اسلامی معارفسیرت معصومین(ع)

عزاداری سید الشہداء اسلامی نقطۂ نظر سے

رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپالپوری کی کتاب "کربلاشناسی "سے اقتباس

فہرست مندرجات

سوالات

وضاحت

جوابات

اگر عزاداری بدعت ہے؟

بدعت کے معنی

بدعت کا دوسرا پہلو

بدعت کی اقسام

ایک جملہ معترضہ:

باز آمدم بر سر مطلب!

مراسم عزاداری منشائے الہی کے مطابق ہیں!

مقام ابراہیمؑ

عزادری سنت ہے!

۱۔ حسینؑ کی عزاداری بحیثیت اجمالی!

الف: سنت رسولؐ عملی ہے

ب: سنت رسول قولی ہے!

ج: سنت آئمہ ہے

۲۔ مرنے والے پر گریہ!

الف: سنت رسول عملی ہے۔

ب: سنت رسولؐ قولی ہے

ج:سنت ائمہ ہے:

ایک عجیب خیال!

۳۔ تعزیہ، ذوالجناح اور شبیہیں

الف: شرک کی تعین۔

ب: سنت رسول عملی ہے

ج: سنت رسولؐ قولی ہے۔

د: سنت آئمہؑ  ہے!

۴۔ مجلس

الف: سنت رسولؐ عملی ہے۔

ب: سنت رسول قولی ہے۔

ج: سنت آئمہؑ ہے۔

۵۔ نوحہ و مرثیہ!

الف: سنت رسول عملی ہے۔

ب: سنت ائمہ عملی ہے

ج: سنت اہل بیت ہے

د: سنت ائمہ قولی ہے

۶۔ ماتم اور ماتمی جلوس

ب:ماتم سنت امام عملی ہے۔

ج: سنت امام تقریری ہے۔

د: سنت اہل بیتؑ ہے۔

ہ: عمل اہل مدینہ ہے۔

۷۔ ترک زینت، سوگ اور بال بکھرانا وغیرہ۔

الف: سنت رسولؐ عملی ہے۔

ب: سنت اہل بیتؑ ہے

۸: سیاہ لباس

الف: سنت فاطمہؑ ہے۔

ب: سنت تقریری منجانب امام ہے۔

۹۔ عزاخانہ

الف: سنت امام عملی ہے۔

۱۰ ۔ اکھاڑہ، ڈھول، زنجیری ماتم۔

الف: اکھاڑا دیکھنا سنت رسولؐ  ہے۔

ج: زنجیری ماتم بھی مستحسن ہے۔

 

سوالات

۱۔ کیا موجودہ طور پر مراسم عزاداری  موجودہ شکل و صورت میں مذہبی حیثیت سے فرض ہے یا سنت ہے یا مستحب  یا بدعت ہے؟۔

۲۔ اگر فرض ہے توآیت مع رکوع و سورے کے ساتھ بیان کریں کہ  سنت رسولؐ ہے یا سنت آئمہؑ ہے؟۔

۳۔ اگر سنت رسولؐ ہے تو سنت قولی ہے یا فعلی ہے؟۔

۴۔ اگر سنت قولی ہے تو ثابت کیجئے کہ حضور اکرم ؐ نے اس سینہ کوبی، زنجیر زنی، ماتمی جلوس، سیاہ لباس، گھوڑا نکالنے کا کہیں حکم فرمایا ہے؟۔

۵۔ اگر سنت فعلی ہے تو کیا حضورؐنے گذشتہ انبیا٫ؑ کی یاد میں ایسا کیا ہے؟۔

۶۔ اگر سنت آئمہ ؑہے تو ثابت کیجئے کہ حضرت علیؑ نے سرور کائناتؑ کی وفات کے بعد آپ کی یادگار اس طرح تعزیہ بنایا اور ماتم کیاہے؟۔

۷۔ کیا حسینؑ کی شہادت کے بعد کسی امامؑ نے عزاداری میں ایسے اعمال انجام دیئے ہیں؟۔

وضاحت

عزاداری حضرت امام حسینؑ کے سلسلے میں مذکورہ سوالات وہ ہیں جن کو سالوں سے اٹھایا جاتا رہا ہے اور ہمارے علماء نے ہر مرتبہ ان کے مکمل جوابات پیش کئے ہیں۔ آئندہ تحریر میں جن جوابات کو قارئین کرام مطالعہ فرمائیں گے وہ رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی(اعلیٰ اللہ مقامہ) کی کتاب “کربلاشناسی” سے ہونگے۔ مذکورہ سوالات وہ ہیں جو ۱۹۵۶ ء میں پاکستان کے دوست محمد قریشی نامی شخص نے “رضاکار” نامی مجلہ میں بزرگ شیعہ علماء کو چلینج کرتے ہوئے شائع کروائے تھے اور جواب طلب کئے تھے۔ بزرگوں کی نیابت میں علامہ رضوی کے مفصل دندان شکن جواب دیئے تھے۔ آج چونکہ عزاداری امام حسینؑ کے سلسلے میں اندرونی اور بیرونی جاہلوں کی جانب سے وقت بہ وقت اسی طرح کے سوالات اور شبہات اٹھائے جاتے ہیں۔ لہذا علامہ رضوی کے جواب کو اس مضمون میں مختصر طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ ظاہر ہے اختصار کی وجہ سے جوابات کی مکمل عبارتوں کو یہاں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے لہذا تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کرنے کی گذارش ہے[1]۔

جوابات

علامہ رضوی مذکورہ سوالات کے بیان کے بعدجوابات کی ابتداء اس طرح کرتے ہیں کہ :

” سب سے زیادہ اہم پہلا سوال ہے اور میں دوست محمد صاحب قریشی کی تسکین قلب اور تشفی خاطر کے لئے فی الحال یہ مان لیتا ہوں کہ  عزاداری بدعت ہے۔ اب تو آپ خوش ہوگئے ہوں گے کہ ایک شیعہ نے عزاداری کا بدعت ہونا تسلیم کر لیا لیکن ذرا خوش ہونے سے پہلے عقل و خرد کو مجتمع (استعمال)کرکے اس جواب کی تفصیل بھی سن لیجئے۔

نوٹ: واضح رہے کہ علامہ رضوی کے جوابات چونکہ ایک پاکستانی معترض کے سوالات کے سلسلے میں ہیں لہذا تحریر میں متعدد جگہوں پر پاکستان اور وہاں کے حالات کے حوالے سے ذکر آیا ہے۔

اگر عزاداری بدعت ہے؟

در اصل آپ جیسے کٹھ ملا لوگ عوام کو یہی کہہ کر بھڑکاتے ہیں کہ عزاداری بدعت ہے تعزیہ بدعت ہے، عَلَم بدعت ہے، مجلس بدعت ہے، رونا بدعت ہے، یہ بدعت ہے اور وہ بدعت ہے غرض جہالت اور تعصب کی عینک لگا لینے کے بعد آپ حضرات کو ہر جگہ اور ہر طرف بدعت ہی بدعت نظر آتی ہے اور بدعتوں کے اس ہنگامہ سے آپ پر ایسا ہول طاری ہوجاتا ہے کہ آپ حضرات اختلاجی درودوں میں مبتلا ہوکر محرم کے قبل ہی سے دیہاتوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں اور سیدھے سادھے عوام کی گمراہی میں شیطان کے آلۂ کار بن جاتے ہیں اور ان کے سامنے یہ دلیل رکھتے ہیں کہ چونکہ عزاداری کے رسوم رسول اللہؐ کے بعد جاری ہوئے ہیں لہذا یہ بدعت ہیں اور یقینا خلاف شرع ہیں یہی آپ لوگوں کی وہ مایہ ناز دلیل ہے جس کے بل پر آپ یزید، متوکل، غزالی اور قاضی ابن عربی کے منصوبوں کو پورا کرکے حسینؑ کا نام مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی دلیل کے استحکام کی نیت سے آپ نے بعد کے چھ سوالات تحریر فرمائے ہیں کہ اگر ان باتوں کا جواب نفی میں ملے تو آپ یہ اعلان کرسکیں کہ جب رسولؐ یا امام علیہ السلام نے ان کاموں کو نہیں کیا تو یہ یقینا خلاف شرع ہیں اور بدعت ہیں اور میں آپ کو یہی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر عزاداری حسینؑ کو بالفرض رسولؐ کے بعد کی ایجاد مان بھی لیاجائے تب بھی اس کو ’’حلقہ احترام‘‘ سے نکال کر ’’دائرہ تحریم‘‘ میں داخل نہیں کیا جاسکتا  اور حرام یا خلاف شریعت نہیں کہا جاسکتا!۔

بدعت کے معنی

بدعت کے لغوی معنی ’’نئی چیز‘‘ کے ہیں چنانچہ صراح جلد ثانی(باب العین فصل البا٫) میں ہے کہ ’’بدعۃ ؛ نو بیرون آوردن رسمی در دین بعد از اکمال‘‘۔

حضرات اہل سنت کی مشہور کتاب ’’مجمع البحرین‘‘ میں ہے کہ  ’’ما لم یکن فی زمنة صلعم فهو بدعة‘‘(جو کچھ رسولؐ کے زمانہ میں نہیں تھا وہ بدعت ہے)۔

مشہور لغت کی کتاب قاموس میں ہے کہ’’البدعة بالکسر الحدث فی الدین بعد الاکمال او ما استحدث بعد النبی صلعم من الاهواء و الاعمال‘‘؛  بدعت تکمیل دین کے بعد نئی چیز کا پیدا کرنا یا رسول ؐ کے بعد جو عقایدیا اعمال جاری ہوئے ہیں۔

میں بہ کمال کشادہ دلی بدعت کی ان تمام تعریفات کو مان لیتا ہوں لیکن مشکل یہ ہےکہ ان تعریفات کو مان لینے کےبعد نہ صرف عزاداری بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے تمام ارکان کو بھی خیرباد کہہ دینا پڑتا ہے کیونکہ؛ قرآن کی موجودہ ترتیب خلیفہ ثالث حضرت عثمان کی قائم کردہ ہے، اس لئے اس ترتیب کے مطابق قرآن پڑھنا بدعت ہے ۔ قرآن مجید پر اعراب حضرت علی علیہ السلام کی خلافت ظاہری کے بعد لگائے گئے ہیں اور نقطے حجاج بن یوسف کے زمانے میں لگائے گئے ہیں اس لئے اعراب دار اور نقطہ دار قرآن رکھنا اور پڑھنا بدعت ہے۔ رسول ؐ کے زمانے میں قرآن خط کوفی میں لکھا جاتا تھا اس لئے کو خط نسخ یا نستعلیق میں (جس میں اب قرآن لکھا جاتا ہے) لکھنا اور پڑھنا بدعت ہے ۔ قرآن کے تیس پارے اور سات منزلیں قاریوں نے اپنی سہولت کے لئے بہت بعد میں قائم کی ہیں لہذا پارہ یا منزل کی پابندی کرتے ہوئے قرآن چھاپنا، لکھنا، پڑھنا یا اس کے مطابق حوالہ دینا بدعت ہے۔ قرآن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں بہت بعد میں شروع ہوا ہے لہذا قرآن کا ترجمہ کرنا یا پڑھنا یا مترجم قرآن رکھنا بدعت ہے۔

چونکہ حضرت عمر وغیرہ احادیث کی تدوین کے سخت مخالف تھے۔ اس لئے اہل سنت میں حدیثوں کی تدوین خلافت راشدہ کے بعد عہد بنی امیہ میں ہوئی ہے لہذا حدیث کی کتابوں کا مرتب کرنا یا ان کو فصل فصل اور باب باب پر تقسیم کرنا یا راویوں یا مضامین کے مطابق ترتیب دینا بدعت ہے۔ حدیث کی جانچ کے لئے راویوں کی جرح و تعدیل کی غرض سے علم رجال تو بہت بعد میں مدّون ہوا ہے اس لئے اس علم کی تعلیم حاصل کرنایا اس کے مطابق عمل کرنا بدعت ہے۔

قرآن کی تفسیریں تو حدیث کی کتابوں کے  مدتوں  بعد ہوئی ہیں حالانکہ احمد بن حنبل جیسا جلیل القدر امام اہل سنت اس کا سخت مخالف تھا اس لئے قرآن کی تفسیرلکھنا اور پڑھنا دونوں بدعت ہیں۔

فقہی مسائل کو اپنی عقل اور رائے کے مطابق گڑھ لینا تو دوسری صدی ہجری میں امام ابوحنیفہ کی ذات سے شروع ہوا ہے اس لئے ان کی تمام شریعت اور مسائل بدعت ہیں۔ خلافت عباسیہ کے ابتدائی زمانہ میں جب فلسفہ یونان کا چرچا ہوا اور کفر و الحاد بڑھنے لگا تو مسلمانوں کے دین کی حفاظت کے لئے علمائے اسلام نے فلسفیانہ دلیلوں سے اسلامی عقائد اور اصول دین کو ثابت کرنا شروع کیا اور اس طرح جو علم پیدا ہوا۔ اس کو علم کلام کہتے ہیں۔ یہ اسلامی علوم میں سب سے جدید علم ہے لہذا اسلامی اصول کو علم کلام کی دلیلوں یعنی عقلی دلیلوں سے ثابت کرنا یقینا خلاف شرع اور بدعت ہے۔

چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری(باب الاقتدا، السنن الرسول) میں علامہ ابن حجر عسقلانی رقمطراز ہیں:

’’و مما احدث تدوین الحدیث ثم تفسیر القرآن ثم تدوین المسائل الفقهیة المولَّدة عن الرایی المحض ثم تدوین ما یتعلق باعمال القلوب فاما الاول فانکره عمرو ابوموسی و طایفة و رخص فیه الاکثر و اما الثانی فانکره الامام احمد و طایفة لیسیره و کذا اشتد انکار احمد للذی بعده و مما احدث ایضا تدوین القول فی اصول الدیانات و اشتد انکار السلف لذالک کابی حنیفة و ابی یوسف و الشافعی‘‘۔

ترجمہ: رسولؐ کے بعد پیدا ہونے والی چیزوں میں حدیثوں کی تدوین اور ترتیب ہے۔ اس کے بعد قرآن کی تفسیر ہے۔ اس کے بعد صرف عقل سے پیدا کئے جانے والے فقہی اور شرعی مسائل ہیں پھر اعمال قلبیہ (تصوف) کی تدوین ہے پس حدیثوں کی تدوین کے مخالف حضرت عمر اور ابوموسیٰ اشعری اور ایک گروہ تھا۔ اوراکثر لوگوں نے اس کی اجازت دی  ہے اورتفسیر قرآن کے مخالف امام احمد بن حنبل اور ایک جماعت ہے اور اسی طرح امام احمد بن حنبل قیاس سے مسائل گڑھنے کے شدید مخالف تھے۔

اور نئی چیزوں میں علم کلام ہے اور سلف اس کے شدید مخالف تھے مثلا امام ابوحنیفہ، ابویوسف اور امام شافعی وغیرہ … (انتھی)۔

یہ تو اسلامی علوم کا حال ہوا۔ اب روز مرّہ کی معاشرت(جس کو کوئی شخص احکام خدا سے بے نیاز نہیں سمجھتا) کا حال ملاحظہ ہو۔

شیروانی اور ہند و پاکستان کی مختلف وضع اور ڈیزائن کی ٹوپیاں عہد رسولؐ میں نہ تھیں لہذا ان کا پہننا بدعت ہے۔ پلاؤ، زردہ، قورمہ اور مرغ مسلّم جن کی طمع میں مریدوں کو راہ راست پر آنے سے روکا جاتا ہے عہد رسولؐ کے بہت بعد کی پیداوار ہیں اور رسولؐ نے تو یقینا کبھی استعمال نہیں کیا، اس لئے ان کا استعمال فرمانا اور کام و دہن کی لذت حاصل کرنا بدعت ہے۔ لین دین کےلئے کاغذی سِکوں (نوٹوں) کا استعمال عہد رسولؐ میں کبھی نہیں ہوا۔ لہذا نوٹوں سے لین دین کرنا بدعت ہے۔ رسول اللہؐ کے دور میں خشکی پر بے جان سواریوں سے کبھی راستہ طے نہیں کیا گیا لہذا ریل موٹر اور سائیکل پر سفر کرنا بدعت ہے۔

لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا حضرات اہل سنت ارشاد فرماتے ہیں کہ رسولؐ نے اپنے بعد خلافت کے لئے کوئی حکم نہیں دیا اسی لئے اجماع وغیرہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔  ظاہر ہے کہ وہ اجماع جس سے حضرت ابوبکر کی خلافت ثابت کی جاتی ہے۔ وہ نامزدگی جس حضرت عمر کی خلافت قائم کی جاتی ہے۔ وہ شوریٰ جس کے مطابق حضرت عثمان کوخلیفہ سمجھا جاتا ہے اور وہ قہر و غلبہ جس کے ذریعہ معاویہ تخت نشینِ خلافت ہوا، غرض تمام اصول خلافت رسولؐ کے بعد کی پیداوار ہیں اس لئے یقیناخلاف شرع اور بدعت ہیں۔ لہذا ان لوگوں کی خلافت مجسّم بدعت ہے لہذا اگر رسولؐ کے بعد کی پیداوار مان لینے کی وجہ سے عزاداری قابل ترک اور ناجائز اور بدعت ہے تو پہلے موجودہ تمام قرآنوں کو حضرت عثمان کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے جلا دیجئے اور رسولؐ کے عہد کی ترتیب کے مطابق خط کوفی میں لکھ کر رائج کیجئے اور جب تک ویسا قرآن مرتب نہیں ہوتا، اس قرآن کو جو ترتیب سے لیکر اعراب اور نقطہ تک بدعت میں ڈوبا ہوا ہے چھوڑ دیجئے، تفسیروں، حدیثوں اور دوسری عقائد کی کتابوں کو دریا برُد کر دیجئے ۔ علم رجال اور علم کلام سے کام لینا چھوڑ دیجئے۔بجز عربی لباس کے دوسرا لباس پہننا حرام قرار دے دیجئے۔کھانے پینے میں ان تمام چیزوں سے اجتناب کیجئے جنہیں رسولؐ نے کبھی استعمال نہ کیا ہو، کاغذی نوٹوں کو سانپ بچھو سمجھ کر الگ رکھئے اور یہ سب کچھ کر لینے کے بعد جب اسلامی علوم اور دنیاوی لذائذ دونوں سے آپ بے لگاؤ ہوجائیں تو ’’چمنستانِ خلافت‘‘ کو ’’مبنی بر بدعت‘‘ کہہ کر بیخ و بن سے اکھاڑ کرپھینک دیجئے اور ان خلفا سےقطعی بیزاری کا اعلان کر دیجئے جن کی خلافت کی بنیادیں بدعت پر تھیں ’’كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اُجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ‘‘[2]۔ اگرآپ  اپنے درد اسلامی کی نمائش میں سچے ہیں تو پہلے اس طرح سنیت کو خیرباد کہہ لیجئے اس کے بعد ہم سے بھی عزاداری کے متعلق آپ فرمائش کا حق رکھتے ہیں۔

