اسلامی معارف

رمضان المبارک اور روزہ چالیس احادیث کی نگاہ میں

تحریر و ترجمہ: سید تعلیم رضا جعفری- طالبعلم جامعة المصطفیؐ العالمیه قم ایران

 مقدمہ:

اللہ تعالیٰ نے صاحبان ایمان پر ماہ رمضان المبارک میں روزہ واجب فرمایا اور اسے تقوا اور پرہیزگاری کا بہترین وسیلہ قراردیا ہے (سورہ بقرہ، آیت ۱۸۳) ۔ یقینی طورپر روزہ اور رمضان المبارک میں پروردگارمتعال کی جانب سے جس طرح سے مہمانوازی کا اہتمام ہوتا ہے اور جس طرح مادی و معنوی غذاؤں کی فراوانی ہوتی ہے اس کی مثال کسی بھی مہینے میں نہیں ملتی ہے ۔ اسی وجہ سے اللہ کا یہ مقدس و بابرکت مہینہ بندوں کے لئے جسمانی اور روحانی لحاظ سے رشد و نمو اور پاکیزگی کے لئے بہترین مہینہ ہے اور صبر و استقامت، ایمان اور ارادے کی پرورش کی کلاس اور سال بھر کے لئے ضابطہ زندگی کو مشخص کرنے والا ہے، جو خوش نصیب اس مہینہ کی کلاسوں میں قابل قبول نمرات حاصل کرلیتے ہیں وہ عید فطر کے دن فخرکا میڈل حاصل کرلیتے ہیں۔ اس مختصر تحریر میں ماہ رمضان المبارک اور روزوں کی اہمیت و عظمت کے سلسلے میں چالیس اہم احادیث کا ذکر کیا جارہا ہے تاکہ ائمہ معصومینؑ کی ان احادیث کی روشنی میں مہمانی خدا کے آداب اور نقوش زندگی کا مطالعہ کرسکیں:

(1) ماه رحمت، مغفرت و نجات

رسول اکرمؐ: «… وَ هُوَ شَـهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْـمَةٌ وأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَاخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النّارِ»۔”رمضان وہ مہینہ ہے جس کی ابتداء رحمت ہے اور اس کا درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم سے نجات و آزادی ہے”۔ (بحار الانوار، ج 93، ص 342) ۔

(2) ماه رمضـان کی اہمیت

رسول اکرمؐ: «لَوْ يَعْـلَمُ الْعَبْدُ ما فى رَمَضانَ لَوَدَّ أَنْ يَكُونَ رَمَضانَ السَّـنَةُ»۔ “اگر انسان جان لیتا کہ ماہ رمضان میں کیا (برکت) ہے تو وہ چاہتا ہے کہ پورا سال رمضان ہو”۔(بحار الانوار، ج 93، ص 346)۔

(۳) آسمان کے دروازوں کا کھل جانا

رسول اکرمؐ: «اِنَّ أَبْوابَ السَّمآءِ تُفْتَحُ فى أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضانَ وَ لاتُغْلَقُ اِلى اخِرِ لَيْلَةٍ مِنْهُ»۔ “ماہ رمضان کی پہلی رات سے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آخری رات تک یہ بند نہیں ہوتے ہیں”۔ (یعنی دووسری حدیثوں کے مطابق پورے مہینے نزول رحمت و مغفرت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور بندوں کی دعاؤں کی قبولیت میں کوئی حجاب حائل نہیں رہتا ہے)۔ (بحار الانوار، ج 93، ص344) ۔

(۴) جہنم سے حفاظت

رسول اکرمؐ: «أَلصَّوْمُ جُنَّـةٌ مِنَ النّـارِ» “روزہ جہنم کی آگ کے مقابلے میں سپر ہے”(یعنی روزہ رکھنا انسان کو جنہم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ ہے) ۔ (الكافى، ج 4، ص 162) ۔

(۵) گرمی کا روزہ

رسول اکرمؐ: «أَلصَّـوْمُ فِى الْحَـرِّ جِـهادٌ» “گرمی میں روزہ رکھنا جہاد کرنے جیساہے”۔ (بحارالانوار، ج 96، ص 257) ۔

