اسلامی معارف

پیغمبراکرم(ص) کے اخلاقی نقوش

تحریر: مولانا سید کاشف محمد رضوی زیدپوری۔ طالب علم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران

 فہرست مطالب

تمہید

حضورؐکے اخلاقی اور عملی نمونے

(الف) گھر میں رسول اکرمؐ کا عملی کردار

۱۔ وقت کی تقسیم

۲۔ گھر میں مدد کرنا

3- گھر کے افراد کے ساتھ مل کر کھانا کھانا

4- آنے والوں کا احترام

(ب) معاشرے میں رسولؐ کاعملی اخلاق

۱- عوامی میل جول

٢- خوش رویی (خندہ روئی)

٣- ملاقات کے وقت ادب سے پیش آنا

٤- احوال پرسی اورخیریت دریافت کرنا

۵-عام لوگوں جیسی زندگی

۶-دوسروں کی حالت کا خیال

7-  بزرگوارى کا جذبہ

۸-  صبر اور تحمل

(ج) لوگوں سے میل جول  کے وقت رسول اکرمؐ   کا عملی اخلاق

١- اللہ کا ذکر

۲- تشریفات سے دوری

۳- مودبانہ انداز

۴- حریم کی حفاظت

۵- لوگوں کی مشکلات حل کرنے کی کوشش

(د) گفتگو کے وقت رسول اکرم ؐ کا عملی اخلاق

۱- مفید اور متعلقہ گفتگو

۲- مخاطب کی سطح کے مطابق گفتگو

۳- صبر و حوصلے کے ساتھ بات سننا

۴- تبسّم کے ساتھ گفتگو

(ھ) رسول اکرمؐ  کا راستہ چلنےمیں عملی اخلاق

۱- مضبوطی کے ساتھ چلنا

۲- تیز لیکن باوقار چال

۲- پیدل چلنے والوں کا خیال

نتیجہ

تمہید

 اس کائنات میں ہمیں زندگی گزارنے کے لئے  اس انفرادی اور سماجی ترقی کے لئے ہمیں ایک بہترین اور بی مثال “عملی نمونہ” کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب بات ہادی و رہبر دین کی تو ہماری تلاش و جستجو اور بڑھ جاتی ہے لیکن یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارا رہبر و ہادی یعنی رسول اکرم ؐ کہ جن کا اخلاق، حسن سلوک مشہور زمانہ ہے۔

احادیث نبویؐ میں حسن سلوک کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ اس موضوع پر نفیس اور قیمتی کتابیں لکھی گئی ہیں۔

قرآن مجید کی زبان میں ایسے با کمال اور تزکیہ و تعلیم کے نمونوں کو ’’اسوہ‘‘ کہا جاتا ہے:  «لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ»(احزاب، ۲۱)؛ “بے شک تمہارے لیے اللہ  کا رسول ایک بہترین نمونہ ہے”۔  پیغمبر اسلامؐ اور آپ کے اہل خانہ کو اخلاقیات اور معاشرت کے لحاظ سے ایک مسلم نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

پیغمبراکرمؐ کی پرورش اور اخلاقیات کے مباحث میں بعض اوقات دین اور قرآن کی تعلیمات کو “نظریاتی اخلاقیات” کی شکل میں پیش اور اظہار کیا جا سکتا ہے۔ اور کبھی کبھی “عملی اخلاقیات” کی صورت میں کوئی عمل عملی نمونہ بن کر سامنے آ سکتا ہے ۔

دونوں طریقے مطلوبہ اور مفید ہیں۔ لیکن جو چیز زیادہ تعمیری معلوم ہوتا ہے وہ ہے ان عظیم لوگوں کا عملی رویہ اور طرز عمل جو ایک نمونہ اور ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں ایک قسم کا “پیمانہ” سمجھا جاتا ہے۔اسی لئے اس مضمون میں ہم پیغمبرؐ کے اخلاقی رویے اورطرز زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور دعا کرتے ہیں کہ خدا ہمیں اس پاکیزہ نمونے کے مثل عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کسی اور کے رول ماڈل ہونے کے بارے میں کوئی شک یا شبہ تو ممکن ہے لیکن رسول اکرمؐ کا رول ماڈل، آپؐ اور آپ کے اہل بیتؑ کو بغیر کسی شک و شبہ کے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اعلان کیا اور اس پر دستخط کیا ہے۔

نبی کریمؐ کے اس اعلیٰ کردار کی جو امت میں آپ کی مقبولیت کا بنیادی سبب اور دینی دعوت میں آپ کی کامیابی کی بنیادی وجہ تھا، قرآن کریم میں واضح طور پر اس کی تعریف کی گئی ہے:« وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ»؛’’بے شک آپ کا کردار عظیم ہے‘‘(قلم، آیت4)۔

امت محمدیہؐ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس نبیؐ کی انفرادی اور معاشرتی خصوصیات اور کردار کی پیروی کریں اور اس نبی رحمتؐ اور کمال کے نمونے کو اپنا “رول ماڈل” بنائیں۔

حضورؐکے اخلاقی اور عملی نمونے

(الف) گھر میں رسول اکرمؐ کا عملی کردار

گھر میں بیوی بچوں اور رشتہ داروں اوردوسرے تمام افراد کے ساتھ سلوک و برتاؤ، انسان کے روحانی اور اخلاقی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔

ہم یہاں گھر میں رسول اکرمؐ کے طرز عمل کی چند مثالیں ذکر کریں گے:

۱۔ وقت کی تقسیم

حضرت امام حسینؑ ، امام علیؑ سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:«و کانَ اذا اوى الى مَنْزِلِه جَزّءَ دُخُولَه ثَلاثَهَ اجْزاء: جُزءاً لِلّه عزّوجَل، و جُزءاً لِاهلِهِ و جُزءاً لِنَفْسِه، ثُمّ جَزَّءَ جَزَئهُ بَیْنَه و بَیْنَ النّاسِ، فَیَرُدُّ ذلک عَلَى العامّهِ و الخاصّهِ و لا یَدَّخِرُ عَنْهُم شَیئاً»؛”اور جب آپ ؐاپنے گھر تشریف لے جاتے تو اپنے وقت کے تین حصے کرتے: ایک حصہ اللہ عزوجل کے لیے، ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے، اور ایک حصہ اپنے لیے مخصوص فرماتے۔ پھر اپنے ذاتی حصے کو بھی لوگوں (کی خدمت) کے لیے وقف کر دیتے، تو آپ عام اور خاص سب لوگوں کو اس میں سے فیض پہنچاتے اور ان سے کوئی چیز مخفی نہ رکھتے”۔(مکارم الاخلاق، طبرسى، ص۱۳)۔

۲۔ گھر میں مدد کرنا

نیک انسان کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کی گھریلو کاموں میں مدد کرے، چاہے وہ گھر اوروسائل کی صفائی، کھانا پکانے اور کھانے پینے کا کام ہو یا کوئی اور کام۔

آنحضرتؐ کے بارے میں آیا ہے کہ: «وَ کانَ یَخْصِفُ النَّعلَ، و یُرَقِّعُ الثَّوبَ، و یَفْتَحُ البابَ، و یَحْلِبُ الشاهَ و یَعْقِلُ البَعیرَ فَیَحْلِبُها، وَ یَطْحَنُ مَعَ الخادمِ اذا اعْیا، وَ یَضَعُ طَهورَهُ باللَیلِ بِیَدِهِ ….»۔