شادم کہ از رقیباں دامن کشاں گذشتی
گو مشت خاک ما ہم برباد رفتہ باشد

بدعت کا دوسرا پہلو

اب اس کا دوسرا پہلو ملاحظہ فرمائیے۔

جب کبھی کوئی کلیہ بنایا جاتا ہے تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ عکس کی صورت میں بھی اس کی صحت قائم رہتی ہے یا نہیں ’’آفتاب نکلا ہوگا تو دن ہوگا‘‘ یہ کلیہ اس  لئے صحیح ہے کہ اس کا عکس کہ ’’آفتاب نہیں نکلا ہوگا تو دن نہیں ہوگا‘‘ بھی صحیح ہے ۔ اس لئے اگر یہ کلیہ قائم کر لیا جائے کہ ’’ہر وہ چیز جو رسولؐ کے زمانہ میں نہ تھی وہ بدعت اور گمراہی ہے‘‘ تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ’’کوئی ایسی چیز جو رسول اللہؐ کے زمانہ میں تھی بدعت اور گمراہی نہیں ہے‘‘۔ یعنی کفر اور شرک رسول اللہؐ کے زمانہ میں بھی تھا لہذا یہ بدعت و گمراہی نہیں ہے۔ زنا اور لواطہ کا ارتکاب عہد رسولؐ میں بھی ہوتا تھا لہذا وہ بدعت اور گمراہی نہیں ہے۔ شراب خواری عہد رسولؐ میں بھی تھی لہذا وہ بدعت اور گمراہی نہیں ہے۔ جوا،  شطرنج عہد رسول ؐمیں بھی کھیلا جاتا تھا لہذا یہ بدعت اور گمراہی نہیں ہے۔

اسی طرح چوری، ڈاکہ، رہزنی، نفاق، کم تولنا، جھوٹ بولنا، تہمت لگانا، گواہی چھپانا ، قتل مومن، مال یتیم کا ناحق کھا جانا، سودخواری، مال غیر غصب کر لینا، غرض دنیا بھر کی برائیاں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں وارد ہوا ہے عہد رسولؐ میں ان سب کا ارتکاب ہوتا تھا، ورنہ اس کی ممانعت کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ پس اگر عہد رسولؐ میں ہونایا نہ ہونا ہی جواز یا عدم جواز کی دلیل ہے تو ماننا پڑےگا کہ چونکہ یہ سب چیزیں عہد رسولؐ میں موجود تھیں لہذا یہ گمراہی نہیں ہیں اور غالبا بدعت کی اس تعریف کے اسی منطقی نتیجہ کو تسلیم کرتے ہوئے:

(۱) امام ابوحنیفہ نے حکم دے دیا کہ نبیذ(جَو کی شراب) پینا بلکہ اس سے وضو بھی کرنا جائز ہے اور اگر شراب کو ذرا سا جوش دیدیں تو اس کی حرمت اور نجاست دونوں ختم ہوجائیں گی  اور پستہ کے برابر بھانگ استعمال کرنے کو جائز قرار دے دیا ہے جیسا کہ اکثر حنفی فقہ کی کتابوں میں ہے۔

(۲) امام شافعی نے دماغ کو تر و تازہ اور چاق و چوبند رکھنے کے لئے شطرنج کھیلنا جائز قرار دے دیا ہے۔

(۳) امام مالک نے لواطہ کو جائز قرار دے دیا کہ ’’من لاط بعبده او باجیره جاز‘‘(اگر کوئی شخص اپنے غلام یا مزدور سے لواطہ کرے تو جائز ہے)۔ اور امام شافعی نے بھی اس قول کی تصدیق کی ہے۔ اور منجملہ شافعی مذہب کے بہت سے علما٫  جیسا کہ یافعی نے اپنی کتاب میں شافعی کایہ قول لواطہ کے متعلق نقل کیا ہے کہ ’’والقیاس انہ حلال‘‘ (قیاس کی رو سے لواطہ حلال ہے)۔

(۴) امام احمد بن حنبل نے بھی امام ابوحنیفہ کی مطابقت کرتے ہوئے بھانگ نوش فرمانے کی اجازت دے دی ہے۔ ناصر خسروؔ نے انہیں باتوں کو نظم کرتے ہوئے کہا ہے کہ :

شافعی گفت که شطرنج مُباح است مدام
بوحـنیـفه بــه از او گــویـد در بــابِ شــراب
حَـنبَلی گفت: کـه گـر وآنگه بـه غـم درمـانـی
گــر کــنـی پـیـرویِ مُـفـتـیِ چـارُم مــالـک:
بنگ و می میخورد و اغلام کن و باز قمار
  کج مبازید که جــز راســت نـفـرمـوده امــام
کـه زِ جـوشیده بخور تـا نـبـود بـر تو حـرام
پسته‌یِ بـَنـگ تـناول کــن و سـرخوش بِخرام
او هـم از بـهرِ تــو تجـویــز کُـنـَد وطیِ غلام
کـه مسلمانـی از ایـن چـار امـام است تمام

ترجمہ: شافعی نے کہا ہے کہ شطرنج ہمیشہ مباح ہے، غلطی مت کرو اس لئے کہ امام نے بالکل صریح فرمایا ہے۔ امام ابو حنیفہ نے شراب کے بارے میں اس سے بہتر فتویٰ دیا ہے کہ جوش دی ہوئی شراب پیو تاکہ حرام نہ رہے۔  ابن حنبل نے یہ فرمایا کہ اگر اس کے باوجود غم سے عاجز ہو جاؤ تو ایک پستہ کے برابر بھانگ تناول کرلو اور مست ہوکر گھومتے پھرو ۔ اب اگر تمہیں چوتھے مفتی مالک کی پیروی کرنی ہے تو وہ بھی تمہارے لئے لواطہ کو جائز کرتے ہیں۔ بھانگ گھونٹو، شراب پیوؤ، اغلام کرو اور جوا کھیلو کیونکہ مسلمانی ان چاروں اماموں سے ختم ہوگئی۔

یہاں پر پاکستان کے اہل سنت کو عموما اورتنظیم اہل سنت کو خصوصا مبارک باد دینے کو جی چاہتا ہے کہ ان کے ائمہ نے ان حضرات کے نظریۂ بدعت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی اور  رسولؐ جن برائیوں کی مذمت کرتے ہوئے آئے تھے ان سب کو عہد رسولؐ میں ہونے کی وجہ سے جائز قرار دے کر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ واقعا حلیت و حرمت کا دارومدار قرآن و حدیث کی مطابقت پر نہیں ہے بلکہ رسولؐ کے زمانے میں ہونے یا نہ ہونے پر ہے، اس لئے عزاداری چونکہ عہد رسولؐ کے بعد جاری ہوئی ہے اس لئے بدعت  اور حرام ہے؏

نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے

ان تمام حادثات کی اصل وجہ یہی ہے کہ اہل سنت کے نیم ملا خطرۂ ایمان قسم کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ’’ہر وہ چیز جو رسولؐ کے زمانہ میں نہ ہو وہ بدعت ہے‘‘ اور ’’ کل بدعة ضلالة و کل ضلالة سبیلها الی النار‘‘ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔ حالانکہ یہ نظریہ یکسر غلط اور مہمل ہے اور شیعہ سنی دونوں فرقوں کے اہل علم اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔

بدعت کی اقسام

تمام دنیا کے اہل عقل اس بات پر عملا متفق ہیں کہ قانون تعزیرات میں صرف انہیں باتوں کا تذکرہ کیاجاتا ہے جو ناجائز اور غیرقانونی ہوتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان تمام باتوں کے علاوہ تمام چیزیں جائز ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی قانوں کی کتاب میں یہ لکھا ہوا نہیں ملے گا کہ دھوبی سے کپڑا دھلوانا جائز ہے۔ لیکن یہ ضرور ملے گا کہ اگر دوسرے سے کام لے اور اس کی اجرت نہ دے تو یہ حرکت خلاف قانون ہے اور اس کے تدارک کی صورتیں لکھی ہوں گی۔ اور اس طریقۂ بیان کی اصل وجہ یہ ہےکہ دنیامیں جائز چیزوں اور کاموں کا شمار کرنا ناممکن ہے۔ اس کے برخلاف ناجائز اور خلاف قانون حرکتوں کی تفصیل نسبتا آسان ہے ، اس لئے قانون انہیں باتوں کو بیان کرکے خاموش ہوجاتا ہے اور ان کے علاوہ باقی تمام  کام اور چیزیں جائز اور قانونی سمجھی جاتی ہیں۔

چنانچہ رسالتمآب ؐ کی متفق علیہ حدیث ہے کہ ’’کل شئ مطلق حتی یرد فیه نهیٌ‘‘ (ہر چیز جائز ہے جب تک اس کے بارے میں ممانعت  نہ وارد ہو)۔ اسی طرح دوسری حدیث اساس الاصول میں ہے کہ ’’الاشیا مطلقة ما لم یرد علیک امرٌ و نهیٌ‘‘(تمام چیزیں جائز ہیں جب تک تمہارے پاس ان کے متعلق کوئی حکم یا ممانعت نہ پہنچے) اسی کتاب میں تیسری حدیث نبوی ہےکہ ’’کل شی یکون فیه حلال و حرام فهو لک حلال ابدا ما لم تعرف الحرام بعینه فتدعه‘‘ (ہر چیز جس میں حلال اور حرام ملا ہوا ہو وہ تیرے لئے مطلقا جائز ہے جب تک تو خاص طور سے حرام کو نہ پہچان لے اس صورت میں حرام کو چھوڑ دینا ہوگا)۔

رسالتمآب ؐ کے یہ ارشادات گرامی  (جن میں پہلی حدیث شیعوں کے یہاں بھی ہے۔اور دوسری اور تیسری حدیثیں خاص اہل سنت کی ہیں) صاف طور سے اس امر کو ظاہر کر رہے ہیں کہ اسلامی شریعت بھی دنیا کے دوسرے قوانین کی طرح اسی اصول پر قائم کی گئی ہے کہ ’’جس کی ممانعت نہ ہو وہ جائز ہے‘‘۔ لیکن یہ نیم ملّا حضرات یہ اصول وضع فرما رہے ہیں کہ ’’جس چیز کی صاف اجازت نہ ہو وہ ناجائز ہے‘‘؏

بسوخت عقل ز حیرت که این چه بوالعجبیست

حالانکہ رسالتمآبؐ کی مشہور حدیث ہے کہ ’’من سنّ سنّة حسنة کان له اجرها و اجر من عمل بها و من سنّ سنّة سئیة کان علیه وزرها و وزر من عمل بها‘‘(مجمع البحرین)؛ جو شخص کوئی نیا اچھا طریقہ جاری کرے اس کو خود اپنا ثواب بھی ملے گا  اور قیامت تک جو لوگ اس پر عمل کریں گے ان کے برابر بھی ثواب ملے گا اور جو شخص کوئی خراب طریقہ نکالے گا اس پر اپنا عذاب بھی ہوگا اور قیامت تک جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان سب کے برابر بھی عذاب ہوگا۔

اس سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ نیا طریقہ محض نیا طریقہ ہونے کی وجہ سے قابل ترک، ناجائز اور گناہ نہیں ہے بلکہ اگر اس میں اچھائی ہے تو اس پر ثواب ملے گا اور اگر وہ خراب طریقہ ہے تو اس پر عذاب ہوگا۔ اسی لئے ’’مجمع البحرین‘‘ میں اس کی تشریح موجود ہے کہ:

’’البدعة بدعتان بدعة هدی و بدعة ضلال فما کان فی خلاف ما امرالله به و رسوله فهو فی حیز الدم و الانکار و ما کان تحت عموم ما ندب الله الیه و حض علیه و رسوله فهو فی حیز المدح‘‘؛ بدعت کی دو قسمیں ہیں (۱) بدعت ہدایت(۲) اور بدعت گمراہی؛  پس جو بدعت حکم خدا اور رسولؐ کے خلاف ہو وہ مذموم اور لائق انکار ہے اور جو ان احکام کے عموم میں داخل ہو، جن پر خدا و رسولؐ نے ابھارا ہے اور رغبت دلائی ہےوہ ممدوح  اور قابل تعریف ہے۔

اسی طرح امام شافعی نے فرمایا ہے:

“البدعة بدعتان محمودة و مذمومة فما وافق السنة فهو محمود و ما خالفها فهو مذموم”(فتح الباری شرح صحیح بخاری)۔

بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعت محمودہ(پسندیدہ بدعت) اور بدعت مذمومہ۔ پس جو بدعت سنت کے موافق ہو وہ محمود ہے اور جو سنت کے مخالف ہو وہ مذموم ہے۔

 آخر میں سب سے زیادہ تفصیل خود فتح الباری شرح صحیح البخاری میں علامہ ابن حجر عسقلانی نے اسی کتاب کے ’’باب الاقتدا٫ بسنن الرسولؐ‘‘ میں تحریر فرمائی ہے کہ ’’ثم ان المعروف بین الجمهور تقسیم البدعة الی الاقسام الخمسة فالواجبة منها نظم ادلة المتکلمین للرد علی الملاحدة و المبتدعین و المندوبة تصنیف کتب العلم و بناء المدارس و من المباحة البسط فی الوان الاطعمة… و من المکروهة التنعم فی الملابس و الماکل بما لا یؤدّی الی الاسراف المحّرم و من المحّرمة فقال اهل الحق علی الامام و کل ما خالف الشریعة و دلّت علی تحریمه الادلة‘‘(انتهی ملخصا)۔

جمہور میں یہ بات مشہور ہے کہ بدعت پانچوں قسم(واجب، مستحب، مباح، مکروہ، حرام) کی ہوتی ہے پس مثلا ملحدوں اور بدعتیوں کی تردید کے لئے کلامی دلیلوں کا منظم کرنا واجب بدعت ہے اور علمی کتابوں کی تصنیف اور مدرسوں کی بنیاد ڈالنا مستحب بدعت ہے اور طرح طرح کے کھانوں میں کشادگی پیدا کرنا مباح بدعت کی مثال ہے اور کھانے پہننے میں تنعم پیدا کرنا جو اسراف ناجائز کی حد تک نہ پہونچے مکروہ بدعت  میں داخل ہے اور اہل حق کے قول کے مطابق امام برحق پر بغاوت کرنا حرام بدعت میں شامل ہے اس کے علاوہ  وہ بدعتیں بھی حرام ہیں جو شریعت کے مخالف ہوں اور جن کے حرام ہونے پر دلیلیں دلالت کرتی ہیں۔

اسی طرح علمائے شیعہ میں سے شہید اول (علیہ الرحمۃ) نے اپنی کتاب قواعد میں ارشاد فرمایا ہے ’’محدثات الامور بعد عهد رسول الله صلعم اقسام لا یطلق اسم البدعة عندنا الا علی ما هو محرم‘‘۔ 

رسول ؐ کے بعد جو امور حادث ہوں ان کی بہت سی قسمیں ہیں اور ہم تو بدعت صرف اس نئی چیز کو کہتے ہیں جو حرام بھی ہو اور شہید ثانی علیہ الرحمۃ نے شرح لمعہ میں اذان کے ذکر میں فرمایا ہےکہ :

’’قد یقال ان مطلق البدعة لیس بمحرم بل ربّما قسمها بعضهم الی الاحکام الخمسة‘‘یہ  کہا جاتا ہے کہ ہر بدعت محض نئی چیز ہونے کی وجہ سے حرام نہیں ہے بلکہ بعض علما٫ نے بدعت کی تقسیم پانچوں حکموں(واجب،مستحب، مکروہ، مباح ، حرام) کی طرف کی ہے۔

سنی اور شیعہ علما٫ کی ان متفقہ تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا دارو مدار اس پر نہیں ہے کہ وہ چیز عہد رسولؐ میں تھی یا نہیں ۔ بلکہ اس پر ہے کہ وہ چیز واجب احکام کے تحت میں آتی ہے یا مستحب یا مباح کی دلیلوں کے تحت میں ہے یا مکروہ یا حرام احکام کے تحت میں داخل ہے یعنی نئی چیز محض نئی ہونے کی وجہ سے حرام نہیں ہوجائے گی بلکہ یہ ممکن ہے کہ وہ نئی چیز واجب ہو یا مستحب ہو یا مباح ہو یا مکروہ ہوا اور اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حرام ہو۔

ایک جملہ معترضہ:

 اب سلسلۂ سخن ان بدعتوں کی تشریح کی اجازت نہیں دیتا جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے کہ ان میں سے کون سی بدعت جائز ہے اور کون سی ناجائز لیکن اجمالا اتنا کہہ دینا ضروری ہے کہ فقہی مسائل کو اپنی عقل اور قیاس سے مرتب کرنا (جیسا کہ امام ابوحنیفہ وغیرہ نے کیا)اور اجماع، نامزدگی شوریٰ یا قہر و غلبہ کے ذریعہ خلافت قائم کرنا یقینا ایسی بدعتیں ہیں جو قرآن و حدیث کے صریح مخالف ہیں لہذا یقینا بدعت محرمہ اور سبب ضلال اور باعث عذاب ہیں۔ ان کے علاوہ بقیہ بدعتوں میں سے بعض واجب بعض مستحب اور بعض مباح اور کچھ مکروہ ہیں۔ اختصار کے خیال سے اس تشریح کو نظر انداز کرتا ہوں۔

باز آمدم بر سر مطلب!

گذشتہ تحریر سے یہ واضح ہوگیا کہ عزاداری کو محض نئی چیز کہہ کر حرام قرار دے دینا اصول اسلام کے بالکل مخالف ہے بلکہ  یہ دیکھنا چاہئے کہ عزاداری رضائے خداوندی اور منشائے الہی کے مطابق ہے یا نہیں اس کے بعد اس کے مطابق فیصلہ کرکے عوام کو اس کی طرف دعوت دینا صحیح طریقۂ کار ہوگا ورنہ بغیر اس کے بجز گمراہی کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔

مراسم عزاداری منشائے الہی کے مطابق ہیں!