(۶) جسموں کی زکات

رسول اکرمؐ: «لِكُـلِّ شَيْى ءٍ زَكـاُةٌ وَ زَكاةُ الاِبْدانِ الصِّيامُ»۔ ” ہر چیز کے لئے زکات ہے اور جسموں کی زکات روزہ ہے”۔ (الكافى، ج 4، ص 62، ح 3)

(۷) روزوں کا ثواب (1)

رسول اکرمؐ: «كُلُّ عَمَلِ ابنِ آدَمَ هُو لَهُ، غَيرَ الصِّيامِ هُو لي و أنا أجزِي بهِ» ۔ “اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اولاد آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کےاور روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا ثواب و اجر دوں گا”۔ (وسائل الشیعہ، ج 7، ص294، ح 15، 16، 27 و 30) ۔

(۸) روزوں کا ثواب (2)

رسول اکرمؐ: «مَنْ مَنَعَهُ الصَّوْمُ مِنْ طَعامٍ يَشْتَهيهِ، كانَ حَـقّا عَـلَى اللّه ِ أَنْ يُطْعِمَهُ مِنْ طَعامِ الْجَنَّةِ وَ يُسْقِيَهُ مِنْ شَرابِها»۔ “انسان روزے کی وجہ سے چونکہ اپنی پسندیدہ خوراک سے پرہیز کرتا ہے لہذا اللہ تعالیٰ پر فرض ہے کہ ایسے شخص کو جنت کے کھانے پینے کی چیزوں سےنوازے”۔ (بحار الانوار، ج 93، ص 331) ۔

(۹) روزوں کا فائدہ (۱)

پیغمبراکرمؐ: «علَيكُم بِالصَّومِ؛ فإنّهُ مَحسَمَةٌ للعُرُوقِ و مَذهَبَةٌ للأشَرِ»۔ روزہ رکھو؛ اس لئے کہ روزہ (شہوت کی) رگوں کو نابود کرتا ہے اور نشہ و مستی کو نابود کرتا ہے۔ (کنزالعمال، ح23610) ۔

(۱۰) روزوں کا فائدہ (2)

پیغمبراکرمؐ: «الصَّومُ يَدُقُّ المَصيرَ و يُذِيلُ اللَّحمَ و يُبَعِّدُ مِن حَرِّ السَّعيرِ»۔ روزہ آنتوں کو تنگ کرتا ہے، اضافی چربی کو ختم کرتاہے اور جہنم کی شدید آگ سے محفوظ رکھتا ہے۔(کنزالعمال، ح236۲0)۔

(۱۱) روزہ دار کو بشارت

رسول اکرمؐ: «طُوبى لِمَنْ ظَمَـأَ أَوْجـاعَ لِلّهِ اُولئِكَ الَّذينَ يَشْبَعُونَ يَوْمَ الْقِيامَةِ»۔ “خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اللہ کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کی (روزہ رکھا)، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سیراب کرےگا”۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص 299، ح 2) ۔

(۱۲) مومن کی بہار

رسول اللہؐ: «أَلشِّتـاءُ رَبيـعُ الْمُـؤمِنِ يَطُولُ فيهِ لَيْلُهُ فَيَسْتَعينُ بِهِ عَلى قِيامِهِ وَيَقْصُرُ فيهِ نَهارُهُ فَيَسْتَعينُ بِهِ عَلى صِيامِهِ»۔ “سردی کا موسم مومن کے لئے بہار ہے؛ وہ اس موسم کی طولانی راتوں میں جاگ کرعبادت کرتا ہے اور چھوٹے دنوں میں روزہ رکھ کر فائدہ اٹھاتا ہے”۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص 302، ح3) ۔

(۱۳) روزہ داروں کے لئے جنتی دروازہ

رسول اکرمؐ: «اِنَّ لِلْجَـنَّةِ بابا يُدْعى الرَيّانُ لا يَدْخُلُ مِنْهُ اِلاَّ الصّـائِمُونَ»۔ “جنت میں ایک دروزہ ہے جس کو «ریّان» کہا جاتا ہے اس دروازے سے صرف روزہ دار لوگ ہی داخل ہوں گے”۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص 295، ح 31؛ معانى الاخبار، ص116)۔

