  (محمد  ابن الحنفیہ کے متعلق یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے) تو حق  وہی ہے جو آپ نے کہا ہے اورجو کچھ  آپ نے  حکم دیا وہ حتمی ہے اور میرے  لئے واجب الاطاعت ہے ۔

۱۵) اور میں  اپنے پروردگار کو گواہ بنا کر کہتا ہوں  کہ آپ کا قول لوگوں پر  حجت چاہے وہ مطیع وفرماں بردار ہوں یا عاصی  و گنہگار ہوں ۔

۱۶) یعنی  یہ کہ وہ ولّی امر اور وہ عالم کہ جس کی طرف  میرا نفس خوشی کے ساتھ نگراں ہے ۔

۱۷) اس کے  لئے  غیبت لازم ہے کہ وہ غائب  رہے ۔ پس خدا کی صلوات ہو اس پر جو  غائب ہوگا۔

۱۸) وہ ایک (مقررہ) وقت  تک غیبت میں رہے  گا۔پھر اپنے (مقررہ) وقت  پر ظاہر ہوگا اور  مشرق و مغرب  کو عدل و انصاف  سے بھر دے  گا۔

۱۹) میں اسی عقیدہ  پر دین  خدا کی ظاہر وباطن  میں پیروی کررہا ہوں اور   مجھے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں ہے ۔

 یہ قصیدہ صرف شیعہ  محدثین وادباء نے نہیں  بلکہ  سنی ادبیوں نے  بھی درج کیا ہے  جس کے مفصل حوالے  بحار الانوار طبع جدید کی جلد ۴۷ میں دیکھے  جاسکتے ہیں۔  علامہ امینی  رحمہ اللہ نے بھی الغدیر کی جلد دوم میں اس کے حوالے درج کئے ہیں ۔[2]

سید اسماعیل حمیری(علیہ الرحمہ) کی علمی بلندی کا اندازہ اس گفتگو سے ہوتا ہے  جو  انہوں نے قاضی بغداد سوّار سے منصور دوانیقی کے دربار  میں کی تھی ۔[3]

ان  کا امیر المومنین ؑ کی روایت  کاذکر کرنا خود ایک مستقل  سند ہے  اس پر مزید ہے کہ یہ سارے اشعار امام جعفر صاد ق (علیہ السلام) کو مخاطب کرکے کہے  گئے  لہذا اگر  قدیم زمانہ سے وہ روایت  کتب احادیث میں نہ  بھی ملتی تب بھی یہ اشعار کافی ہیں ۔

تیسرے:

 لیکن  بہ فضل الہی شیخ مفید (علیہ الرحمہ) نے مسئلہ  غیبت  میں  پانچ رسالے   تحریر فرمائے ہیں پانچویں  رسالہ  میں جناب  کمیل بن زیاد نخعی ( علیہ الرحمہ) کے حوالے  سے یہ روایت ان الفاظ  میں درج ہے :

“ان  میں سے پہلی حدیث وہ ہے  جسے شیعہ اور سنی دونوں  نے روایت کیا ہے اور کمیل بن زیاد  اس کے راوی  اول   ہیں وہ کہتے  ہیں :

“میں  امیر المومنین ؑ کے پاس پہونچا تو دیکھا کہ وہ حضرتؑ زمین  پر   کچھ  نشان  کھینچ رہے  ہیں (کمیل  کے سوال  پر  حضرتؑ  نے  فرمایا)  میں حسینؑ کی نسل سے نویں  فرزند کے بارے میں  سوچ رہا تھا جو زمین  کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم و جور  سے بھر  جائے گی، اس کے   لئےایک (طویل) غیبت ہوگی جس کے دوران جھوٹے لوگ اس کے وجود کے بارے میں شک میں پڑ جائیں  گے۔  اے کمیل بن زیاد !  ہرزمانے  میں زمین  میں ایک حجت کا وجود ضروری ہے  چاہے وہ ظاھر اور مشہور ہو یا مخفی اور مستورہوتا کہ حجتِ  خدا کا سلسلہ منقطع نہ ہو”۔