عزداری کا مفہوم کیا ہے؟ امام حسین علیہ السلام کے واقعات کی یادگار قائم کرنا، اب  ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ خاصان خدا کے افعال اور واقعات کی اجمالی یادگار قائم کرنا رضائے الہی کے مطابق ہے یا نہیں۔

ہر مسلمان نماز میں بار بار یہ دعا کرنا ہے کہ ’’اِهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ۔ صِراطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ‘‘ (خدایا! تو ہمیں راہ راست کی ہدایت کر ان کی راہ  کی جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل کی ہیں)۔ ظاہر ہے کہ ہمیں اگر ان لوگوں کے حالات اور واقعات و طریقۂ زندگی کی خبر ہی نہ ہو جن پر خدا کی نعمتیں نازل ہوئیں تو ہم ان کی راہ پر کیسے چل سکتےہیں لہذا یہ دعا اسی وقت قبول ہوسکتی ہے جب ہم مجلسوں میں شریک ہوکر خاصان خدا کی راہ میں مفصل حاصل معلوم کر لیں اور یہ بھی جان لیں کہ  ’’مغضوب علیهم‘‘ اور ’’ضالین‘‘ (گمراہوں) کی کیا راہ تھی تاکہ اس سے بچیں  ورنہ جہل و لا علمی میں مبتلا رہ کر یہ دعا ، طوطے کی طرح رٹتے رہنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

اسلام کا رکن اعظم ’’حج‘‘ ہے جو از اول تا آخر حضرت ابراہیمؑ و اسمعیلؑ و ہاجرہ (صلوات اللہ علیہم)کے واقعات کی یادگار ہے۔ آٹھویں ذی الحجہ کو ’’یوم ترویہ‘‘ کہتے ہیں اور اس کے لئے مخصوص اعمال ہیں اس نام کا سبب یہی ہے کہ اس شب میں حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اسمعیلؑ کو ذبح کر رہے ہیں اور دن بھر اسی خواب کے متعلق ’’ترویہ‘‘ (غور و فکر) کرتے رہے اس دن کے اعمال بھی اسی کی یادگار ہیں۔

نویں ذی الحجہ کو ’’یوم عرفہ‘‘ کہتے ہیں اس کا سبب یہی تو ہے کہ اس شب  دوبارہ خواب دیکھنے کے بعد حضرت ابراہیم کو عرفان (یقین معرفت) حاصل ہوگیا کہ یہ خواب حکم الہی پر مبنی ہے، اس دن کے اعمال اسی کی یادگار ہیں۔

ایک قول یہ ہے کہ حضرت آدمؑ و حضرت حواؑ زمین پر آئے تو انہیں علیحدہ علیحدہ جگہوں پر اتارا گیا اور ایک عرصہ دراز  کے بعد دونوں حضرات نے میدان عرفات میں ایک دوسرے کو دیکھا اور دور فراق ختم ہوا۔ اس لئے اس میدان کو عرفات کہتے ہیں کہ یہیں انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پہچانا اور وہ دن اسی مناسبت سے روز عرفہ کہلاتا ہے۔ بہرطور یہ بھی دو خاصان خدا کی یادگار ہے۔

 اسی واقعہ کی یادگار ہیں اور شعائر اللہ (خدا کی نشانیوں) میں داخل ہیں۔ ارشاد باری ہے :

’’وَ الْبُدْنَ جَعَلْناها لَكُمْ مِنْ شَعائِرِ اللّهِ‘‘[3]؛ (ترجمہ اور قربانی کے جانوروں کو ہم نے تمہارے لئے خدا کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے)۔ صفا اور مروہ کے درمیان سات بار سعی کرنا حج کا اہم رکن ہے۔ یہ کیا ہے بجز اس واقعہ کی یادگار کے کہ حضرت ابراہیمؑ جب حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسمعیلؑ کو  مکہ میں بحکم خدا پہنچا کر شام واپس چلے گئے اور  یہاں مشک کا پانی ختم ہوگیا تو حضرت ہاجرہ ؑ بچہ کے لئے پانی کی تلاش میں سات مرتبہ ان پہاڑیوں کے درمیان دوڑی تھیں۔ آج یہ سعی ارکان حج میں داخل ہےاور صفا و مروہ پہاڑیاں شعائر اللہ میں داخل ہیں: ’’إِنَّ الصَّفا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعائِرِ اللّهِ‘‘[4]؛ بیشک صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔

آج آب زمزم حاجیوں کا سب سے بڑا تبرک سمجھا جاتا ہے اس پانی کو برکت کیوں حاصل ہوئی؟ صرف اس نسبت کی بنا پر کہ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں دوڑ رہی تھیں اس وقت اسمعیلؑ نے پیاس سے بیتاب ہو کرزمین پر ایڑیاں رگڑنی شروع کیں اور بحکم خدا وہاں پانی کا چشمہ ابل پڑا اسمعیلؑ کے قدموں سے منسوب ہو کر  آب زمزم باعث برکت اور باعث شفا بن گیا۔

مقام ابراہیمؑ

وہ  پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیمؑ نے کھڑے ہوکر خانۂ کعبہ کی دیواریں بلند کی تھیں اور بہ اعجاز آپ کے قدموں کے نشان اس پر ثبت ہوگیا وہ پتھر ایسی عظمت کا حامل ہے کہ ارشاد باری ہے کہ  ’’وَ اتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى‘‘[5]؛

ترجمہ: اور تم لوگ مقام ابراہیمؑ کو مصلی بناؤ۔ اور اس طرح اس کو خدا کی روشن نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ :’’فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ‘‘[6]؛خانہ کعبہ میں بہت سی روشن نشانیوں ہیں منجملہ ان کے مقام ابراہیمؑ ہے۔

اس دنبہ کی سینگیں جو حضرت اسمعیلؑ کے عوض ذبح ہوگیا تھا خانہ کعبہ میں بعزت و احترام محفوظ تھیں اور عہد رسالت مآبؐ تک اور دور خلافت راشدہ میں بھی محفوظ رکھی گئیں یہاں تک کہ  یزید نے جب عبداللہ بن زبیر کے محاصرہ کا حکم دیا تو اس اس کی فوج نے منجنیق سے آگ اور پتھر خانۂ کعبہ پر برسائے جس میں خانۂ کعبہ کے پردے جل گئے اور مجملہ اور دیگر تبرکات کے وہ دونوں سینگیں بھی جل گئیں۔ گذشتوں امتوں میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے پاس بحکم الہی ایک صندوق تھا جس کو ’’تابوت سکینہ‘‘ کہتے تھے اس میں حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ اور ان کی اولاد کے تبرکات رکھے ہوئے تھے۔ اور وہ تابوت بنی اسرائیلؑ کے لئے باعث برکت قرار دیا گیا تھا یہاں تک کہ اسے جنگ میں فتح پانے کے لئے لشکر کے آگے رکھا جاتا تھا، ایک دفعہ وہ تابوت دشمنوں نے چھین لیا اور بنی اسرائیل قعر مذلت میں گرگئے۔ دوبارہ طالوت کی سردار ی کے وقت خدا نے جہاں اور خوش خبریاں دیں وہاں یہ بھی تھی کہ:

’’وَ قالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَ بَقِيَّةٌ مِمّا تَرَكَ آلُ مُوسى وَ آلُ هارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلائِكَةُ‘‘[7]۔

ترجمہ: اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ طالوت کے  منجانب اللہ بادشاہ ہونے کی یہ پہچان ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسکین دہ چیزیں اور ان تبرکات سے بچا کچا ہوگا جو موسیٰؑ اور ہارونؑ کی اولاد یادگار چھوڑ گئی ہے اور صندوق کو فرشتے اٹھائے ہونگے۔

ان تمام واقعات سے یہ صاف صاف ثابت ہوتاہے کہ خاصان خدا کی یادگار قائم کرنا نہ صرف مستحن بلکہ اتنا اہم ہے کہ خدا نے اکثر حالات میں اس کو واجب ارکان میں داخل کر دیا ہے۔ خاصان خدا سے جو چیزیں منسوب ہوگئیں ان کو شعائر اللہ(خدا کی نشانیوں) میں داخل کر دیا گیا  ، مثلا صفا، مروہ، قربانی کے جانور وغیرہ اور ان کی تعظیم کو تقویٰ کی علامت قرار دے کر ان کی بے توقیری کو حرام کر دیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’وَ مَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ‘‘[8]؛ یعنی ’’جو شخص خدا کی نشانیوں کی تعظیم کرے پس یہ بات بے شک دل کے تقویٰ سے ہے‘‘۔

پھر ارشاد فرمایا ہے: ’’يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللّهِ وَ لاَ الشَّهْرَ الْحَرامَ وَ لاَ الْهَدْيَ وَ لاَ الْقَلائِدَ‘‘[9]؛ اے ایماندارو! نہ تو خدا کی نشانیوں کی بے عزتی کرو نہ حرام مہینوں کی نہ قربانیوں کی نہ گلے میں پٹے ڈالے ہوئے جانوروں کی جن کو قربانی کے لئے لے جاتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صرف انبیا٫ کی یادگارنہیں قائم کی گئی ہے بلکہ حضرت ہاجرہ(جو یقینا نبی نہ تھیں اور غیر معصوم تھیں) کے واقعات بھی قابل یادگار سمجھے گئے اور وہ بھی ایسے واقعات جن کا بظاہر مذہب سے کوئی لگاؤ نہیں تھا مثلا  اپنے بچہ کے لئےپانی کی تلاش میں دوڑنا۔ مزید بر آں ’’تابوت سکینہ‘‘ میں جو چیزیں آل موسیٰؑ اور آل ہارونؑ کے تبرکات میں سے تھیں ان کی فہرست میں حضرت موسیٰؑ کا عصا،آسمانی ترنجبین، حضرت ہارونؑ کا عمامہ اور جوتیاں بھی شامل ہیں اور خود وہ صندوق وہ تھا جس میں حضرت موسیٰؑ کو بند کرکے ان کی والدہ نے  دریائے نیل میں ڈال دیا تھا۔ ان سب تفصیلات سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خاصان خدا کے ذاتی واقعات بھی اور ذاتی لوازم بھی پیش خدا اتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کی یادگار قائم کرکے ان کو واجب کر دیاہے اور ان کو شعائر اللہ میں داخل کرکے  ان کی تعظیم کو فرض عین قرار دے دیا ہے۔ لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ خاصان خدا کے واقعات کی یادگار قائم کرنا خلاف منشائے الہی نہیں ہے بلکہ عین مرضی الہی  کے مطابق ہے غور تو کرو کہ ’’خلیل خدا‘‘ کے فرزند کے ’’ذبح ناتمام‘‘ کی یادگار خدا کو جب اتنی محبوب ہوئی کہ اس کو فرض کر دیا تو ’’حبیب خدا ‘‘ کے فرزند کے ’’ذبح عظیم‘‘ کی یادگار کیا مرضی الہی کے خلاف ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔اگر ہم بھی حضرات اہلسنت کی طرح رسول اللہؐ کے بعد  نئے نئے مسائل گڑھنے کے عادی ہوتے تو عزائے حسینؑ کی اہمیت اتنی تھی کہ اس کو ’’واجب عینی‘‘ کہہ دیتے۔ لیکن اس کو ’’نئی چیز‘‘ تسلیم کرنے کے بعد بھی کیا کوئی ہے جو مندرجہ بالا بیانات کی روشنی میں حسینؑ کی عزاداری کو مرضیٔ الہی کے مطابق نہ سمجھے؟ یقینا یہ ماننا پڑے گا کہ حسینؑ کی عزاداری خداوندعالم کی رضا کا باعث اور اس کی سنت جاریہ کے مطابق ہے جو اس نے  ہمیشہ سے جاری کر رکھی ہے:

’’وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّهِ تَبْدِيلاً‘‘[10]؛ (اور تم خدا کی سنت میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں پاؤگے)۔

حج کے سال بہ سال فرض ہونے سے اس اعتراض کی قلعی بھی کھل گئی جواکثر حضرات اہل سنت کرتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے کہ اتنے دنوں کے واقعہ کی اب بھی ہر سال یادگار منائی جائے۔یہ اعتراض تو پہلے حج کے ارکان پر کرنا چاہئے کہ کیا ضرورت ہے کہ ہزاروں برس پہلے کے واقعات کی اب بھی ہر سال یادگار قائم  رکھی جائے۔

جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ شیعہ ’’فصلی غم‘‘ مناتے ہیں وہ ابراہیمؑ و اسمعیلؑ کے واقعات کی یادگار کو اوقات کی خدائی زنجیر کا پابند دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔

اسی طرح اسمعیلؑ کے دنبہ کی یادگار میں ہر سال لاکھوں کروڑوں جانوروں کے ذبح ہونے، ان کے گلے پٹے ڈال کر مکہ کی طرف لے جانے اور  اس حالت میں ان کی تعظیم فرض ہونے سے یہ معلوم ہوگیا کہ حسینؑ کی سواری کی یادگار قائم کرنا اور اس گھوڑے کی تعظیم کرنا بھی منشائے الہی کے خلاف نہیں بلکہ یقینا مستحسن ہی ہے۔ خصوصا ایسی حالت میں کہ وہ جہاد میں کام آنے والا گھوڑا تھا اور وہ بھی ایسا گھوڑا جو تین دن بھوکا پیاسا رہ کر بھی حق وفاداری ادا کرتا رہا اور حسینؑ جیسے راکب دوش رسولؐ کی سواری میں رہا درحالیکہ جہاد میں کام آنے والے عام گھوڑوں کی عظمت خدا کی نگاہ میں اتنی ہے کہ وہ ان کی قسم کھاتا ہے چنانچہ ارشاد باری ہوتا ہے:’’وَ الْعادِياتِ ضَبْحاً۔ فَالْمُورِياتِ قَدْحاً۔ فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً۔ فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعاً۔ فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعاً‘‘[11]؛غازیوں کے سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم! جو نتھنوں سے فراٹے لیتے ہیں پھر پتھر پر ٹاپ مارکر چنگاریاں نکالتے ہیں پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں دوڑ دھوپ سے غبار بلند کر دیتے ہیں پھر اس وقت دشمن کے دل میں گھس جاتے ہیں۔

اسی طرح حضرت اسمعیلؑ کے لئے پانی کی طلب میں حضرت ہاجرہؑ کی جد و جہد اور سعی کی یادگار قائم کرنے سے یہ معلوم ہوگیا کہ اگر حسینؑ اور ان کے بچوں کی پیاس کی اور اس کے دور کرنے کے لئے پانی کی تلاش میں عباسؑ کی جد و جہد کی یادگار تازہ رکھی جائے اور مشک سکینہؑ علم کے ساتھ نکالی جائے اور علی اصغرؑ اور دوسرے پیاسوں کے نام پر دودھ یا پانی یا شربت پلایا جائے تو وہ مرضی الہی کے خلاف نہیں بلکہ سنت خداوندی کی متابعت ہے اور مستحسن ہے۔

حضرت موسیٰؑ کے صندوق کو متبرک قرار دینے سے یہ معلوم ہوگیا کہ اگر حبیب خداؐ کے نور نگاہ علی اصغرؑ کے جھولے کی یادگار قائم کی جائے تو یہ بھی مستحسن اور منشائے الہی کی متابعت ہے  اور’’وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّهِ تَحْوِيلاً‘‘[12]؛کے مطابق عین ثواب اور باعث ثواب ہے ۔ اسی طرح دوسرے تبرکات جو دوسرے بزرگوں کی طرف منسوب ہیں ان کا باعث رضائے الہی ہونا بھی معلوم ہوگیا۔

عزادری سنت ہے!

