اسلامی معارف

فاطمہ(س)؛ اور منفرد نمائندگی

فاطمہ(س)؛ اور منفرد نمائندگی

نبی اکرمؐ نے جب نجران کے عیسائیوں سے حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت کے انکار کے بارے میں مناظرہ اور گفتگو کی تھی اور آنحضرتؐ کے محکم دلائل کے باوجود وہ لوگ آپؐ کی بات ماننے سے انکار کرتے رہے تو حکم خدا آیا کہ آپؐ ان لوگوں کے ساتھ “مباهلہ ” کریں یعنی جھوٹوں پر لعنت کریں۔

 نبی اکرمؐ کی جانب سے مباہلہ کرنے کی پیش کش کو عیسائیوں نے پہلے تو قبول کرلیا اور طے ہوا کہ دونوں طرف سے بیٹوں، عورتوں اور اپنے نفسوں کو میدان میں لایا جائے؛ آنحضرتؐ نے بیٹوں کی جگہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو، عورتوں میں جناب فاطمہ زہراؑ کو لیا اور نفسوں کی جگہ امام علیؑ کو اپنے ہمراہ لے کر میدان میں تشریف لائے۔ گود میں امام حسینؑ، ہاتھ پکڑے امام حسنؑ، آنحضرتؐ کے پیچھے جناب فاطمہؑ اور ان کے پیچھے امام علیؑ تھے۔ آنحضرت ؐ نے اپنے اہل بیتؑ سے فرمایا کہ جب میں دعا کروں تو آپ لوگ آمین کہنا۔

میدان مباہلہ میں جب نجران کے اسقف نے ان نورانی اور الہی چہروں کو دیکھا اپنی قوم سے کہنے لگا: “اگر یہ لوگ خدا سے دعا کریں گے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے تو اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا لہذا ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ ہم سب ہلاک ہو جائیں گے اور زمین پر قیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں رہے گا “۔ آخرکار ان لوگوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ دینے کی شرط پر اپنے دین پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا۔

مباہلہ کا واقعہ سورہ آل عمران کی آیت ۶۱ نازل ہونے کے بعد رونما ہوا۔ اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں اہل بیتؑ کی عظیم فضیلت و منقبت کا ذکر ہوا ہے۔ ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ: “جب یہ آیت نازل ہوئی، تو رسول اللہؐ نے علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ کو بلایا اور فرمایا: “اے پروردگار! یہ میرے اہل بیتؑ ہیں “۔ یعنی آیت میں “ابنائنا ”، “نساءئنا ” اور “انفسنا ” سے ان چار معصوموںؑ کی برتری اور فضیلت کو ظاہر ہوتی ہے کیونکہ نبی اکرمؐ نے صرف انہی چار افراد کو منتخب فرمایا تھا۔

معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں ضمیریں جمع کی استعمال ہوئی ہیں اور ظاہری طور پر بہت سے لوگوں کو ساتھ لے جایا جاسکتا تھا لیکن عالم اسلام میں جھوٹوں پر لعنت کرنے کے لئے نبی اکرمؐ نے حکم خدا سے صرف ان چاروں افراد کا انتخاب کیا تھا اور انہیں کو میدان مباہلہ میں لے کر گئے لہذا ان سے بڑے صدیق اور سچے کوئی نہیں تھے۔اور اس طرح میدان مباہلہ میں صرف حضرت فاطمہ ؑ، آپ کے بابا ؐ، آپ کے شوہرؑ اور آپ کے بچوں ہی بدولت اسلام کو عیسائیوں کے مقابلے میں عظیم فتح و کامیابی نصیب ہوئی۔

مباہلہ میں مسلمانوں کی طرف سے حضرت فاطمہ زہراؑ کی موجودگی اس بات کا بھی اعلان کرتی ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑسے افضل و برتر کوئی نہیں تھا جو مسلم خواتین کی نمائندگی کرسکے۔ صرف آپ ؑ تھیں جنہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی فرمائی تھی (تفصیل کے لئے: تفسیر اهل بیتؑ، ج ۲، ص ۶۰۸؛ بحارالانوار، ج ۳۷، ص ۲۶۴ و ج ۳۹، ص ۳۱۵) ۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button