اسلامی معارف

جناب خدیجہؑ؛ حضرت رسول خداؐ کی ہمدرد بیوی

تحریر: محمد علی- طالب علم جامعة المصطفیؐ العالمیه قم ایران

 فهرست مندرجات

مقدمہ

جناب خدیجہؑ کا مختصر تعارف

آپؑ کی شخصیت

جناب خدیجہ رسولؐ کی نگاہ میں

حضرت خدیجہؑ، عائشہ کی نگاہ میں

جناب خدیجہؑ کا ایمان لانا

جناب خدیجہؑ بہترین زوجہ

حضرت خدیجہؑ و خدمت اسلام

حوالہ جات

مقدمہ

میاں بیوی کا ایک ایسا رشتہ ہے جو ابتدائے خلقت سےجڑا ہواہے جب اللہ نے جناب آدمؑ کوخلق کیا، اس وقت بھی ان کو تنہانہیں چھوڑابلکہ ان کے ساتھ حضرت حواءؑ کو خلق کیا، جب ان کو زمین پر اتارا تو ساتھ میں اتارا۔اس رشتہ کو لوگ مختلف نام سے یاد کرتے ہیں، کوئی ہمسفر کہتاہے تو کوئی زندگی کا دو پہیہ اور اس کے دوسرے بھی نام ہیں۔مگر حقیقت میں دیکھاجائے تو انسان کی زندگی میں اس  کی بیوی کا بہت اہم نقش ہوتاہے۔اگر خدا کےفضل سے بیوی اچھی مل گئی تو انسان کو سکون اور اس کے ترقی کے لئے زمین ہموارکرتی ہےاور اگر بد اخلاق، بری صفات کی حامل مل گئی تو اس شخص کی زندگی بربادہوجایاکرتی ہے اس کی زندگی میں آنے والے سکون بھی دور سے ہاتھ دکھاکرواپس چلے جاتےہیں۔اس میں کوئی شرط نہیں ہےکہ اچھے آدمی ہوں گے تو ان کواچھی بیوی ملے گی یا برا آدمی ہوگا تو اس کو بری بیوی ملے گی ۔تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ہیں جیسے حضرت نوح اور لوط کی بیویاں جبکہ یہ دونوں اپنے وقت کے نبی تھے دوسری طرف فرعون کی بیوی آسیہ ۔ہمارے حضرت رسول خداؐ کی بھی کئی بیویاں تھیں تاریخ نے سب کی خصوصیات اور پیغمبر اکرمؐ کےساتھ ان کے برتاؤ و سلوک سب کو ثبت کیاہے۔

اس مضمون میں حضرت خدیجہ ؑکی پیغمبر اکرمؐ کےساتھ ہمدردی کے بارے میں بیان کیاجاےٴ گا  لیکن اس سےپہلےمختصرطور حضرت خدیجہ ؑکی زندگی پر روشنی ڈالی جارہی ہے:

جناب خدیجہؑ کا مختصر تعارف

جناب خدیجہؑ قریش کی محترم خاتون تھیں، جو پیغمبراسلام ؐکےوجود دنیوی سے پندرہ سال پہلے، یعنی بعثت سے 55 سال پہلے دنیا میں تشریف لائیں، آپ کی ولادت کا تو صحیح علم نہیں ہے لیکن آپ کی وفات بعثت کے دسویں سال رمضان میں ہوئی اور آپ کی پینسٹھ 65 سال کی عمر تھی۔آپ کاسلسلہ نسب وا لدہ کی جانب سے حضرت رسول خدا ؐسے آٹھویں جد امجد سے ملتا ہے لہذا جناب خدیجہؑ کی والدہ گرامی فاطمہ بنت زائدہ بن اصم بن رواحہ بن حجر بن عبد بن معیص بن عامر بن لوٴی بن غالب ۔ والد کی طرف سےتین پشتوں کے بعد رسول خداؐ سے ملتاہے؛ قصی بن کلاب، اسد، خویلد، خدیجہؑ، اس لیے ایک دوسرے کو چچا کے بیٹے اور چچا کی بیٹی پکارا کیا کرتے تھے(سیره ابن هشام، ج1، ص 187-189؛ طبقات ابن سعد، ج8، ص 14)۔