(۱۴) خلوص کا امتحان

امام علیؑ: «فَـرَضَ اللّه ُ … الصِّيـامَ اِبْتِلاءً لاِخْلاصِ الْخَلْقِ»۔”اللہ تعالیٰ نے روزے کو واجب فرمایا… تاکہ بندوں کے اخلاص کا امتحان لیا جائے”(نہج البلاغہ، حكمت 252) ۔

(۱۵) اعـضا و جـوارح کا روزہ

 حضرت فاطمہ زہراؑ: «ما يَصْنَعُ الصّـآئِمُ بِصِـيامِهِ اِذا لَمْ يَصُنْ لِسانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوارِحَهُ»۔”وہ روزہ دار جس نے اپنی زبان، آنکھ، کان اور اعضاء و جوارح کو حرام امور سے نہیں بچایا، اس کا روزہ کس کام کا ہے”۔(بحارالانوار، ج93، ص295)۔

(۱۶) بے فائدہ روزہ

امام علیؑ: « كَمْ مِنْ صائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيامِهِ اِلاَّ الْجُوعُ وَ الظَّمَأُ وَ كَمْ مِنْ قائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيامِهِ اِلاَّ السَّهَرُ وَ الْعِناءُ»۔”بہت سے ایسے روزہ دار ہیں جن کو ان کے روزے سے بھوک و پیاس کے سواء کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے اور بہت سے ایسے شب زندہ دار ہیں جن کو ان کی نماز سے سوائے جاگنے اور سختی برداشت کرنے کے کچھ نہیں ملتا ہے”۔ (نہج البلاغہ، حكمت 145) ۔

(۱۷) روزہ نہ رکھنے کا انجام

امام علیؑ: «شَهْرُ رَمَضانَ شَهْرُ اللّه ِ وَ شَعْبانَ شَهْرُ رَسُولِ اللّه ِ وَ رَجَبٍ شَهْرى»۔”رمضان اللہ کا مہینہ ہے، شعبان رسول اللہؐ کا مہینہ ہے اور رجب میرا مہینہ ہے”۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص266، ح 23) ۔

(۱۸) روزہ دار کے لئے انعامات

امام علیؑ: «نَومُ الصائمِ عِبادَةٌ و صَمتُهُ تَسبيحٌ و دُعاؤهُ مُستجابٌ و عَمَلُهُ مُضاعَفٌ. إنّ للصائمِ عِندَ إفطارِهِ دَعوَةً لا تُرَدُّ»۔ روزہ دار کی نیند عبادت ہے، اس کا سکوت تسبیح ہےاور اس کی دعا مقبول اور عمل کا ثواب دوگنا ہے، یقینا روزہ دار افطار کے وقت جو بھی دعا کرت ہے وہ بارگاہ الہی سے ردّ نہیں ہوتی ہے (الدعوات، ج ۲۷، ص۴۵-۴۶) ۔

(۱۹) سب سے مفید روزہ

امام علیؑ: «صَوْمُ النَّـفْسِ عَنْ لَذّاتِ الدُّنْيا أَنْفَـعُ الصِّيــامِ»”دنیاوی لذتوں سے نفس کو بچانا سب سے مفید روزہ ہے”۔ (غرر الحكم، ج 1، ص 416، ح 64)۔

(۲۰) روزہ اور تندرستی

امام علیؑ: «الصِّيامُ أحَدُ الصِّحَّتَينِ»؛ “روزہ آدھی تندرستی ہے”۔ ( غرر الحكم، ح ۱۶۸۳) ۔

(۲۱) روزہ کیا ہے؟

امام علیؑ: «أَلصِّيـامُ اِجْتِـنابُ الْمَحـارِمِ كَما يَمْتَنِعُ الرَّجُلُ مِنَ الطَّعامِ وَ الشَّرابِ»۔” روزہ محرمات سے بچنے کا نام ہے جس طرح انسان روزے میں کھانے پینے کی چیزوں سے بچتا ہے”۔ (بحار، ج 93، ص249) ۔

