
قرآن، امام حسینؑ اور امام مہدی(عج) میں باہمی ارتباط
تحریر : مولانا سید تعلیم رضا جعفری۔ طالب علم جامعۃ المصطفیٰ (ص) العالمیہ۔ قم
فہرست مندرجات
قرآن اور امام حسینؑ میں ارتباط کے شکلیں:
پہلی شکل: کربلا میں قدم قدم پر آیات قرآنی کی تلاوت:
دوسری شکل: شہادت کے بعد تلاوت قرآن:
تیسری شکل: قرآن اور زیارت امام حسینؑ:
پانچویں شکل: قرآن اور عاشورا کا ہمیشہ باقی رہنا:
چھٹی شکل: قرآن اور عاشورا سے رابطہ و رشتہ:
۱: قرآن و حسینی درسگاہ سے علمی ارتباط:
۳: قرآن و عاشورا سے عملی ارتباط:
امام حسینؑ اور امام مہدی(عج) میں ارتباط کی شکلیں:
۱۔ پہلی شکل: امام حسینؑ اور امام زمانہ(عج) دونوں “ثاراللہ” ہیں:
۲۔ دوسری شکل: امام حسینؑ اور امام زمانہ(عج) دونوں “طرید”، “شرید” اور “وتر الموتور” ہیں۔
۳۔ تیسری شکل: دونوں اماموں کے اہداف مشترکہ ہیں:
۴۔ چوتھی شکل: عاشورا اور انتظار میں رابطہ :
۵۔پانچویں شکل: قیام مہدی(عج) و قیام حسینیؑ کے اہداف میں مماثلت:
۶۔چھٹی شکل: حضرت مہدی(عج)؛ امام حسین ؑ کے خون کے منتقم:
مقدمہ
محرم اور عاشورا کے سلسلے میں بیان بہت زیادہ ہے جنتا بھی عاشورا کی عظیم تحریک کے اسرار و فوائد کو بیان کرتے ہیں پھر بھی اس بیکراں دریا کے سامنے قطرہ کی مانند ہی نظر آتا ہے ، ہم تاریخ کے اس عظیم فیصلہ کن حادثہ کی گہرائیوں تک نہیں پہونچ سکتے ہیں ، لیکن یہاں قرآن اور حادثہ عاشورا کے درمیان پائے جانے والے گہرے رابطوں کو چند شکلوں میں بیان کر رہے ہیں تاکہ قرآن اور عاشورا کے ایک ساتھ ہونے کامشاہدہ کرسکتے ہیں:
قرآن اور امام حسینؑ میں ارتباط کے شکلیں:
یہاں قرآن اور امام حسینؑ کے درمیان پائے جانے والے ارتباط کی اہم شکلوں کو بیان کیا جارہا ہے:
پہلی شکل: کربلا میں قدم قدم پر آیات قرآنی کی تلاوت:
امام حسین ؑ نے جب مدینہ سے مکہ کی طرف حرکت فرمائی تو اس آیت کی تلاوت فرمائی: «رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ اَلظّالِمِينَ»(قصص،۲۱)؛ خداوندا! مجھے اس ظالم قوم کے شر سے نجات عطا فرما۔
اس کے بعد جب مکہ پہونچے ہیں تو امام تلاوت فرماتے ہیں: «وَ لَمّا تَوَجَّهَ تِلْقاءَ مَدْيَنَ قالَ عَسى رَبِّي أَنْ يَهْدِيَنِي سَواءَ السَّبِيلِ»(قصص،۲۲) اور جب شہر مدین کی طرف رخ کیا تو موسیٰؑ نے کہا امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا راستہ بتائے۔
جب شہرمکہ میں لوگوں سے آپ ؑ نے ملاقات فرمائی تو قرآنی آیات کی روشنی میں لوگوں سے کہا: “اے لوگو! میں تمہیں اللہ کی کتا ب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہے”۔(تاریخ طبری، ج 3، ص 28)۔
شیخ مفیدرح ،ضحاک بن عبداللہ نامی شخص سے نقل کرتے ہیں ابن سعد کا ایک سپاہی ہمارے پاس سے گزرا وہ سپاہی ہم لوگوں پر نظر رکھ رہا تھا اور ہمیں گھیرے ہوئے تھا اسی اثنا میں امام حسینؑ، اس آیت کی تلاوت فرماتے رہے تھے: «وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ»(آلعمران،178)؛ اور کافر لوگ یہ خیال نہ کریں کہ ہم جو ان کو مہلت دیئے جاتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے۔ (نہیں بلکہ) ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں۔ آخرکار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔
