
ایمان و عمل صالح کا ساتھ
آیت کا پیغام
پانی اگر زمین کے اندر ہی رہے اور زمین کی سطح پر جاری نہ ہو تو اس کا کیا فائدہ؟! نہ اس سے کسی درخت کی آبیاری کی جا سکتی ہے اور نہ اس سے کسی کی پیاس بجھائی جا سکتی ہے۔پانی اس وقت فائدہ مند ہے جب وہ زمین کے اندر سے سطح زمین پر آجائے۔
انسان کی مثال بھی بالکل یہی ہے۔اگر اس کا دل پاک ہو اور اس میں ایمان و عقیدہ پایا جاتا ہو مگر وہ اعمال کی شکل میں اسکے قول و فعل اور کردار میں جاری نہ ہو تو پھر وہ بھی بے سود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ایمان کے ساتھ عمل پر بھی تاکید فرمائی ہے کیوں کہ بغیر عمل کے ایمان کوئی فائدہ نہیں پہونچاتا۔
ارشاد ہوتا ہے:
«والَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَـئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ»
«اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے»۔
(سورہ بقرہ ۔ آیت ۸۲) ۔
اس آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ :
۱- ایمان ؛ عمل سے جدا نہیں ہے ۔
۲- جنت میں جانے کا ملاک و معیار ایمان اور عمل ہے نہ کہ خیال و آرزو۔
۳- کسی ایک نیک کام کا انجام دینا کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ انسان کو نیکوکاری کی عادت و فطرت رکھنا چاہئے ، آیت میں «عَمِلُوا الصّالِحاتِ» آیا ہے اور عربی زبان میں «الصالحات» جمع ہے جو بہت سے نیک کاموں پر دلالت کرتا ہے اور اس پر “الف لام” بھی آیا ہے جو تمام نیک کاموں کو شامل کرتا ہے۔