(۲۲) سب سے بہتر روزہ

امام علیؑ: « صَـوْمُ الْقَلْبِ خَيْرٌ مِنْ صِيـامِ الِلّسانِ وَ صَوْمُ الِلّسانِ خَيْرٌ مِنْ صِيامِ الْبَطْنِ» “دل کا روزہ زبان کے روزے سے بہتر ہے اور زبان کا روزہ پیٹ کے روزے سے بہتر ہے”۔ (غرر الحكم، ج 1، ص 417، ح 80) ۔

(۲۳) اسلام کی بنیاد

امام محمد باقرؑ: «بُنِىَ الاِسـلامُ عَلى خَمْسَةِ أَشْيآءَ، عَلَى الصَّلوةِ وَ الزَّكاةِ والْحَجِّ وَ الصَّـوْمِ وَ الْوِلايَـةِ» “اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر استوار ہے؛ نماز، زکات، حج، روزہ، ولایت”۔ (الكافى، ج 4، ص 62، ح 1) ۔

(۲۴) دلوں کی تسلیکن

امام باقرؑ: «الصِّيامُ و الحَجُّ تَسكِينُ القُلوبِ»؛”روزہ اور حج، دلوں کی تسکین کا ذریعہ ہے”۔ (الامالی طوسی، ص ۲۹۶، ح۵۸۲ ) ۔

(۲۵) مستحبی روزے

امام صادقؑ: «مَنْ جآء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها مِنْ ذلِكَ صِيامُ ثَلاثَةِ أَيّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ»۔ “جو شخص ایک نیک کام انجام دیتا ہے اس کو دس برابر ثواب ملتا ہے اور ان نیک کاموں میں ہر مہینہ تین روزہ رکھنا ہے “۔ (یہ حدیث سورہ انعام کی آیت۱۶۰ سے مستند ہے) ۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص 313، ح 33) ۔

(۲۶) افطار کا ثواب

امام صادقؑ: «مَنْ فَطَرَ صائِما فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ»۔”جو شخص کسی روزہ دار کو افطار دیتا ہے اس کو اس روزہ دار کی طرح ثواب ملتا ہے”۔(الكافى، ج4، ص 68، ح 1) ۔

(۲۷) روزہ نہ رکھنے کا انجام

امام صادقؑ: «مَنْ أَفْطَرَ يَوْما مِنْ شَهْرِ رَمَضانَ خَرَجَ رُوحُ الاْيْمــانِ مِنْهُ» “جو شخص ماہ رمضان المبارک کے کسی دن (بغیر عذر) روزہ نہیں رکھتا ہے، ایمان کی روح اس کے وجود سے نکل جاتی ہے”۔ (الکافی، ج۲، ص۲۷۸۔ وسائل الشيعہ، ج 7، ص 181، ح 4 و 5؛ من لايحضره الفقہ، ج 2، ص 73، ح9)۔

(۲۸) روزہ کا فلسفہ

امام صادقؑ: «أمّا العِلَّةُ في الصِّيامِ لِيَستَوِيَ بهِ الغَنيُّ و الفَقيرُ؛ و ذلكَ لأنَّ الغَنيَّ لَم يَكُن لِيَجِدَ مَسَّ الجُوعِ، فَيَرحَمَ الفَقيرَ؛ لأنَّ الغَنيَّ كُلَّما أرادَ شَيئا قَدَرَ علَيهِ، فأرادَ اللّهُ عَزَّ و جلَّ أن يُسَوِّيَ بينَ خَلقِهِ و أن يُذِيقَ الغَنيَّ مَسَّ الجُوعِ و الألَمِ، لِيَرِقَّ على الضَّعيفِ و يَرحَمَ الجائعَ»۔ “روزے کا فلسفہ یہ ہے کہ غریب اور امیر دونوں برابری کا احساس کریں؛ اس لئے کہ مالدار شخص بھوک کا احساس نہیں کرتا ہےکہ غریب پر رحم کرے اس لئے کہ مالدار شخص جب بھی کسی چیز کی خواہش کرتا ہے وہ اسے فراہم کرلیتا ہے اسی لئے پروردگارعالم نے روزہ کو رکھا تاکہ مخلوقات میں برابری اور ہمدردی کو ایجاد کرے اور بھوک کی سختی کا احساس مالداروں کو کروائے وہ وہ غریبوں کے لئے ان کے دل میں ہمدردی اور رحم پیدا کرے”۔ (بحار الانوار، ج ۹۶، ص۳۷۱، ح۵۳ ۔من لا يحضره الفقیہ، ج 2، ص 43، ح 1) ۔