” آپ ؐ خود جوتا ٹانگتے تھے، کپڑے میں پیوند لگاتے تھے، دروازہ کھولتے تھے، بکری کا دودھ دوہتے تھے اور اونٹنی کو باندھ کر اس کا دودھ دوہتے تھے، اور جب خادم تھک جاتا تو اس کے ساتھ مل کر گندم پیستے تھے، اور رات میں اپنے لئے وضو کے پانی کا برتن خود اپنے ہاتھ سے رکھتے تھے”۔( بحار الانوار، علامه مجلسى، ج ۱۶، ص ۲۲۷)۔

3- گھر کے افراد کے ساتھ مل کر کھانا کھانا

ایک شخص تنہا کھانا کھائے، یا اپنے گھر والوں اور خدمتگاروں کو اپنے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی اجازت نہ دے، یہ جہالت پر مبنی اخلاق ہے اور متکبرانہ مزاج کی نشاندہی کرتا ہے۔

اولیاء خدا عاجزی کے ساتھ گھر والوں اور خادموں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھے  اور ایک ہی دستر خوان پر بیٹھتے تھے۔

آنحضرتؐ کے اس اخلاق کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ: «کانَ رَسولُ اللَّهِ یأکُلُ کُلّ الاصْناف مِنَ الطَّعامِ وَ کانَ یأکُلُ ما احَلَّ اللَّهُ لَهْ مَعَ اهْلِهِ وَ خَدَمِهِ اذا اکَلُوا، وَ معَ مَنْ یَدْعُوهُ مِن المُسلِمین على الأرضِ، وَ على ما اکَلوُا عَلَیْهِ وَ مِمَّا اکَلُوا، الّا أَن یَنْزِلَ بِهِمْ ضَیْفٌ فَیَأکُلُ مَعَ ضَیْفِهِ وَ کانَ احَبُّ الطَّعامِ الَیهِ ما کانَ عَلى ضَفَفٍ»؛ “رسول خداؐ ہر قسم کے کھانوں میں سے تناول فرماتے تھے، اور جو کچھ اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا تھا، اسے جب بھی کھاتے تھے اپنے گھر والوں اور خدمتگاروں کے ساتھ کھاتے تھے اور جب بھی مسلمانوں میں سے آپؐ  کو کوئی دعوت دیتا تھا،  زمین پر ہی بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور جس برتن میں عام مسلمان کھاتے تھے اور جو کھانا وہ کھاتے تھے، آپؐ بھی اسی میں سے کھاتے تھے۔ سوائے یہ کہ جب کوئی مہمان آپؐ کے یہاں آتا تھا تو آپؐ مہمان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور آپؐ کے نزدیک سب سے پسندیدہ کھانا وہ  ہوتا تھا جو لوگوں کے ساتھ مل بیٹھ یعنی سادگی اور بانٹ کر کھایا جاتا تھا(مکارم الاخلاق، ص ۲۶)۔

4- آنے والوں کا احترام

جو شخص آپ ؐکے پاس آتا، رسول اکرمؐ اس کا احترام فرماتے تھے۔ اس احترام کی ایک علامت یہ تھی کہ آپ اپنا بچھونا اس کے حوالے فرما دیتے تھے۔ روایت میں آیا ہے کہ:

«وَکانَ یُؤثِرُ الدّاخِلَ عَلَیْهِ بِالوَسادهِ الَّتى تَحْتَهُ، فَانْ ابى انْ یَقْبَلها عَزَمَ عَلَیهِ حتّى یَفْعَل»؛ “جب بھی کوئی آپ کے پاس آتا تھا تو آپؐ اپنا تکیہ اسے دے دیتے تھے اور اگر وہ قبول نہ کرتا تو آپ اس پر اصرار فرماتے یہاں تک کہ وہ قبول کر لے”(سنن النبى، علامه طباطبایى، ص ۵۳)۔

اسی طرح نقل ہوا ہے کہ : «ما قَعَدَ الى رَسوُلِ الَّلهِ رَجُلٌ قَطُّ حتّى یقُومَ»؛ “جب کوئی شخص آتا اور رسول اکرمؐ کی خدمت میں بیٹھتا تو آپؐ اس وقت تک مجلس سے نہ اٹھتے جب تک کہ وہ شخص خود نہ اٹھ جائے۔(سنن النبى، علامه طباطبایى، ص ۵۱)۔

سلمان فارسی سے روایت ہے کہ میں رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ایک تکیہ اور بچھونے پر تشریف فرما تھے، آپؐ نے وہ میری طرف لگا دیا (تاکہ میں اس پر بیٹھوں)۔ پھر آپ نے فرمایا:

“اے سلمان! کوئی مسلمان اپنے بھائی کے پاس آئے اور وہ اس کی عزت و احترام میں اس کے لیے بچھونا بچھادے تو  اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے”(سنن النبى، علامه طباطبایى، ص ۵۱)۔

مذکورہ  روایات رسول خداؐ کی بلند اخلاقی اور احترامِ انسانیت کی عکاس ہےکہ آپ ؐ ہمیشہ اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کا مکمل لحاظ فرماتے تھے۔

(ب) معاشرے میں رسولؐ کاعملی اخلاق

ہر شخص کے طرز عمل سے اس کی فکری اور روحانی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ معاشرے میں اور مختلف طبقوں کے ساتھ رسول اللہؐ کاتعامل اور برتاؤ اس ’’مثالی رسول‘‘ کے پیروکاروں کے لیے قابل تقلید نمونہ ہو سکتا ہے۔ یہاں چند اہم عملی نمونوں کا ذکر کیا جارہا ہے:

۱- عوامی میل جول

کسی بھی شخص کی شخصیت میں کشش، بڑی حد تک اس کے محبت بھرے رویے اور انسانوں کو اہمیت دینے پر منحصر ہوتی ہے۔ جو شخص دوسروں کے غم و خوشی، آرام و تکلیف میں شریک ہوتا ہے اور خود کو ان سے جدا نہیں سمجھتا، وہ دلوں کو فتح کر لیتا ہے۔

پیغمبراکرمؐ کے اسی عوامی میل جول والے اخلاق کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ:

«یُشَیِّعُ الجَنائِزَ وَ یعودُ الْمرضى فى اقْصَى الْمَدینَه»؛”آنحضرتؐ لوگوں کی تشییع جنازوں میں شریک ہوتے تھےاور مدینہ کے دور دراز علاقوں تک بھی بیماروں کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تھے”(بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۲۸)۔

بعض اوقات، چھوٹے بچوں کو رسول اکرمؐ کی خدمت میں لایا جاتا تھا تاکہ آپؐ ان کے لیے دعا کریں یا ان کا نام رکھیں۔ آپؐ ان بچوں کو پیار سے اپنی گود میں لے لیتے تاکہ ان کے رشتہ دار وں کی دلگرمی و خوشی کا باعث ہو۔