 ‏آپ کے خاندان کے تمام افراد اہل علم تھے، اور خانہ کعبہ کے محافظ بھی، جس زمانہ میں یمن کابادشاہ (تبع) حجر اسود کو اکھاڑ کریمن لے جانے کا ارادہ کیا، تو آپ کےوالد جناب خویلد، حجر اسود کے حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوے اور ان کی جد وجہد کے نتیجہ میں وہ بادشاہ اپنے ارادہ سےمنصرف ہوا۔ اسی طرح جناب خدیجہ ؑکے جد، اسد بن عبد ا لعزی بھی پیمان حلف الفصول کے نمایاں اراکین میں سے ایک تھے۔

آپؑ کی شخصیت

ابن ہشام لکھتے ہیں کہ جناب خدیجہؑ ایسی شریف اور مالدار خاتون تھیں جو تجارت کیا کرتی تھیں اور بہت سے لوگوں کواپنے پاس نوکر کےطور پر رکھی ہوئیں تھیں، جو ان کے پاس اجرت پر کام کرتے تھے، جو اس زمانے میں بالخصوص جزیرہ عرب میں کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ ایک خاتون کا تجارت کرنا اس زما نے میں جب عورتیں معاشرتی حقوق سے محروم تھیں اور سنگدل مرد حضرات اپنی بے گناہ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے، تو جناب خدیجہؑ کے بارے میں کہنا پڑے گا کہ آپ کو اللہ نے غیر معمولی ذہانت، شخصیت، نفسیا تی استقلال اور ذہین بنا یا ہے۔ دوسرےلفظوں میں کہا جائے کہ حضرت خدیجہؑ کی ذات، اس عرب کےبے رحم مردوں کے منھ پر ایک طماچہ تھی  جو لڑکی کو وہ باعث ننگ وعار سمجھتے تھے۔ جناب خدیجہؑ نے بتا دیا کہ وہ عرب کی ملکہ بھی ہوسکتی ہےکہ جس کے ٹکڑوں پر ہزاروں زندگی گزراتے ہوں۔

ابن سحاق سے روایت ہے کہ جناب خدیجہؑ نہایت شریف مالدار تاجرہ بی بی تھیں ۔ دوسرے لوگ ان کے مال سے تجارت کرتے تھے اور وہ منافع میں سے کچھ ان کو دیدیا کرتی تھیں۔قریش ایک تاجر قوم تھی۔ جب جناب خدیجہؑ کو پیغمبر ؐ کی صداقت اور امانت داری اور نیک کردار کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت رسول خداؐسے درخواست کی کہ آپ میرا مال تجارت کے طورپر شام لے کر جائیں، میں اب تک دوسر ے تاجر وں کو منافع میں سے جس قدرحصہ دیا کرتی تھی اس سے زیادہ آپ کو دوں گی۔

جب حضرت رسول خداؐ کی ان سےشادی ہوگئی توجناب جبرئیل رسول خداؐ پر نازل ہوتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ: اے اللہ کے رسولؐ۔ اللہ کا سلام جناب خدیجہ ؑ کو پہنچا دیجیئےاور ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ نے آپ کے لیے بہشت میں ایک خوبصورت محل تیار کیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ جناب خدیجہ ؑ، جہا ں دنیاوی اعتبار سے صاحب کمال تھیں وہیں معنوی اعتبار سےبھی صاحب فضلیت تھیں اور یہ ایک کرامت سےکم نہیں ہےکہ صاحب ثروت ہوتے ہوئے خدا کےسلام کے لائق تھیں

جناب خدیجہ رسولؐ کی نگاہ میں

یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ شوہر اپنی بیوی سےکتنا راضی ہے جو اس کےباتوں سے اور اس کےکردار سے معلوم ہوتاہےجب ہم اپنے رسول خدا ؐ کے زندگی کو تاریخ کے دامن میں دکھتے ہیں تو ہمیں ملتاہے حضرت خدیجہ ؑوہ پہلی خاتون تھیں کہ جنھوں نے حضرت رسول خدا ؐ سے پہلے عقد کیا اور آنحضرت نے جناب خدیجہ ؑ کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی، حضرت رسول خدا ؐ نے اور جناب خدیجہ ؑ نے ایک پیار ومحبت سے بھرپورگھر انے کی بنیاد رکھی۔آپ کی فضیلت کے حوالے سے شیخ صدوق نقل کرتے ہیں کہ امام صادق ؑ فرماتے ہیں: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللّهِ بِخَمْسَ عَشَرَ اِمْرَأَةً اَفْضَلُهُنَّ خَدیجَةُ بِنْتُ خُوَیلَدٍ۔ رسول اللہ ؐ نے پندرہ خواتین سے شادی کی، ان میں سے سب سے زیادہ با فضیلت خدیجہ بنت خویلد ؑ تھیں۔