شیخ مفید (علیه الرحمه)  کہتے ہیں که “یہ حدیث طویل  ہے  اور یہاں صرف بقدر  ضرورت  حصّے  نقل کئے گئے  ہیں ” ۔قابل لحاظ بات یہ ہے کہ شیخ مفید(علیہ الرحمہ) کے دور تک ( یعنی پانچویں صدی ہجری کے شروع تک ) یہ روایت   شیعوں اور  سنیوں دونوں میں مشہور  تھی  ورنہ شیخ مفید (علیہ الرحمہ)یہ دعوے نہ کرتے کہ دونوں  فرقوں  نے اسے روایت کیا ہے  اگر یہ دعویٰ  غلط ہوتا تو اہل سنت  کے علما ءشیخ مفید (علیہ الرحمہ)کو ہدف  ِملامت  بنا لیتے اور ان کو  جواب  دینا مشکل ہوجاتا ۔[4]

بحار الانوار طبع جدید کی جلد۵۱ میں امیر المومنین (علیہ السلام) سے اس موضوع پر بہت سی روایتیں  درج کی  گئی ہیں۔ جن  میں سے سات حدیثیں   مختلف اسناد اور مختلف کتابوں   کے حوالے  سے اصبغ  بن نباتہ(علیہ الرحمہ) سے ایسی ملتی ہیں جو حضرت کمیل  بن زیاد (علیہ الرحمہ) کی مذکور بالا روایت سے ملتی جلتی ہیں ۔[5]

چوتھے:

دعبل خزاعی (علیہ الرحمہ) کا وہ معرکۃ الآراء قصیدہ جو انہوں نے “مرو”  میں امام  علی رضا (علیہ السلام)  کی ولیعہدی  کے بعد حضرت ؑکے سامنے پڑھا تھا اور  جو فوراً   ہی تمام مشہور ہوگیا تھا۔  امام (علیہ السلام)   نے اس میں  اپنی طرف  سے دو شعروں  کا اضافہ  بھی فرمایا تھا۔  اس قصیدہ میں آلِ  رسول(علیہم السلام)کے حقوق کی پائمالی کا ذکرکرنے کے بعد آخر  میں  فرماتے ہیں:

۱۰۶) اگر ایک وہ سہارا نہ ہوتا  جس کی امروز فردا (ہرروز) میں امید کرتا ہوں تو میرا  دل ( آل محمدعلیہم السلام  پر پڑی ہوئی  مصیبتوں کے)  رنج واندوہ سے ٹکرے  ٹکڑے  سے ہوجاتا۔

۱۰۷) یعنی ایک امام ؑ کا ظہور  جو یقینی طور  سے ظاہر ہونے والا ہے اور جو اللہ کے نام سے برکتوں کے ساتھ قیام کرے گا۔

108) جو ہمارے درمیان ہر حق و باطل کو الگ کردےگا اور نعمتیں اور عذاب(مستحقین کو) دے گا۔

۱۰۹) لہذا اے نفس! خوش ہوجا، اور  اے نفس ! تجھے  بشارت ہو اس لئے کہ  جو  بھی آنے  والا ہے وہ دور نہیں ہے ۔[6]

ابو الصلت ہروی (علیہ الرحمہ) جو دم ِآخر تک امام  علی رضا (علیہ السلام) کے ساتھ رہے تھے ان کا بیان  ہے کہ  جب دعبل نے اشعار نمبر ۱۰۷ اور ۱۰۸  پڑھے  تو امام  علی رضا  (علیہ السلام) بہت  روئے اور پھر فرمایا :اے خزاعی ! تمہاری  زبان پر روح القدس نے یہ اشعار  جاری کئے ہیں کیا تم جانتے  ہو وہ امام ؑ کون ہے  اور کب  قیام کرے گا؟۔ دعبل نے کہا: نہیں، اے مولاؑ! البتہ میں نے سنا ہے کہ آپ  میں سے ایک امام قیام کرے گا جو زمین کو فساد سے پاک کرکے عدل سے بھر دے گا۔ امام علی رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: اے دعبل ! میرے  بعد میرا بیٹا محمدؑ امام ہوگا۔  محمدؑ کے بعد ان  کا بیٹا علیؑ امام ہوگا ۔ علیؑ کے بعد ان کا بیٹا حسنؑ امام  ہوگا اور حسن ؑکے بعد ان کا  بیٹا حجتؑ قائم امام ہوگا جس  کا اس کی غیبت میں انتظار کیا جائے گا۔جب وہ ظاہر ہوگا تو اس کی اطاعت کی جائےگی۔   اگر دنیا کی زندگی  میں صرف ایک دن  باقی رہ جائے گی تب بھی  اللہ اس کو اتناطویل کردے گاکہ وہ قائمؑ ظاہر ہو اور اسے عدل سے  اسی طرح بھردے  جس طرح  وہ جور و ظلم  سے بھری ہوگی۔ اب رہا یہ سوال  کہ کب! تو یہ وقتِ موعود کی خبر سے متعلق ہے ۔ جس کے متعلق رسول(ص) نے فرمایا ہے  کہ اس کی مثال  قیامت کی مثال  ہے۔ خدا کے علاوہ  کوئی بھی اس کے وقت  کو نہیں بتاسکتا… ۔ ( الحدیث)  [7]۔