کبھی ایسا ہوتا کہ بچہ وہیں آپ کی گود میں پیشاب کر دیتا، تو کچھ لوگ بچے پر چیخنے لگتے۔ رسول  اکرمؐ اُنہیں منع فرماتے اور دعا یا نام رکھنے کا کام مکمل فرماتے تھے۔ اس طرح بچوں کے رشتہ داروں کی خوشی کا خیال رکھتے تھے تاکہ وہ لوگ گمان نہ کریں کہ پیغمبرؐ بچوں کی وجہ سے ناراض ہوگئے ہیں اور پھر جب وہ لوگ چلے جاتے تھے تو  آپؐ اٹھ کر اپنا کپڑا دھو لیتے اور پاک کرتے تھے(مکارم الاخلاق، ص ۲۵) ۔

یعنی آنحضرتؐ کسی کو شرمندہ نہیں ہونے دیتے تھے بلکہ نرمی و محبت سے پیش آتے تھے۔

٢- خوش رویی (خندہ روئی)

مسکراہٹ محبت لاتی ہے اور دلوں کی دوری کو ختم کرتی ہے۔ رسول خداؐ اس محبت بھری روش سے بہت استفادہ فرماتے تھے۔  آپؐ اکثر اوقات خندہ رو اور مسکراتے رہتے، سوائے اُس وقت کے جب قرآن نازل ہو رہا ہوتا  ہو یا آپؐ نصیحت و وعظ فرما رہے ہوتے ہوں۔

رسول خداؐ اپنی گفتگو کو بھی تبسم سے مزین رکھتے تھے، اپنے چہرہ پر ہمیشہ مسکراہٹ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی مسکرا کر دیکھتے تھے اس طرح لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی و خوش مزاجی سے پیش آنا آپؐ کی نمایاں صفت تھی۔ جیسا نقل ہوا ہے کہ: «کانَ اکْثَرَ النّاسِ تَبَسُّماً و ضِحْکاً فى وُجُوهِ اصْحابِه»”؛ “آپؐ اپنے اصحاب کے چہروں پر سب سے زیادہ تبسم اور مسکراہٹ بکھیرنے والے تھے”(المحجه البیضاء، فیض کاشانى، ج ۴، ص ۱۳۴)۔ یعنی آپ کی مسکراہٹ، آپ کے اخلاق کا مستقل حصہ تھی۔

٣- ملاقات کے وقت ادب سے پیش آنا

کسی سے پہلی ملاقات میں انسان کے چہرے کے تاثرات اور اندازِ گفتگو، اس کے باطن کا آئینہ ہوتے ہیں۔ سلام کرنا، مصافحہ کرنا (ہاتھ ملانا) اور خوش اخلاقی سے پیش آنا، ادب، انکساری اور حسنِ اخلاق کی علامت ہے۔

رسول اکرمؐ کے اس اخلاق کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ: «کانَ مِنْ خُلْقِهِ ان یَبْدَأَ مَنْ لَقِیَهُ بالسّلامِ»؛ “آنحضرتؐ  کی عادت تھی کہ جس سے بھی ملاقات کرتے، خود سلام میں پہل فرماتے تھے”(المحجه البیضاء، فیض کاشانى، ج ۴، ص ۱۳0)۔

اسی طرح نقل ہوا ہے کہ: «اذا لَقِىَ مُسلِماً بَدَأَ بالْمُصافَحَة»؛ “آنحضرتؐ جب کسی مسلمان سے ملاقات کرتے تو سب سے پہلے مصافحہ فرماتے” (سنن النبى، علامه طباطبایى، ص ۶۲)۔

اسی طرح مصافحہ کرتے وقت بھی آپ ؐایسا انداز اختیار کرتے جس سے دوسرا شخص عزت و محبت محسوس کرے جیسا کہ نقل ہوا ہے کہ: «اذا لَقِیَهُ احَدٌ مِنْ اصحابِهِ فَناوَلَ بِیَدِهِ ناوَلَها ایّاهُ فلَمْ یَنْزَعْ عَنْهُ حَتّى یَکُونَ الرَّجُلُ هُوَ الّذى یَنْزِعُ عَنْهُ»؛”جب اصحاب میں سے کوئی آپ ؐسے ہاتھ ملاتا اور اپنا ہاتھ بڑھاتا تو آپ ؐاس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس وقت تک ہاتھ نہیں ہٹاتے تھے جب تک وہ شخص خود اپنا ہاتھ واپس نہ لے لیتا”۔ (مکارم الاخلاق، ص ۱۷)۔

یہ رسول اکرمؐ کی اعلیٰ ظرفی، محبت اور حسنِ سلوک کی بہترین مثال ہے۔

٤- احوال پرسی اورخیریت دریافت کرنا

ایک رہبر کا اپنے پیروکاروں کے حالات سے باخبر رہنا، ان کے مسائل کی خبر لینا اور ان کے گھروں کی خیرخبر لینا، دلوں میں محبت اور اثر پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

رسول خداؐاپنے اصحاب سے غافل نہیں رہتے تھے، بلکہ تعلقات کو ہمیشہ زندہ اور مضبوط رکھتے تھے جیساکہ حضرت امام علیؑ  بیان فرماتے ہیں کہ : «اذا فَقَدَ الرَّجُلَ مِنْ اخوانِهِ ثَلاثَهَ ایّامٍ سَأَلَ عَنَهُ، فَانْ کانَ غائِباً دَعا لَهُ و انْ کانَ شاهِداً زارَهُ و انْ کانَ مریضاً عادَهُ»؛”جب رسول  اکرمؐ اپنے دینی بھائیوں میں سے کسی کو تین دن تک نہ دیکھتے، تو اس کے بارے میں دریافت فرماتے۔ اگر وہ سفر پر ہوتا تو اس کے لیے دعا کرتے، اگر شہر میں موجود ہوتا تو اس کی زیارت کے لیے خود تشریف لے جاتے اور اگر بیمار ہوتا تو اس کی عیادت فرماتے تھے”(مکارم الاخلاق،ص۱9)۔

  یہ سنت بتاتی ہے کہ اپنی امت کے افراد سے بہت گہرا لگاؤرکھتے تھے اور اور یہی دینی بھائی چارے اور دوستی و ہمدلی کا تقاضا بھی ہے۔ اسی طرح آنخضرتؐ کا یہ اخلاق ہمیں سکھاتا ہے کہ دوسروں کی خبر گیری اور خیریت پوچھنا صرف اخلاقی فریضہ نہیں، بلکہ نبوی سیرتؐ  کا اہم حصہ ہے۔

۵-عام لوگوں جیسی زندگی

جو چیز آنحضرت ؐ  کو لوگوں سے بہت قریب کرتی تھی اور لوگ آپؐ کو اپنا مانتے تھے، وہ آپؐ کی عام لوگوں جیسی زندگی اور متواضع اخلاق تھا۔ اگرچہ آپؐ علمی، فکری، عصمت، پاکیزگی اور روحانی فضائل میں سب سے اعلیٰ مقام پر تھے اورعام لوگ آپؐ کی روحانیت اور کمال سے بہت پیچھے تھے، لیکن آپؐ کی بات چیت اور میل جول بالکل عام لوگوں جیسا تھا۔ آپؐ لوگوں کی سطح کے مطابق بات کرتے اور ان کے ساتھ میل جول رکھتے تھے جیسا کہ نقل ہوا ہے کہ:

«یُجالِسُ الفُقَراءَ وَ یُؤاکِلُ المَساکینَ»” آپؐ غریبوں کے ساتھ بیٹھتے اور محتاجوں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔” (بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۲۸)۔