دوسری شکل: شہادت کے بعد تلاوت قرآن:
امام حسین ؑ اور آپ کے صحابیوں کی شہادت کے بعد بھی ہم قرآن اور امام حسینؑ کے درمیان ارتباط کا مشاہدہ بخوبی کرسکتے ہیں، چنانچہ متعدد روایات کی روشنی میں آیا ہے کہ: امام حسینؑ کا سرمبارک قرآن کی تلاوت فرمارہا تھا، جناب زید بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ میں نے خود سر امامؑ سے سنا کہ وہ اس آیت کی تلاوت فرما رہا تھا: «أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِيمِ كانُوا مِنْ آياتِنا عَجَباً»(كهف9)؛کیا تم خیال کرتے ہو کہ اصحاب کہف اور اصحاب لوح والے ہمارے نشانیوں میں سے عجیب تھے ۔
اسی طرح ایک یہودی کہتا ہے کہ میں نے امام حسین ؑ نے سر مبارک سے اس آیت کی تلاوت سنی: «وَ سَيَعْلَمُ اَلَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ»(شعراء،227)۔ اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔
تیسری شکل: قرآن اور زیارت امام حسینؑ:
قرآن مجید کا ایک اہم اصول جس پر قرآن بہت تاکید کرتا ہے وہ نیک و اچھے لوگوں سے عشق و محبت کرنا ہے اور برے اور بدکار لوگوں سے نفرت کرنا ہے۔
اگر ہم امام حسینؑ پر سلام پڑھتے ہیں تو ہمیں قرآن نے سیکھایا ہے چنانچہ متعدد آیات میں بیان ہوا ہے: «سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ»تمام جہان میں نوحؑ پر سلام(صافات، 79) «سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ؛ ابراہیمؑ پر سلام ہو(صافات،109)۔«سَلامٌ عَلى مُوسى وَ هارُونَ»موسیٰؑ اور ہارونؑ پر سلام ہو(صافات،120)۔«سَلامٌ عَلى إِلْياسِينَ»؛ آل یاسین پر سلام ہو(صافات،130)۔
اسی طرح اگر پیغمبر ؐ اور آپ کی آل پاک پر صلوات و سلام پڑھتے ہیں تو یہ بھی قرآن ہی نے بتا یا : «إِنَّ اللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً»؛(احزاب،56)؛ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو !تم بھی ان پر دُرود اور سلام بھیجا کرو ۔(واضح رہے کہ کثیر روایات کی بنا پر اس آیت کے ذیل میں اہل بیت پیغمبرؐ بھی شامل ہیں، بلکہ اگر کوئی فقط نبی ؐ پر صلوات بھیجنے پر اکتفا کرتا ہے تو اس کی صلوات ادھوری ہے)۔
اسی طرح اگر بنی امیہ اور حکومت حق کے غاصبوں اور تاریخ انسانیت کے تباہکاروں پر لعنت و نفرین کرتے ہیں تو یہ بھی ہم نے قرآن ہی سے سیکھا ہے: «إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّلَهُمْ عَذاباً مُهِيناً»(احزاب،57)۔ جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر خدا دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
چوتھی شکل: قرآن اور عزاداری:
قرآن مجید میں عزاداری کا خود ذکر آیا ہے خود خداوندعالم نے متعدد آیات میں مومنین پر ہونے والے مظالم و مصائب کا تذکرہ کیا ہے ؛ چنانچہ سورہ بروج میں اصحاب اخدودکا تذکرہ یوں فرماتا ہے: «قُتِلَ أَصْحابُ الْأُخْدُودِ․․․»؛ کہ خندقوں (کے کھودنے) والے ہلاک کر دیئے گئے، آگ (کی خندقیں) جس میں ایندھن (جھونک رکھا) تھا ، جب کہ وہ ان (کے کناروں) پر بیٹھے ہوئے تھے ، اور جو( سختیاں) اہل ایمان پر کر رہے تھے ان کو سامنے دیکھ رہے تھے ، ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے جو غالب (اور) قابل ستائش ہے ۔(سورہ بروج ، آیت۴ -۸)۔