اگر کوئی  شخص ابو الصلت ہروی  (علیہ الرحمہ) کے اس بیا ن  کو نہ مانے  جب بھی  دعبل (علیہ الرحمہ)کے اشعار بذات خود اس کی شہادت  دے رہے ہیں کہ ایک مہدی قائم منتظرؑ  کا انتظار اور اس کے ظہور کا عقیدہ امام علی رضا (علیہ السلام)کے سامنے  بیان کیا گیا اورحضرت نے اس قصیدے سے پر ایک گراں  قدر انعام  دعبل خزاعی  کو مرحمت فرمایا۔  جس میں حضرت کا کُرتا بھی شامل تھا۔

 کیا اب بھی یہ کہا جائے گا کہ غیبت کا عقیدہ چوتھی صدی کے شیعہ علماء  کی سازش تھی ؟ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔

اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن شرطِ اختصار قلم کو روک رہی ہے  اس  لئے اب موضوع کے دوسرے  حصہ یعنی (ہدایت ) کے بارے میں  تھوڑی سی تشریح کرکے  مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں ۔

غیبت اور ھدایتِ امام مہدی(عج)

 زمانۂ  غیبت میں کس  طرح ہدایت ہوتی ہے اور لوگ حجت کے وجودِ مسعود سے کس طرح  فیضیاب ہوتے ہیں؟ اس کی بہت ہی جامع  تشبیہ حضرت رسالتمآب(ص)کی  اس مشہور  حدیث  میں  ہے جسے حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری(رضی اللہ عنہ) نے  بیان کیا ہے اور جسے شیخ صدوق (علیہ الرحمہ) (متوفی ۳۸۵ ھج) نے اپنی مشہور کتاب ” اکمال الدین  و اتمام  النعمۃ”  میں اپنے اسناد سے نقل کیا ہے  اور شیخ  صدوق (علیہ الرحمہ)کے شاگرد ابوالقاسم  علی بن محمد بن علی  الخزار  القمی(علیہ الرحمہ)  نے دوسرے  اسناد  سے  اپنی کتاب  “کفایہ الاثر” میں درج کیا ہے  ۔ اس روایت کے  مطابق حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری (رضی اللہ عنہ) کے سوال پر  “اولو الامر “کی تعیین کرتے ہوئے جب حضرت رسالتمآب (ص) بارہویں امامؑ تک  پہونچے تو فرمایا: ” حسنؑ  بن علیؑ (یعنی اما م یازدہم) کے جانشین ان کے فرزند ہوں گے جن کا نام میرا نام  اور کنیت میری کنیت ہوگی اور وہ روئے  زمیں پر حجت خدا اور لوگوں کے درمیان “بقیۃ اللہ” ہوں گے( یعنی خدا نہیں دین کے  تحفظ   کیلئے محفوظ  رکھے گا) وہ مشرق سے مغرب  تک تمام  عالَم  کو فتح کریں گے وہ اپنی پیروی کرنے  والوں اور دوستوں  کی نظر سے اتنے طویل عرصہ تک پوشیدہ رہیں گے  کہ ان کی امامت کا عقید ہ صرف انہیں دلوں میں باقی رہ جائے گا جن کا اللہ نے ایمان کے سلسلہ میں امتحان لے لیا ہوگا۔