اسی طرح زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ: «کُنّا اذا جَلَسْنا الَیْهِ انْ اخَذْنا بِحَدیثٍ فى ذِکرِ الآخِرَهِ اخَذَ مَعَنا وَ انْ اخَذْنا فِى الدّنیا اخَذَ مَعناوَ انْ اخَذْنا فى ذِکرِ الطَّعامِ وَالشَّرابِ اخَذَ مَعَنا …»؛ “جب بھی ہم آپؐ کے پاس بیٹھتے، اگر آخرت کی بات کرتے تو آپ ؐبھی وہی بات کرتے، اگر دُنیا کی بات کرتے تو آپؐ بھی دُنیا کے بارے میں بات کرتے تھے اور اگر کھانے پینے کی بات کرتے تو آپؐ بھی اسی موضوع پر بات کرتے تھے”(سنن النبى، ص ۶۱)۔

یہ سیرت آپؐ کی نہایت سادگی اور عوامی مزاجی کو بیان کرتی ہے۔ آپؐ خود کو دوسروں سے جدا سمجھتے نہیں تھے حالانکہ حقیقت میں آپؐ بہت بلند مقام پر تھے۔

۶-دوسروں کی حالت کا خیال

رسول  اکرمؐ، اللہ کی رحمت اور محبت کی علامت تھے اور مومنین کے لیے بہت مہربان تھے۔ ان سے محبت اور شفقت آپؐ کے ہر عمل میں نظر آتی تھی حتیٰ کہ نماز اور خطبہ میں بھی آپؐ لوگوں کا خیال رکھتے تھے جیسا کہ امام علیؑ نے فرمایا: «کانَ اخَفَّ النّاسِ صَلاهً فى تَمامٍ وَ کانَ اقْصَرَ النّاسِ خُطبهً وَ اقَلَّهُمْ هَذَراً»؛ “آپؐ سب سے نماز کو  سب سے زیادہ مکمل ادا کرنے والے تھے لیکن اس میں بھی لوگوں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ اسی طرح آپؐ کا خطبہ بہت مختصر ہوتا تھا، اس میں زیادہ الفاظ نہیں ہوتے تھے”(سنن النبى، ص ۴۵)۔

کبھی کبھی جب نماز میں بچوں کے رونے کی آواز سنتے تھے تو نماز جلدی ختم کر دیتے  تھے تاکہ ماں اپنے بچے کا خیال رکھ سکے۔

اگرچہ عام طور پر آنحضرت ؐ، مغرب اور عشاء کی نمازیں الگ الگ پڑھتے تھے، لیکن کبھی سفر، بارش والے دن یا اگر کوئی ضروری کام ہوتا تو مغرب  کی نماز کو کچھ دیر سے شروع کرتے تھے اور پھر اس کے بعد فوراً عشاء کی نماز  پڑھتے تھے اور اس طرح دونوں نمازوں کو  ملا کر پڑھ لیتے تھے اور فرماتے تھے:«مَنْ لا یَرحَمُ، لا یُرحَمُ»؛ “جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا”(سنن النبى، ص، 248)۔

7-  بزرگوارى کا جذبہ

بزرگواری یہ ہے کہ انسان دوسروں کی غلطیوں کو درگزر کرے، ان کے عذر کو قبول کرے، لغزشوں پر ملامت نہ کرے، کسی کے سوال کو ردّ نہ کرے، چغلی اور دوسروں کی برائیاں سننے سے پرہیز کرے، سخی ہو، فیاض ہو؛ یہ تمام چیزیں اس کے عظیم ظرف اور بلند اخلاق کی علامت ہیں۔

یہ تمام صفات رسول اکرمؐ کی سیرتِ طیبہ میں نمایاں طور پر موجود تھیں اور اس سلسلے میں کئی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علیؑ بیان فرماتے ہیں:«کانَ رَسُولُ اللَّهِ اجْوَدَ النّاسِ کَفّاً وَ اکْرَمَهُمْ عِشْرَه»؛”رسول اکرمؐ  سب لوگوں سے زیادہ سخی ہاتھ والے اور سب سے زیادہ شریف اور باوقار انسان تھے”( مکارم الاخلاق، ص ۱۷)۔

اسی طرح بیان ہوا ہے کہ:«یَقْبَلُ مَعْذِرَهَ المُعْتَذِرِ إِلَیْهِ»؛”جب بھی کوئی آپؐ سے عذر چاہتا، آپؐ اس کے عذر کو قبول کرلیتے تھے”(سنن النبى، ص ۷۵)۔

آپؐ کبھی بھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ لوگوں کی برائیوں اور گستاخیوں کو معاف کر دیتے اور انہیں بخش دیتے تھے۔ ان کے دل میں معافی اور درگزر کی حالت ہوتی تھی جس کی سفارش قرآن میں بھی  کی گئی ہے کہ: «خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِینَ»؛ “لوگوں کو معاف کرنے کی روش اپناؤ، انہیں نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے بچ کر رہو”(اعراف، آیت199)۔

آنحضرتؐ کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ:

«وَلا یَجْزِی السَّیِّئَهَ بِالسَّیِّئَهِ وَلَکِن یَعْفُو وَ یَصْفَحُ»؛”آپؐ کسی کی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، لوگوں کو معاف کردیتے تھےاور ان کی برائی یا گستاخی کے مقابلے میں اپنے غصہ کو پی جاتے  تھے”( سنن النبي ص 75)۔

انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے آٹھ سال (اور کچھ روایات کے مطابق نو سال) حضور نبی کریمؐ کی خدمت کی  لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ آپؐ نے مجھ سے پوچھا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا میرے عمل پر عیب یا ملامت فرمائی ہو! ، آپؐ ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ دل اپنے اصحاب کے لیے محبت اور صفا سے بھرپور ہو اور جب بھی کوئی آپؐ کے سامنے کسی کی بدیاں اور غلطیاں بیان کرتا تاکہ آپؐ کے دل کو کسی کے لئے ناراحت و بدگمان کرے تو آپؐ اس کام سے منع کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: «لا یُبَلِّغُنى احدٌ مِنکُم عَنْ احَدٍ مِنْ اصحابى شَیئاً فَانى احِبُّ انْ اخْرُجَ الَیْکُم وَ انا سَلیمَ الصَّدْرِ»؛”تم میں سے کوئی بھی میرے کسی صحابی کے بارے میں مجھے کوئی (منفی) بات نہ بتائے، کیونکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب تمہارے درمیان آؤں، تو میرے دل میں تمہارے لیے کوئی کدورت یا رنجش نہ ہو، بلکہ میرا دل صاف و سلامت ہو”( سنن النبى، ص ۷۵)۔

معلوم ہوا کہ رسول اکرمؐ، دوسروں کی برائیاں سننے سے گریز کرتے تھے تاکہ آپؐ کے دل میں کسی کے لیے کینہ یا بدگمانی پیدا نہ ہو کیونکہ دوسروں کی عیب جوئی اور شکایتیں سننا انسان کے دل کو ملول و رنجیدہ کر دیتا ہے اور اس کے باطن کو متاثر کرتا ہے۔

۸-  صبر اور تحمل

سماجی قیادت اور لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات میں صبر بہت اہم ہے، خاص طور پر لوگوں کے رویوں کی سختی، تلخی اور تکلیف دہ باتوں کو سہنے میں۔ حضرت رسول اکرمؐ ، میں یہ خصوصیت خاص طور سے موجود تھی۔

ایک دن ایک عرب بدوی صحرا سے آیا اور آپؐ  کی چادر کو اتنی زور سے کھینچا کہ چادر کا کنارے سے آپؐ کی گردن پر نشان پڑ گیا۔ اس کے بعد اس نے نبی ؐ سے کہا: یا محمد! خدا کی دی ہوئی دولت میں سے مجھے کچھ دے دو! نبی ؐ نے اس پر دھیان دیا، مسکرائے اور حکم دیا کہ اس کو کچھ دیا جائے(مکارم الاخلاق، ص ۱۷)۔

 کتنی بڑی روحانی شان، حوصلہ اور تحمل ہے یہ!