حضرت رسول ؐ کی نظر میں جناب خدیجہ ؑ کی ایک خا ص عزت و احترام تھا جو باقی سے ان کو جدا کرتاہے۔  اور یہ بات قابل غور ہے تمام مسلمانوں کے لیے۔

رسول اکرم ؐ نے متعدد حدیثوں میں آپ کی فضیلت کو بیان فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کس قدر صاحبِ فضیلت ہیں۔ آپ ؐ فرماتے ہیں: خَیرُ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ مَرْیمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آسِیةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ وَ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ؛ کائنات کی بہترین خواتین مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ؐ ہیں۔

ایک اور حدیث میں آپ کو جنتی خواتین میں سے شمار کیا ہے۔ رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں: أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَرْبَعٌ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیلِدٍ وَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَ مَرْیمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ آسِیةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فرْعَوْن؛ چار عورتیں جنت کی بہترین خواتین ہیں: خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ؐ، مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون ۔ ایک اور جگہ فرمایا: یَا خَدِیجَة اَنتَ خَیرُ اُمَّهَاتِ المُؤمِنینَ وَ اَفضَلَهُنَّ؛ اے خدیجہ! تم امہات المؤمنین میں سب سے بہتر اور با ٖفضیلت ہو۔

حضرت خدیجہؑ، عائشہ کی نگاہ میں

ہم اس بات کوبہت کم سنتے ہیں کہ ایک آدمی کی دو بیویاں اور ان دونوں میں اتحادہواور ایک دوسرے کی تعریف کرتی ہوں، عائشہ بھی حضرت رسول خدا ؐ کی بیوی ہے مگر حضرت خدیجہؑ میں اوران میں بڑافرق ہے۔

تاریخ اسلام کی آپ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے حضرت رسول خدا ؐ کی دعوت اسلام قبول کیا اور نماز ادا کی، اور آپ پیغمبر اسلام ؐ کی بیویوں میں واحد زوجہ ہیں جنھوں نے اپنے تمام اموال کو بغیر کسی قید وشرط کے انحضرت کے اختیار میں دے دیا ۔

اگر اس صفت کو بھی ان سے مخصوص کیا جائے تو کوئی اشکال نہیں ہوگا کیونکہ آپ حضور ؐ  کی وہ زوجہ ہیں جن سے جناب فاطمہ زہر ا ؑ کی ولادت ہوئی اور نسل کی بقا کا ذریعہ بنیں کہ جن سے گیارہ امام معصوم ؑدنیا میں آئے اور اسلام کی بقا کا باعث بنے ہیں ۔

 خود جناب خدیجہ ؑ کی فضیلت کا عائشہ گواہی دیتی ہیں :

ھشام عن ابیہ عن عائشہ قالت ماغرت علی احد من نساء النبی، ماغرت علی خدیجۃ، و ما رایتھا، لکن کان النبیؐیکثر ذکرھا وربما ذبح الشاۃ ثم یقطعھا اعضاء ثم یبعثھا فی صدائق خدیجہ فربما قلت: کانہ لم یکن فی الدنیا امراۃ الا خدیجہ فیقول:  انھا کانت، و کانت، ؛کان  لی منھا ولد۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر3818۔ صحیح مسلم، ح6280)۔

ہشام اپنے باپ کے ذریعہ ام المومنین عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ ازواج نبی میں سے مجھے کسی زوجہ سے اتنی غیرت نہیں آئی جتنا ام المومنین خدیجہ ؑسے، جبکہ میں نے ان کو دکھا بھی نہیں تھا۔ حضرت رسول خدا ؐ، ام المومنین خدیجہ ؑ کا اکثر ذکرکیا کرتے تھے اور بعض موقع پر آپ بکری ذبح کرتے اور اس کے اعضاء کاٹ کر، ام المومنین خدیجہ ؑ کی سہلیوں کوبھیج دیاکرتے  تھے۔ بعض وقت میں کہہ دیا کرتی تھی کہ کیا دنیا میں خدیجہ ؑ کے سوا کوئی اورعورت نہیں ہے، تو آپ جواب میں فرماتے تھےکہ صرف وہی تھی، صرف  خدیجہ ؑ  تھی جس سے میرے لیے اولاد ہوئی ہے۔