میری اب تک کی ساری تحریر اس فرض کی بنا پر تھی کہ اگر عزائے حسینؑ کو مع اس کے تمام لوازم کے یکسر نئی چیز یعنی بدعت مان لیا جائے جب بھی وہ جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن اور باعث ثواب ہے۔  

اب  میں اس حقیقت کا اظہار کردوں کہ عزاداری ہرگز نئی چیز نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔ ’’سنت‘‘ مان لینے پر آپ کے یہ سوالات وارد ہوتے ہیں کہ:

سوال نمبر۲: اور اگر سنت ہے تو فرمائیے کہ سنت رسولؐ ہے یا سنت آئمہؑ؟

جواب: بعض مراسم سنت رسول ہیں اور چند مراسم سنت آئمہؑ ہیں۔

سوال نمر ۳: اگر سنت رسولؐ ہے تو سنت قولی ہے یا فعلی؟۔

جواب: بعض چیزیں سنت قولی ہیں اور بعض سنت فعلی۔

سوال نمبر ۴: اگر سنت قولی ہے تو ثابت کیجئے کہ حضور ؐ نے اس سینہ کوبی، زنجیر زنی، ماتمی جلوس، سیاہ لباس، گھوڑا نکالتے کا حکم فرمایا؟۔

جواب: آپ نے اس فہرست مراسم عزا٫ کو اتنا محدود کیوں کر دیا؟ عزاداری میں تو تعزیہ،  مجلس، نوحہ، رونا وغیرہ بھی تمام چیزیں بھی شامل ہیں ا سکےعلاوہ خود غم حسینؑ منانا خواہ کتنے ہی محدود پیرایہ میں کیوں نہ ہو، آپ کے نزدیک حرام ہے جیسا کہ غزالی نے اس کی اصل وجہ بھی لکھ دی ہے کہ :

’’یحرم علی الواعظ ذکر مقتل الحسین فانه یهیج علی بغض الصحابة الطعن فیهم‘‘[13]؛ ’’واعظ پر حسینؑ کی شہادت کا ذکر حرام ہے کیونکہ اس سے صحابہ کے خلاف ہیجان پیدا ہوتا ہے اور ان کی برائی کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے‘‘۔ گویا صاف صاف اس امر کا اقرار اس فتویٰ میں موجود ہے کہ قتل حسینؑ کا لگاؤ کچھ ایسے صحابہ کے کرتوت سے تھا جن کو اہلسنت، رسول ؐ اور آل رسولؑ سے بھی بڑھ کر سمجھتے ہیں۔

بہرحال مراسم عزاداری میں سے اکثر چیزیں سنت قولی ہیں جن کی تفصیل عنقریب آرہی ہے۔

سوال نمبر۵: اگر سنت فعلی ہے تو کیا حضور علیہ السلام نے گذشتہ انبیا٫ علیہم السلام کی یاد میں  ایسا کیا؟

جواب: گذشتہ انبیا٫ کی مصیبتیں ہمارے پیغمبرؐ اور ان کے اہل بیت کی مصیبتوں کے مقابلہ میں کیا اہمیت رکھتی تھیں کہ ان کی یاد اس امت میں قائم کرنے کی ضرورت ہوتی؟ آپ شاید ابھی تک حضرت عمر کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں کہ وہ رسالتمآبؐ کے سامنے بھی توریت کے نسخے لاکر پڑھتے تھے۔ حالانکہ رسالتمآبؐ نے باوجود اپنے خلق عظیم کے ان کو بار بار اس پر جھڑکا اور ڈانٹا بھی تھا۔

جناب والا! رسالتمآب ؐ نے خود اپنے اقربا٫ کی یاد میں اکثر مراسم عزا٫ انجام دیئے ہیں اور ان اقربا٫ میں سب سے زیادہ اہمیت امام حسینؑ ہی کی ہے کہ قبل واقعہ کربلا اور قبل نزول مصیبت ہی آنحضرتؐ نے اس پر اظہار غم فرمایا ہے جیساکہ آپ کو عنقریب معلوم ہوگا اور آپ سمجھ لیں گے کہ ان مراسم عزاداری میں سے اکثر چیزیں سنت فعلی ہیں۔

سوال نمبر ۶: اگر سنت آئمہؑ ہے تو ثابت کیجئے کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے سرور کائناتؐ کی وفات کےبعد آپ کی یادگار میں بہیئت کذائیہ(موجودہ دور جیسا) تعزیہ بنایا اور ماتم کیا۔

جواب: حضرت علی علیہ السلام کو تعزیہ بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیونکہ تعزیہ تو قبر کی شبیہ ہے اور جس کے سامنے ہمیشہ اصل قبر موجود رہتی تھی اس کو شبیہ کی کیا ضرورت تھی؟ پھر آپ کی یہ شرط عجیب ہے کہ ’’بہیئت کذائیہ‘‘ تعزیہ بنایا کہ نہیں کیونکہ یہ معلوم ہے کہ تعزیہ روضہ کی شبیہ ہے اور جب اس وقت اصل قبر ہی پر گنبد نہ تھا تو اگر امیرالمومنینؑ  کبھی دوری کی وجہ سے تعزیہ بناتے بھی تو وہ گنبد دار عمارت کی شکل کا کیونکر ہوسکتا تھا اس لئے وہ یقینا موجودہ شکل کے تعزیوں سے مختلف ہوتا اور ہم عنقریب آپ کو بتائیں گے کہ خود امیرالمومنینؑ نے بھی قبر کی شبیہ بنائی ہے’’فانتظر‘‘۔

اب رہا ماتم تو آنحضرتؐ کی وفات کے بعد جو حزن و اندوہ آپ کے اہل بیت علیہم السلام کو تھا اس کا کچھ حال آپ کی تنقیحات کے مجمل جواب کے بعد عرض کروں گا۔

سوال نمبر۷: کیا سیدنا حسینؑ کی شہادت کے بعد کسی امامؑ نے ایسے اعمال کا ارتکاب کیا؟ اگر کیا ہے تو اپنی کتابوں سے اس کے ثبوت بہم پہچائیں اور ایک ایک حدیث کے مقابلہ میں ایک ایک سو انعام لیں۔ ورنہ اعلان کریں کہ موجودہ طرز پر عزاداری یقینا خلاف شرع اور بدعت ہے۔

جواب: جی ہاں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ائمہ(علیہم السلام)نے ہمیشہ اس مظلوم کی عزادری کو تازہ اور قائم رکھا اور آپ کے خلفا٫ بنی امیہ و بنی عباس کے دورِ سراسر جور میں جہاں تک ممکن ہوا اس غم کی اہمیت واضح فرماتے رہے لیکن یہ یاد رکھئےکہ اس دور میں ان حضرات ائمہ ؑ کا حال وہی تھا جو رسالت مآبؐ کا قبل ہجرت کفار مکہ کے درمیان تھا اور خوف کی شدت کا معیار برابر تھا اس لئے جس طرح مکہ کے قیام کے زمانہ میں علی الاعلان نماز پنجگانہ نہ ہونے سے اصل نماز کے مطلوب باری نہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اس جور اَنگیں زمانے میں علی الاعلان ماتمی جلوس نہ نکلنے سے اس کے خلاف شرع ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔

آپ نے ہمارے ائمہ کرامؑ کے طرز عمل کے متعلق بہت صفائی سے یہ لکھ دیا ہے کہ ہم اپنی کتابوں سے ان کے طرز عمل کا ثبوت بہم پہنچائیں۔ خیر کم از کم آپ نے یہ اقرارتو کر لیا کہ ان حضرات ائمہ اثنا عشر(جن کے معصوم اور واجب الاطاعت ہونے کے مدعی آپ بھی ہیں) سے آپ حضرات اہلسنت کا لگاؤ محض زبانی ہے اور یہ کہ جہاں تک ان کے فرمودات اور معمولات کا تعلق ہے اہل سنت کی کتابیں بالکل کوری ہے اور تمسک باالثقلین کا یہ دعویٰ محض بلا دلیل ہے۔

آپ نے ہاتھ کی دوسری صفائی یہ دکھائی کہ لکھا ہے کہ ’’ایک ایک حدیث کے مقابلہ میں ایک ایک سو انعام لیں‘‘ عقلمندی اسی میں تھی کہ ’’سو‘‘ کے بعد اس کی ’’تمیز‘‘ نہ لکھی جائے کہ آپ ایک ایک سو دعائیں دیں گے یا انعام میں ایک ایک سو شکریہ پیش کریں گے۔ تمیز کو غالب کر دینا اردو میں کیا کہلاتا ہے ؟

اب رہی آپ کی یہ بات کہ اگر ہم حدیثیں پیش کرسکیں تو اعلان کردیں کہ موجودہ طرز پر عزاداری یقینا خلاف شرع ہے اور بدعت ہے اس کا جواب میں نے سب سے پہلے دے دیا ہے کہ اگر باالفرض محال اس کو نئی چیز مان بھی لیں جب بھی عزاداری خلاف شرع اور حرام نہیں ہے بلکہ مستحسن اور رضائے الہی کا باعث اور موجب ثواب ہی ہے۔ آپ کا کیا ذکر ہے اگر آپ کے فرقے کے سارے علمائے روئے زمین مل کر اس کی تردید کرسکتے ہوں تو ؏

صلاح عام ہے یاران نکتۂ داں کے لئے

’’فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النّاسُ وَ الْحِجارَةُ‘‘[14]

آخر میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ‘‘[15]۔ اس لئے اب میں ان مراسم عزاداری کے لئے تفصیلی دلیلیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں؛

۱۔ حسینؑ کی عزاداری بحیثیت اجمالی!

الف: سنت رسولؐ عملی ہے

امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ایک طویل حدیث نقل کی ہے جو امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ سے مروی ہے کہ:

“قال: دخلت علی النبی صلعم ذات یوم و عیناه تفیضان قلت یا نبی اللَّه! أغضبک أحد؟ ما شأن عینیک تفیضان؟ قال: بل قام من عندی جبریل قبل فحدّثنی أنّ الحسین یقتل بشط الفرات. قال فقال(جبرئیل) هل لک الی ان اشمک من تربته قال قلت نعم فمدیدیه فقبض قبضة من تراب فاعطاینها فلم املک عینیّ ان فاضتا”.

(روایت اہل سنت ) حضرت  علیؑ نے فرمایا کہ میں ایک روز رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری  تھے، میں نے کہا کہ یا نبی اللہ کیا آپ کو کسی نے رنج پہنچایا ہے؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں جاری ہیں؟ رسولؐ نے فرمایا کہ بلکہ وجہ یہ ہے کہ جبرئیلؑ بھی میرے پاس سے اٹھے پس مجھ سے بیان کیا کہ حسینؑ ساحل فرات پر قتل کیا جائے گاپھر جبرئیلؑ نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو وہاں کی خاک سونگھاؤں؟ میں نے کہا کہ ہاں! پس جبرئیلؑ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور ایک مٹھی خاک اٹھاکر مجھے دی۔ پس مجھے اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رہ گیا اور بے ساختہ آنسو بہنے لگے۔

یہ روایت اہل سنت کے امام شعبی نے بھی بیان فرمائی ہے۔

 اس روایت میں دو باتیں قابل غور ہیں:

اولؔ: تو یہ کہ رسالت مآب ؐ نے قبل واقعۂ شہادت اس خبر کو سن کر اتنا گریہ فرمایا اور اکثر گریہ فرماتے تھے جیسا کہ اس کے علاوہ بھی بہتیری روایتیں فریقین شیعہ و سنی دونوں کی اس کو بتا رہی ہیں۔  اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر رسالتمآبؐ بعد واقعۂ شہادت زندہ ہوتے تو کتنا غم فرماتے اور یہیں سے حسینؑ پر غم منانے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔

دوسرےؔ یہ کہ رسولؐ کو حسینؑ سے جتنی محبت تھی وہ اظہر من الشمس ہے اور حسینؑ رسولؐ کی نگاہوں کے سامنے بھی موجود تھے۔ پھر بھی محض خبر شہادت سن کر رسولؐ نہیں روئے بلکہ جب جبرئیلؑ نے خاک کربلا آپ کو دی اس وقت آپ کا یہ حال ہوا ’’فلم املک عینی ان فاضتا‘‘(مجھے اپنی آنکھوں پر اختیار نہیں رہ گیا اور وہ بے ساختہ آنسو بہانے لگیں) تو جب رسولؐ کے جذبات کو بھی نقطہ بکا٫ پر پہنچانے کے لئے ایک غم پیدا کرنے والی نشانی کی ضرورت ہوئی جس کو دیکھ کر رسولؐ بے ساختہ رو پڑے۔ تو ہم لوگوں کے جذبات غم کو ہیجان میں لانے کے لئے تو بدرجۂ اولیٰ ایسی نشانیوں کی ضرورت ہے جن کو نگاہ کے سامنے رکھ کر ہم واقعات کربلا کا منظر یاد کرسکیں کیونکہ ہماری محبت حسینؑ یقینا رسولؐ کی محبت حسینؑ سے کم اور ہمارا زمانہ ان سے بہت دور ہوگیا ہے۔

قبل واقعۂ شہادت صرف دو چیزیں ایسی تھیں جن سے اس واقعہ کا تصور قائم ہوسکتا تھا ایک تو حسینؑ کی ذات دوسرے کربلا کی سرزمین اور رسولؐ نے ان دونوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے اس کا تصور فرمایا اور روئے لہذا ہم نے بھی ’’لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّهِ أُسْوَةٌ‘‘[16](تمہارے لئے رسولؐ کی ذات میں ایک قابل تقلید عمدہ نمونہ موجود ہے) کے مطابق اس سنت رسولؐ کی پیروی کرتے ہوئے واقعات کربلا کی تمام ممکن نشانیوں کو اپنی نگاہ کے سامنے رکھ کر ان واقعات کا تصور کرتے ہیں۔ اور ہمارا یہ فعل ’’وَ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ‘‘[17](جو کچھ  رسول تمہیں دیں اسے اختیار کرلو)کے مطابق عین مرضی الہی ہے۔ اس روایت سے جیساکہ میں نے عرض کیا تمام شبیہوں(تعزیہ، تابوت، علم، جھولا، مشک، طوق، زنجیر، کفن، ذوالجناح) کا جواز صاف صاف ظاہر ہورہاہے  کیونکہ یہ سب چیزیں جذبات غم کو ہیجان میں لانے میں معین اور مددگار ہوتی ہیں اور ان سے خاک کربلا کی طرح واقعات کربلا کا تصور پیدا ہوتا ہے۔

ب: سنت رسول قولی ہے!

صرف یہی نہیں کہ رسولؐ نے خود عمل فرمایا ہو اور امت کو اس کی تاکید نہ کی ہو، بلکہ ہماری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ؐ امت والوں سے بھی عزاداری حسین ؑ کے متمنی تھے۔

’’لما اخبر النَبی صلعم ابنته فاطمه بقتل ولدها الحسین و ما یجری علیه من المحن بکت فاطمه بکاءً شدیداً و قالت: یا ابه، متی یکون ذلک؟ قال: فی زمان خال منی و منک و من علی. فاشتدّ بکائها و قالت: یا ابه فمن یبکی علیه و من یلتزم باقامة العزاءِ له؟ فقال النبی: یافاطمه، ان النساء امتی یبکین علی نساء اهل بیتی، و رجالهم یبکون علی رجال اهل بیتی، و یجددون العزاء جیلاً بعد جیل فی کل سنة، فاذا کان یوم القیامةتشفعین انت للنساء و انا اشفع للرجال و کلْ من بکی منهم علی مصاب الحسین اخذنا بیده و ادخلناه الجنة‘‘[18]۔

(روایت شیعہ) جب رسولؐ نے فاطمہؑ کو حسینؑ کی شہادت کی خبر دی اور بتایا کہ ان پر کیا مصیبتیں پڑنے والی ہیں تو فاطمہؑ پر سخت گریہ طاری ہوا اور سوال کیا:باباجان! یہ واقعہ کب ہوگا؟ رسولؐ نے فرمایا: ایسے زمانہ میں جب نہ میں رہوں گا ،نہ تم رہوگی ،نہ علیؑ رہیں گے، پس فاطمہؑ اور زیادہ رونے لگیں اور پوچھا کہ بابا جان! تب میرے بچے پر کون روئے گا اور کون اس کی عزا٫ کے قائم کرنے کی پابندی کرے گا؟ پس نبیؐ نے کہا کہ اے فاطمہؑ! میری امت کی عورتیں میرے اہل بیتؑ کی عورتوں پر روئیں گی  اور ان کے مرد میرے اہل بیتؑ کے مردوں پر روئیں گے اور نسلا بعد نسل ہر سال و ہ لوگ اس عزا اور غم کو تازہ رکھیں گے پس جب قیامت کا دن آئے گا تو اے فاطمہؑ تم عورتوں کی شفاعت کروگی اور میں مردوں کی شفاعت کروں گا اور جو لوگ حسینؑ کی مصیبت پر روئیں گے ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کریں گے․․․ (تاآخر حدیث)[19]۔

ج: سنت آئمہ ہے

ائمہ علیہم السلام  نے عزائے حسینؑ قائم کرنے پر لوگوں کو آمادہ بھی کیا ہے اور خود بھی اس پر عامل رہے ہیں؛

’’عن ابی هارون المکفوف قال قال لی ابوعبدالله(ع) یا ابا هارون انشدنی فی الحسین(ع) فانشدته….‘‘[20]؛

 (روایت شیعہ) امام جعفر صادق ؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابوہارون! مجھے حسینؑ کا مرثیہ سناؤ، ابوہارون کا بیان ہے کہ میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مرثیہ پڑھا(روایت تفصیلی ہے یہاں صرف بقدر ضرورت یہاں درج کی گئی)[21]۔

بہرحال یہ بھی معلوم ہوگیا کہ امام ؑ نے خود فرمائش کی اور مرثیہ سنا۔ یہ امامؑ کا عمل بھی ہے اور قول بھی ہے، اس اجمالی جواز کے ثابت کرنے کے بعد اب میں علیحدہ علیحدہ متعلقات عزاداری کے متعلق احادیث پیش کرتا ہوں۔

۲۔ مرنے والے پر گریہ!