جابر(رضی اللہ عنہ) نے پوچھا:

 اللہ کے رسول (ص)! کیا ان کے اوپر ایمان لانے والے ان کی غیبت میں ان سے فیضیاب ہوں گے ؟

 پیغمبر (ص) نے فرمایا: ہاں ! اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبوت عطا کی۔ لوگ ان کی غیبت میں ان کی روشنی سے ہدایت پائیں گے اور ان کی ولایت و محبت سے فیضیاب ہوں گے، بالکل اسی طرح جس طرح لوگ آفتاب سے   فیضیاب ہوتے ہیں جب وہ بادلوں میں چھپ جاتا ہے”۔

علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ)  نے بحار الانوار  کی جلد سیزدھم(۱۳) میں (جو طبع جدید میں بانویں  جلد ہے ) اس تشبیہ کی آٹھ  وجہیں درج فرمائی ہیں  جن میں سے  چند کو میں بالاختصار یہاں  لکھ رہا ہوں ۔

پہلی وجہ

بارگاہ الہی سے وجود۱ علم۲ اور ہدایت۳ کی روشنی حضرت  حجت (عجل اللہ  تعالی فرجہ الشریف) کے واسطے سے مخلوقات  تک پہنچتی ہے (جو معصومینؑ میں آخری فرد ہیں اور معصومین علیہم السلام کے بارے میں) ۔

۱۔ حد تواتر کے قریب پہونچی ہوئی روایتوں  سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں حضراتؑ کی وجہ سے اللہ نے دنیا کو پیدا کیا ہے اگر ان کا پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو دوسروں  تک  وجود کی روشنی نہ پہونچتی ۔

۲۔  انہیں  کی برکت اور وسیلہ سے مخلوقات علوم و معارف  سے فیضیاب ہوتے ہیں اور بلائیں دور  ہوتی ہیں۔ اگر یہ حضراتؑ نہ ہوتے تو  مخلوقات کے اعمال ِقبیحہ ان کو  طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کر دیتے لیکن اللہ یہ فرماتا ہے کہ: (اے  رسول) جب  تک آپ (ص) ان کے درمیان  ہیں اللہ ان پر عذاب  نہیں کرے گا ۔( سورۂ انفال،آیت ۳۳)۔

۳۔ ہم نے بار ہا تجربہ کیا ہے  کہ جب پیچیدہ امور سامنے آئے او مشکل سوالات در پیش ہوئے اور فیضان الہی کے دروازے  مسدود ہوتے نظر  آئے تو ہم نے ان  حضراتؑ کے انوار  سے تمسک کیا اور جتنا روحانی ارتباط  اس وقت پیدا ہوسکا اسی کی مناسبت سے دشوار  باتیں آسان ہوگئیں اور مشکلات دور  ہوگئیں۔

(راقم الحروف کا ذاتی تجربہ بھی اس پر شاہد ہے جس کی دو مثالیں میں نے اپنی کتاب (اتمام حجت) کے دیباچہ میں درج  کی ہیں)۔

دوسری وجہ

  حضرت کے وجود اور  آثارِہدایت کے اس قدر  نمایاں ہونے کے باوجود اگر کوئی  شخص  حضرت ؑکے وجود   کا انکار  کرے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے  کوئی شخص بادلوں میں چھپے ہوئے آفتاب کے وجود سے منکر ہوجائے  ۔

 اسی سے ملتی  جلتی  ایک وجہ  علیحدہ لکھی ہے جسے  میں  یہیں ملا کر درج کردیتا  ہوں کہ اگر چہ  حضرت ؑ کے وجود  مطہر کا فائدہ ہر ایک  کے لئے  آفتاب  کی طرح عام  ہے  لیکن جو  اندھا  ہوگا وہ  فیضیاب نہ ہوسکے گا ۔