اس کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جن میں مصیبتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصائب اور مشکلات کا بیان کرنا خود پروردگار کی شیوہ ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے عاشورا کے مصائب کو بیان کرنا بھی قرآنی اورالہی طریقہ پر عمل کرنا ہے۔
پانچویں شکل: قرآن اور عاشورا کا ہمیشہ باقی رہنا:
رسول اکرمؐ نے کئی بار اور متعدد شکلوں میں بیان فرمایا ہے کہ : میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، ایک کتاب الہی اور دوسرے میرے اہلبیتؑ، یہ دونوں چیزیں کبھی جدا نہیں ہونگے(میر حامدحسین، عبقاتالانوار، ۱۳۶۶ش، ج۱۸)۔
یہ کلام نبویؐ امام حسینؑ کے ہمیشہ باقی رہنے کے راز کو بیان کرتا ہے ، آپ رسول اللہؐ کے بیٹے ہیں اور ان کی پاکیزہ عترت میں سے ہیں جن کی جان و روح قیمتی حقائق سے بھری ہوئی ہے اور قرآن خداوندعالم کی ہمیشہ رہنے والی کتا ب ہے تو امام حسینؑ بھی کتاب خدا کی بولتے ہوئے مفسر ہیں اور دونوں ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔(بحارالانوار، ج25، ص215)۔
چھٹی شکل: قرآن اور عاشورا سے رابطہ و رشتہ:
ایک اہم ترین بحث اس سلسلے میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ قرآن مجید اور عاشورا کی عظیم درس گاہ سے ہم کیسے ارتباط برقرار کریں اور کیسا رابطہ ہماری زندگی کو زیادہ موثر بناسکتاہے؟
اس سوال کے جواب میں ہم یہاں دیگر روابط و شکلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تین طرح کے اہم رابطوں اور شکلوں کو بیان کرتے ہیں جن پر ہمیں پوری پابندی کرنے کی کوشش کرنا چاہئے:
۱: قرآن و حسینی درسگاہ سے علمی ارتباط:
قرآن اور امام حسینؑ دونوں ہی ہمیں علم کے عظیم دریا میں داخل کردینے کے لئے کافی ہے۔ قرآن کے کلمات کو پہچاننا، قرآنی آیات کی تفسیر، مختلف بیانات و ادبیات کی شناخت سے ہم بے شمار بحثوں اور علوم کے دریچوں تک پہونچ سکتے ہیں ۔اسی طرح امام حسینؑ اور عاشورا کے ذریعہ بھی ہم ادبیات، تاریخ ، معارف اسلامی، ظلم و ستم کے خلاف انقلاب ، صالح و بہترین معاشرے کو وجود میں لانے والےعوامل و ذرائع کی شناخت حاصل کرکے دنیا کو معنوی و روحانی اعتبار سے گلستان بنا سکتے ہیں۔
۲: حصول برکت:
قرآن اور امام حسینؑ دونوں ہی سے برکت حاصل کرنے والا رابطہ آج کے زمانے میں بہت رائج ہے، برکت و تبرک کے مسئلہ کو خود قرآن مجید نے متعدد نمونے پیش فرمائے ہیں جیسا کہ آیا ہےکہ حضرت یعقوب ؑ کی آنکھوں کی روشنی جانے کے بعد حضرت یوسفؑ کے پیراہن کی برکت سے دوبارہ روشنی حاصل ہوئی ہے(یوسف، ۹۳)۔ اسی طرح خود قرآن مجید سے تبرک حاصل کرنے کی آج کے زمانے میں رائج صورتوں میں قرآن کا بوسہ لینا، سفر کے آغاز میں قرآن کے نیچے سے گزرنا، قرآن کو ساتھ میں رکھنا، قرآن کے ذریعہ بیماروں کے لئے شفاطلب کرنا، قرآن سے استخارہ کرنا وغیرہ مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک مسلم و متفقہ عمل ہے۔ حضرت امام حسینؑ کی شخصیت اور عاشوراء سے مربوط امور جیسے غم حسینیؑ میں ماتم کرنا، توسل کرنا، تربت حسینیؑ کا ساتھ میں رکھنا، سجدہ کرنا، میت کےساتھ میں رکھنا، بچے کی ولادت پر خاک شفا کو چکھانا، ضریح ، علم مبارک کو چومنا، مجلسوں میں شرکت وغیرہ یہ سب مکتب امام حسین ؑ سے تبرک حاصل کرنے کی شکلیں ہیں اور ان میں سے بہت سے طریقے عام مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے نزدیک بھی مورد پسند ہیں۔ اور شیعوں کے درمیان تو یہ رابطہ بہت ہی عمیق رہا ہے۔ شیعہ ہمیشہ سے حصول تبرک کے لئے امام حسینؑ اور آپ سے منسوب امور سے مرتبط رہے ہیں اور ظاہری و باطنی لحاظ سے برکت حاصل کرتے رہے ہیں۔
اس مقام پر ہم سب کو بہت سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ جب قرآن اور امام حسینؑ سے مربوط ظاہری چیزیں ہمارے تبرک و برکت کے لئے بہت زیادہ مہم و قابل احترام ہیں اور ہم ہمیشہ اس طرح سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور اپنی دلی مرادوں کو پاتے ہیں، تو کیوں نہ قرآن اور تعلیمات امام حسینؑ پر عمل کرکے اپنے لئے دنیا و آخرت میں روحانی سکون اور حقیقی برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
۳: قرآن و عاشورا سے عملی ارتباط:
قرآن اور امام حسینؑ کی زندگی، خاص طور پر تحریک عاشوراء ہمارے لئے میدان عمل میں بہت موثر ہے، دونوں ہی ہمیں باعمل بنانے کے لئے ہے؛ جیسا کہ خداوندعالم قرآن مجید میں فرماتا ہے: «فَمَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صالِحاً وَ لا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَداً»(كهف،110)؛ جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیئے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔
یعنی قرآن و امام حسینؑ سے علمی اوربرکت والا رابطہ تنہا کافی نہیں ہے بلکہ دونوں ہی کی پناہ میں رہنا اور ان کے سایے میں زندگی گزارنا ضروری ہے۔حدیثوں کے مطابق جب فتنوں ، مختلف قسم کے چلینجوں اور خطروں کا سامنا ہو اور تاریک شبوں کی مانند گمراہیوں اور باطل کا سایہ زندگی کو گھیر لے تو قرآن و اہل بیتؑ کی پناہ میں رہنا چاہئے۔یعنی قرآن پر عمل کیا جائے اس لئے کہ قرآن پر عمل ہم کو اندھیروں سے نور کی طرف کھینچتا ہے اور مشکلات سے باہر نکالتا ہے، قرآنی مفاہیم کو چھوڑ کر ظاہری رابطہ ہمیں کہیں بھی نہیں پہونچا سکتا ہے بلکہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اجتماعی، سیاسی، فرہنگی اور اقتصادی میدانوں اور مشکلات کے حل کے لئے قرآن کو اپنے عمل اور کاموں میں ساتھ رکھیں اور قرآن سے نجات کی راہ حاصل کریں۔
امام حسینؑ اور عاشورا سے رابطے میں بھی اگر ہم امام حسین ؑ کو اپنا قائد، سردار و پیشوا کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو کیونکہ آپ عمل کا ایک مجسمہ ہیں، عملی زندگی کے لئے ایک رول ماڈل وکامل آئیڈیل ہیں، آپ نے زندگی کی تمام اقدار کو عملی طور پر میدان میں پیش کیا ہے لہذا ہمیں بھی امام حسینؑ کی طرح ظالموں کے مقابلے کھڑے رہنا ہوگا اور ہرقسم کی ذلت سے دور رہنا ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ اگر امام حسینؑ ہمارے عمل و کردار کے مقتدا و امام ہوں تو ہم تمام میدانوں کی مشکلات میں کامیاب و کامران ہوسکتے ہیں لیکن نہایت افسوس ہے آج ہم نے اپنی عزاداریوں ، مجلسوں ، جلوسوں، تعزیہ داریوں اور علم مبارک ․․․ اور اسی طرح قرآن مجیدکو بھی صرف ظاہری طور پر تبرک اوربرکت حاصل کرنے کی حد میں محدود کر رکھا ہے اور عملی لحاظ سے ہمارا رابطہ بہت سست اور کمزور ہوتا جا رہا ہے جسے مضبوط کرنے کی نہایت ضرورت ہے۔
امام حسینؑ اور امام مہدی(عج) میں ارتباط کی شکلیں:
تحریر کے اس حصے میں حضرت امام حسینؑ اور حضرت امام مہدی(عج) کی بعض اہم شباہتوں اور رابطوں کی شکلوں کا ذکر کیا جارہا ہے:
۱۔ پہلی شکل: امام حسینؑ اور امام زمانہ(عج) دونوں “ثاراللہ” ہیں:
عربی زبان میں ” ثار ” “خون” اورانتقام و خونخواہی کے معنی میں آیا ہے۔(الطریحى، مجمع البحرین، ج 1، ص 237، فرهنگ محمد معین، ج 1، ص 1185، مفردات راغب اصفهانی، ص81)۔
اور”ثار اللہ” کے لئے کے لئے مختلف معانی ذکر کئے گئے ہیں اور ہر ایک اپنی جگہ پرتفسیر طلب ہے۔ مجموعی طور پر روایات کی روشنی میں امیر المؤمنینؑ اور امام حسینؑ کو “ثار اللہ” کہا گیا ہے اور زیارات میں ہم پڑھتے ہیں: «السَّلامُ عَلَيْكَ يا ثارَ الله وَابْنَ ثارِهِ وَالوِتْرَ المَوتُورَ»(مفاتیح الجنان)؛ان کے خون کا ولی و وارث خود خدا ہے اور خدا خود ہی ان کے خون کا بدلہ ان کے قاتلوں سے لے گا۔ کیونکہ ان دو بزرگوں کا خون بہا کر دشمنان دین اس مقدمے میں خدا کے سامنے مدعا علیہ کے طور پر فریق بنے ہوئے ہیں اور یہ دشمنان دین حقیقت میں حریم الہی کے خلاف جارحیت و تجاوز کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جیساکہ حضرت امام صادقؑ سے منقول ایک زیارت کے جملات میں آیا ہے کہ:
«انک ثارالله فی الارض من الدم الذی لا یدرک ثاره احد من (اهل) الارض (الا باولیائک)، و لا یدرکه الا الله وحده»؛ (بحارالانوار، ج101، ص168)؛ اے حسینؑ ! آپ زمین پر خون خدا ہیں۔ وہی خون جس کا انتقام (ان کے وارثوں کے علاوہ) کوئی نہیں لے پائے گا۔اور خدا کے علاوہ اس کا انتقام کوئی نہیں لے گا۔
خون امام حسینؑ کے انتقام کا مسئلہ متعدد روایات کی روشنی میں امام زمانہ (عج) سے مربوط بھی بیان کیا گیا ہے کہ خداوندعالم کی جانب سے آپ ظہور کے بعد ایک اہم کا انتقام خون حسینؑ کا کریں گے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہےکہ:
«أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلی نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ»؛”جن لوگوں پر ظلم کیا گیا ہے انہیں جنگ و دفاع کی اجازت ہے اور خدا ان کی مدد پر قادر ہے”(حج، 39)۔ اس آیت کو متعدد روایات میں حضرت امام مہدی(عج)سے مربوط بیان کیا گیا ہے جیسا کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں : «…إِنَّمَا هُوَ الْقَائِمُ(عج) إِذَا خَرَجَ یَطْلُبُ بِدَمِ الْحُسَیْنِ وَ هُوَ قَوْلُهُ نَحْنُ أَوْلِیَاءُ الدَّمِ وَ طُلَّابُ التِّرَهًِْ (الدِّیَهًِْ)»؛ اس آیت سے مراد قائم آل محمدؑ ہے جو ہمارے مظلوم جد امام حسینؑ کے خون کے انتقام کے لئے قیام کریں گے”(بحار الانوار، ج۲۴، ص۲۲۷؛ ج۵۱، ص۴۷)۔