لکھنےوالے نے جناب عائشہ، کا جو ادب بیان کیا ہے وہ ان سے عقیدہ کی بنیاد پر بیان کیا ہے ورنہ وہ عائشہ، جناب خدیجہ ؑ سےحسد کی بناپر ان کے لیے ہلاکت کا لفظ استعمال کیا ہے۔

ہشام کہتے ہیں کہ حضرت محمد ؐ جناب خدیجہ ؑ سے بہت محبت کیا کرتے تھے اور آپ کا احترام بھی، اپنے کاموں میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے، جناب خدیجہؑ ایک نیک اور روشن فکر خاتون تھیں۔

جناب خدیجہؑ کا ایمان لانا

ایمان دوطریقہ سےلایا جاسکتا ہے: ایک تقلیدی ایمان ہوتا ہےکہ جس کے بارے میں خدا قرآن میں فرمارہا ہے اس وقت کہ جب جناب ابراہیم ؑ نےا پنے والد اور اپنی قوم والوں سے کہا کہ ان بتوں کی تم لوگ کیا عبادب کرتےہو؟ تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان بتوں کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے تو ہم بھی اپنے اجداد کی تقلید کر تے ہوئے ان بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔

دوسرےتحقیقی ایمان ہوتا ہے، حقیقی ایمان یہی ہوتا ہےاس کے بارے میں ا رشارہ ہوتا ہے کہ آسمان و زمین کی خلقت رات و دن کا آنا عقل مندوں کے لیے بہترین دلیلیں ہیں ۔ وہ لوگ جو اٹھتے اور بیٹھتے ہمیشہ زمین و آسمان کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں میرے پروردگار تو اس کو بے کار خلق نہیں کیا ہے تو پاک و پاکیزہ ہے ہم کو آگ کی عذاب سے بچا۔

جب جناب خدیجہ ؑ، رسول ؐ کو تجارت کے لیے بھیجا تو اپنے ایک غلام کو بھی ساتھ میں بھیجا اور اس کو اس بات پر معمور کیا کہ احوال آنحضرتؐ کی آکر ہم کو اطلاع دے، ادھر جب رسول ؐ کا قافلہ شام پہنچا تو ایک راہب کی خانقا ہ کے قریب ایک درخت کے سایہ میں آرام کے لیے رکے تو اس خانقاہ سے راہب باہر نکل کرمسیرہ (غلام ) سے پوچھا کہ اس درخت کے سایہ میں کون ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ وہ اہل حرم کا ایک قریشی ہے تو راہب نے کہا کہ اس درخت کے نیچے سوائے اللہ کے نبی کےاور کوئی آج تک نہیں ٹھہرا ہے۔دوسرا مقام وہ ہے کہ جب دوپہراور سخت گرمی کے وقت آپ اونٹ پر سوار تھے اور دوفرشتے آپ پر سایہ کئے ہوئے تھے۔ (میں نے یہاڑ پر انتخاب طبری کی عبارت لایا ہوں کہ جس میں دوفرشتے کا ذکر ہےیہاں پر بعض کتابوں میں با دل کے سایہ کا ذکر ہے جو عقل کے قریب ہے ورنہ جناب خدیجہ ؑ کے غلام مسیرہ کوکہاں سے اس کا علم ہوتا کہ دوفرشتے سایہ کیے ہوئے ہیں)۔

اس واقعہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ آپ نے آنحضرت ؐ کےبارے میں پہلے تحقیق کیا پھررسول اللہؐ اور نبی مانا پھر ایمان لائیں اور شادی کیا۔اور یہ ایمان کا بہترین درجہ ہوتا ہے جو تحقیق کر کے لایا جاتا ہےاور اس وجہ سے یہ نمایا ں فرق ہے آپ میں اور دوسروں میں ۔