(۲۹) آنکھ، کان کا روزہ

امام صادقؑ: «اِذا صُـمْتَ فَلْيَـصُمْ سَمْعُكَ وَبَصَرُكَ وَشَعْرُكَ وَجِلْدُكَ»۔ “جب تم روزہ رکھو تو ضروری ہے کہ تمہاری آنکھ، کان، بال، جلد کا بھی روزہ ہو” یعنی تم گناہوں سے پرہیز کرو”۔ (الكافى، ج 4، ص 87، ح 1) ۔

(۳۰) روزے سے مدد

امام صادقؑ: «وَ اسْتَعينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلوةِ» قالَ: أَلصَّـبْرُ الصَّـوْمُ»۔”قرآن مجید میں جو ارشاد ہوا ہے کہ: صبر اور نماز سے مدد طلب کرو، اس آیت میں صبر سے مراد روزہ ہے”۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص 298، ح 3) ۔

(۳۱) گرمی میں روزہ کا ثواب

امام صادقؑ: «مَنْ صامَ لِلّهِ عَزَّوَجَلَّ يَوْما فى شِدَّةِ الْحَرِّ فَـأَصـابَهُ ظَمَـأٌ وَكَّلَ اللّه ُ بِهِ أَلْفَ مَلَـكٍ يَمْسَحُونَ وَجْهَهُ وَ يُبَشِّرُونَهُ حَتّى اِذا أَفْطَرَ»۔ “جوشخص اللہ کے لئے گرمی کی شدّت والے دن میں روزہ رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہزار فرشتوں کو معین کرتا ہے تاکہ اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرے اور اس کو بشارت دیتےرہیں یہاں تک کہ وہ افطار کرلے”۔ (الكافى، ج4، ص64، ح8؛ بحارالانوار، ج93، ص 247) ۔

(۳۲) روزہ دار کے لئے دوہری خوشی

امام صادقؑ:«لِلصّـائِمِ فَرْحَـتانِ فَرْحَةٌ عِنْدَ اِفْطارِهِ وَ فَرْحَةٌ عِنْدَ لِقاءِ رَبِّهِ»۔”روزہ دار کے لئے دو طرح کی خوشیاں ہیں: افطار کے وقت اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت”۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص 290 و 294، ح 6 و 26) ۔

(۳۳) افطار کے وقت دعا

امام کاظمؑ: «دَعْـوَةُ الصّـائِـمِ تُسْتَجابُ عِنْدَ اِفْطارِهِ»۔”افطار کے وقت روزہ دار شخص کی دعا قبول ہوتی ہے”۔ (بحار الانوار، ج 93، ص 255، ح 33) ۔

(۳۴) قیامت کی یاد

امام رضاؑ: «اِنَّـما اُمِـرُوا بِالصَّـوْمِ لِكَىْ يَعْرِفُوا أَلَمَ الْجُوْعِ وَ الْعَطَشِ فَيَسْـتَدِلُّوا عَلى فَقْرِاْلاْخِـرَةِ»۔ “لوگوں کو روزے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ بھوک و پیاس کا احساس کرسکیں اور روزے کے ذریعہ قیامت میں فقر و ضرورت کو یاد کرسکے”۔ (وسائل الشيعہ، ج 4، ص 4، ح 5؛ علل الشرايع، ص10) ۔

(۳۵) قـرآن اور ماه رمضـان

امام رضاؑ: «مَنْ قَرَأَ فى شَهْرِ رَمَضانَ ايَةً مِنْ كِتابِ اللّه ِ كانَ كَمَنْ خَتَمَ الْقُرْانَ فى غَيْرِهِ، مِنَ الشُّهُورِ»۔”جو شخص ماہ رمضان میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے وہ ویسے ہی ہے جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں پورے قرآن کی تلاوت کی ہو”۔ (بحارالانوار، ج 93، ص 346) ۔