 پیغمبراکرمؐ کا یہ صبر خاص طور پر اجنبیوں، نادان لوگوں اور نئے آنے والوں کے ساتھ زیادہ تھا کیونکہ انہیں اسلام کی اعلیٰ اخلاقیات اور رسول اکرمؐ کے بلند مزاج کو سمجھ کر اپنی طرف کھینچنا چاہیے تھا۔

وہ لوگ جو آپؐ کی اعلیٰ مقام اور بزرگی کو نہیں جانتے تھے، وہ بعض اوقات بات کرنے، مانگنے اور ملنے جلنے میں گستاخ اور بے ادب رویہ اختیار کرتے، لیکن نبیؐ  کا عمدہ اخلاق ان کے سخت رویے کو نرم کر دیتا اور وہ آپؐ کی اخلاقی خوبیاں دیکھ کر متاثر ہوتے تھے۔حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ: «یَصبِرُ لِلْغَریبِ عَلَى الجَفْوَهِ فى مَنْطِقِهِ و مَسألَتِهِ، حَتّى انْ کانَ اصحابُهُ لَیَستَجْلِبُونَهُ»؛ “نبی اکرمؐ، اجنبی کی گستاخی بھری باتوں اور ان کے مطالبات پر بہت زیادہ صبر کرتے تھے جبکہ اصحاب اس اجنبی کو پکڑ کر روکتے تھے کہ آپؐ کو اذیت نہ ہو”(مکارم الاخلاق، ص 15)۔

(ج) لوگوں سے میل جول  کے وقت رسول اکرمؐ   کا عملی اخلاق

جو لوگ لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں، ان کا رویہ لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں ایسا ہو سکتا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے یا دور کر دے۔

یہاں لوگوں کے ساتھ میل جول، اٹھنے بیٹھنے اور عام جلسات میں رسول اکرمؐ کے اخلاق کے کچھ اہم عملی نمونے پیش کیے جارہے ہیں:

١- اللہ کا ذکر

عبودیت اور بندگی کا تقاضا ہے کہ بندہ کبھی بھی اپنے مولا کی یاد سے غافل نہ ہو۔ چاہے وہ زبانی ذکر ہو،قلبی یاد ہو یا ایسا عمل جو خدا کی طرف توجہ کی علامت ہو۔ رسول اکرمؐ کی یہی روش تھی جیسا کہ نقل ہوا ہے کہ:«وَ کانَ لا یَقُومُ و لا یَجْلِسُ الّا عَلى ذِکرِ اللَّه»؛”آپؐ اٹھتے، بیٹھتے ہر وقت اللہ کا ذکر فرماتے تھے”( بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۲۸)۔

یہ طرزِ عمل نہ صرف ان کے اپنے دل کو منور کرتا، بلکہ ان کے ساتھ بیٹھنے والوں پر بھی اثر ڈالتا اور وہ بھی اللہ کی یاد میں مشغول ہو جاتے۔

۲- تشریفات سے دوری

رسول اکرمؐ مجالس میں اپنے لئے کوئی خاص جگہ مقرر نہیں کرتے تھے۔ جہاں بھی جگہ ہوتی، وہی بیٹھ جاتے اور صحابہ  کو بھی یہی تلقین فرماتے تھے۔ جیساکہ نقل ہوا ہے کہ: «کانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه و آله یَجْلِسُ عَلَى الأرضِ وَ یأکُلُ عَلَى الأرضِ»؛ رسول اکرمؐ زمین پر بیٹھتے اور زمین پر ہی  بیٹھ کرکھاتے تھے”(بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۲۲)۔

آپؐ غلاموں کی طرح زمین پر بیٹھتے اور جانتے تھے کہ وہ اللہ کے ایک بندے ہیں، یعنی دکھاوا یا ریاکاری نہیں کرتے تھے بلکہ یہ آپؐ کی فطرت تھی: «یَجْلِسُ جُلُوسَ العَبْدِ وَ یَعْلَمُ انَّهُ عَبْدٌ»؛”آپؐ بندے کی طرح بیٹھتے اور جانتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں”(بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۲5)۔

آپؐ مجلس میں جب  بھی داخل ہوتے تو جہاں جگہ ہوتی، وہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی یہی نصیحت فرماتے کہ سب کو برابر سمجھیں تاکہ کوئی خاص توجہ یا امتیاز کا احساس نہ کرے(مکارم الاخلاق، ص ۱۴)۔

ابوذر غفاری نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ، صحابہ کے درمیان بیٹھتے اور کبھی کبھار جب کوئی اجنبی یا نامعلوم شخص آتا جو انہیں نہیں پہچانتا تھا، تو وہ صحابہ سے پوچھتے کہ پیغمبرؐ آپ میں سے کون ہے؟ اسی لیے ہم نے رسول اکرمؐ سے درخواست کی کہ اجازت دیں کہ اس کے لیے کوئی جگہ بنائیں جہاں وہ بیٹھ سکیں تاکہ اجنبی لوگ انہیں پہچان سکیں۔ رسولؐ  کی اجازت سے ہم نے ان کے لیے مٹی کا ایک تھڑا یا چوکھٹ بنایا جس پر وہ بیٹھتے اور ہم دونوں طرف بیٹھ جاتے۔(مکارم الاخلاق، ص ۱6)۔

انس بن مالک نقل کرتے ہیں:

جب بھی ہم رسول اکرمؐ کے پاس آتے، دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے۔(بحارالانوار، ج۱۶، ص۲۳۶)۔

 اس طرح دائرہ وار اور ساتھ مل کر بیٹھنابے تکلفی کی نشانی ہے اور تعظیمی رسم و رواج سے گریز، اور “خاص جگہ” کے قید و بند سے آزاد ہونا ہے۔

۳- مودبانہ انداز

دوسروں کی موجودگی میں بیٹھنے کا انداز انسان کی ثقافت اور تربیت کو ظاہر کرتا ہے۔ نبی اکرمؐ  سب سے زیادہ سماجی ادب کا لحاظ کرتے تھے۔ کبھی اپنے کے پاؤں کو دوسروں کے سامنے دراز نہیں دیکھا گیا: «وَ ما رُئِىَ مُقدِّماً رِجْلَهُ بَیْنَ یَدَىْ جَلیسٍ لَهُ قَطٌّ»؛ “انہوں نے اپنے پاوں کو کبھی بھی کسی کے سامنے پیش نہیں کیا۔” (بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۳۶)۔