تاریخ میں ملتا ہےکہ جب حضرت رسول ؐ غارحرا سے گھر کی طرف تشریف لارہے تھے، تو اس وقت عجیب حالات ہوگئے تھے، آپ جہا ں سے گذرتے اور جس راستے سے گذرتےتو راستے کے تمام پتھر اور درخت یہی کہتے اے خدا کے رسو ل آپ پر میرا سلام ہو ۔

جب رسول ؐ گھر میں تشریف لائے تو گھر نورانی ہوگیا۔ چاروں طرف روشنی پھیل گئی۔ تو جناب خدیجہ ؑ نے پوچھا یہ کیسا نور ہے؟

 تو پیغمبر ؐ نے جواب میں فرمایا:

ھذا نور النبوۃ، قولی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔

یہ نور، نور نبوت ہے تم بھی کہو کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور محمد ؐ اس کےرسول ہیں ۔ تو جناب خدیجہ ؑ نے کہا کہ میں بہت پہلے سے اس حقیقت سے آگاہ تھی۔اس وقت جناب خدیجہ ؑ نے کلمہ پڑھا اور دین اسلام قبول کیا ۔

جناب خدیجہ ؑ اسلام لائیں یا اسلام کا اظہار کیا اگر ان کی زندگی کو دیکھیں تو، اول وہ خود حضرت رسول ؐ کے گھرانے سے ہیں اور والد و والدہ دونوں طرف سے جناب خدیجہ ؑ، کا نسب آپ حضور ؐ سے ملتا ہے۔ اس لحاظ سے آپ بھی حضرت ابراہیمؑ کی اولاد سے ہیں۔

 آپ حضر ت رسول ؐ سے اس وقت شادی کی جب خود آنحضرت کی عمر پچیس 25 سال کی تھی اور حضرت رسول ؐ رسالت کا اعلان چالیس 40 کی عمر میں کیا اس حساب سے جناب خدیجہ ؑ 15 سال آپ کی خدمت میں رہی ہیں آپ حضور ؐ کے اخلاق حسنہ اور ان کی پر فیض زندگی سے ا پنے وجود کو جناب خدیجہ ؑ نےمنور کیا ۔تو کہنا بہتر ہوگا  اعلان رسالت کے ساتھ ساتھ آپ نے بھی اعلان اسلام کیا۔

حضرت امام حسین ؑ لوگوں کے دلوں کی بیداری اور اپنی پہچان کے لئے اپنی ماں حضرت زہرا ؑ اور اپنی نانی حضرت خدیجہ ؑ کی طرف اشارہ فرمایا: انشدکم الله هل تعلمون ان امی فاطمة الزهراء بنت محمد؟! قالوا: اللهم نعم… انشدکم الله هل تعلمون ان جدتی خدیجة بنت‏ خویلد اول نساء هذه الامة اسلاما؟! قالوا: اللهم نعم ۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ میری ماں فاطمہ زہراؑ،  بنت محمد ؐ ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ … تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ میری نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں، جو خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ رسول ؐ جناب خدیجہ ؑ کی اتنی اچھائی بیان کرتے تھے کہ  ایک دن مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں عرض کی۔یارسول اللہ ؐ! خدیجہؑ توایک بوڑھی عورت تھیں اللہ نے ان سے بہتر ازواج آپ کو عطا کی ہے۔ عائشہ کی اس بات پر رسول اللہ ؐ غضبناک ہوئے اور فرمایا: خدا کی قسم! اللہ نےان سے بہتر کوئی عورت مجھے عطا نہیں کی ہے۔خدیجہؑ اس وقت ایمان لائیں جب دوسرے کفر پر تھے ۔ انھوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب دوسرے مجھے جھٹلایا کرتے تھے۔ انھوں نے بلا عوض اپنا مال ودولت میرے اختیار میں دیا جب کہ دوسرے مجھ کو اس سے محروم رکھے تھے۔ اللہ نے میری نسل ان کی اولاد سے چلائی۔جناب عائشہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ آج کے بعد سےکبھی بھی ان کی برائی نہیں کروں گی ۔