الف: سنت رسول عملی ہے۔

اُن روایتوں کو چھوڑئیے جن میں ابراہیم فرزند رسولؐ کی وفات پر یا زینب کے فرزند کی حالت نزع میں یا ام کلثوم کے دفن کے موقع پر یا سعدبن عبادہ کی بیماری میں رسالتمآبؐ کے گریہ کا ذکر ہے اور جن سے اہل سنت کی مشہور کتاب حدیث ’’مشکوۃ المصابیح، باب دفن المیت اور باب البکا٫ علی المیت‘‘ بھری پڑی ہے ۔ خود امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ذکر پر رسولؐ کے رونے کا تذکرہ اوپر مسند احمد بن حنبل والی روایت میں گذر چکا ہے ۔ اس کے علاوہ ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ کی حسب ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں:

’’عن أم الفضل بنت الحارث… فدخلت یوماً على رسول الله (ص) فوضعته فی حجره ثم کانت منی التفاتة فإذا عینا رسول الله(ص) تهریقان من الدموع. قالت: بأبی أنت و أمی یا رسول الله ما لك؟ قال: «أتانی جبرئیل علیه الصلاة و السلام فأخبرنی أن أمتی ستقتل ابنی هذا» فقلت: هذا! فقال: «نعم» و أتانی بتربة من تربته حمراء‘‘[22]

(روایت اہل سنت) رسول اللہؐ کی چچی (حضرت عباس کی زوجہ) ام الفضل کا بیان (ابتدائی واقعات کو چھوڑ کر) ہے کہ ایک دن میں رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور حسینؑ کو رسول ؐ کی گود میں رکھ دیا۔ پھر میری نظر ذرا دوسری طرف پڑی  اور اب دیکھتی  ہوں کہ رسول اللہؐ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہے میرے دریافت کرنے پر ارشاد فرمایا کہ جبرئیلؑ میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میری امت میرے اس فرزند کو قتل کرے گی میں نے پوچھا کہ اس فرزند کو ؟ تو کہا کہ ہاں ۔پھر مجھے وہاں کی سرخ خاک لاکر دی ۔

اس حدیث پر زیادہ تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے یہ خود اپنے مطلب کو وضاحت سے آشکار کر رہی ہے۔

ب: سنت رسولؐ قولی ہے

علاوہ  بریں رسولؐ نے تصریح فرمادی ہے کہ مرنے والے پر رونا عین رحمت و رقت قلب کی علامت ہے۔

’’وَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ عَلَى سَيْفٍ الفتن [الْقَيْنِ] وَ كَانَ ظِئْراً لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يُقَبِّلُهُ وَ يَضُمُّهُ إِلَى صَدْرِهِ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ وَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ فَجَعَلَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ تَذْرِفَانِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَ أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَبْكِي فَقَالَ يَا اِبْنَ عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمَةٌ ثُمَّ أَتْبَعَهَا بِأُخْرَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ اَلْعَيْنُ تَدْمَعُ وَ الْقَلْبُ يَحْزَنُ وَ لاَ نَقُولُ إِلاَّ مَا يَرْضَى رَبُّنَا وَ إِنَّا لِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ‘‘[23]۔

(روایت اہل سنت) ابراہیمؑ فرزند رسول ؐ کی وفات کے حالات کے سلسلے میں انس کا بیان ہے کہ ہم لوگ رسول اللہؐ کے ساتھ مکان میں داخل  ہوئے … اور ابراہیمؑ دم توڑ رہے تھے پس رسول ؐ کی دونوں آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے، عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ کیا رسول اللہؐ آپ بھی روتے ہیں؟ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابن عوف یہ تو رحمت ہے جس کے بعد گریہ بھی لاحق ہوتا ہے پھر ارشاد فرمایا کہ آنکھ روتی ہے، دل غمگین ہوتا ہے مگر ہم زبان سے خلاف مرضی الہی کچھ نہیں کہتے اور ہم اے ابراہیمؑ! تیری جدائی سے بیشک محزون اور غمگین ہیں۔

ج:سنت ائمہ ہے:

امام حسین ؑ کی شہادت سے پہلے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ کے گریہ کا حال سنئے۔

’’عن ابن عباس، قال: کنت مع امیرالمؤمنین (علیه‌السّلام) فی خروجه الی صفین، فلما نزل بنینوی وهو شط الفرات، قال باعلی صوته: یا بن عباس، اتعرف هذا الموضع؟ فقلت له: ما اعرفه، یا امیر المؤمنین. فقال علی (علیه‌السّلام): لو عرفته کمعرفتی لم تکن تجوزه حتی تبکی کبکائی. قال: فبکی طویلا حتی اخضلت لحیته وسالت الدموع علی صدره، وبکینا معا، وهو یقول: اوه اوه، مالی ولآل ابی سفیان، مالی ولآل حرب، حزب الشیطان، واولیاء الکفر، صبرا – یا ابا عبدالله – فقد لقی ابوک مثل الذی تلقی منهم‘‘[24]

(روایت شیعہ) ابن عباس کا بیان ہے کہ میں امیر المومنینؑ کے ساتھ تھا جب آپ جنگ صفین کے لئے جارہے تھے، جب نینوا میں پہونچے اورساحل فرات پر اترے تو بلند آواز سے پوچھا کہ ’’اے ابن عباس! تم اس جگہ کو پہچانتے ہو‘‘؟۔ میں نے عرض کی کہ ’’نہیں اے امیرالمومنینؑ‘‘ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم بھی اس کو میری طرح پہچانتے تو یہاں سے میری طرح بغیر روئے ہر گز نہ گذرتے۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ یہ کہہ کر بہت دیر تک روتے رہے کہ ریش مقدس تر ہوگئی اور آنسوسینے پر بہنے لگے اور ہم بھی ساتھ ساتھ روئے۔ اور امیر المومنینؑ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ آہ! آہ! مجھ سے اور آل ابوسفیان سے کیا لگاؤ۔ مجھ سے اور  آل حرب! گروہ شیطان  روستان کفار  سے کیا واسطہ! ۔ اے حسینؑ صبر کرنا جو صبر کا حق ہے کیونکہ تمہارے باپ کو بھی ان لوگوں سے وہ مصیبتیں پہنچ چکی ہیں جیسی کہ تم کو پہونچیں گی۔(تا آخر حدیث)۔

جناب سیدہؑ کا گریہ خبر شہادت سن کر اوپر گذر چکا ہے۔ اور اسی طرح دیگر آئمہؑ کا حال بھی یہاں بیان کیا جاسکتا ہے مگر بخوف طول ترک کرتا ہوں۔

ایک عجیب خیال!

حضرات اہل سنت کے ذہن میں ایک من گھڑت خیال بٹھا دیا گیا ہے کہ رونے سے مردے پر عذاب ہوتا ہے اس کے لئے حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک روایت بھی وضع فرمائی کہ؛

«ان المیت لیعذب ببکاء الحی علیه» میت کے اوپر زندوں کے رونے سے مردے پر عذاب ہوتا ہے ؛ اولا تو زندوں کے رونے سے بجائے روانے والوں کے مردے پر عذاب کا ہونا ہی عدل باری تعالیٰ کے منافی ہے اور آیات قرآنیہ ’’وَ لا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى‘‘[25](کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا)کے صریحی مخالف ہے۔

دوسرے یہ کہ حضرت عائشہ نے اس قول ابن عمر کی صریحی تردید فرمائی کہ رسالتمآبؐ نے یہ کہا ہی نہیں تھا چنانچہ حسب ذیل روایت ملاحظہ ہو:

’’عن عمرة بنت عبدالرحمن انها قالت سمعت عائشة و ذکر لها ان عبدالله بن عمر یقول ان المیت لیعذب ببکاء الحی علیه تقول یغفرالله لابی عبدالرحمن اما انه لم یکذب و لکنه نسی او لخطاء انما مرّ رسول الله صلی الله علیه و سلم علی یهودیة یبکی علیها فقال انهم لیبکون علیها و انها لتعذب فی قبرها متفق علیه‘‘ (مشکواة المصابیح، باب البکاء علی المیت).

(روایت اہل سنت) حضرت ابوبکر کی پوتی عمرہ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنی پھوپھی حضرت عائشہ کو کہتے ہوئے سنا اس وقت جبکہ ان سے کہا گیا کہ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ زندوں کے رونے سے مردے پر عذاب ہوتا ہے تو حضرت عائشہ نے کہا کہ خدا ان کی مغفرت کرے، انہوں نے عمدا جھوٹ نہیں کہا ہے لیکن وہ بھول گئے ہیں یا سمجھنے میں خطاکی ہے حقیقت صرف اتنی ہے کہ رسول اللہؐ ایک طرف سے گذرے جہاں لوگ ایک یہودن عورت پر رو رہے تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں حالانکہ قبر میں اس پر عذاب ہورہا ہے (یعنی کافر کے اوپر روانے سے اس کے عذاب میں کوئی کمی نہیں ہوتی) یہ روایت متفق علیہ ہے۔

ایسی ہی ایک اور روایت اس بات میں عبداللہ بن ابی ملیکہ سے مروی ہے جس میں آخر میں یہ ہے کہ حضرت عمر نے بھی اس روایت عذاب کا تذکرہ کیا تھا جب عبداللہ بن عباس نے اس کا ذکر حضرت عائشہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ:

“یرحم الله عمر لا والله ما حدث رسول الله ص ان المیت لیعذب ببکاء الحی علیه ولکن الله یزید الکافر عذابا ببکاء اهله علیه و قالت عائشة حسبکم القران و لا تزر وازة اخری”[26]

(روایت اہل سنت) خدا حضرت عمر پر رحم کرے ، قسم خدا کی ! رسول اللہؐ نے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ زندوں کے رونے سے مردے پر عذاب ہوتا ہے بلکہ یہ فرمایا تھا کہ خدا کافروں کے عذاب میں اضافہ کردیتا ہے جب زندہ لوگ اس پر روتے ہیں۔ پھر عائشہ نے فرمایا کہ تمہارے لئے تو قرآن کافی ہے یہ آیت یاد کرو کہ ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘۔

اب اس حققیت کے انکشاف کے بعد اگر ہم حضرت عمر اور حضرت عبداللہ بن عمر کی صحت روایت وثاقت اور دیانت کو معرض بحث میں دلائیں جب بھی یہ کہے بغیر تو نہیں رہ سکتے کہ ؏

سخن شناس نه دلبرا خطا اینجاست

حالانکہ رسالتمآبؐ نے کئی مرتبہ حضرت عمر کو رونے سے منع کرنے پر جھڑکا بھی تھا، مگر توبہ کیجئے ان کا خیال اور ان کی عادت رسولؐ کے منع کرنے کے باوجود نہ بدلی۔ مشکوہ کے اسی باب میں کئی روایتیں اس مضمون کی ہیں صرف ایک مختصر روایت ذکر کرتا ہوں:

«و عن ابی هریره قال مات میت من ال رسول الله ص فاجتمع النساء یبکین علیه فقام عمر ینههن و یطردهن فقال رسول الله ص دعهن یا عمر فان العین دامعة و القلب مصاب و العهد قریب رواه احمد والنسائی»[27].

(روایت اہل سنت) آل رسولؐ میں کسی کا انتقال ہوا، پس عورتیں جمع ہوکر اس پر رونے لگیں، عمر اٹھے اور ان کو منع کرنے اور بھگانے لگے پس رسولؐ نے فرمایا کہ اے عمر!ان کو چھوڑ دو کیونکہ آنکھ رو رہی ہے اور دل مصیبت زدہ ہے اور عہد قریب ہے۔ اس روایت کو امام احمد بن حنبل اور امام نسائی نے بیان کیا ہے۔

ان روایتوں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ گریہ کرنا سنت نبویؐ کے مطابق ہے اور اس سے روکنا سنت عمر ہے آپ کو اختیار ہے کہ رسول کی راہ ترک کرکے عمر کی سنت پر قائم ہو جائیں۔

۳۔ تعزیہ، ذوالجناح اور شبیہیں

الف: شرک کی تعین۔

ہم نہ تو تعزیہ کی عبادت کرتے ہیں نہ اس کی پرستش کا کوئی خیال آج تک کسی شیعہ کے دل میں آیا ہوگا، کیونکہ ہماری توحید اتنی مستحکم ہےکہ وہاں تک آپ جیسے نو مسلموں کو پیشوا سمجھنے والوں کے وہم کی بھی رسائی نہیں ہوسکتی کیونکہ آپ کے پیشواؤں نے اپنی نعلین کی بھی پرستش کی اجازت دی ہے جیساکہ امام ابوحنیفہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:«لو ان رجلا عبد هذه النعل یتقرب به الی الله تعالی لم ار بذلک باسا»[28]. اگر کوئی شخص اس جوتی کی عبادت تقرب خدا کی نیت سے کرے تو میرے نزدیک کوئی مضائقہ نہیں ہے(سبحان اللہ)۔

جبکہ ہمارے ائمہؑ نے نعلین جیسی گندی چیزوں کا کیا ذکر کہ رسول اللہؐ جیسی نور مجسم برگزیدہ ہستی کو بھی حدود الوہیت سے متصل سمجھنے کو منع کیا ہے اور ان کو عبدؔ ہی سمجھنے پر زور دیا ہے، بہرحال یہ معلوم ہوگیا کہ تعزیہ بت نہیں ہے۔

دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ یہ مجسمہ ہے اور مجسمہ بنانا حرام ہے حالانکہ ایسا اعتراض کرنے والے نہ اسلام سے واقف ہیں نہ ان کو اپنے مذہب کی خبر ہے اسلام کے کسی فرقے نے مطلقا مجسمہ یا تصویر بنانے کو حرام نہیں قرار دیا ہے بلکہ جاندار کا مجسمہ بنانے کو حرام قرار دیا گیا ہے، اب یہ کس سے پوچھوں کہ تعزیہ کس جاندار کا مجسمہ ہے؟ جناب والا! یہ تو ایک عمارت کی نقل یا شبیہ ہے اور عمارت کی نقل یا شبیہ بنانا کسی شریعت میں حرام نہیں ہے۔

اور اگر خدا نخواستہ یہ جاندار کی بھی شبیہ ہوتی جب بھی ہم شیعہ ہی اس کو روک سکتے اور ناجائز کہہ سکتے تھے۔ یہ روک ٹوک تو آپ کے منھ سے اس وقت بھی اچھی نہ لگتی کیونکہ آپ کے یہاں تو جاندار کی تصویر اور مجسمے کو بھی نہ صرف جائز قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ اس کو رسولؐ کے گھر میں پہنچا دیا گیاہے۔ (مشکوۃ المصابیح باب عشرۃ النسا٫، فصل اول کی یہ حدیث ملاحظہ ہو)۔

’’و عن عائشة قالت کنت العب بالبنات عند النبی ص و کان لی صواجب یلعبن فکان رسول الله ص اذا دخل ینقمعن منه فلیسربهن الی فیلعبن معی‘‘۔( متفق علیه).

(روایت اہل سنت)عائشہ کا بیان ہے کہ میں رسالت مآبؐ کے گھر آنے کے بعد گڑیاں کھیلا کرتی تھی اور میری چند سہلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلتی تھیں اور رسالت مآبؐ جب داخل ہوتے تھے تو میری سہلیاں چھپ جایا کرتی تھیں پس رسولؐ ان کو میرے پاس بھیج دئیے تھے اور پھر وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتی تھیں(یہ روایت متفق علیہ ہے)۔

یہ روایت جمع بین الصحیحین اور جامع الاصول میں  بھی درج ہے جناب محدث دہلوی اس کی شرح میں رقم طراز ہیں کہ ’’در تصویرات بنات رخصتی است‘‘(یعنی گڑیوں کے متعلق اجازت ہے)۔

نعلین کی عبادت کرنے والوں اور گڑیوں کے مجسموں کو جائز قرار دینےوالوں کے منہ سے ایک بے ضرر سی عمارت کی شکل کے ناجائز ہونے کا ذکر سن کر بے ساختہ اس سادگی پر مرجانے کو جی چاہتا ہے۔

عقلا اور شرعا تعزیہ اور دوسری شبیہوں کے جواز کا حال تو معلوم ہوچکا اب استحباب اور سنت کا حال سنئے۔

ب: سنت رسول عملی ہے

مسند احمد بن حنبل والی روایت جو سب سے پہلے گذری ہے اس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اللہؐ نے خاک کربلا اپنے سامنے رکھی اور روئے اس سے تبرکات عزاداری کا اجمالا جواز ثابت ہوتا ہے:

«عن اُمّ سلمه… فَشَمَّها رَسولُ اللّهِ ص  فقالَ : ریحَ کَربٍ وبَلاءٍ ! قالَ لِام سَلَمة، إذا تَحَوَّلَت هذِهِ التُّربَهُ دَما فَاعلَمی أنَّ ابنی قَد قُتِلَ  فَجَعَلَتها اُمُّ سَلَمَهَ فی قارورَهٍ ،جَعَلَت تَنظُرُ إلَیها کُلَّ یَومٍ، وتَقولُ: إنَّ یَوما تُحَوِّلینَ دَما لَیَومٌ عَظیمٌ  وَ رُوِیَ اِنَّ السَّماءَ مکثت سَبعةَ ایامٍ بلیالیهنّ لَمّا قُتِلَ کانّها علقة»[29]

(روایت اہل سنت) ام سلمہ اس خاک کے آنے کا تذکرہ کرنے کے بعد کہتی ہیں پس رسولؐ نے اسے سونگھا تو فرمایا کہ تکلیف اور بلا کی بو آرہی ہے، پھر ام سلمہ سے ارشاد فرمایا کہ اے ام سلمہ! جب یہ خاک خون ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میرا فرزند شہید ہوگیا۔ پس ام سلمہ نے اسے ایک شیشی میں رکھ دیا اور روزانہ اس کو دیکھا کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ جس روز تو خون ہوجائے گی بیشک بڑی مصیبت کا دن ہوگا اور مروی ہے کہ جب حسینؑ شہید ہوئے تو آسمان سات رات دن ایسا رہا کہ جیسے خون کا لوتھڑا ہو۔

عزاداری کے لئے قبل واقعہ شہادت خاک کربلا ہی مل سکتی تھی اور اس کو رسولؐ کے گھر میں بحفاظت رکھا گیا، اس لئے آج جبکہ ہمیں اس واقعہ کی تفصیلات کا علم کامل طریقے سے ہے تو ہم ہر تفصیل کے لئے الگ الگ یادگار قائم کرتے ہیں۔ یہ تو عین سنت رسولؐ ہے۔

ج: سنت رسولؐ قولی ہے۔

لیکن اگر آپ کو اس پر اصرار ہو کہ قبر کی شبیہ بنانے کا جواز اس سے صاف صاف نہیں معلوم ہوتا اور قبر کی شبیہ بنانا جائز نہیں ہوگا تو حسب ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں۔

«ان رجلا من الاصحاب جاء النبی ص فقال یا رسول الله انی حلفت ان اقبل عتبه باب الجنة و الحور العین فامره النبی ص ان یقبل رجل الام وجیهة الاب و روی انه قال یا رسول الله ان لم یکن ابوان فقال قبل قبرهما فقال ان لم اعلم قبرهما قال خط خطین فاحدهما قبر الام و الاخر قبر الاب فقبلهما و لا تحنث فی یمینک»

(روایت اہل سنت) ایک صحابی رسول اللہؐ کے پاس آئے اور عرض کی کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ جنت کے دروازہ کی چوکھٹ اور حور عین کو بوسہ دوں گا رسول اللہؐ نے حکم دیا کہ ماں کے پاؤں اور باپ کی پیشانی کو چوم لو۔ مروی ہے کہ صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللہؐ اگر ماں باپ نہ ہوں؟ تو ارشاد فرمایا کہ ان کی قبروں کو بوسہ دو۔ صحابی نے کہا کہ اگر مجھے ان کی قبر بھی نہ معلوم ہوں؟ تو فرمایا کہ دو نشان کھینچو اور ایک کو ماں کی قبر اور دوسرے کو باپ کی قبر فرض کرکے دونوں کو چومو اور اپنی قسم میں جھوٹے نہ بنو۔

یہ روایت  امام شعبی کی کتاب کفایہ میں ہے۔

اس کے علاوہ حسب ذیل کتابوں میں بھی  اس کا تذکرہ ہے۔

۱۔ کنزالعباد (۲) خزانۃ الروایات (۴) مطالب المومنین (۵) فتاوائے عالمگیری۔

اس روایت سے قبر کی شبیہوں کے چومنے کا جواز بھی ثابت ہو رہا ہے ۔  فالحمد لله علی ذلک.

د: سنت آئمہؑ  ہے!