تیسری وجہ

 کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سورج  تھوڑی دیر کے  لئے بادل سے نکلتا ہے جو ادھر متوجہ ہوتا ہے  وہ دیکھ لیتا ہے لیکن دوسرے   نہیں دیکھ  پاتے ۔ اسی  طرح  یہ ممکن  ہے کہ  حضرت  حجت(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) ایام غیبت  میں بھی بعض  لوگوں کے سامنے  ظاہر ہوجائیں  لیکن دوسروں  کی  نظروں سے پوشیدہ رہیں ۔

چوتھی وجہ :

 آفتاب  کی کرنیں   گھر میں بھی داخل  ہوتی  ہیں  لیکن  شرط یہ ہے کہ  دیواروں میں روشندان  اور   جنگلے  ہوں  اور ان پر پرد ہ نہ پڑا ہو اور  ان کا رخ  آفتاب  کی طرف ہو۔ اسی طرح  خلقِ خدا حضرت  حجت ( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)  کی ہدایت  سے فیضیاب  ہوتی ہے   لیکن شرط  یہ ہے کہ  دلوں کے روشندانوں  پر( یعنی احساسات و جذبات  پر) خواہشاتِ نفسانی  کے پردے  نہ پڑ ے ہوں اور مادیات  کی رکاوٹیں  نہ ہوں۔ جس قدر یہ پردے اٹھتے جائیں گے اسی قدر  حضرت حجت (عجل اللہ  تعالی فرجہ الشریف )کے نور ہدایت  کی کرنیں  دل میں داخل ہوتی جائیں  گی  اور جب  پردے  بالکل ہٹ جائیں گے  تو پھر غیبت  اس کے لئے   غیبت  نہ رہے  گی بلکہ  ظہور  بن جائے گی جیسے کہ وہ زیر آسمان آفتاب  کے نیچے  بغیر کسی  حجاب  کے کھڑا ہو اور سورج  کی روشنی اسے چاروں  طرف سے احاطہ کئے ہوئے  ہو[8]۔

 اللہ تعالیٰ  اس آفتاب  ہدایت  کے جلوے  سے ہماری  بصارت اور  بصیرت دونوں  کو روشن کردے ۔

 آمین  یا رب العالمین

والسلام علیٰ من اتبع  الھدی

حاشیہ جات:

[1]  سید ان کا نام تھا۔

[2]  علامہ مجلسی ، بحار  الانوار ،طبع جدید(موسسۃ الوفا ء۔ بیروت ) طبع ثانی  ۱۴۰۲ ھ  -۱۹۸۲  ء ۔ ج ۴۷ ، ص ۳۱۱ تا ۳۱۸۔ علامہ امینی  :الغدیر ، تہران طبع دوم ، ۱۳۶۶ ہجری شمسی،  جلد ۲،  ص ۲۴۴ تا ۲۴۔

[3]  الغدیر  جلد ۲، ص ۲۵۶ تا ۲۵۹ ۔

[4]  شیخ مفید ، الرسالۃ الخامسۃ  فی الغیبۃ ، ص ۴۰۰۔

[5] علامہ  مجلسی  بحار الانوار،  ج ۵۱ ،باب ہفتم ( ۱۰۹-تا ۱۳۶)۔ اصبغ بن نباتہ (علیہ الرحمہ) کی حدیثیں ص ۱۱۷ -۱۱۸  پر ہیں،  جو اکمال  الدین و اتمام النعمۃ (شیخ صدوق)، الغیبۃ (شیخ  طوسی)،  الغیبۃ ( النعمانی) اور  الاختصاص (شیخ  مفید) کے حوالے سے درج کی گئی ہیں ۔

[6]  علامہ مجلسی، بحار الانوار ، ج ۴۹ ص ۲۴۲ تا  ۲۵۱۔

[7] علامہ مجلسی، بحارالانوار،  ج۴۹،  ص ۲۳۷ و ۲۳۸۔

[8]علامہ مجلسی، بحار الانوار   ج ۵۶ ص ۳۹ و ۹۴۔

 

(ماخوذ از کتاب:

وحی اور الہام کی باتیں (مجموعہ مضامین)، طبع نور اسلام، امام باڑہ، فیض آباد، یوپی۔تاریخ اشاعت، اکبوتر 1994 ء۔ ص 78-89۔ (با تغییرات مختصر)

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×