اسلامی معارف

 فاطمہ(س)؛ صالحہ بارگاہ الہی

 فاطمہ(س)؛ صالحہ بارگاہ الہی

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہےکہ:

«وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا»؛

“اور جو بھی اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرے گا وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ رہے گا، ان پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں اور یہی بہترین ساتھی و رفیق ہیں (سورہ نساء کی آیت ۶۹) ۔

 اس آیت کے حوالےسے انس بن مالک کہتے ہیں کہ:

 ایک دن پیغمبراکرمؐ صبح کی نماز میں مشغول تھے اور محراب میں چمکتے چاند کی طرح کھڑے تھے۔ نماز صبح کے بعد میں نے عرض کیا: “اگر آپؐ مناسب سمجھیں تو اس آیت کی تفسیر فرمادیں۔

آنحضرتؐ نے فرمایا: “انبیاء ” سے مراد میں ہوں، “صدیقین ” سے مراد علیؑ بن ابی طالبؑ ہیں، “شہداء ” سے مرادمیرے چچا حمزہؑ ہیں اور “صالحین ” سے مرادمیری بیٹی زہراؑ اور ان کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔

یہ سن کر پیغمبرؐکے چچا عباس مسجد کے کونے سے اٹھ کر پیغمبرؐ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا:

کیا میں، آپؐ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ، سب ایک ہی سرچشمے سے نہیں ہیں؟

 آنحضرتؐ نے فرمایا: “آپ کا کیا مطلب ہے، چچا جان؟”

عباس نے کہا: “آپؐ نے میرا نام نہیں لیا اور مجھے اس مقام کا افتخار نہیں دیا!”

 آنحضرت ؐ نے فرمایا: “چچا جان، آپ کا کہنا صحیح ہے کہ میں اور آپؐ اور علیؑ وحسنؑ و حسینؑ سب ایک ہی سرچشمے (نسل) سے ہیں لیکن اللہ نے ہمیں اُس وقت پیدا کیا، جب نہ یہ بلند آسمان تھے، نہ یہ زمین بچھی ہوئی تھی۔ نہ عرش تھا، نہ جنت، نہ جہنم۔ ہم اس وقت بھی اللہ کی تسبیح و تقدیس کر رہے تھے جب کوئی اورتسبیح و تقدیس کرنے والا نہیں تھا۔ جب اللہ نے تخلیق کا ارادہ کیا تو اس نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا اور میرے نور سے عرش کو پیدا کیا لہذا عرش کا نور میرے نور سے ہے اور میرا نور اللہ کے نور سے ہے۔

 پھر اس نے علیؑ ابن ابی طالبؑ کے نور کو پیداکیا اور اس سے ملائکہ کو پیدا کیا لہذا ملائکہ کا نور علیؑ بن ابی طالبؑ کے نور سے ہے اور علی ؑابن ابی طالبؑ کا نور اللہ کے نور سے ہے۔

 پھر اس نے میری بیٹی فاطمہؑ کے نور کو پیدا کیا اور اس سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا لہذا آسمانوں اور زمین کا نور میری بیٹی فاطمہؑ کے نور سے ہے اور فاطمہؑ کا نور اللہ کے نور سے ہے اور فاطمہؑ آسمانوں اور زمین سے افضل ہیں۔

 پھر اس نے حسنؑ کے نور کو پیدا کیا اور اس سے سورج اور چاند کو بنایا لہذا سورج اور چاند کا نور حسنؑ کے نور سے ہے اور حسنؑ کا نور اللہ کے نور سے ہے اور حسنؑ، سورج اور چاند سے افضل ہیں۔

پھر اس نے حسینؑ کے نور کو بنایا اور اس سے جنت اور حورالعین کو پیدا کیا لہذا جنت اور حورالعین کا نور حسینؑ کے نور سے ہے اور حسینؑ کا نور اللہ کے نور سے ہے اور حسینؑ جنت اور حورالعین سے افضل ہیں۔

 پھر اللہ نے اپنی قدرت سے تاریکی کو پیدا کیا اور اسے آنکھوں کے پردوں کے سامنے پھیلا دیا جس کی وجہ سے ملائکہ نے عرض کیا: “اے پاک و مقدس پروردگار، جب سے ہم نے ان اشباح (انوار پنجتنؑ) کو پہچانا ہے، کچھ برا نہیں دیکھا ہے۔ ہم ان کے مقام کی قسم دیتے ہیں کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔ اس وقت اللہ نے رحمت کی قندیلیں پیدا کیں اور انہیں عرش کے سرادق (کناروں) پر لگا دیا۔ ملائکہ نے عرض کیا: “پروردگار! یہ فضیلت کس کے لئے ہے؟ اور یہ نور کس کا ہے؟ ۔

پروردگارنے فرمایا:

«هَذِهِ الْأَنْوَارُ فَقَالَ هَذَا نُورُ أَمَتِی فَاطِمةَ الزَّهْرَاءِ فَلِذَلِکَ سُمِّیَتْ أَمَتِیَ الزَّهْرَاءَ لِأَنَّ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرَضِینَ بِنُورِهَا ظَهَرَتْ وَ هِیَ ابْنَةُ نَبِیِّی وَ زَوْجَةُ وَصِیِّی وَ حُجَّتِی عَلَی خَلْقِی أُشْهِدُکُمْ یَا مَلَائِکَتِی أَنِّی قَدْ جَعَلْتُ ثَوَابَ تَسْبِیحِکُمْ وَ تَقْدِیسِکُمْ لِهَذِهِ الْمَرْأَةِ وَ شِیعَتِهَا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ»؛

“یہ نور میری کنیز فاطمہ زہراؑ کا ہے؛ اسی لئے میں نے اسے “زہرا “نام دیا کیونکہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اسی کے نور سے ہوئی ہے۔ یہ میرے پیغمبرؐ کی بیٹی اور اس کے وصی کی بیوی اور مخلوق پر حجت  ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ قیامت تک، میں نے تمہاری تسبیح و تقدیس کا ثواب اس خاتون اور اس کے شیعوں کو دے دیا ہے “۔

اس وقت عباس اپنی جگہ سے اٹھے اور حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا:

«یَا عَلِیُّؑلَقَدْ جَعَلَکَ اللَّهُ حُجَّةً بَالِغَةً عَلَی الْعِبَادِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ»؛“یاعلیؑ، اللہ نے آپؑ کو قیامت تک لوگوں پر حجت بالغہ (روشن اور واضح دلیل) قرار دیا ہے ”۔

(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۳، ص ۲۸۶ بحارالانوار، ج ۲۵، ص ۱۶) ۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button