اب حسب وعدہ یہ بھی بتاتا چلوں کہ امیرالمومنینؑ نے بھی قبر کی شبیہ بنائی ہے اور ہم اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ تو معلوم ہے کہ جناب سیدہؑ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے ناراض تھیں اور وصیت کی تھی کہ وہ لوگ آپ کے جنازے پر نہ آنے پائیں اور اسی طرح امیرالمومنینؑ نے آپ کو رات میں دفن کیا اور چونکہ یہ شبہ تھا(جیسا کہ بعد کو ثابت بھی ہوگیا) کہ شاید شیخین قبر کھود کر پھر سے نماز پڑھنا چاہیں، اس لئے آپ نے سات فرضی قبریں بنادیں ۔ یہ روایتیں ملاحظہ ہوں:

’’ أصبغ بن نباتةأنّه سئل أمير المؤمنين عليه السلام عن دفنها ليلا، فقال: إنّها كانت ساخطة على قوم كرهت حضورهم جنازتها… و قالوا سوی حوالیها قبورا مزوّرة مقدار سبعة حتی لا یعرف قبرها و روی انه رشّ اربعین قبرا حتی لا یبین قبرها من غیره من القبور فیصلوا علیها‘‘[30]

اصبغ بن نباتہ نے امیرالمومنینؑ سے سیدہؑ کو شب کے وقت دفن کرنے کی مصلحت پوچھی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ سیدہؑ ایک گروہ سے ناراض تھیں اور ان لوگوں کا جنازہ پر آنا ناپسند تھا  … اور لوگوں نے بیان کیا کیاکہ امیرالمومنینؑ نے قبر جناب سیدہؑ کے گرد سات فرضی قبر بنادیں تاکہ اصل قبر کا پتہ نہ چلے اور ایک روایت میں آیا ہے کہ چالیس قبروں پر پانی چھڑک دیا تاکہ اصل قبر ظاہر نہ ہوسکے(تا آخر حدیث)۔

اسی وجہ سے اس میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ جناب سیدہؑ کہاں پر دفن ہیں، مناقب ابن شہر آشوب اور بحارالانوار (حوالۂ مذکور) میں ہے کہ:

’’و مشهدها بالبقیع و قالوا انها دفنت فی بیتها و قالوا قبرها بین قبر رسول الله و منبرها‘‘؛ جناب سیدہؑ کی قبر بقیع میں ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں دفن کی گئیں اور کچھ کہتے ہیں کہ قبر رسولؐ اور منبر رسولؐ کے درمیان میں دفن ہوئیں۔

بہرحال یہ ثابت ہوگیا کہ قبر کی شبیہں حضرت علی علیہ السلام نے بھی بنائی ہیں۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ امیرالمومنینؑ نے دوسری مصلحت سے قبریں بنائی تھیں اور ہم دوسری مصلحت سے بناتے ہیں اس لئے پیروی کہاں ہوئی کیونکہ اصل مقصود یہ دکھانا ہے کہ اگر قبر کی شبیہیں بنانا بذات خود ناجائز ہوتا تو علیؑ کیوں بناتے جب یہ فعل جائز ہوا اور امامؑ نے اس پر عمل بھی کیا تو اب سنت امامؑ ہونے میں کیا شک رہا۔ تعزیہ کے جواز کے بعد اب علم ، مشک، جھولا وغیرہ کے جواز کے لئے الگ سے دلیل پیش کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے کہ کیونکہ زیادہ ہدف اعتراض تو تعزیہ ہی کو بنایاجاتا ہے اس لئے کہ شبیہ قبر ہے اور یہ چیزیں تو قبر کی شبیہ بھی نہیں ہیں۔

’’ذوالجناح‘‘ نکالنے کا جواز بھی یوں ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہ تو ہماری تخلیق ہے کہ جاندار کا مجمسہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوجائے نہ کوئی اس کی پرستش کرتا ہے کہ اس کو بت کہا جاسکے۔ البتہ اگر کوئی شخص گھوڑے کا مجسمہ بنائے تو یقینا حرام ہے اگر کوئی شخص کی پرستش کرے تو یقینا یہ فعل ناجائز ہے لیکن جب ایسی کوئی صورت نہیں ہے تو وہ محض ایک شبیہہ ہے امام حسین علیہ السلام کے گھوڑے کی اور اس شبیہہ میں کوئی حرمت کا پہلو کہیں سے نہیں دکھایا جاسکتا بلکہ یقینا یہ ایک مستحسن اور قابل ثواب فعل ہے کیونکہ عزائے حسینؑ برپا کرنے میں اس سے مدد ملتی ہے۔ اور سنیوں کی مشہور کتاب ’’حسن التوسل فی آداب زیارۃ افضل الرسولؐ‘‘ میں ہے کہ فعل مستحب میں جس چیز سے مدد ملے وہ بھی مستحب ہے ’’والامر الذی هو وسیلۃ للمندوب‘‘ [31] ۔

لہذا عزاداری میں معین ہونے کی وجہ سے ذوالجناح بھی مستحب ہے۔

۴۔ مجلس

الف: سنت رسولؐ عملی ہے۔

 چنانچہ جب رسالتمآبؐ نے جنگ احد سے واپسی کے بعد تمام گھروں سے رونے کی آواز بلند ہوتی ہوئی سنی مگر سید الشہدا٫ حضرت حمزہؑ کے گھر سے رونے کی آواز نہیں آئی تو آپ نے فرمایا ’’ولکن حمزة لا بواکی له‘‘ (مگر حمزہؑ کے لئے رونے والی عورتیں نہیں ہیں؟)۔

سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر اور دوسرے انصار نے یہ سنا تو فورا اپنے اپنے گھروں میں گئے اور عورتوں سے کہا کہ پہلے حمزہؑ کے گھر جاکر گریہ کرو اس کے بعد اپنے گھر آکر اپنے شہیدوں کو روؤ۔ انصار کی عورتیں مغرب اور عشا٫ کے درمیان میں حضرت حمزہؑ کے گھر گئیں اور اس وقت سے نصف شب تک گریہ کرتی رہیں۔ اسی اثنا میں رسالت مآبؐ خواب سے بیدار ہوئے اور پوچھا کہ یہ کیسی آواز ہے حقیقت حال معلوم ہونے پر آپ نے ان کو دعائے خیر دی کہ ’’رضی الله عنکن و عن اولادکن و عن اولاد اولادکن‘‘؛ (خدا تم سے راضی ہو، تمہاری اولاد سے راضی ہو اور تمہاری اولاد کی اولاد سے راضی ہو)۔ یہ واقعہ تمام تاریخوں میں مرقوم ہے پھر بھی حوالہ کے لئے روضۃ الصفا جلد دوم(واقعات بعد جنگ احد) اور  مدارج النبوۃ ، اور معارج النبوۃ ملاحظہ ہوں۔

اس واقعہ میں چند مختلف خاندانوں کی عورتیں ایک ایسے شہید پر ایک جگہ جمع ہوکر گریہ کر رہی تھیں جن سے ان کا کوئی نسبی رشتہ نہیں تھا۔

اور یہ اجتماع اور گریہ مرضی رسولؐ کے مطابق تھا اور آپ ہی کی خواہش سے تھا۔ مجلس اسی گریہ کے لئے مختلف لوگوں کے اجتماع کا نام ہے۔ غورطلب امر یہ ہے کہ جب حضرت حمزہؑ کے لئے رسولؐ نے یہ اہتمام فرمایا تو اگر آپ بعد واقعۂ کربلا زندہ ہوتے تو کتنا اہتمام فرماتے، عاشقان رسولؐ اس پر غور فرمائیں اور مرضی رسولؐ کے مطابق مجلس حسینؑ کا اہتمام فرمائیں۔

ب: سنت رسول قولی ہے۔

حضرت رسالتمآبؐ کے حسرت آمیز جملہ ’’ ولکن حمزة لا بواکی له‘‘ اور اس کے بعد آپ کی دعائے خیر سے یہ معلوم ہوا کہ یہ رسولؐ کی سنت قولی بھی ہے۔

ج: سنت آئمہؑ ہے۔

اس  ضمن میں تو بہترے واقعات لکھے جاسکتے ہیں لیکن میں صرف دو تین روایتوں پر اکتفا کرتا ہوں قبل شہادت تو بہتری مجلسیں امام حسین علیہ السلام کے لئے انبیا٫ علیہم السلام نے برپا کی ہیں لیکن بعد شہادت سب سے پہلی مجلس جس کا ذکر تمام تاریخوں میں ملتا ہے وہ ہے جب یزید نے یہ محسوس کیا کہ اہل شام قتل حسینؑ اور اسیری اہل بیتؑ کی وجہ سے برگشتہ ہوتے جارہے ہیں تو سب کو جامع مسجد میں بلایا اور پہلے اس کے خطیب نے سید الشہداؑ اور ان کے آبا٫ و اجداد کی خود ساختہ برائیاں بیان کیں جب وہ کہہ چکا تو امام زین العابدینؑ نے یزید سے اجازت لے کر منبرکو مشرف فرمایا اور بعد حمد و صلوۃ اپنا تعارف شروع کیا اور اپنے فضائل بیان کرنے کے بعد اپنی مصیبتوں کا تذکرہ شروع فرمایا اس وقت کا عالم لکھا ہوا ہے کہ ’’فضج اهل الشام بالبکاء‘‘ اہل شام چیخ چیخ کر رونے لگے۔اس کے بعد کے واقعات طول کے خوف سے ترک کرتا ہوں۔ بہرحال ہماری آج کل کی ذاکری کا ڈھنگ امام حسینؑ کے ذاکر اول (امام زین العابدینؑ) کے طریقہ سے ماخوذ ہے کہ ہم پہلے فضائل اہل بیتؑ بیان کرتے ہیں اس کےبعد مصائب کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اہل سنت کے امام اوزاعی نے کتاب الاحمر میں امام کے اس پورے خطبے کو نقل کیا ہے ہم بخوف طول اسے ترک کرتے ہیں۔ بہرحال لہوف، احتجاج طبرسی، بحارالانوار، جلد عاشر(باب الوقایع المتاخرۃ عن قتلہ)، مناقب ابن شہر آشوب اور بے شمار کتابوں میں یہ خطبہ مل سکتا ہے۔

دوسری مجلس اس وقت منعقد ہوئی جب یزید نے اہل بیتؑ کو رہا کرکے  پوچھا کہ آپ لوگ مدینہ جانا چاہتے ہیں یا یہیں قیام پسند ہے؟

«قالوا نحب اولا ان ننوح علی الحسین(علیه السلام) قال افعلوا ما بدالکم ثم اخلیت لهن الحجر و البیوت فی دمشق و لم تبقها هاشمیة و لا قرشیة الا و لبست السواد علی الحسین و ندبوه علی ما فقد سبعة ایام»[32]۔

اہل بیتؑ  نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پہلے حسینؑ پر نوحہ کر لیں۔ یزید نے کہا کہ آپ لوگوں کو اختیار ہے پھر اہل بیتؑ کے لئے دمشق میں کئی مکانات خالی کردئیے گئے اور کوئی ہاشمیہ اور قرشیہ عورت ایسی نہ تھی جس نے حسینؑ کے غم میں سیاہ لباس نہ پہنا ہو اور سات دن تک اہل بیتؑ حسینؑ کا غم مناتے رہے۔

تیسری مجلس واپسی مدینہ کے وقت منعقد ہوئی جبکہ بیرون مدینہ ساری خلقت اہل بیتؑ کے خیموں کے پاس سمٹ آئی، اس وقت امام زین العابدینؑ ایک رومال سے آنسو پوچھتے ہوئے نکلے ۔ خادم نے ایک کرسی رکھ دی ، لوگوں میں شور گریہ و بکا٫ ایسا بلند ہوا کہ کبھی گوش فلک نے نہ سنا ہوگا۔ اس وقت امام ؑ نے اشارہ کرکے سب کو خاموش کیا اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے مصائب اور ان کی شدت اور اہمیت بیان فرمائی۔ اس مجلس میں بھی ذاکرامام علیہ السلام تھے اور انہیں مجلسوں کے عنوان کے مطابق ہم منبر یا کرسی ذاکر کے لئے رکھتے ہیں۔ یہ واقعہ اور امامؑ کی پوری مجلس جناب سید ابن طاوؤس علیہ الرحمۃ نے لہوف میں لکھی ہے۔ اب طول ہوتا جارہا ہے ورنہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام رضا علیہ السلام نے جو باقاعدہ مجلسیں کی ہیں جن میں مرثیے پڑھے گئے ہیں اور عورتیں پس پردہ آکر بیٹھی ہیں اور مجلس میں شریک ہوئی ہیں سب کو بیان کرتا۔ اگر در خانہ کسی است یک حرف بس است(گھرمیں کوئی ہوتا ہے تو ایک حرف بھی کافی ہے)۔

۵۔ نوحہ و مرثیہ!

الف: سنت رسول عملی ہے۔

ابن مسعود صحابی سے مروی ہے کہ جب رسالتمآبؐ حضرت حمزہ کی لاش پر پہنچے اور ان کو مثلہ کیا ہوا پایا تو  آپ پر ایسا گریہ طاری ہوا کہ اس طرح کبھی نہیں روئے تھے اور بلند آواز سے یہ نوحہ فرماتے تھے یہاں تک کہ بے ہوش ہوگئے:

’’یا حمزة یا عم رسول الله، یا اسد الله و اسد رسوله یا حمزة یا فاعل الخیرات یا حمزة یا کاشف الکربات یا حمزة یا ذاب عن وجه رسول الله‘‘؛

“اے حمزہ، اے رسول اللہؐ کے چچا،  اے خدا  کے شیر،  اے رسولؐ کے شیر،  اے حمزہ اے نیکیوں کے بجالانے والے،  اے حمزہ،  اے مصیبتوں کو دور کرنے والے۔  اے حمزہ،  اے رسول ؐ سے کرب و مصیبت کے ہٹانے والے”۔

یہ واقعہ تمام تاریخوں میں مندرج ہے اس لئے کسی خاص حوالہ کی ضرورت نہیں۔

ب: سنت ائمہ عملی ہے

امام  زین العابدین علیہ السلام کے نوحے اور مرثیہ مشہور ہیں۔ کچھ اشعار یہ ہیں جو امام زین العابدین علیہ السلام کی زبان پر اس وقت جاری تھے جب آپ کو کوفہ میں داخل کیا گیا اس وقت آپ رو رو کر ان اشعار کو پڑھ رہے تھے

یا امة السوء لاسقیا لربعکم          یا امة لم تراعی جدنا فینا

لو اننا و رسول الله یجمعنا           یوم القیمة ما کنتم تقولونا

تسرونا علی الاقتاب عاریة                  کاننا لم نشید فیکم و دینا

ا لیس جدی رسول الله ویلکم                اهدی البریة من سبل المضلینا

یا وقعة الطف قد اورثتنی حزنا             و الله یهتک استار المسیئینا[33]

ج: سنت اہل بیت ہے

جناب زینبؑ اور جناب ام کلثومؑ کے متعدد نوحے مشہور ہیں اور دو دو شعر ہر معظمہ کے نقل کررہا  ہوں۔

جناب زینبؑ (کوفہ کے بازار میں امام کے سر پر پتھر لگنے کےبعد)

یا هِلالاً لَمّا استتم کمالا             غالَهُ خَسفُهُ فَأَبَدا غُروبا

ما تَوَهَّمتُ یا شَقیقَ فُؤادی           کانَ هذا مُقَدَّراً مَکتوبا[34]

جناب ام کلثومؑ (مدینہ میں واپس آتے وقت)

    مَدینَهَ جَدِّنا لاتَقْبَلینا               فَبِالْحَسَراتِ وَالاْحْزانِ جِیْنا

اَفاطِمُ لَوْ نَظَرْتِ اِلَى السَّبایا         بَناتُکِ فِى الْبِلادِ مُشَتَّتینا[35]

د: سنت ائمہ قولی ہے

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے ابن قولویہ علیہ الرحمہ کی سند سے امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ فرمان نقل فرمایا ہے کہ’’كُلُّ الْجَزَعِ وَ الْبُكَاءِ مَكْرُوهٌ سِوَى الْجَزَعِ وَ الْبُكَاءِ عَلَى الْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ‘‘[36]

(روایت شیعہ) ہر جزع و فزع اورہر رونا مکروہ ہے سوائے حسینؑ کی مصیبت پر جزع و فزع اور رونے کے(کہ اس میں ثواب ہے)۔

اسی قسم کی ایک اور روایت کامل الزیارۃ میں بھی دوسرے اسناد کے ساتھ مروی ہے[37]۔

۶۔ ماتم اور ماتمی جلوس

الف: ماتم کے متعلق  حدیثیں پیش کرنے کے قبل میں ایک واقعہ کا ذکر کردینا ضروری سجھتا ہوں، متوکل باللہ خلیفہ اہل سنت جس کے فضائل ایسے ہیں کہ اکثر اہل سنت اس کو خلفائے راشدین کا درجہ دیتے ہیں اور جس نے بدعت کو مٹانے میں اتنا غلو برتا کہ امام حسین علیہ السلام کے مزار انور کو بالکل برباد کردینے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔ ایسا عظیم الشان خلیفہ امام احمدبن حنبل جیسے جلیل الشان امام اہل سنت کی وفات پر یہ انتظام کرتا ہے کہ؛

“ان المتوکل امر ان یقام الموضع الذی وقف فیه الناس للصلوة علی الامام احمد فبلغ مقام الفی الف و خمس مائة الف و وقع الماتم فی اربعة اصناف فی المسلمین و الیهود و النصاری و المجوس”[38] (حیوة الحیوان، دمیری).

