اسلامی معارف

آیت کا پیغام؛ بیدار و ہوشیار انسان

قرآن کریم انسان کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ انسان فطری طور پر خدا کو پہچانتا ہے اور خدا ہی کی طرف مائل ہوتا ہے؛ ارشاد ہوتا ہے: «فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ»؛ «آپؐ خودکو خدا کی دین کی طرف متوجہ رکھیں، اس لئے کہ یہ وہی فطرت ہے جس پر خداوندعالم نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خدا کی خلقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے» ۔ (سورہ روم، آیت ۳۰) ۔

جب تک انسان کی فطرت بیدار رہتی ہے تب تک وہ خدا کی تلاش میں رہتا ہے اور اپنے تمام تر وجود، طاقت، حیثیت، مقام وغیرہ کو خدا ہی کی طرف سے جانتاہے۔ لیکن یہی انسان اپنی حقیقت سے غفلت اور دیگر مادی اسباب سے دل لگی کی وجہ سے، اپنے ہی مالک و خالق سے غافل ہوجاتا ہے ۔جس کے نتیجے میں متعدد مصیبتوں میں مبتلا ہوجاتا ہےاور حتی ناامیدو پریشان حال ہوجاتا ہےجیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: «جب ہم انسان کو نعمت عطا کرتے ہیں تووہ حق سے منھ پھیر لیتا ہےاورتکبر کے ساتھ حق سے دور ہوجاتا ہے اور جب ذراسی بلا و مصیبت پڑتی ہے تو پوری طرح سے مایوس و ناامید ہوجاتاہے» ۔ (سورہ اسراء، آیت ۸۳) ۔

معلوم ہوا کہ انسان دو حال سے خالی نہیں ہوتا ہے: فطری اور عادی۔ اور جو انسان فطرت کے لحاظ سے ہوشیار ہوتا ہے وہ چاہے مشکلات میں ہو یا نعمتوں میں۔ سختی میں ہو یا بلا و مصیبت میں۔ خدا ہی طرف دل لگائے رہتا ہے۔ لیکن جب انسان اپنی ہی فطرت سے غافل ہوجاتا ہے تو وہ دنیاوی نعمتوں اور مادیات میں گم ہوجاتا ہے، حقائق اور ہدایت کی راہوں سے منھ موڑ لیتا ہے۔ خود کے لئے اور دوسروں کے لئے مشکلات و مصائب پیدا کرتا ہے ۔ تاریخ کے دامن میں بہت سی مثالیں اس سلسلے میں بیان ہوئی ہیں۔

ایام شہادت حضرت فاطمہ س بھی اس طرح کی مثالوں کی یادآوری اور ان سے عبرت حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے جہاں خداپرستی و خود پرستی، حق پرستی اور باطل پرستی کے بہت سے تاریخی نمونے ذکر ہوتے ہیں۔ ہوشیار انسان وہ ہے جو تاریخ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے عبرت کے سمندر سے خوب استفادہ کرے اور حق و صداقت کا دامن تھام کر باطل پرستی سے دور ہوجائے اور اہل حق و صداقت سے متمسک رہے۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button