رسول اکرمؐ زیادہ تر وقت قبله کی طرف رخ کرکے بیٹھتے تھے، اور جو آپؐ کی خدمت میں آتے انہیں احترام اور عزت دیتے تھے اور کبھی کبھار اپنی چٹائی یا عبا کو ان کے لیے پھیلاتے تاکہ وہ اس پر بیٹھ سکیں، چاہے وہ آپؐ کے رشتہ دار نہ بھی ہوں۔ لیکن دوسرے لوگوں کو اپنی جگہ پر ہی بٹھاتے تھے۔(بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۳۶)۔

پیغمبراکرمؐ  اتنے زیادہ ادب کے مالک تھے کہ کبھی بھی اپنے گھٹنے دوسروں کی نظروں کے سامنے نہیں رکھتے تھے، جبکہ بعض عرب لوگ اپنے ران کے کپڑے کو اٹھاکر گھٹنے اور ٹخنے دکھا دیتے تھے، مگر آپؐ ہمیشہ اپنے پیروں اور گھٹنوں کو ڈھانپ رکھا کرتے تھے: «ما اخْرَجُ رُکْبَتَیْهِ بَیْنَ یَدَىْ جَلیسٍ لَهُ قَطُّ»؛ “آنحضرتؐ نے کبھی اپنے گھٹنے تک سے کسی کے سامنے کپڑا نہیں ہٹایا”( المحجه البیضاء، ج ۴، ص ۱۳۱؛ بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۴۰)۔

آپؐ جب کھانے کے لیے بیٹھتے تو اپنے گھٹنے اور پیر جمع کر کے نماز میں تشہد کی حالت کی طرح بیٹھتے تھے، مگر ایک گھٹنے کو دوسرے کے اوپر رکھ لیتے اور فرماتے تھے: “میں بندہ ہوں، بندوں کی طرح کھاتا اور بیٹھتا ہوں”۔ (المحجه البیضاء، ج ۴، ص ۱۳۵)۔

ایک شخص مسجد میں آیا اور نبی اکرمؐ کے حضور پہنچا۔ آپؐ اکیلے بیٹھے تھے، مگر جگہ خالی کرنے کے لیے اپنی جگہ سے ہٹے تاکہ نئے آئے ہوئے کے لیے جگہ بنائیں۔اس شخص نے کہا: یا رسول اللہؐ! جگہ تو کافی ہے! آپؐ نے فرمایا: مسلمان کا حق ہے کہ جب وہ دیکھے کوئی اس کے قریب بیٹھنا چاہتا ہے تو اسے جگہ دے اور اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ (بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۲۴۰)۔

۴- حریم کی حفاظت

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کی برائیاں، کمزوریاں اور عیوب، مجلسوں کا موضوعِ گفتگو بن جاتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی برائیوں پر بات کرتے ہیں اور کسی کی عزت و حرمت کا لحاظ نہیں رکھتے۔ لیکن پیغمبراکرمؐ ، ہمیشہ اپنے جلسات میں  کو مذکورہ چیزوں سے پاک رکھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنینؑ  نے فرمایا کہ: «مَجْلِسُهُ مَجْلِسُ حِلْمٍ وَ حَیاءٍ و صِدْقٍ و امانَهٍ، وَ لا تُرْفَعُ فیهِ الأصواتُ …»؛ “رسول اکرمؐ  کی مجلس حلم، حیا، سچائی اور امانت داری والی مجلس ہوتی تھی۔ وہاں شور و غل،چیخ و پکار نہیں ہوتی تھی۔ کسی کی عزت کو پامال نہیں کیا جاتا تھا، نہ ہی کسی کے عیوب کو ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ وہ سب تقویٰ کے محور پر آپس میں محبت و الفت رکھنے والے تھے۔ بزرگوں اور بوڑھوں کی عزت کی جاتی تھی، چھوٹوں پر رحم کیا جاتا تھا، ضرورت مندوں اور سائلوں کا خیال رکھا جاتا تھا  اور پردیسیوں کے لیے وہی مجلس ایک پناہ گاہ بن جاتی تھی”(سنن النبى علامه طباطبایى، ص ۱۷)۔

ایسی مجلسیں روحانی تربیت اور معاشرتی ادب کا سرچشمہ ہوتی ہیں۔یہ اعلیٰ تہذیب و سلیقہ ہم نے رسول اکرمؐ سے سیکھا ہے۔

رسول اکرمؐ کے جلسے میں جب گفتگو ہوتی تو تمام لوگ ہمہ تن سنتے تھے، کوئی کسی کی بات نہیں کاٹتا تھا،  جب رسول خداؐ  گفتگو فرماتے تو سب اس طرح سنتے جیسے ان کے سروں پر پرندہ بیٹھا ہو (یعنی مکمل خاموشی اور ادب کے ساتھ)۔ جب آپؐ  کا کلام مکمل ہوتا، تب دوسرے لوگ بولنا شروع کرتے، اور اگر کوئی دوسرا شخص گفتگو کر رہا ہوتا تھا تو لوگ اس کے مکمل ہونے تک خاموشی سے سنتے اور بیچ میں دخل نہ دیتے۔ (سنن النبى علامه طباطبایى، ص ۱۷)۔

اسی طرح نقل ہوا ہے کہ: «… لا یُذْکَرُ عِندَهُ الّا ذلِکَ وَ لا یُقبَلُ مِنْ احدٍ عَثْرَهٌ»؛ “اگر کسی شخص کا ذکر آپؐ  کی مجلس میں ہوتا تھا تو وہ بھی اس کی کسی حاجت یا ضرورت کے سلسلے میں ہوتا تھا تاکہ اس کی مدد کی جا سکے۔ خود نبی اکرمؐ اس بات کی تاکید فرماتے تھے کہ اگر  جو لوگ مجھ تک خود اپنی بات نہیں پہنچا سکتے، ان کی حاجتیں اور مسائل مجھ تک پہنچایا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان لوگوں کے قدم صراط پر ثابت رکھے گا، جو حاجتمندوں اور بے بس لوگوں کی ضروریات کو اہل اقتدار، اہلِ مال اور ذمے دار لوگوں تک پہنچاتے ہیں”(بحارالانوار، ج ۱۶، ص۱۵۱)۔

۵- لوگوں کی مشکلات حل کرنے کی کوشش

رسول اکرمؐ کے جلسات ایسی جگہ تھی جہاں لوگ اپنی ضروریات اور مسائل پیش کرتے تھے اور آپؐ  ان کی بات کو مکمل توجہ سے سنتے اور اُن کے مسائل کا حل پیش فرماتے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ کی مجلس کو سب سے بابرکت مجلس کہا جاتا تھا۔

جب کوئی شخص آپؐ کے پاس آتا اور اپنی ضرورت یا مسئلہ بیان کرتا، تو آپؐ اُس وقت تک خاموشی اور تحمل کے ساتھ سنتے جب تک وہ خود اپنی بات مکمل نہ کر لے۔ اگر وہ حاجت آپؐ کی استطاعت میں ہوتی تو فوراً پوری فرما دیتے تھے اور اگر ممکن نہ ہوتا تو ایسی نرم، پیاری اورتسلی بخش بات کرتے کہ وہ شخص مطمئن اور خوش ہو کر واپس جاتا تھا، آپؐ  اتنا تحمل اور صبر کا مظاہرہ فرماتے تھےکہ سامنے والا خود اُٹھ کر چلا جاتا، کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آپؐ اُس کی بات ادھوری چھوڑ کر خود اٹھ جائیں(مکارم الاخلاق، ص ۱۷)۔