مذکورہ روایات کی روشنی میں جہاں امام حسینؑ کو “ثار اللہ” خون خدا بیان کیا گیا ہے اسی طرح امام مہدی(عج) کو “منتقم خون خدا” بیان کیا گیا ہے لہذا دونوں حضرات میں گہرا رابطہ پایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں مزید مطالب کوآئندہ بیان کیا جائے گا۔
۲۔ دوسری شکل: امام حسینؑ اور امام زمانہ(عج) دونوں “طرید”، “شرید” اور “وتر الموتور” ہیں۔
“طرید “کے معنی گھر و کاشانہ چھوڑنے پر مجبور کیا جانے والا اور برکنار کیا جانے والا۔
“شرید” طرید کی مانند ہے اور اس کے معنی بےوطن ہونے والا اور وطن کو چھوڑنے پر مجبور کیا جانے والا۔
“وتر الموتور” کے چند معنی ہیں :
1۔ وہ فرد جو خود بھی جرم کا نشانہ بنے اور اس کے اہل خاندان پر بھی ظلم کیا جائے۔
2۔ وہ انسان جس کو اس کے اہل خاندان کے ساتھ قتل کیا گیا ہو۔
3۔ وہ اکیلا فرد جس کے خاندان کے افراد کو قتل کیا گیا ہو۔
4۔ وہ تنہا انسان جس کو اہل خاندان کے ہمراہ قتل کیا گیا ہو اور اس کا انتقام نہ لیا گیا ہو۔
5۔ یگانۂ دوران یعنی وہ جو انسانی کمالات میں بےمثل و منفرد ہو۔
(کتاب “بر رسی و تحلیلی پیرامون زیارت عاشورا”، ص82۔ کتاب “مدرسه عشق” ص137)۔
امام مہدی(عج) بھی ولادت کے بعد سے غیبت صغری ٰ اور اس کے بعد غیبت کبریٰ سے لے کر آج تک چونکہ اپنے گھر و وطن سے دور ہیں اور بے جرم وخطا ہمیشہ دشمنوں کے نرغہ میں گرفتار ہیں لہذا آپ بھی امام حسینؑ سے شباہت رکھتے ہیں۔
۳۔ تیسری شکل: دونوں اماموں کے اہداف مشترکہ ہیں:
حضرت امام حسینؑ کے قیام کا مقصد اور ہدف جیسا کہ دسیوں اقوال کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حق و صداقت اور دینی و انسانی اقدار کی زندگی اور معاشرہ اسلامی اور معاشرہ انسانی کی اصلاح کرنا تھا اور ظلم و ستم کی نابودی اور عدل و انصاف کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ جیساکہ زیارت اربعین میں بھی بیان ہوا ہے کہ:
“امام حسین ؑ اپنا خون تیری (یعنی اللہ کی) راہ میں قربان کیا تاکہ انسانون کو نادانی اور گمراہی سے نجات دلائیں”۔(مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص308و 386)۔
امام زمانہ(عج) کی ذات بھی اس لحاظ سے امام حسینؑ کی طرح ہیں جیسا کہ امام باقرؑ نے فرمایا: “جب ہمارا قائم قیام کرے تو وہ باطل کو حتمی طور پر نیست و نابود کریں گے”۔( کلینی، اصول کافی، ج8، ص278)۔
دونوں شخصیتوں کی عصری صورت حال ایک جیسی ہے اور دونوں کا زمانہ فساد اور گناہ و بے دینی اور بدعتوں کی عالمی ترویج کے لحاظ سے ایک جیسا ہے اور دونوں کے اصحاب خاص ایک جیسی معرفت و محبت و اطاعت کےمدارج پر فائز ہیں(بحارالانوار، ج45، ص6)۔
۴۔ چوتھی شکل: عاشورا اور انتظار میں رابطہ :
عاشورائی تعلیم و تہذیب تہذیبِ انتظار کا سرچشمہ ہے۔ انتظار، عاشورا کا تسلسل ہے؛ زیارت عاشورا کے دو حصوں میں حضرت مہدی(عج) کے رکاب میں امام حسین ؑ کی خونخواہی اور انتقام کی خبر دی جارہی ہے۔ چنانچہ انتظار در حقیقت، انتقام عاشورا کا انتظار ہے اور حضرت مہدی (عج) کے اصحاب سب عاشورائی ہیں۔ صرف وہ لوگ امام مہدی(عج) کے رکاب میں لڑ کر امام حق کی مدد کرسکتے ہیں جو مکتب عاشورا میں صیقل ہوئے ہوں اور حق و باطل کے معیار کو صحیح طریقے سے پہچان چکے ہوں اور بصیرت کی چوٹیوں تک پہنچے ہوں کیونکہ حسینؑ خود حق و باطل کا معیار و میزان ہیں اور تولیٰ اور تبرا اور سلم و حرب کا پیمانہ ہیں۔
