
اصحاب اور اہل بیت حسینیؑ؛ معیار فضائل انسانی
تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید کاظم رضوی۔ بانی و مدیر بنیاد اختر تابان۔ قم
اگر خالص عرق گلاب کے چند قطرے پانی سے بھرے ایک جگ میں ڈال دئے جائیں تو باوجودیکہ جگ میں ہزاروں یا لاکھوں قطرے ہوتے ہیں مگر جگ کا پانی عرق گلاب کے ان چند قطروں سے متأثر ہو کر مہکنے لگتا ہے۔
یہی حال مومنین کا بھی ہے۔ مومنین اگر خلوص، معنویت، ایمان اور اخلاق سے معطر ہوں تو وہ اپنی تعداد کم ہونے کے باوجود اپنے اطراف کے ماحول کو متأثر کرکے اسے بھی اپنی معنویت، ایمان اور اخلاق سے معطر کر دیتے ہیں۔
اسی لئے ارشاد ہوتا ہے:
«كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ» (سورہ بقرہ، آیت 249)۔یعنی بسا اوقات چند ایک لوگ خدا کے حکم سے بہت سے لوگوں پر غالب آجاتے ہیں۔
اسی لئے مومنین کبھی بھی اپنی تعداد کی قلت کی بنا پر ہار نہیں مانتے بلکہ اپنے کردار کی نیک تاثیر کی امید کے ساتھ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنالیں۔
کربلا والوں نے بھی اپنی کم تعداد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سب سے عظیم کام جو انجام دیا ہے وہ : ذلت کو قبول نہ کرکے حق کی راہ میں آگے بڑھتے رہنےکا ہے اور آخرکار شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہوکر دنیاو آخرت کی سعادت کو حاصل کرلیا۔
امام حسین ؑ خود اپنے عظیم ساتھیوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
“فَاِنِّی لا اَعْلَمُ اَصْحاباً اَوْلَى وَ لا خَیْراً مِنْ اَصْحابِی، وَ لاَ اَهْلَ بَیْت اَبَرَّ وَ لاَ اَوْصَلَ مِنْ اَهْلِ بَیْتِی»”(تاریخ طبری، ج۴، ص۳۱۷؛ بحارالانوار، ج۴۴، ص ۳۹۲)۔”میں نے اپنے اصحاب سے بہترین دوست و ساتھی کسی اور کے لئے نہیں جانتا ہوں، اور اپنے اہل بیت سے زیادہ نیک اور رشتہ داری میں پابند رشتہ دار کو نہیں جانتاہوں”۔
حضرت امام حسینؑ کے مذکورہ فرمان میں “لا اَعْلَمُ”(میں نہیں جانتا) آیا ہے اور یہ کوئی عام بیان نہیں، بلکہ علمی یقین اور حقیقی گواہی کا اظہار ہے۔ امام ؑ نے یہاں اپنے علم اور مشاہدے کی بنیاد پر حتمی اور سچی بات کا اظہار فرمایا ہے جس میں کسی قسم کا شک یا مبالغہ نہیں، بلکہ حقیقت کا اعلان ہے۔
اسی طرح “اَصْحابِی”(میرے ساتھی) کی روشنی میں وہ تمام وفادار جاں نثار شامل ہیں جو مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک امامؑ کے ہمراہ رہے اور بالآخر شہادت پر فائز ہوئے۔اسی طرح وہ تمام صنف کے افراد شامل ہیں چاہے آزاد ہوں یا غلام، جوان ہوں یا بوڑھے، مرد ہوں یا خواتین سب اس میں شامل ہیں۔ جنہوں نے دین حق کی محبت اور امامؑ کی ولایت میں یکجا ہوکر اپنی قربانیاں پیش فرمائی ۔
اسی طرح مذکورہ فرمائش میں اَوْلَى (زیادہ وفادار / زیادہ حقدار) اور خَیْراً (زیادہ بہتر)جیسی عبارات کی روشنی میں اصحاب حسینیؑ کی وفاداری اور اطاعت کے لحاظ سے بے مثال ہونے، حق و انصاف کے معاملے میں سب سے زیادہ بہتر ہونے، اپنے دینی و اخلاقی فرائض کی ادائیگی میں سب سے آگے ہونے ، امامؑ کے ساتھ اپنے عہد و پیمان پر پورا اترنے اور اسی طرح ایمان، تقویٰ، شجاعت، سخاوت ، ایثار ،بھلائی، نیکی، فضیلت ، اخلاق و کردار کے اعلیٰ ترین معیارات کے حامل ہونےجیسے صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔
امام حسینؑ نے مزیدفرمایا: ” وَ لاَ اَهْلَ بَیْت اَبَرَّ وَ لاَ اَوْصَلَ مِنْ اَهْلِ بَیْتِی”(میرے گھرانے کے لوگ جو میرے ساتھ ہیں، میں نے ان سے زیادہ کسی کو نیکی کرنے والا اور صلہ رحم(ساتھ نبھانے) والا نہیں پایا۔
حدیث کے ان جملات میں وہ مرد و خواتین شامل ہیں جو کربلا میں امام حسین ؑکے ساتھ تھےاور جن کا تعلق آپ کے اہل بیتؑ اور خونی رشتے سے تھا۔یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جو نورِ امامت کا حصہ اور رسالت کے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ امام معصومؑ نے ان کی صفات میں بھی سب سے زیادہ نیک کرنے،احسان و فرمانبرداری میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے ، اپنے انسانی حقوق اور اخلاقی فرائض کی ادائیگی میں بے مثال ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔
امام حسینؑ کے اہل بیتؑ کا روشن کردار اور امام وقت سے ان کی والہانہ عقیدت اور بے مثال حمایت و نصرت کا کوئی نمونہ تاریخ نے بیان نہیں کیا ہے۔ انہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی امام وقت کے ساتھ گہرا روحانی اور عملی تعلق قائم رکھا اور میدان شہادت میں اور شہادت کے بعد امامت کے پیغام کو زندہ رکھنے کا فریضہ اس طرح نبھایا کہ آج تحریک کربلا بلکہ حقیقی اسلام اور دین الہی کی زندگی انہیں کی مرہون منت ہے۔ اسی وجہ سے امام حسینؑ نے فرمایا کہ میرے اہل بیتؑ جیسے کسی کے اہل بیتؑ نہیں ہیں۔
امام حسین ؑ کا یہ مختصر مگر نہایت عمیق فرمان ہے۔ کربلا کے ان بے مثال شخصیتوں کی تعریف ہے جنہوں نے اپنی وفاداری، بہترین اخلاق، نیکی اور رشتہ داری کے حقوق کی مکمل ادائیگی سے تاریخ میں ایک ایسا معیار قائم کیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ فرمان ان مقدس ہستیوں کی عظمت کی دائمی سند ہے اور ہر دور کے انسانوں کے لیے وفا اور تقویٰ کی اعلیٰ ترین مثال پیش کرتا ہے۔اور امام حسینؑ نے یہ فرمان میدان کربلامیں اپنے اصحاب اور اہل بیتؑ کی بے مثال قربانیوں کے مشاہدہ کے بعد فرمایا تھا لہذا یہ صرف ایک سادہ تعریف نہیں ہے بلکہ تاریخ کے سامنے ایک گواہی اور ان جاں نثاروں کے مقام و مرتبے کا اعلان بھی ہے تاکہ اصحاب اور اہل بیت حسینیؑ کو انسانی تاریخ کا معیارِ فضیلت قرار دیا جائے۔ اور دین و امام معصومؑ کی بہ نسبت وفاداری، اخلاص، تقویٰ، صبر اور رشتہ داری، محبت، احترام وغیرہ میں کربلا والوں سے نزدیک تر ہو۔
خلاصہ یہ کہ اصحاب و اہل بیت حسینیؑ تعداد میں بھلے ہی بہت کم تھے لیکن رہتی دنیا تک تمام انسانی اور اخلاقی فضائل کے لئے معیار و میزان بن گئے۔
پروردگار عالم سے دعا ہے کہ ہم تمام عزاداروں کو اصحاب و اہل بیت حسینیؑ سے نزدیک رہنے اور ان کے کردار و فضائل کو اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے(آمین)۔