متوکل نے حکم دیا کہ جس جگہ پر امام احمد بن حنبل کی نماز جنازہ پڑھی گئی تھی وہاں ماتم کیا جائے، یہاں تک کہ پچیس لاکھ آدمیوں نے جس میں مسلمان، یہودی، عیسائی، مجوسی سبھی شامل تھے۔ وہاں پر ماتم کیا۔

ظاہر ہے کہ وہ خلیفہ جس کو محی السنۃ (سنتوں کو زندہ کرنے والا) کہا جاتا ہے جب اس طرح ماتم کا اہتمام کرے تو اب کون ہے جو ماتم کو بدعت کہہ سکے۔ علاوہ برایں اس کے جائز اور سنت ہونے پر حسب ذیل حدیثیں دلالت کرتی ہیں۔

ب:ماتم سنت امام عملی ہے۔

جب اہل بیتؑ شام سے رہا ہوکر واپسی میں کربلا پہونچے ہیں اور وہاں پر جناب جابر بن عبداللہ انصاری بزرگ صحابی رسولؐ اور کچھ دوسرے بنی ہاشم کو پایا، اس وقت کا حال جناب سید بن طاوؤس علیہ الرحمۃ لہوف میں لکھتے ہیں:

’’فوافوا في وقت واحد، و تلاقوا بالبكاء و الحزن و اللطم، و أقاموا الماتم المقرحة للأكباد، و اجتمع إليهم نساء ذلك السواد، و أقاموا على ذلك أيّاما‘‘[39]

پس وہ سب ایک ہی وقت میں پہنچے اور ملے تو روئے اور منھ پر طمانچہ لگائے اور ایسا ماتم برپا کیا جو دلوں کو زخمی کردینے والا تھا اور ان کے ساتھ اس نواح کی عورتیں بھی آکر شامل ہوگئیں اور اسی حال پر یہ حضرات کئی دن رہے۔

یہاں سے یہ صاف معلوم ہورہا ہے کہ تمام اہل بیتؑ اور بنی ہاشمؑ اور جابر صحابی رسول ؐ اور اس نواح کی مسلم عورتیں سب کی سب ماتم میں مشغول ہوئیں ، روئیں پیٹیں، منھ  پر طمانچے مارے ، ماتم کیا۔ اور یہ عمل کئی دن جاری رہا ۔ اس میں کہیں امام زین العابدینؑ کا استثنا٫ نہیں ہے اس لئے ماننا پڑے گا کہ آپ بھی اظہار غم کے ان طریقوں میں شریک تھے، اس لئے یہ امام کی سنت عملی ہے۔

ج: سنت امام تقریری ہے۔

تقریر، اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ امام یا نبی کے سامنے کوئی شخص کوئی کام کرے اور امام یا نبیؐ باوجود قدرت اور اختیار کے اسے منع نہ کرے۔ انبیا٫ یا ائمہ کی ’’تقریر‘‘ بھی حجت ہے کوئی شخص اگر کربلا کے ماتم کو امام سنت عملی نہ مانے اور کہے کہ اس میں امام کے ماتم کرنے کا تو تذکرہ نہیں ہے جب بھی امام کے سامنے کئی دن تک ان لوگوں نے ماتم کیا اور منہ پر طمانچہ لگائے جو امام کے ہرحال میں تابع فرمان تھے اور امام نے ان کو منع نہیں کیا اس سے ثابت ہوا کہ حسینؑ کے غم میں ماتم کرنا منہ پر طمانچہ لگانا اور جزع و فزع نہ صرف جائز بلکہ سنت امام ہے۔

د: سنت اہل بیتؑ ہے۔

ماتم کا سنت اہل بیتؑ ہونا تو گذشتہ روایت سے ثابت ہی ہو چکا مزید ایک روایت بقدر ضرورت اور سن لیجئے

“عن مصقلة الطحان قال سمعت اباعبدالله یقول لما قتل الحسین اقامت امرءاته الکلیة علیه ماتما الحدیث”[40] (روایت شیعه) امام جعفرصادق علیه السلام نے فرمایا کہ امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد جناب رباب (زوجہ امام حسین علیہ السلام) نے آپ پر ماتم کیا۔

(نوٹ) جناب رباب کے سوگ اور غم کا تذکرہ ہر تاریخ اور ہر سیرت میں ہے۔

ہ: عمل اہل مدینہ ہے۔

اہل مدینہ کا عمل اہل سنت کے امام مالک کے نزدیک حجت اور واجب العمل ہے، اب ماتم حسینؑ کے سلسلے میں اہل مدینہ کا عمل جو امام اہل سنت کے نزدیک واجب الاطاعۃ ہے، ملاحظہ ہو۔ جب اہل بیتؑ کا قافلہ واپس آکر مدینہ کے باہر رکا اور بشیر بن جذلم نے ان حضرات کے آنے کی خبر اہل مدینہ کو دی اس وقت:

«فَمَا بَقِیتْ فِی الْمَدِینَةِ مُخَدَّرَةٌ وَ لاَ مُحَجَّبَةٌ إِلاَّ بَرَزْنَ مِنْ خُدُورِهِنَّ مَکشُوفَةً شُعُورُهُنَّ مُخَمَّشَةً وُجُوهُهُنَّ ضَارِبَاتٍ خُدُودُهُنَّ یدْعُونَ بِالْوَیلِ وَ الثُّبُورِ فَلَمْ أَرَ بَاکیاً أَکثَرَ مِنْ ذَلِک الْیوْمِ وَ لاَ یوْماً أَمَرَّ عَلَی الْمُسْلِمِینَ مِنْهُ»[41]

پس مدینہ میں کوئی پردہ نشین نہ رہی جو اپنے پردہ سے اس عالم میں نہ نکل پڑی ہو کہ بال بکھرے ہوئے تھے، چہرے طمانچے مارنے سے زخمی تھے، رخساروں کو پیٹتی ہوئی نالہ و فریاد کرتی ہوئی جارہی تھیں۔ پس میں نے اس دن سے زیادہ گریہ و بکا٫ اور رونے والوں کا مجمع کبھی نہیں دیکھا۔

 ظاہر ہے کہ ان تصریحات کے بعد ماتم حسینؑ کے استحباب میں کس کو شبہ ہوسکتا ہے، مدینہ کے لوگ کس طرح ایک عظیم الشان جلوس کی شکل میں امامؑ کے پاس پہنچے اس کا حال سنیئے!

«فَتَرَكُوني مَكاني وَ بادَرو، فَضَرَبْتُ فَرَسي حَتّي رَجَعْتُ الَيْهِمْ، فَوَجَدْتُ النّاسِ قَدْ اءَخَذُوا الطُّرُقَ وَالْمَواضِعَ، فَنَزَلْتُ عَنْ فَرَسي وَ تَخَطَّيْتُ رِقابَ النّاسِ»[42]

بشیر کا بیان ہے کہ ابھی مدینہ ہی میں تھا کہ اہل مدینہ مجھ سے پہلے اہل بیتؑ کے پاس پہنچے پس میں نے گھوڑے کو موڑا اور وہاں پہنچا تو لوگوں کو دیکھا کہ تمام راستوں اور جگہوں میں لوگ بھرے ہوئے ہیں کثرت ہجوم ایسی تھی کہ میں گھوڑے سے اتر پڑا اور لوگوں کی گردنوں پر پیر رکھتا ہوا اہل بیتؑ کے پاس واپس آیا۔

اسی سے ماتمی جلوس کی شکل پیدا ہوتی ہے لیکن ہمار ماتمی جلوس در اصل اہل مدینہ کے اس اجتماع کی یادگار نہیں ہے بلکہ اہل بیتؑ کے اس لٹے ہوئے قافلہ کی یادگار ہے جو کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک گلیوں کوچوں میں پھرایا گیا اور جس طرح اہل بیتؑ نالاں اور گریاں راستوں سے گذرتے تھے اسی طرح ہم بھی روتے پیٹتے راستوں سے گذرے ہیں۔

۷۔ ترک زینت، سوگ اور بال بکھرانا وغیرہ۔

الف: سنت رسولؐ عملی ہے۔

امام حسینؑ کے غم میں بال بکھرانا اور مصیبت زدوں کی شکل بنانا سنت رسولؐ عملی ہے قبل اس کے کہ اس سلسلہ میں کوئی روایت پیش کروں ’’مشکوۃ المصابیح باب الرؤیا‘‘ سے یہ روایت نقل کر دینا ضروری ہے۔

“عن ابی هریرة ان رسول الله صلی الله علیه و سلم قال من رأنی فی المنام فقد رأنی فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی(متفق علیه)”

(روایت اهل سنت) رسالتمآبؐ نے فرمایا کہ جو مجھے خواب میں دیکھے اس نے درحقیقت مجھی کو دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا ۔ یہ روایت متفق علیہ ہے۔

اس مضمون کی کئی روایتیں متفق علیہ  ابوقتادہ  انصاری اور ابوہریرہ سے اسی باب میں منقول ہے اور شیعوں کا عقیدہ بھی یہی ہے اب یہ روایت ملاحظہ فرمائیں کہ ابن عباس کا بیان ہے کہ میں ایک روز اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ ام سلمہ زوجۂ رسولؐ کے گھر سے رونے  پیٹنے کی آواز سن کر جاگ پڑا۔ ابن عباس ام سلمہ کے گھر کی طرف بڑھے اور تمام اہل مدینہ بھی دوڑے آرہے تھے وہاں پہنچ کر انہوں نے پوچھا کہ اے ام المومنین! آپ کیوں اس طرح رو چلا رہی ہیں؟ ام سلمہ نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ ہاشمی عورتوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ:

«يَا بَنَاتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَسْعِدْنَنِي وَ ابْكِينَ مَعِي، فَقَدْ وَ اللَّهِ قُتِلَ سَيِّدُكُنَّ وَ سَيِّدُ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَدْ وَ اللَّهِ قُتِلَ سِبْطُ رَسُولِ اللَّهِ وَ رَيْحَانَتُهُ الْحُسَيْنُ. فَقِيلَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، وَ مِنْ أَيْنَ عَلِمْتِ ذَلِكِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) فِي‏ الْمَنَامِ‏ السَّاعَةَ شَعِثاً مَذْعُوراً، فَسَأَلْتُهُ عَنْ شَأْنِهِ ذَلِكَ، فَقَالَ: قُتِلَ ابْنِيَ الْحُسَيْنُ وَ أَهْلُ بَيْتِهِ الْيَوْمَ فَدَفَنْتُهُمْ، وَ السَّاعَةَ فَرَغْتُ مِنْ دَفْنِهِمْ. قَالَتْ: فَقُمْتُ حَتَّى دَخَلْتُ الْبَيْتَ وَ أَنَا لَا أَكَادُ أَنْ أَعْقِلَ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا بِتُرْبَةِ الْحُسَيْنِ الَّتِي أَتَى بِهَا جَبْرَئِيلُ … (الی ان قالت)… فَرَأَيْتُ الْقَارُورَةَ الْآنَ وَ قَدْ صَارَتْ دَماً عَبِيطاً تَفُورُ. قَالَ: وَ أَخَذَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ ذَلِكَ الدَّمِ فَلَطَخَتْ بِهِ وَجْهَهَا، وَ جَعَلَتْ ذَلِكَ الْيَوْمَ مَأْتَماً وَ مَنَاحَةً عَلَى الْحُسَيْنِ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، فَجَاءَتِ الرُّكْبَانُ بِخَبَرِهِ، وَ أَنَّهُ قَدْ قُتِلَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ»[43]

(روایت شیعہ) اے بنات عبدالمطلب! میری مدد کرو اور میرے ساتھ مل کر روؤ کیونکہ قسم خدا کی! تمہارا سردار اور جوانان  جنت کا سردار شہید ہوگیا۔ رسول ؐ کا نواسہ اور ان کا پھول حسینؑ قتل کردیاگیا۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ میں نے پوچھاکہ اے ام المومنین! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ ام سلمہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہؐ کو ابھی ابھی خواب میں دیکھا کہ آپ ژولیدہ مو اور پریشان ہیں۔ میرے دریافت کرنے پرارشاد فرمایاکہ میرا فرزند حسینؑ اور اس کے اہل بیتؑ آج قتل کردئیے گئے۔ پس میں نے ان کو دفن کیا اور ابھی ان کے دفن سے فارغ ہوا ہوں۔ جناب ام سلمہ کا بیان ہے کہ پس میں اٹھی اور گھر میں داخل ہوئی اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ ناگاہ میں نے اس خاک کربلا کو دیکھا جس کو جبرئیلؑ لائے تھے (اس کے بعد اس کے آنے کا پورا واقعہ ذکر کیا) بس میں نے اب جو شیشی کو دیکھا تو وہ خون تازہ بن کر جوش مار ہی ہے۔ابن عباس کا بیان ہے کہ پھر ام سلمہ نے اس خون میں سے لیکر اپنے چہرہ پر مل لیا اور اس دن کو یوم ماتم بنایا اور حسینؑ پر نوحہ کرنے کا دن قرار دیا اس کے بعد خبر رساں سوار اس خبر کو لیکر آئے اور یہ معلوم ہوا کہ حسینؑ اسی روز شہید کئے گئے تھے۔

اس مضمون کی روایتیں شیعہ و سنی دونوں فرقوں کی کتابوں میں بے شمار ہیں چنانچہ اس مٹی کے خون ہوجانے کا تذکرہ مشکوۃ کے حاشیہ سے تعزیہ کے سلسلہ میں نقل کرچکا ہوں اور مشکوۃ باب مناقب اہل بیتؑ میں سلمیٰ سے ام سلمہ کے اس خواب کی روایت بہ اختصار صحیح ترمذی کے حوالہ سے نقل کی ہے۔ ماتم حسینؑ کے غم میں رسولؐ نے بال پریشان کئے تھے اور ژولیدہ مو تھے اور اگر ہم یا ہماری عورتیں سوگ منا دیں اور غم زدوں کی شکل بنائیں تو یہ عین سنت رسولؐ کی پابندی ہے نہ کہ بدعت ۔

ب: سنت اہل بیتؑ ہے

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہےکہ:

’’مَا اِمْتَشَطَتْ فِينَا هَاشِمِيَّةٌ وَ لاَ اِخْتَضَبَتْ حَتَّى بَعَثَ إِلَيْنَا الْمُخْتَارُ بِرُءُوسِ الَّذِينَ قَتَلُوا الْحُسَيْنَ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) ‘‘

(روایت شیعہ) کسی ہاشمی عورت نے نہ تو بالوں میں کنگھی کی نہ خضاب لگایا یہاں کہ مختار نے قاتلان حسینؑ کے سر ہمارے پاس بھیجے۔

۸: سیاہ لباس

الف: سنت فاطمہؑ ہے۔

علامہ ابواسحقؑ اسفرائینی(مشہور عالم اہل سنت) نے اپنی کتاب نورالعین فی مشہد الحسینؑ، مطبوعہ قاہرہ سنہ 1366ہ میں ص60 پر جناب سکینہؑ کا خواب لکھا ہے اس میں جناب سکینہؑ نے رسول اللہؐ کو جس عالم میں دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ:

«وإذا برجل قد اقل وهو متغير اللون وله نور ساطع وهو مغتم يميل كالمراة الثكلي قابض على لحيته باكيا حزينا فقلت للغلام من هذا الرجل الذي هو متلبس بالاحزان ؟ ققال الا تعرفيه ؟ فقلت لا فقال هذا جدك»

(روایت اہل سنت) ناگاہ میں نے ایک بزرگ کو دیکھا جو اس عالم میں آگے بڑھے کہ چہرے کا رنگ متغیر تھا او رنور ساطع ہو رہا تھا اور وہ فرط رنج و غم سے گرے پڑتے تھے جیسے پسرمردہ عورت کا حال ہوتا ہے اور اپنی ریش مبارک ہاتھ میں لئے ہوئے تھے رو رہے تھے اور محزون تھے میں نے غلام سے پوچھا کہ یہ بزرگ جو غم و اندوہ کا لباس پہنے ہوئے ہیں کون ہیں؟ اس نے پوچھا کہ تم انہیں نہیں پہچانتی ہو؟ میں نے کہا نہیں تو اس نے بتایا کہ یہ تمہارے دادا رسول خدا ؐ ہیں۔

اور جناب سیدہؑ کو جس عالم میں دیکھا ہے وہ یہ ہےکہ:

«و بینهنّ امرأة عظیمة الخلقة ناشرة شعرها و علیها ثیاب سود و بیدها قمیص مضمّخ بالدم»

اور ان عورتوں (مریمؑ و آسیہؑ وغیرہ) کے درمیان ایک بزرگ معظمہ ہیں جو سر کے بال بکھرائے ہوئے ہیں، سیاہ لباس پہنے ہیں اور ان کے ساتھ ایک قمیص ہے جو خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔

 اس سے صاف ظاہر ہے کہ رسالت مآبؐ بھی ماتمی لباس میں تھے اور جناب سیدہؑ بھی بال بکھرائے ہوئے سیاہ لباس پہنے ہوئے تھیں۔

ب: سنت تقریری منجانب امام ہے۔

دمشق میں سات دن رہ کر اہل بیتؑ کے مجلس و ماتم کا حال اوپر گذر چکا ہے اس کا یہ جملہ پھر یاد دلانا ہے کہ:

’’و لم تبقها هاشمیة و لا قرشیة الا و لبست السواد علی الحسین علیہ السلام‘‘[44]

(روایت شیعہ) اور کوئی ہاشمی یا قریشی عورت ایسی نہیں تھی جس نے حسینؑ کے غم میں سیاہ لباس نہ پہنا ہو۔

۹۔ عزاخانہ

الف: سنت امام عملی ہے۔

سب سے پہلا عزاخانہ جو اہل بیتؑ لے لئے بنا وہ  بیت الاحزان تھا جسے امیرالمومنینؑ نے جناب سیدہؑ کے لئے بنایا تھا جناب سیدہؑ اپنے پدر بزرگوار کے لئے دن رات رویا کرتی تھیں۔ اہل مدینہ نے امیرالمومنینؑ سے یہ کہا کہ سیدہؑ سے کہئے کہ یا دن کو روئیں یا رات کو روئیں۔ جناب سیدہؑ نے کہا کہ میں اب تھوڑے ہی دن ان کے درمیان رہوں گی اور بہت جلد رخصت ہوجاؤں گی ۔ پس قسم خدا کی نہ میں دن کو خاموش رہ سکتی ہوں نہ رات کو رونا موقوف کرسکتی ہوں۔ امیرالمومنینؑ نے ارشاد فرمایا کہ آپ اپنی مرضی کے مطابق روئیں۔ البتہ اہل مدینہ کے آرام کے لحاظ سے آپ نے یہ تدبیر کی کہ :

’’إِنَّهُ بَنَى لَهَا بَيْتاً فِي الْبَقِيعِ نَازِحاً عَنِ الْمَدِينَةِ يُسَمَّى بَيْتَ الْأَحْزَانِ وَ كَانَتْ إِذَا أَصْبَحَتْ قَدَّمَتِ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ أَمَامَهَا وَ خَرَجَتْ إِلَى الْبَقِيعِ بَاكِيَةً فَلاَ تَزَالُ بَيْنَ الْقُبُورِ بَاكِيَةً فَإِذَا جَاءَ اللَّيْلُ أَقْبَلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلَيْهَا وَ سَاقَهَا بَيْنَ يَدَيْهِ إِلَى مَنْزِلِهَا‘‘[45]