جناب خدیجہؑ کی اللہ کے رسولؐ سے شادی

جناب خدیجہ ؑ ا س زمانہ میں قریش میں سب سے زیادہ نجیب شریف اور دولت مندخاتون تھیں اور ان سے قوم کے بہت سے بزرگ لوگ شادی کے متمنی تھے۔ جب آپ نے رسول خدا ؐ سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے اپنے چچا حضرات سے اس کا ذکر کیا، حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، آپ کے چچا کے ہمراہ خویلد بن اسد کے پاس گئے  اوران کے سامنے شادی کا پیغام دیا، جس پر وہ حضرت خدیجہ ؑ کی رسول ؐ سے شادی کےلئے راضی ہوگئے۔

بعض لوگوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ہر چیز کو مادی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انھوں نے حضور ؐ کی شادی کو بھی اسی مادی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جناب خدیجہ ؑ کو شادی کے لیے تجارتی لحا ظ سے کسی مالدار شخص سے شادی کرنے کی ضرورت تھی، اس لئے انھوں نے پیغمبر ؐ سے شادی کے لیے پیغام بھیجا ۔دوسری طرف آنحضرتؐ یتیم اور نادار تھےان کو دولت کی ضرورت تھی اس لیے شادی کےپیغام کو قبول کرلیا ۔جبکہ عمر کے لحاظ سے دو نوں میں کافی فاصلہ تھا ۔

1 ۔لیکن اگر اس شادی کو کسی خاص مقصد کے نظر سے دیکھا جائے تویہ ایک مقد س شادی کہلائی جائے گی۔ تاریخ اسلام میں دیکھیں تو پیغمبر ؐ کی پوری زندگی ہمیں زہد و تقوی و معنوی اقدار سے  بھرپورنظر آتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے، کہ آنحضر ت ؐ کی نگاہ میں دنیوی مال و دولت اور جاہ وحشم کی کو ئی قدر قیمت نہ تھی۔ آپ نے جناب خدیجہ ؑ کی دولت کو کبھی بھی اپنی ذاتی آرام و آسائش کی خاطر استعمال نہیں کیا ہے ۔

2 ۔ اس شادی کی پیشکش خودحضرت خدیجہ ؑ نے کیا تھا نہ حضور پاک نے ۔دوسرے یہ کہ حضور ؐ کے ملک شام سے آنے کے بعد، جب غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ ؑ کو بتایاتو ان کے دل میں امین قریش لیے جذبہ محبت بڑھ گیا کہ جس کا سر چشمہ حضرت ؐ کے کمالات نفسانی اور اخلاقی فضائل تھے ۔

3 ۔پیغمبر ؐسے شادی کے بعدجناب خدیجہ ؑ نےکبھی تجارت کے لیے نہیں بھیجا کہ جو دولت میں اضافہ کا باعث ہو۔ اس کے برعکس جناب خدیجہ ؑ نے اپنا تمام مال حضرت ؐ کے حوالے کردیا جو حضور ؐ نے غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کردیا ۔

۴ ۔  جب جناب خدیجہ ؑ نے آنحضرت ؐ سے شادی کیا تو، مکہ کی عورتیں ان سے سخت نارض ہوگئیں، جناب خدیجہ ؑ کے گھر آنا جانا بند کردیا، دوسری عورتوں کو بھی اجازت نہیں دیتی تھیں کہ وہ ان کے گھر آئیں، ان کی ناراضگی اس بات پر تھی کہ جناب خدیجہ ؑ کے پاس مال ودولت ہوتے ہوئے کیوں یتیم عبد اللہ حضرت محمد ؐ سے شادی کیں، ان کی نارض گی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ جب بعثت کے پانچوں سال جناب فاطمہ زہرا ؑ کی ولادت باسعادت ہوئی تو اس وقت شادی کے20 سال گذرگئے تھے، اس وقت جناب خدیجہ ؑ مکہ کی عورتوں کو پیغام بھیجا اور اپنی مدد کی استدعا کی لیکن ان سب کی طرف سے گستاخانہ جواب ملا: اےخدیجہؑ! تم نے ہماری مخالفت کی اور ہماری باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی اور یتیم عبد اللہ سے شادی کی ہم تمہاری مدد کو نہ آئیں گے، اس طر ح ان کی دعوت کو ٹھکرادیا ۔