(۳۶) تقدیر کی رات

امام صادقؑ: «رَأْسُ السَّنَـةِ لَيْلَةُ الْقَـدْرِ يُكْتَبُ فيها ما يَكُونُ مِنَ السَّنَةِ اِلَى السَّنَةِ»۔ “سال کا آغاز شب قدر سے ہے اس شب میں پورے سال میں ہونے والے کاموں کو لکھا جاتا ہے”۔ یعنی اعمال کے حساب اور اس کی تقدیر کا کام شب قدر میں ہوتا ہے۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص 258 ح 8) ۔

(۳۷) شب قدر کی فضیلت و برتری

«كَيْفَ تَكُونُ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرا مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ؟ قالَ: أَلْعَمَلُ الصّالِحُ فيها خَيْرٌ مِنَ الْعَمَلِ فى أَلْفِ شَهْرٍ لَيْسَ فيها لَيْلَةُ الْقَدْرِ»۔”حضرت امام جعفرصادقؑ سے سوال ہوا کہ کیسے شب قدر ہزار مہینوں سے افضل و برتر ہے؟  آپؑ نے فرمایا: اس لئے کہ اس شب میں نیک کام کرنا، دوسرے ہزار مہینوں میں انجام پانے والے نیک کام سےبہتر ہے”۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص 256، ح 2) ۔

(۳۸) اعـمال کی تقــدير

امام صادقؑ: «أَلتَّـقْديرُ فى لَيْلَةِ تِسْـعَةَ عَشَرَ وَ الاْبْرامُ فى لَيْلَةِ اِحْدى وَ عِشْرينَ وَ الاْمْضاءُ فى لَيْلَةِ ثَلاثٍ وَ عِشْرينَ»۔”اعمال کی تقدیر (امور کےمعین ہونے) کا کام رمضان کی ۱۹ ویں شب میں ہوتا ہے۔ ان پر امضاء کا کام ۲۱ ویں شب میں ہوتا ہے اور ان کے نافذ اور اجراء ہونے کا کام ۲۳ویں شب میں ہوتاہے”۔ (وسائل الشيعہ، ج 7، ص 259) ۔

(۳۹) شب بیداری

«عَنْ فُضَيلِ بْنِ يَسار قالَ: كانَ أَبُوجَعْفَرٍ عليه السلام اِذا كانَ لَيْلَةُ اِحْدى وَعِشْرينَ وَلَيْلَةُ ثَلاثٍ وَ عِشْرينَ أَخَذَ فى الدُّعاءِ حَتّى يَزُولَ اللَّيلُ فَاِذا زالَ اللَّيلُ صَلّى»۔” حضرت امام محمد باقرؑ کے بارے میں فضیل بن یسار نامی صحابی بیان کرتے ہیں کہ: امام باقرؑ ۲۱ویں اور ۲۳ ویں رمضان المبارک کی شبوں میں دعاؤں میں مشغول رہتے تھےیہاں تک رات تمام ہوجاتی تھی، پھر آپؑ نماز صبح پڑھنے میں مشغول ہوتے تھے “۔ (وسائل الشيعہ، ج7، ص260، ح4) ۔

(۴۰) زكات فــطره

امام صادقؑ: «اِنَّ مِنْ تَمـامِ الصَّـوْمِ اِعْطاءُ الزَّكاةِ يَعْنِى الْفِطْرَةَ كَما أَنَّ الصّلوةَ عَلَى النَّبِىِ صلي الله عليه و آله وسلم مِنْ تَـمامِ الصَّـلوةِ»۔ “روزے کی تکمیل زکات یعنی فطرہ ادا کرنے سے ہوتی ہے جس طرح پیغمبرؐ اور آپ کی آل پا کؑ پر صلوات پڑھنے سے نماز کامل ہوتی ہے “۔ (وسائل الشيعہ، ج 6، ص 221، ح 5) ۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button