(روایت شیعہ) حضرت علیؑ نے جناب سیدہؑ کے لئے بقیع میں مدینہ کے کنارے ایک گھر بنا دیا جس کا نام بیت الاحزان (غم کا گھر) پڑ گیا جب صبح ہوتی تھی تو جناب سیدہؑ ، حضرات امام حسنینؑ کی رہنمائی میں بقیع کی طرف روتی ہوئی چلی جاتی تھیں اور اس قبرستان میں بیٹھ کر روتی رہتی تھیں جب رات ہوتی تھی تو امیرالمومنینؑ آپ کے پاس جاتے تھے اور آپ کو ساتھ لے کر گھر پلٹتے تھے۔ تاآخر حدیث۔

یہ واقعہ اہل سنت کی کتابوں اور تاریخوں میں بھی ہے۔

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ عزاخانہ بنوانا سنت علویؑ ہے۔

۱۰ ۔ اکھاڑہ، ڈھول، زنجیری ماتم۔

یہاں تک تو ان چیزوں کا ذکر تھا جو شیعوں میں بالاتفاق جائز اور مستحب ہیں۔  اب یہ تین چیزیں جن کا ذکر اس دسویں نمبر میں کررہا ہوں یعنی اکھاڑہ، ڈھول اور زنجیری ماتم ان کے متعلق علمائے شیعہ میں باہم اختلاف ہے کہ یہ چیزیں جو جلوس عزا کے ساتھ ہوتی ہیں عزا کے لئے موزوں ہیں یا نہیں اور یہ شریعت کے کس حکم کے تحت میں آتی ہیں۔ مگر خواہ ہم انہیں جلوس کے لئے موزوں سمجھیں خواہ نہ سمجھیں لیکن اہل سنت کی حدیثوں کے لحاظ سے تو ان کے سنت رسولؐ ہونے میں شک کیا ہی نہیں جاسکتا ۔ اس لئے علمائے اہل سنت اور ارکان تنظیم اہل سنت تو اس مسئلہ میں لب کشائی کی جرأت کر رہی نہیں سکتے۔ ملاحظہ ہو:

الف: اکھاڑا دیکھنا سنت رسولؐ  ہے۔

یہ روایت جس کو ترمذی نے حسن اور صحیح لکھا ہے ملاحظہ ہو؛

’’عن عَائِشَةَ قالت كان رسول اللَّهِ صلي الله عليه وآله جَالِسًا فَسَمِعْنَا لَغَطًا وَ صَوْتَ صِبْيانٍ فَقَامَ رسول اللَّهِ صلي الله عليه و آله  فإذا حَبَشِيةٌ تَزْفِنُ وَالصِّبْيانُ حَوْلَهَا فقال يا عَائِشَةُ تَعَالَي فَانْظُرِي فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ لَحْيي على مَنْكِبِ رسول اللَّهِ صلي الله عليه و آله  فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيهَا ما بين الْمَنْكِبِ إلى رَأْسِهِ فقال لي أَمَا شَبِعْتِ أَمَا شَبِعْتِ قالت فَجَعَلْتُ أَقُولُ لَا لِأَنْظُرَ مَنْزِلَتِي عِنْدَهُ‘‘(الحدیث)[46]

(روایت اہل سنت)عائشہ کا بیان ہے کہ رسولؐ ایک روز بیٹھے ہوئے تھے پس ہم نے شور وغل اور بچوں کی آوازیں سنیں۔ پس رسول اللہؐ ایک روز بیٹھے ہوئے تھے پس ہم نے شور و غل اور بچوں کی آوازیں سنیں ۔ پس رسول اللہؐ اٹھے تو کیا دیکھا کہ ایک حبشہ ناچ رہی ہے اور بچے اس کے گرد اکٹھے ہیں پس رسول ؐ نے فرمایا کہ : ’’اے عائشہ آ اور دیکھ‘‘ پس میں آئی ۔

(روایت اہل سنت) بریدہ کا بیان ہے کہ رسول ؐ ایک غزوہ میں تشریف لے گئے جب آپ پلٹے تو ایک حبشی لونڈی آئی اور عرض کی کہ یا رسول اللہؐ!میں نے نذر کی تھی کہ اگر  خدا آپ کو صحیح و سالم واپس لائے گا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گاؤں گی پس رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تو نے نذر کی ہے تو دف بجا ورنہ نہیں پس وہ دف بجانے لگی(تا آخر حدیث)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسالت مآب ؐ کے سامنے دف بجایا گیا اور آپ نے سنا تو اب سنت قولی ہونے میں کیا شبہ ہے!۔

ج: زنجیری ماتم بھی مستحسن ہے۔

حضرات اہل سنت نے ایک ایسا اصول حدیث میں پا لیا ہے جس کے بعد ان کو زنجیری ماتم کا کیا ذکر ہے، مسلمانوں کے کسی فرقہ کے کسی کام پر اعتراض کا حق نہیں رہ جاتا ہے ۔ یہ روایت ملاحظہ ہو جو مشہور صحابی ابن مسعود سے مروی ہے کہ رسالت مآب ؐ نے فرمایا کہ:ما  راٰہ المسلمون حسنا فھو عنداللہ حسن[47]۔

جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ وہ خدا کے نزدیک بھی اچھی ہے اسی حدیث کی پناہ ڈھونڈی جاتی ہے اس وقت جب خلفائے کرام کی ایجاد کردہ بدعتوں پر اعتراض وارد ہوتا ہے اور اسی حدیث کا سہارا لیا جاتا ہے اس وقت جب اجماع سقیفہ کے جائز ہونے میں رد و قدح کی جاتی ہے۔ آخر زنجیری ماتم بلکہ جتنی بھی افراط و تفریط مراسم عزاداری میں داخل ہو گئی ہو (وہ سب کی سب) مسلمانوں کے ایک طبقہ کو اچھی معلوم ہوتی ہے لہذا یقینا امام حاکم کی پیش کردہ حدیث کی بنا پر خدا کے نزدیک اچھی اور مستحسن ہے تنظیم اہل سنت کے ارکان چیخا چلایاکریں خدا کے نزدیک تو یہ سب قابل ثواب ہی ہوگا۔

کہیں یہ مت کہہ دیجئے گا کہ صرف ایک فرقے کے پسند کرنے سے کیا ہوتا ہے جب تک تمام مسلمین کا اتفاق نہ ہو جائے اس وقت تک یہ حدیث صادق نہیں آئے گی کیونکہ ایسا کہنے سے سقیفہ کا اجماع اور تمام خلافتیں ھباءمنثورا ہو جائیں گی جن کی دلیل میں یہ حدیث پیش کی جاتی ہے الحمد للہ کہ یہ ثابت ہو گیا کہ نہ صرف سائل کی پیش کردہ چیزیں بلکہ تمام مراسم عزاداری عین سنت ہیں اور ہر ایک کی تشریح ہو چکی کہ کون سا طریقہ کس کی سنت ہے۔

اگر’’حضرت علامہ مولانا دوست محمد صاحب قریشی‘‘ میں کچھ بھی غیرت ہوگی تو یہاں حسب الاعلان جتنی حدیثیں پیش کی گئی ہیں اتنے ہی سو روپئے میرے بجائے ادارۂ’’رضاکار‘‘ اور انجمن وظیفہ سادات و مومنین‘‘ کو پیش کر دیں گے۔ مگر وہ مرد ہی کیا جس کو غیرت آتی ہو۔

عزاداری فریضہ ہے ؟

جب یہ ثابت ہو چکا کہ عزاداری کے مراسم سنت نبوی اور سنت ائمہ ہیں تو اب فقیر دوست محمد قریشی کے خلجان میں اضافہ کی غرض سے ان کے سوال کے اس واحد کی طرف توجہ کرتا ہوں جس کو ابھی تک ملتوی رکھا تھا یعنی یہ سوال کہ سوال نمبر۲: اگر فرض ہے تو آیت بمع رکوع و سورہ تحریر فرمائیے۔

 جی ہاں! بعض حالات میں عزاداری فرض ہے اور وہ یوں کہ ہر مستحب امر کی نذر شرعاً کی جا سکتی ہے اور اس کا عہد بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ہر اسلامی فرقہ کا عقیدہ اور مذہب ہے اس لئے اگر عزاداری کے کسی بھی مستحب رسم کی جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے کوئی شخص نذر کرے یا عہد کر لے تو اس کا پورا کرنا اس کے اوپر فرض ہو جائے گا اور اس کے لئے حسب ذیل دو آیتیں کافی ہیں:

(۱) «وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولاً»[48] اور عہد کو پورا کرو بے شک عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔

(۲) «يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا»[49] یہ لوگ نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کا شر اور خوف عام ہوگا۔

ان آیتوں کے علاوہ حسب ذیل آیتیں ملاحظہ فرمائی جائیں:

(۱) سورہ بقرہ رکوع ۳۶ آیت ۲۷، (۲) سورہ بقرہ رکوع ۵ آیت ۴۰، (۳) سورہ انعام رکوع ۱۹ آیت ۱۵۳، (۴) سورہ نحل رکوع ۱۳ آیت ۹۱، (۵) سورہ حج رکوع ۴ آیت ۲۹۔

میں نے اس مضمون میں حتی الامکان اختصار کی کوشش کی ہے ۔ احدایث کے انبار میں سے ایک مضمون کی صرف ایک ہی حدیث منتخب کی ہے لیکن اس کے باوجود مضمون طویل ہو گیا ہے اگرچہ امید ہے کہ یہ طول قارئین کے لئے باعث ملال نہ ہوگا میری یہ ساری محنت سوارت ہو جائے اگر سائل کے دل میں اس سے نور ایمان پیدا ہو جائے۔« اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ»۔

 و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

نوٹ:

اس تحریر میں تفصیل مطالب اور تفصیلی حوالہ جات سے پرہیز کیا گیا ہے۔ اصل مطالب کے لئے علامہ رضوی کی کتاب “کربلا شناسی” کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کی فائل ادارہ کی ویب سائٹ (www.allamahrizvi.com )پر بھی موجود ہے۔

[1]  www.allamahrizvi.com

[2] ابراہیم، 26۔

[3]  حج، 36۔

[4] بقرہ، 158۔

[5] بقرہ، 125۔

[6] آل عمران، 97۔

[7] بقرہ، 248۔

[8] حج، 32۔

[9] مائدہ، ۲۔

[10] احزاب، 62۔

[11] عادیات، ۱۔۵۔

[12] فاطر، 43۔

[13] امام غزالی حسب نقل علامہ ابن حجر در صواعق محرقہ۔

[14] بقرہ، 24۔

[15] بقرہ، 111۔

[16] احزاب، ۲۱۔

[17] حشر،7۔

[18] محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص292 ، ح3۔

[19] اس حدیث کے آخر میں پیغمبر ﷺ نے فرمایا ہے کہ: یا فاطمه، کل عین باکیة یوم القیامة، الا عین بکت علی مصائب الحسین فاّنها ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة؛ اے فاطمہؑ قیامت کے دن ہر آنکھ گریہ کرے گی سوائے اس آنکھ کے جو حسینؑ کے مصائب پر گریہ کرے، وہ آنکھ اس دن جنت کی بشارت سے شادماں ہوگی۔

[20] محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص292 ، ح3۔

[21]  مذکورہ کامل روایت کا ادامہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ: قال فقال لی انشدنی کما ینشدون یعنی بالرقه قال فانشدته هذا الشعر امرر علی جدث الحسین (ع)…. فقل لاعظمه الزکیه قال فبکی ثم قال زدنی فانشدته القصیده الاخری قال فبکی و سمعت البکاء من خلف الستر قال فلما فرغت قال یا ابا هارون من انشد فی الحسین(ع ) شعرا فبکی و ابکی عشره کتب لهم الجنه و من انشد فی الحسین(ع) شعرا فبکی و ابکی خمسه کتب له الجنه و من انشد فی الحسین(ع) شعرا فبکی و ابکی واحدا کتب لهم الجنه و من ذکر الحسین(ع) عنده فخرج من عینیه مقدار جناح ذبابه کان ثوابه علی الله عز و جل و لم یرض له بدون الجنه؛

امام  صادقؑ نے مرثیہ سن کر فرمایاکہ ویسے پڑھو جیسے تم اپنے لئے پڑھتے ہو یعنی آپ کی مراد رقت اور سوز کے ساتھ تھی۔ میں نے ویسے ہی پڑھا: تیرا گذر جب حسینؑ کے جسد اطہر پر ہو تو آپ کی پاکیزہ ہڈیوں سے کہو کہ : اے پاکیزہ ہڈیوں ، ہمیشہ گھنے اور زرخیز بادلوں کی بارش سے سیراب رہو۔

ابو ہارون کہتاہےکہ امام صادقؑ نے اس وقت گریہ فرمایا اور اس کے بعد کہا کہ اور زیادہ پڑھو، میں نے آپ کی خدمت میں دوسرا مرثیہ پڑھا ، آپ نے پھر گریہ فرمایا ، اس وقت میں نے پردہ کے پیچھے سے بھی (خواتین) کے گریہ کی آواز سنی۔ جب میں مرثیہ پڑھ چکا تو امام صادقؑ نے فرمایا: اے ابوہارون جو شخص بھی حسینؑ کے سوگ میں مرثیہ پڑھے، روئے اور دوسرے کو رلائے اس پر جنت واجب ہے۔ اور جو بھی حسینؑ کے سوگ میں صرف ایک شعر پڑھے ، روئے اورلوگوں کو رلائے پھر بھی جنت ان کے لئے واجب ہوجاتی ہے اور جو شخص حسینؑ کے سوگ میں ایک شعر پڑھے ، روئے اور صرف ایک ہی فرد کو رلائے تب کو ان دونوں کے لئے جنت واجب ہے۔

جس شخص کے سامنے حسینؑ کا ذکر ہو اور اس کی آنکھ سے مکھی کے پر کے برابر بھی آنسوں آجائے تو اس کی نیکی کا ثواب خدا کے ہاتھ میں اور خداوندمتعال جنت سے کم اس کو ثواب نہیں دے گا۔

[22] مشکوۃ المصابیح ، باب مناقب اہل بیتؑ۔  نیز حاکم نیشاپوری،  المستدرک علی الصحیحین ، ج3،ص194،  ح 4818 / 416۔

[23] مشکوۃ المصابیح، باب البکا٫ علی المیت۔مسکّن الفؤاد عند فقد الأحبة و الأولاد  ,  ج۱  ,  ص۱۰۱۔

[24] بحار الانوار، ج۱۰، باب ما اخبر الرسول و امیرالمومنین و الحسین بشہادتہ۔

[25] انعام، 164؛ اسرا٫، 15؛ فاطر، 18؛ زمر، 7۔

[26]  مشکوۃ المصابیح، باب مذکور۔

[27] مشکوۃ المصابیح، باب مذکور۔

[28] تاریخ بغداد خطیب بحواله قاضی ابوالیمن حسب نقل استقصاء الافحام، ج2، ص221.

[29] حاشیه مشکوة المصابیح، مطبوعه مطبع فاروقی، دهلی، ص524.

[30]  بحارالانوار، ج۱۰، باب کیفیۃ معاشرتھا۔  ابن شہر آشوب، المناقب، ج۳، ص 132۔

[31]  حسن التوسل فی آداب زیارۃ افضل الرسولﷺ، مطبوعہ مصر، ص۹۰۔

[32] تہذیب، بحار الانوار، ج۱۰ باب مذکور۔

[33]  اے امت بد! بارش تمہارے گھروں پر نہ برسے۔ اے امت! تو نے ہمارے جد امجدﷺ کا احترام باقی نہ رکھا۔ جب قیامت کے دن ہم کو رسول اللہﷺ کے ساتھ جمع کیاجائے گا تو تم لوگ کیاجواب دوگے۔ ہم لوگوں کو تم نے برہنہ پشت والے اونٹوں پر ادھر ادھر گمایا کیا ہم نے درمیان درمیان دین کو محکم نہیں کیا۔ وائے ہو تم پر کیاہمارے جد رسول اللہﷺ نے دنیا کے لوگوں کو گمراہی سے نکال کر ہدایت تک نہیں پہونچایا۔ اے واقعۂ کربلا تونے ہمیں غمگین کردیا، خداوندبدکاروں کی حرمت کو پامال کرے۔

[34] الإرشاد، ج2، ص117؛ بحارالأنوار، ج45، ص58-179، باب39؛ لهوف، ص190؛ کامل الزیارات، ص260-261، باب88؛ ناسخ التواریخ، ص303؛ اے شب اول کے چاند! ابھی تیری روشنی بھی کامل نہیں ہوئی کہ گہن نے  اسے ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔ اےمیرے دل  کے ٹکڑے ! میں نے گمان بھی نہیں کیا تھا کہ  ہمارا ایسا مقدر ہوگا۔

[35] بحارالانوار، ج ۴۵، ص ۱۹۷؛ اےہمارے  نانا کے مدینہ! ہمارے آنے کو قبول نہ کرنا اس لئے کہ ہم غم و حسرت کے ساتھ تیری طرف آئے ہیں۔ اے ماں فاطمہؑ ! اگر آپ نے اسیر کرکے شہر بہ شہر گمائی گئی اپنی بیٹیوں کو دیکھا ہوتا قیامت تک آپ نالہ و فریاد فرماتی۔

[36] محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، جلد۴۴ ,  ص۲۸۰  ۔ بحوالہ الامالی (طوسی)، ج۱، ص161۔

[37] عوالم العلوم، ج۲۰، ص671۔

[38] حیوۃ الحیوان علامہ دمیری۔ ذکر خلافت متوکل۔ تہذیب الاسما٫، علامہ نوری۔

[39] عوالم العلوم، ج۱۷، ص446۔ 

[40] کافی بحارالانوار ، ج10، باب مذکور.

[41] اللهوف ابن طاووس، ص۱۷۴. بحارالانوار.

[42] مذکور۔

[43] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار  ج۴۵ ص۲۳۰؛ باب 42 رؤية أم سلمة و غيرها رسول الله صلّى اللّه عليه و آله في المنام و إخباره بشهادة الكرام

[44] بحارالانوار۔حوالہ مذکور۔

[45] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار  ج۴۳ ص۱۷۴۔175۔

[46] محمد بن عيسى ابو عيسى ترمذي ، سنن الترمذي، ج5، ص621، ح3691۔

[47]  مستدرک حاکم، بحوالہ صواعق محرقہ، علامہ ابن حجر و تاریخ الخلفا، علامہ سیوطی۔

[48]   سورہ اسراء۔ ۳۴

[49]  سورہ دہر۔ ۷

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button