(یہا ں پر ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ ان سختوں کا تحمل اس وقت ہوسکتا ہے جب ایمان اور حقانیت اس کے لیے واضح ہوچکا ہواور جب جب ایمان آجاتاہے تو اس میں دولت کی کوئی جگہ نہیں رہتی ہے، دوسرے لفظوں میں کہوں کہ جب ایمان آجاتاہے تو مال ودولت کو آسانی سے خداکی راہ میں خرچ کیاجاسکتاہے)۔

جناب خدیجہؑ بہترین زوجہ

 اس بات کو دنیا نے تجربہ کیا ہے کہ انسان کی کا میابی میں خود ان کی عورتوں کا کردارنمایاں رہا ہے، اگر کسی آدمی کو کامیاب دیکھیں، تو تقریبا اس کی کامیابی میں ایک عورت کا ہاتھ رہا ہے وہ چاہے ماں ہو یا اس کی بہن یا خود بیوی ۔ اگر اس کے برعکس دیکھیں تو بیوی کا زیادہ کردار رہا ہے ۔ آپ خود تاریخ میں ان کردارروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ہمارے رسولؐ، آخری رسول ہیں، ان کا مقام بھی تمام انبیاء سے بلند ہے اور ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے لہذا ان کو ا یسی عورت سے شادی کرنا ضروری تھا کہ جس کا مزاج آپ کے مزاج سے ملتا ہو اور وہ آپ کے اغراض و مقاصد سے متفق ہو، وہ آپ کے ساتھ راہ جہاد کی سختیوں کو طے کرسکے دشوارویوں اور مشکلوں میں صبر کرسکےاس زمانہ میں ایسی کوئی عورت نہیں تھی جو محمد ؐکےلئے مناسب ہو۔ جوآنحضرت کے ان سنگین ذمداریوں میں مددگار ثابت ہو، اوراسلام، توحید کی نشر میں رسول اللہ ؐ کاساتھ دے تاکہ پیغمبر ؐ، اسلام کو ایک بلند مقام تک پہنچا سکیں۔ اس مہم کے لیے جناب خدیجہ ؑ سے بہتر کوئی نہیں تھا، جناب خدیجہ ؑ حسن وجمال، عزت و شرافت اور مال کے لحاظ سے قریش کی تمام عورتوں پر فوقیت رکھتی تھیں ۔ قریش کے بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے آپ کےلیے پیغام آئے۔لیکن جناب خدیجہ ؑ نے سب کے پیغامات کو ٹھکرادیا۔ انہوں نے اپنے لیے آنحضرت ؐ کو پسند کیا، کیونکہ وہ آپ کی شخصیت کا مطالعہ کر چکی تھیں۔لہذا خود جناب خدیجہ ؑ نے شادی کی پیشکش کی تھیں، یہاں پر اختلاف پایا جاتاہے کہ جناب خدیجہ ؑ آپ سے شادی سے پہلے دوشادیاں کر چکی تھیں اور آپ کے کئی بچے تھے، یہ کہاں  تک حقیقت ہے قابل تحقیق ہے۔

حضرت خدیجہؑ و خدمت اسلام

میں عر ض کرچکا ہوں کہ جناب خدیجہ ؑ، عرب کی امیرترین خاتون تھیں ان کے تجاری قافلے تجارت کے لیے یمن، شام جایا کرتے تھے، رسول ؐ سے شادی کے بعد جناب خدیجہ ؑ نے اپنی تما م دولت، دین اسلام کی تبلیغ میں خرچ کردیا ۔ اس وقت رسول ؐ کے پاس دولت و ثروت نہیں تھی تو جناب خدیجہ ؑ کی دولت ہدیہ کے طور پر ملی جس کو خدا وند عالم اپنی طرف نسبت دے رہا ہےاور فرماتا ہے: ووجدک عائلا فاغنی۔ پروردگار نے آپ کو بے ثروت پایا تو بے نیاز کردیا ۔

سوال یہ ہے کہ جناب خدیجہ ؑ نے اپنی دولت کو اسلام کے لیے خرچ کیا تو کس مقام پرکیا؟

 تو تاریخ نے ان اہم مقام کو گنوایا ہے ملا حظہ فرمائیں۔

1 ۔حضرت رسول ؐ، جناب خدیجہ ؑ کی دولت سے قرض داروں کے قرض ادا کرکے ان کو قرض سے آزاد کروایا، فقیروں اور یتیموں اور بے سہاروں کی کفالت کی ۔

