اسلامی معارف

آیت کا پیغام؛ خدا سے بندوں کا رابطہ

خدا سے بندوں کا رابطہ پھل کی طرح نہیں ہے جو ایک بار پیڑ سے جدا ہو جانے کے بعد پھر کسی قیمت پر اسے دوبارہ پیڑ سے نہیں جوڑا جا سکتا اور ایک طرح سے پیڑ اسکی دوبارہ واپسی اور بازگشت کو قبول نہیں کرتا بلکہ خدا سے ہم انسانوں کا رابطہ ویسا ہے جو آلودہ پانی کا سمندر سے ہوا کرتا ہے۔ سمندر سے جدا ہوئے پانی کو جتنا زمانہ بیت چکا ہو اور جس قدر بھی وہ آلودہ ہو چکا ہو، مگر جس وقت وہ سمندر کا رخ کر کے اسکی آغوش میں پناہ لینا چاہے تو سمندر اس کا صرف استقبال ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی تمام آلودگیوں کو بھی ختم کر دیتا ہے اور وہ پانی بالکل صاف شفاف اور پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے؛ ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ؛ وہ بڑا معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے (سورہ بقرہ ۔ آیت 37)۔

خداوندمتعال بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اس کی توبہ پذیری اور رحمت کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی ہے لہذا وہ اپنے بندوں کی توبہ کو خوب سنتا ہے۔ اپنے بندوں کا بہت بہترین طریقے اور پورے اہتمام کے ساتھ استقبال کرتا ہے؛ حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے:

«مَنْ تَقَرَّبَ إلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبتُ مِنْہُ ذِرَاعًا وَ مَنْ أتَانِی یَمْشِی أَتَیتُہ ھَرْوَلۃً »؛ “جو بندہ مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے میں اس سے ایک گز قریب ہوتا ہوں اور جو میری جانب آہستہ آہستہ آتا ہے میں اسکی جانب دوڑتا ہوا آتا ہوں”۔

الہی رحمت و مغفرت کے موقعوں اور موارد کو یوں تو شمار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن کچھ خاص لمحات اور ایام وہ ہیں جن کے بارے میں خوداس نے اور اس کی جانب سے آنے والے رہبروں نے بیان فرمایا ہے۔ ماہ رجب المرجب، ماہ شعبان المعظم اور ماہ رمضان المبارک انہیں ایام میں ہے اور اس کے شب و روز میں انسان کے لئے رحمت و مغفرت الہی کوپانے کے لئے خاص تاکید کی گئی ہیں جیساکہ آنحضرتؐ ایک مفصل حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ:

«أَلاَ إِنَّ رَجَباً شَهْرُ اَللَّهِ وَ شَعْبَانَ شَهْرِي وَ رَمَضَانَ شَهْرُ أُمَّتِي – أَلاَ فَمَنْ صَامَ مِنْ رَجَبٍ يَوْماً إِيمَاناً وَ اِحْتِسَاباً اِسْتَوْجَبَ رِضْوَانَ اَللَّهِ اَلْأَكْبَرَ وَ أَطْفَأَ صَوْمُهُ فِي ذَلِكَ اَلْيَوْمِ غَضَبَ اَللَّهِ وَ أَغْلَقَ عَنْهُ بَاباً مِنْ أَبْوَابِ اَلنَّارِ وَ لَوْ أُعْطِيَ مِلْءَ اَلْأَرْضِ ذَهَباً مَا كَانَ بِأَفْضَلَ مِنْ صَوْمِهِ وَ لاَ يَسْتَكْمِلُ لَهُ أَجْرَهُ بِشَيْءٍ مِنَ اَلدُّنْيَا دُونَ اَلْحَسَنَاتِ إِذَا أَخْلَصَهُ لِلَّهِ وَ لَهُ إِذَا أَمْسَى عَشْرُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٍ إِنْ دَعَا بِشَيْءٍ فِي عَاجِلِ اَلدُّنْيَا أَعْطَاهُ اَللَّهُ وَ إِلاَّ اِدَّخَرَ لَهُ مِنَ اَلْخَيْرِ أَفْضَلَ مَا دَعَا بِهِ دَاعٍ مِنْ أَوْلِيَائِهِ وَ أَحِبَّائِهِ وَ أَصْفِيَائِهِ»؛ “آگاہ رہیں کہ رجب اللہ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ جان لیں کہ جو رجب کے ایک دن کا روزہ ایمان کے ساتھ اور اللہ کی رضا کے لئےرکھے گا، وہ اللہ کی سب سے بڑی خوشنودی کا مستحق ہوگا اور اس کا روزہ اس قیامت کے دن اللہ کے غضب کو خاموش کر دے گا اور اس کے لئے جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ اگر زمین کو سونے سے بھر کر دیا جائے تب بھی رجب کے ایک دن کے روزے کے ثواب کی برابری نہیں ہوسکتی ہے اور اس روزے کا اجر وانعام نیکیوں کے علاوہ کوئی بھی دنیاوی چیز نہیں ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ اس نے روزہ صرف اللہ کے لئے رکھا ہو۔ اور جب یہ روزہ دار افطار کرے گاتو اس کی دس دعائیں مستجاب ہوں گی۔ اگر وہ دنیا کی کوئی چیز مانگے تو اللہ اسے یا تو وہی چیز عطا فرمائے گا یا اس سے بہتر چیز جو اللہ کے اولیاء اور منتخب بندوں کی اعلیٰ خواہش ہے، اس کے لئے دخیرہ کرکے رکھے گا اور جو شخص رجب کے دو دن کا روزہ رکھے گا، آسمان اور زمین کے اہل میں سے کوئی بھی اس کی اللہ کے نزدیک عزت کی توصیف نہیں کر سکتا اور اسے دس ایسے سچوں کے مانند اجر و انعام عطا کرے گا جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں ایک بھی جھوٹ نہ بولا ہو چاہے اس کی عمر طولانی ہو۔ اور وہ شخص قیامت کے دن سچوں کی طرح دوسروں کی شفاعت کرے گا اور انہیں لوگوں میں شامل رہے گا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوگا اور ان کے دوستوں اور ساتھیوں میں شمار ہوگا” (ثواب الاعمال و عقاب الاعمال ج۱ ص۵۴، فضائل الاشهُر الثلاثۃ،ج۱ ص۲۴، الامالی صدوق، ج۱ ص۵۳۴)۔

ماہ رجب المرجب کے فضائل ہی کی طرح ماہ شعبان اور سب سے اہم ماہ رمضان المبارک کے بھی بے انتہا فضائل و مناقب کا ذکر ملتا ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان تین مہینوں کو اپنے بندوں کے لئے معنوی لحاظ سے کوتاہیوں کا جبران کرکے آگے بڑھنے اور رحمت و مغفرت الہی کی آغوش میں آجانے کے لئے بار بار بلایا ہے اور بہت سے مواقع اور بہانے رکھے ہیں بس شرط یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے آمادہ اور اس کی طرف متوجہ ہوں۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button