اسلامی معارف

کربلا شام و سحر جانے کو جی چاہتا ہے

نتیجہ فکر: مولانا عرفانؔ عالم پوری صاحب

کربلا شام و سحر جانے کو جی چاہتا ہے
ہر عزادار کا گھر جانے کو جی چاہتا ہے

 

کربلا  جائیں  گے  تو مار دئیے جائیں گے
ہے پتا ہم کو مگر جانے کو جی چاہتا ہے

 

دیکھ  کے  شہ کے عزادار کو بولی جنت
اب مرا اور سنور جانے کو جی چاہتا ہے

 

حُر  کو  آتا  ہوا  دیکھا  تو کہا  حوروں نے
اس کی راہوں میں بکھر جانےکو جی چاہتاہے

 

دیکھا غازی کو تو بولا یہ خوشی سے میداں
اب مرا لاشوں سےبھر جانے کو جی چاہتا ہے

 

مَل  لو  چہرے  پہ  ذرا خاکِ درِ بنتِ رسولؐ
اے زلیخا  جو  نکھر جانے کو جی چاہتا ہے

 

ہم  نے  تو  دیکھ  لیا  حسنِ  علی  اکبرؑ کو
اب نہ یوسفؑ ترے گھر جانے کو جی چاہتا

 

شیخ جی تم کہاں اور شہ کے عزادار کہاں
اِن کا ہر حد سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

 

موت کےخوف سےتم چھوڑ کےمیداں بھاگے
اور یہاں سولیوں پر جانے کو جی چاہتا ہے

 

جب سے جانا ہے کہ آتے  ہیں لحد میں مولاؑ
ہے خوشی اِتنی کہ مر جانےکو جی چاہتا ہے

 

بیچ  دریا  میں  سفینہ  ہے مرا اے عرفانؔ
یا علیؑ کہہ کے اُتر جانے کو جی چاہتا ہے

 

 

قطعات

1

ہر ایک سوال کا واضح جواب رکھتا ہے
ہٹا کہ راہ سے کانٹے گلاب رکھتا ہے
زمانے بھر میں اکیلا ہے کربلا کا سفر
قدم قدم پہ جو حج کا ثواب رکھتا ہے

2

ہاتھ کاٹے گئے گردنیں بھی کاٹی گئیں
آدمی پھر بھی شہہ دیں کا عزادار بنا
ہر دفعہ توڑ دیا خون سے اپنے ہم نے
کربلا کے لئے قانون کئی بار بنا

 

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button