2 ۔ایک مرتبہ جناب حلیمہ سعدیہ پیغمبر ؐ کے پاس تشریف لائیں اورقحط سالی کی شکایت کی توجناب خدیجہ ؑ نے چالس بکریا ں اور اونٹ حلیمہ سعدیہ کو بخش دیا ۔

3 ۔ جب مکہ کے مشرکین نے مسلمانوں کو بائیکاٹ کیا تھا اور معاشی پابندی لگا دی تھی، تو شعب ابی طالب میں مسلمانوں کی غذا اور دوسری ضروریات کےلیے جناب خدیجہ ؑ کی ہی دولت کا م آئی تھی۔

روایت میں ہے: وانفق ابوطالب و خدیجہ جمیع مالھما ۔

حضرت ابوطالب ؑ اور جناب خدیجہ ؑ اپنا تما م ما ل اسلام کی حفاظت اور جو محاصر ہ میں ہیں ان کے کھانے لیے خرچ کیا ۔

جب جناب خدیجہ ؑ نے پیغمبر ؐ سے شادی کیا اور اسلام قبول کیا تو جو دشمنان اسلام تھے انھوں نے جناب خدیجہ ؑ سے بھی معاملات کرنا چھوڑ دیا اور تجاری تعلقات کو منطقع کردیا اور آپ کےمال و اسباب کو بھی تباہ کردیا اس کے باوجود جناب خدیجہ ؑ نے کبھی بھی محرومیت کا احساس نہیں کیا، بلکہ وہ اسی بات پر خوش تھیں کہ میں سب سے پہلے رسول ؐ کی رسالت کی گواہی دی ۔

شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ جناب خدیجہ ؑ کی دولت سے اسلام پھیلا ہے لوگوں کو پیسہ دے دے کر لوگوں سے اسلام قبو ل کروایا گیا ہے اور لوگ دولت کی لالچ میں اسلام قبو ل کئے ہیں؟ ۔

تو ایسا نہیں ہے، بلکہ جناب خدیجہ ؑ نے اپنی دولت کو حضرت رسول خدا ؐکے اختیار میں دیا تھا، تو اس لیے نہیں کہ معاذ اللہ لوگوں کو رشوت کے طور پر دیا ہو اوروہ اسلام قبول کرلئے ہوں؛ اول اتنا بھی دولت نہیں تھی کہ لوگوں کا ایمان خریدا جاتا بلکہ اس زمانہ کے اعتبار سے زیادہ تھا، اس دولت سے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا گیا ہے، بھوکوں کو کھانا کھلایا گیا ہےنہ لوگوں کے ایمان خریدے گئے ہیں۔

حوالہ جات

1 ۔ اسلام کی نامورخواتین، مصطفی آبادی، الحاج محمد ایوب نقوی، ناشرپیلیکیشتر کراچی پاکستان، سال مئی 2001 ۔

2 ۔ کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ، علی بن عیسی اردبلی، ناشر بنی ہاشمی، جلد 2، چاپ اول 1381 ۔

3 ۔انتخاب طبری، سید صفدر حسین نجفی، ناشر امامیہ پیلیکیشنز لا ہور، پاکستان

4 ۔ ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، جلد 5،

5 ۔ الا ستیعاب فی معرفۃ الصحابہ، ابو عمر یوسف القرطبی، ناشر دار لجیل، بیرت، چاپ اول 1412، جلد 2 ۔

6 ۔ ال انوار الساطعہ من الغراء الطاہراہ، شیخ غالب السیلاوی، ناشر: محلاتی، ْچاپ سال 13 83 ھ ۔

7 ۔ نظام مصطفی بزبان زوجہ مصطفی، علامہ اثری جاڑوی، جلد 2، سال 2008،

 8 ۔ ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبری، محمدی ا شتھاردی، ِمحمد، ترجمہ انجینئر سید علی نقوی، ناشر ادارہ منہاج الصالحین لاہور، سال 2009۔

9 ۔ شیخ محمد بن حسن طوسی، امالی، ص 463، ناشر: دارالثقافہ، سال چاپ: 1414 ھ ق

10 ۔ تاریخ ا سلام سیرت رحمۃ العالمین، اہل قلم کی ایک جماعت، انتشارات انصاریان قم، سال 9198، ص37

11 ۔ سیرہ نبوی، مطہری، ص222

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button