آپ ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ :

“مجالس کا حق ادا کرو”

پوچھا گیا: یا رسول اللہؐ! مجالس کا حق کیا ہے؟

آپؐ نے فرمایا:

“اپنی آنکھوں کو حرام سے بچاؤ، سلام کا جواب دو، اندھے کو راستہ دکھاؤ، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔”  (مکارم الاخلاق، ص 26)۔

رسول اکرمؐ کی مجلس ہمیشہ علم و معرفت، اخلاق، عبادت اور سماجی کاموں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ جو بھی شخص آپؐ کی خدمت میں شرفیاب ہوتا، وہ خالی ہاتھ اور بے فیض واپس نہ جاتایا تو اس کی دینی بصیرت میں اضافہ ہوتا، یا وہ روحانی درجات میں ترقی کرتا، یا کوئی مادی فائدہ حاصل کرتا۔حضرت امام علیؑ کا بیان ہے:

«یَدْخُلُونَ رُوّاداً وَ لا یَفْتَرِقُونَ الّا عَنْ ذَواقٍ وَیَخْرُجُونَ ادِلَّهً»؛ “لوگ حضوراکرمؐ کی خدمت میں علم حاصل کرنے اور برکت پانے کے لیے آتے اور جب تک کوئی نعمت (علمی یا مادی) حاصل نہ کر لیتے، واپس نہ جاتے۔ وہ جب لوٹتے، تو رہنمائی کرنے والے بن کر لوٹتے”(سنن النبى، ص ۱۵)۔

یعنی نہ صرف انہیں سیرابیِ علم و روحانیت نصیب ہوتی، بلکہ وہ دوسروں کی بھی رہنمائی کے قابل ہو جاتے تھے۔

(د) گفتگو کے وقت رسول اکرم ؐ کا عملی اخلاق

دوسروں سے گفتگو کرنے کا انداز کسی بھی انسان کی عقل مندی، شعور اور ادب کے درجے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس حصے میں ہم رسول اکرمؐ کی سیرتِ مبارکہ سے گفتگو کے انداز  کو مختصر طور پر پیش کرتے ہیں:

۱- مفید اور متعلقہ گفتگو

اکثر اوقات انسان کی زبان سے ایسے کلمات نکل جاتے ہیں جو بے فائدہ یا غیر ضروری ہوتے ہیں۔ ایک خودساختہ، باشعور انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان پر قابو رکھے اور صرف وہی بات کہے جو مفید، با مقصد اور ضروری ہو۔

پیغمبراکرمؐ کی اس سیرت مبارکہ کے بارے میں آیا ہے کہ: «کانَ صلى الله علیه و آله یَخْزِنُ لِسانَه الّا عَمّا یَعْنیهِ وَیُؤَلِّفُهُمْ وَلا یُنَفِّرُهِمْ»؛ “رسول اکرمؐ اپنی زبان کو فضول باتوں سے دوررکھتے تھے اورصرف انہی باتوں کے لئے زبان کھولتے تھے جو آپؐ سےمتعلق ہوں یا جن میں فائدہ ہو، جب آپؐ  کچھ ارشاد فرماتے تو ایسا کلام ہوتا جو دلوں کو جوڑتا، الفت پیدا کرتا اور لوگوں کو قریب لاتا، نہ یہ کہ اختلاف، دوری یا بدگمانی کا سبب بنے”(بحار الانوار، ج۱۶، ص۱۵۱)۔

۲- مخاطب کی سطح کے مطابق گفتگو

عقلمند انسان گفتگو کرتے وقت ہمیشہ مخاطب کی ذہنی سطح، فہم و استعداد اور معلومات کو پیش نظر رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر بات، مخاطب کی سمجھ سے باہر ہو تو وہ نہ صرف بے رغبتی کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات غلط فہمی یا گمراہی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

رسول اکرمؐ کے بارے میں آیا ہے کہ: «ما کَلَّمَ رَسُولُ اللَّه صلى الله علیه و آله العِبادَ بِکُنْهِ عَقْلِهِ قَطُّ، قالَ رسولُ اللَّه صلى الله علیه و آله انّا مَعْشَرُ الأنبیاءِ امِرْنا انْ نُکَلِّمَ النّاسَ عَلى قَدْرِ عُقُولِهِمْ»؛ “اگرچہ تمام عقل و دانش کے منبع تھے اور بلند ترین معرفت و حکمت کے حامل، لیکن آپؐ  ہمیشہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق گفتگو فرماتے تھے،  نہ کہ اپنی سطح کے لحاظ سے”۔

حضرت امام جعفرصادقؑ سے روایت ہے کہ: «ما کلّم رسول الله صلى الله عليه وآله العباد بكنه عقله قط… إنّا معاشر الأنبياء أمرنا أن نكلّم الناس على قدر عقولهم» ؛”رسول اکرمؐ نے کبھی بندوں سے اپنی عقل کی گہرائی کے مطابق گفتگو نہیں کی اور فرمایا: ہم انبیاءؑ اس بات پر مامور ہیں کہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کریں، نہ  کہ اپنی سمجھ کے مطابق”( بحار الانوار، ج ۱۶، ص 280)۔

یہ روش ہر اس شخص کے لیے نمونہ ہے جو وعظ، تعلیم یا تحریر کے ذریعے لوگوں سے مخاطب ہوتا ہے، تاکہ وہ سادہ، واضح اور عام فہم زبان اختیار کرے تاکہ سننے والے یا پڑھنے والے شخص کو بات آسانی سے سمجھ میں آسکے۔

پیغمبراکرمؐ کے انداز گفتگو کے بارے میں مزید نقل ہوا ہے کہ: «کان کلامه فصلاً یتبینُه کلُّ من سمعه»؛”آپ کی گفتگو واضح، روشن اور صاف ہوتی تھی اور ہر سننے والا اسے سمجھ سکتا تھا”(مکارم الاخلاق، طبرسى، ص ۲۳)۔

۳- صبر و حوصلے کے ساتھ بات سننا

صبر و تحمل بعض اوقات دوسروں کی بات سننے میں ظاہر ہوتا ہے۔ بے صبر اور کم ظرف لوگ صرف بات کرنا چاہتے ہیں، نہ سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس بات کی صبر کرتے ہیں کہ دوسرا شخص اپنی بات مکمل کر لے۔

حضرت رسول اکرمؐ، بات کرتے وقت سامنے والے کی باتوں کو صبر و حوصلے کے ساتھ سننے کا خاص خیال رکھتے تھے اور اپنے اصحاب کو بھی یہی  تربیت دیتےتھے کہ بولنے والے کی بات مکمل سنیں اور خاموش رہیں جب تک وہ اپنی بات ختم نہ کر لے ۔ اسی طرح آپؐ خودبھی کبھی کسی کی بات کے بیچ میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ فرمایا: «مَنْ تَکَلَّمَ انْصَتُوا لَهُ حتّى یَفْرَغ وَلا یَقْطَعُ عَلى احَدٍ کلامَهُ»؛ “جو بولے اس کی بات توجہ سے سنو جب تک وہ ختم نہ ہو جائے۔ اور کسی کی بات کے درمیان میں قطع نہ کرو”( بحارالانوار، ج ۱۶، ۱۵۳)۔