۵۔پانچویں شکل: قیام مہدی(عج) و قیام حسینیؑ کے اہداف میں مماثلت:
امام حسینؑ قرآن اور سنت نبوی کے احکام اور سنتوں کے احیاء اور بنوامیہ کی حاکمیت کی وجہ سے پھیلنے والی بدعتوں اور دین میں رائج ہونے والی تحریفات کے خاتمے کے لئے اٹھے اور مکہ معظمہ سے کربلائے معلی کی طرف سفر کے دوران راستے میں اپنے قیام کے محرکات بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں اپنے نانا رسول اللہؐ کی امت میں اصلاح کے لئے اٹھا ہوں؛ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے نانا رسولؐ اور اپنے والد امیرالمؤمنین علیؑ بن ابی طالبؑ کی سیرت پر کاربند رہنا اور عمل کرنا چاہتا ہوں(بحارالانوار، ج51، ص130)۔
امام حسینؑ کے کلام کے مجموعے سے تحریک عاشورا کے اعلی و اہداف و اغراض کا بخوبی اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ قرآن، سنت رسول ؐاور سیرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ کے احیاء اور انحرافات اور گمراہیوں اور بدعتوں کے ختمے، حق کو حاکم بنانے اور حق پرستوں کو حاکمیت بخشنے، ستمگروں کی حکومت کی استبدادیت و آمریت کو نابود کرنے اور سماجی و معاشی شعبوں میں عدل و قسط کے فروغ کے لئے کربلا تشریف فرما ہوئے تھے اور یہی قیام عاشورا کے اہداف و مقاصد تھے۔
دوسری طرف سے جب ہم عالم بشریت کے نجات دہندہ حضرت امام مہدی(عج)کے قیام اور آپ(عج) کی عالمی حکومت کے مطمع نظر کا جائزہ لیتے ہیں وہاں بھی یہی اہداف و مقاصد نظر آتے ہیں اور حتی کہ عبارات اور الفاظ بھی ایک جیسے ہیں۔
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ، حضرت مہدی(عج) کی حکومتی روش کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب دوسرے ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات کو ہدایت پر مقدم رکھیں اور ترجیح دیں، امام مہدی(عج) نفسانی امیال و خواہشات کو ہدایت کی طرف لوٹاتے ہیں اور ایسے حالات میں ـ جب دوسرے اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں ـ امام مہدی(عج) آراء و عقائد کو قرآن کی طرف لوٹائیں گے۔ وہ لوگوں کو بتا دیں گے کہ کس طرح نیک سیرت اور روش کے ساتھ عدل و قسط کے مطابق عمل کیا جاسکتا ہے اور وہ قرآن سیرت نبوی کو زندہ کریں گے(الزامالناصب، ص177)۔
امام باقرؑ فرماتے ہیں: قائم آل محمد(ص) لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اور ولایت علی بن ابی طالبؑ اور ان کے دشمنوں سے بیزاری و برائت کی طرف دعوت دیں گے۔(ینابیعالموّدة،ج3، ص62)۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
“حضرت مہدی(عج) عالمی سطح پر دین میں رائج ہونے والی بدعتوں کا خاتمہ کریں گے اور ان کے بدلے رسولؐ کی تمام سنتوں کو یکے بعد دیگرے رائج و نافذ کریں گے”۔(دلائلالامامۃ، ص239)۔
۶۔چھٹی شکل: حضرت مہدی(عج)؛ امام حسین ؑ کے خون کے منتقم:
امام حسین ؑاور امام مہدی ( عج) میں ایک رشتہ اور رابطہ خون کے انتقام کا بھی پایا جاتاہے جیساکہ گذشتہ مطالب میں اشارہ کیا گیا ہے۔
امام مہدی(عج)کے القاب میں سے ایک لقب خود”منتقم” ہونا ہے۔ امام(عج) کے لئے اس لقب کے انتخاب کے لئے اہل بیت ؑ کی روایات میں متعدد اسباب بیان ہوئے ہیں۔ امام محمد باقر ؑسے پوچھا گیا کہ اللہ کے آخری ولی اور حجت کو قائم کیوں کہا جاتا ہے؟ امام ؑنے فرمایا:
«لَمَّا قُتِلَ جَدِّی الْحُسَینُ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ ضَجَّتِ الْمَلَائِکَهُ إِلَی اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِالْبُکَاءِ وَالنَّحِیبِ وَقَالُوا: إِلَهَنَا وَسَیدَنَا أَتَغْفَلُ عَمَّنْ قَتَلَ صَفْوَتَکَ وَابْنَ صَفْوَتِکَ وَخِیرَتَکَ مِنْ خَلْقِکَ؟ فَأَوْحَی اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیهِمْ: قَرُّوا مَلَائِکَتِی فَوَ عِزَّتِی وَجَلَالِی لَأَنْتَقِمَنَّ مِنْهُمْ وَلَوْ بَعْدَ حِینٍ، ثُمَّ کَشَفَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنِ الْأَئِمَّهِ مِنْ وُلْدِ الْحُسَینِ ؑ لِلْمَلَائِکَهِ فَسَرَّتِ الْمَلَائِکَهُ بِذَلِکَ فَإِذَا أَحَدُهُمْ قَائِمٌ یصَلِّی، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: بِذَلِکَ الْقَائِمِ أَنْتَقِمُ مِنْهُمْ»
“جب دشمنوں نے میرے جد امجد امام حسین ؑکو شہید کیا تو فرشتے مغموم ہوئے اور روتے اور آہ و نالہ کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عرض کیا: خداوندا! پروردگارا! کیا تو ان لوگوں سے درگذر کرے گا جنہوں نے تیرے برگزیدہ بندے اور تیرے برگزیدہ بندے کے فرزند کو بزدلانہ طریقے سے قتل کیا؟ تو خداوند متعال نے فرشوں کے جواب میں ارشاد فرمایا: اے میرے فرشتو! میری عزت و جلال کی قسم! میں ان کا انتقام لونگا چاہے اس میں کافی طویل عرصہ لگ جائے۔ اس کے بعد خداوندمتعال نے امام حسین ؑکے فرزندوں کا سایہ دکھا دیا اور پھر ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا جو حالت قیام میں تھے اور فرمایا: میں اس قائم کے ذریعے امام حسینؑ کے دشمنوں سے انتقام لونگا”۔(بحارالانوار، ج۴۵، ص۲۲۱)۔
آیت کریمہ «وَمَنْ قُتِلَ مظلوماً فقد جَعَلْنا لِوَلیّه سلطاناً…»؛ اور جو مظلومیت کے ساتھ قتل ہو، ہم نے اس کے وارث کو تسلط عطا کیا ہے۔ کی تفسیر میں امام صادق ؑنے فرمایا: “اس آیت میں مظلوم سے مراد امام حسینؑ ہیں جو مظلومیت کے ساتھ قتل کئے گئے اور«جَعَلنا لِوَلیِّه سلطاناً»سے مراد حضرت امام مہدی(عج)ہیں۔(البرهان فى تفسیر القرآن، ج4، ص559)۔
خلاصہ یہ کہ اہداف کے مشترک ہونے کے علاوہ، امام مہدی(عج) کے قیام کے بعد عالمی حکومت کے قیام کے زمانے میں وہ تمام تر اہداف و مقاصد جامہ عمل پہنیں گے جو امام حسینؑ نے کربلا میں بیان کئے تھے اور تحریک عاشورا بار آور ہوجائے گی اورتحریک حسینی اور ظہور مہدی(عج) کی برکت سے پوری دنیا میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ اور آدم ؑ سے لے کر رسول اکرمؐ تک، تمام انبیاءؑکے اہداف حاصل ہوجائیں گے اور آدم کے فرزند صلح و امن و سلامتی اور سعادت کا مزہ چکھیں گے۔