
نفس مطمئن
نفس مطمئن
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: “يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي”(سورۂ فجر۔آیات 27-29) ؛ اے نفس مطمئن! تُو اپنے رب کی طرف لوٹ آ، اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پس تُو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا۔ اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
یہ چند مختصر الفاظ ایک مکمل اور زندہ جاوید پیغامِ حیات سمیٹے ہوئے ہیں، جو انسان کی حتمی کامیابی اور ابدی سعادت کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ان آیات کا مرکز و محور ” نفس مطمئن” ہے۔ “ نفس مطمئن” وہ جان ہے جسے دنیا کی ہر آزمائش، ہر پریشانی، ہر خوشی اور ہر غم کے باوجود گہرا، مستقل اور حقیقی سکون حاصل ہو گیا ہے۔ یہ سکون مال و دولت، منصب و حشمت یا دنیاوی کامیابیوں سے نہیں، بلکہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ مضبوط اور گہرے تعلق (ایمان)، اس پر پختہ بھروسے (توکل) اور اس کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کر دینے (رضا) سے ملتا ہے۔ یہ دل کا وہ سکون ہے جو ہر حال میں قائم رہتا ہے۔
نفس مطمئن کا مقصدِ زندگی صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ وہ ہر عمل، ہر قربانی، ہر مشکل کو اسی لیے برداشت کرتا ہے کہ اس کا رب خوش ہو جائے۔ اسے دنیا کی ناپسندیدگی یا لوگوں کی نارضایتی کا خوف نہیں ہوتا، بس اللہ کی خوشنودی کا خیال اس کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔
نفس مطمئن کا ایمان اتنا پختہ اور یقین اتنا کامل ہوتا ہے کہ اس کے دل میں اللہ، آخرت، حساب و کتاب، جنت و دوزخ یا تقدیر کے بارے میں کوئی شک و شبہ یا تردد نہیں ہوتا۔ اس کا دل “اطمینان” کی حقیقی کیفیت سے سرشار ہوتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت “موت” کا خوف عام انسانوں کو گھیرے رہتا ہے۔ لیکن نفس مطمئن کے لیے موت خوف کی چیز نہیں، بلکہ اپنے محبوب حقیقی سے جا ملنے کا راستہ ہے۔ وہ موت کو “اپنے رب کی طرف لوٹنا” سمجھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نفس مطمئن کو جس شاندار استقبال اور بے مثال انعامات سے نوازتا ہے، وہ اس کی عظمت کو واضح کر دیتے ہیں: سب سے پہلے رب کی طرف سے نہایت محبت اور تکریم سے بھرا ہوا خطاب ہوتاہے کہ: “يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ” (اے اطمینان والے نفس!)۔ یہ خطاب خود اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کو اس کا نفس کو بہت پسند ہے، اس کی قدر و تکریم کرتا ہے۔ اس کے بعد پھر فرماتا ہے: “ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ” (اپنے رب کی طرف لوٹ آ)۔ یہ لوٹنا عزت اور سعادت کے ساتھ ہے، کسی طرح کی ذلت اور خوف کا شائبہ نہیں ہے۔
اسی طرح دونوں طرف سے رضایت و خشنودی کی منزل ہوتی ہے؛اسی وجہ سے کامیابی کی سب سے بڑی علامت یہ بتائی گئی کہ: “رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً” (تو مجھ سے راضی اور میں تجھ سے راضی ہوں)۔ یعنی نفس مطمئن وہ ہے جس نے اپنی زندگی، اپنی تقدیر، اپنے رب کے ہر فیصلے سے مکمل رضامندی کا اظہار کیا۔ اس سے کسی طرح کا کوئی گلہ شکوہ نہیں، کوئی افسوس نہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اس کے ایمان، اعمال، صبر، توکل اور رضا پر اس سے خوش ہے۔ رب کی یہ رضا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
نفس مطمئن کا اعزاز صرف جنت ہی میں داخلہ نہیں ہے بلکہ پہلے ایک بہت بڑے اعزاز سے نوازا جاتا ہے: “فَادْخُلِی فِی عِبَادِی” (پس تُو میرے خاص بندوں میں شامل ہوجا)۔ یہ “عبادی” (میرے بندے) عام مومنین نہیں، بلکہ وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جن کی مثال پیغمبر، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ نفس مطمئن کو ان کے صف میں کھڑا ہونے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔
اعزاز کے ساتھ “وَادْخُلِی جَنَّتِی” (اور میری جنت میں داخل ہوجا)۔ یہ صرف ظاہری و عمومی جنت نہیں ہے بلکہ”میری جنت” ہے۔ اس میں الفت، قربت اور خصوصی تعلق کا اعلان ہے۔ یہ وہ جنت ہے جس کی نعمتیں آنکھوں نے نہ دیکھیں، کانوں نے نہ سنیں اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر ان کا تصور گزرا۔ یہ ابدی سکون، مسرت اور نعمتوں کا گھر ہے۔
خلاصہ یہ کہ سورۂ فجر کی یہ آیات ہر انسان کے سامنے زندگی کا ایک واضح اور تابناک ہدف پیش کرتی ہیں کہ اپنے نفس کو ” نفس مطمئن” بنایا جائے اور یہ ہدف دنیاوی مال و متاع، شہرت یا طاقت حاصل کرنے سے کہیں بلند اور پائیدار ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان کو پختہ کیا جائے۔ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھا جائے، اس کے ہر فیصلے پر راضی اور نیک اعمال کو اپنا شعار بنانے کی پوری کوشش کی جائے اور ہمیشہ منزل کمال کی طرف گامزن رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں لگے رہنا چاہئے۔
یہ آیات موت کے بعد کی زندگی کو حقیقی اور تابناک زندگی ثابت کرتی ہیں، جہاں حقیقی کامیابی ” نفس مطمئن” ہی کے حصے میں آتی ہے۔ اسی طرح یہ آیات مایوسی اور پریشانی کے لمحات میں امید کی کرن ہیں۔ جو بندہ اپنے رب سے راضی ہو کر دنیا سے جاتا ہے، اس کا انجام یقیناً بہترین ہوگا۔
حضرت امام حسینؑ نے کربلا کے میدان میں ” نفس مطمئن” کی وہ عملی تصویر پیش کی جس کا قرآن ذکر کرتا ہے۔ اسی لئے آپ کو “سورہ الفجر” کو “سورہ حسینؑ” بھی بیان کیا گیا ہے(مجمع البیان، ج 9 و 10)۔ آپؑ نے تنہائی، پیاس، عزیزوں کی شہادت اور دشمن کی بے رحمی کے باوجود اپنے رب پر پورا یقین قائم رکھا۔ دعائے عرفہ میں فرماتے ہیں: “و خرّ لي في قضائك و بارك لي في قدري حتی لا أحب تعجیل ما أخرت و لا تأخیر ما عجلت”؛ اپنے فیصلے کو میرے لئے خیر و بہتر بنادے اور میری تقدیر میں برکت عطا فرما تاکہ میں نہ تو تیری جانب سے مؤخر کی گئی چیز میں جلدی چاہوں اور نہ ہی جلدملنے والی چیز کے بارے میں تاخیر کو پسند کروں”(مفاتیح الجنان)۔
اسی کربلا کے میدان میں آخری وقت بھی یہی دعا فرما رہے تھے کہ“رضا بقضائك و تسلیما لأمرك و لا معبود سواك یا غیاث المستغیثین”؛ خدایا! میں تیری قضا پر راضی اور تیرے امرکے سامنے تسلیم ہوں، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اے فریادکرنے والے کے مددگار(مقتل الحسين ؑ، ابی مخنف، ص ۱۳۲)۔ معلوم ہوا ہےکہ امام حسینؑ آیاتِ فجر کا عین مظہر تھے۔ اسی طرح حضرت امام حسینؑ کا یہ اعلان “هیهات من الذلة“ (ہم ذلت کو ہرگز قبول نہیں کرتے!)۔ بھی رضائے الٰہی سے سرشار ہونے کی نشانی تھااور اسی وجہ سےدنیا کی کوئی طاقت آپؑ کو جھکا نہ سکی۔ اور آخرکار آپؑ کی عظیم قربانی نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ صاحب ” نفس مطمئن” صرف اللہ کی خوشنودی کو اپنا معیار بناتا ہے۔
روزِ عاشورا جب امامؑ کے ساتھیوں نے شہادت پیش کی تو ہر ایک کا آخری جملہ بھی یہی تھا کہ بس اللہ ہم سے راضی رہے ۔ یہ پختہ یقین ہی “اطمینانِ قلب” کی اصل بنیاد ہے۔ جب حضرت امام حسینؑ کی پاک روح آسمان کی جانب پرواز کرنے لگی تو انہیں آیات کی صدا بلند ہوئی کہ ” يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ…“ اے نفس مطمئن اپنے پروردگار کی جانب لوٹ آ… ۔ پروردگار عالم سے دعا ہے کہ خدایا! ہمارے دلوں کو ایمان اور یقین سے منور فرما۔ ہر آزمائش میں ہمیں صبر اور توکل عطا فرما۔ اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق دے۔ ہمارے نفسوں کو ” نفس مطمئن” بنا دے، تاکہ تیرے بلند ترین مقام پر ہم بھی تیرے محبوب بندوں میں شامل ہو سکیں اور تیری رضا اور تیری جنت کے حقدار قرار پائیں۔( آمین یا رب العالمین)۔