۴- تبسّم کے ساتھ گفتگو

خوش اخلاقی کی نمایاں علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ گفتگو تبسّم(مسکراہٹ) کے ساتھ ہو۔یہ بات نہ صرف مخاطب کے دل کو جیت لیتی ہے بلکہ بات کو مزید دلنشین اور پُراثر بنا دیتی ہے۔

رسول اکرم ؐ کی گفتگو ہمیشہ دلکش اور نرم تبسم کے ساتھ ہوتی تھی، جیسا کہ روایت میں آیا ہے : «کانَ رسولُ اللَّه صلى الله عليه وآله إذا حَدَّثَ بحدیثٍ تَبَسَّمَ فی حدیثه» ؛ “رسول اللہؐ جب کوئی بات  بیان فرماتے تھے تو مسکراتے ہوئے بیان فرماتے تھے”( سنن النبى، علامه طباطبایى، ص ۴۸)۔

کبھی کبھی آپؐ اپنے الفاظ سے مخاطب کو خوش کرنے کے مقصد سے مزاح بھی فرمایا کرتے تھے(سنن النبى، علامه طباطبایى، ص ۴۸) لیکن آپ ؐ کا یہ مزاح ہرگز  حق اور سچ سے خالی نہیں ہوتاتھا۔

آپؐ کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ : «وَ کانَ فِى الرِّضا وَالغَضَبِ لایَقُولُ الّا حَقّاً»؛”آنحضرتؐ خوشحالی ہو یا غصے کی حالت میں ہو کبھی بھی حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کہتے تھے”( سنن النبى، ص۷۶)۔

(ھ) رسول اکرمؐ  کا راستہ چلنےمیں عملی اخلاق

انسان کی ظاہری حالت بعض اوقات اُس کے باطن کی عکاسی کرتی ہے۔  اسی طرح کسی کا چلنے کا انداز بھی اُس کی شخصیت کی خصوصیات کو ظاہر کرتا ہے۔رسول خداؐ  کا چلنے کا انداز بھی منفرد اور باوقار تھا۔ ذیل میں اس کی کچھ جھلکیاں پیش کرتے ہیں:

۱- مضبوطی کے ساتھ چلنا

پُرعزم اور استوار طریقے سے چلنا، روحانی استحکام اور باطنی طاقت کی علامت ہے  بشرطیکہ وہ غرور و تکبر میں تبدیل نہ ہو۔

رسول اکرمؐ استواری اور مضبوطی کے ساتھ قدم بڑھاتے تھے جیساکہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

“آپ اس طرح قدم بڑھاتے تھے گویا ڈھلان کی طرف اتر رہے ہوں۔یہ چال نہ اس سے پہلے کسی کی دیکھی گئی، نہ اس کے بعد”( بحار الانوار، ج ۱۶، ص ۲۳۶۔ سنن النبى، ص 46 )۔

اسی طرح  ابن عباس سے روایت ہے کہ:  «کانَ رَسُولُ اللَّهِ اذا مَشى، مَشى مَشیاً یُعْرَفُ انَّهُ لَیسَ بِمَشىِ عاجزٍ وِلابِکَسْلانَ»؛ “رسول اللہؐ جب چلتے توآپ کی چال ایسی نہیں ہوتی تھی جیسے کوئی عاجز، سست انسان چل رہا ہو”(بحارالانوار، ج۱۶، ص۲۳۶)۔

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں: «کانَ رسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه و آله فى اخْرَیاتِ النّاسِ یُزجِى الضَّعیفَ وَ یُرْدِفُهُ وَیَدُلُّهُمْ»؛ “رسول اکرمؐ ہمیشہ قافلے کے آخر میں چلتے تھے اور کمزوروں کو سہارا دیتے تھے، انہیں اپنی سواری پر سوار کرتے اور راستہ دکھاتے تھے”( مکارم الاخلاق، ص ۲۲، سنن النبى، ص ۷۱)۔

یہ طریقہ، آپؐ کی تواضع، شفقت اور قیادت کا عملی مظہر تھا۔

۲- تیز لیکن باوقار چال

رفتار میں اعتدال رکھنا پیغمبروںؑ کی سنت رہی ہے۔کبھی زیادہ تیزی سے چلنا اور کبھی بہت دھیرے اور سستی سے چلنا انسان کو غیرسنجیدہ بنا دیتا ہے اسی طرح بہت آہستہ اور بھاری چال کے ساتھ چلنا تکبر اور غرور کا تاثر دیتی ہے۔

رسول اکرمؐ کی چال پروقار تھی ، آپ کی رفتار میں ایک معتدل تیزی تھی، نہ ہی سستی رہتی تھی اور نہ متکبرانہ انداز ہوتا تھا۔ جیساکہ ہند بن ابی ہالہ تمیمی  کا بیان ہے کہ:   «یَمشى هَوْناً، سریعَ المَشْیَهِ …»؛ “آپؐ وقار کے ساتھ چلتے، لیکن رفتار میں تیزی اور چستی ہوتی تھی”( مکارم الاخلاق، ص ۱۲)۔

۲- پیدل چلنے والوں کا خیال

کبھی کبھی سوار شخص پیدل چلنے والے کی حالت سے بے خبر ہوتا ہے۔ وہ اپنی سواری پر تیز رفتاری سے آگے بڑھ جاتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے بے وسیلہ اور پیدل چلنے والوں کو چھوڑ دیتا ہے یا ان کے پاس سے بے اعتنائی سے گزرتا ہے۔

پیدل چلنے والوں کی طرف توجہ نہ دینا ایک قسم کا تکبر ہے اور اپنی سواری کو استعمال کیے بغیر پیدل چلنے والوں کو چھوڑ دینا غیرانسانی اور انسانی جذبات سے دور عمل ہے۔

پیغمبراکرمؐ پیدل چلنے والوں کا بہت خیال رکھتے تھے جیساکہ نقل ہوا ہے کہ: «انَّ رَسُولَ اللَّه صلى الله علیه و آله لایَدَعُ احداً یَمشى مَعَهُ اذا کانَ راکِباً حتّى یَحْمِلَهُ مَعَهُ، فَانْ ابى قال: تَقَدَّمْ امامى وَادْرِکْنى فِى المَکانِ الّذى تُریدُ»؛ آنحضرتؐ اگر  سواری پر ہوتے تھےتو اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی آپؐ کے ساتھ پیدل راستہ طے کرے یا تو پیدل کو سواری پر بٹھاتے تھے اگر وہ منع کردیتا تھا تو اس سے کہتے تھے کہ میرے آگے چلو اورجہاں تم چاہتے ہو وہاں مجھ سے ملنا”( بحار الانوار، ج ۱۶، ص ۲۳۶. مکارم الاخلاق، ص ۲۲)۔

نتیجہ

سیرت رسول اکرمؐ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم بھی اپنی رفتار،گفتاراورکردار میں رسولؐ کی مانند بننے کی سعی و کوشش کریں تاکہ رسولؐ کے حقیقی پیروکار کہلا سکیں ۔ اور رب کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ معبود ہمیں بھی یہ توفیق دے کہ ہم رسولؐ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو سعادت کی منزل تک پہونچا سکیں ۔ (الہی آمین)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button