اسلامی معارف

مظلوم کی حمایت

مظلوم کی حمایت

قدیم جاہلیت کا زمانہ ہویا جدید عصر جاہلیت مادی نگاہوں میں کسی کی حمایت کا ایک اہم معیار رشتہ داری اور تعلقات رہا ہےاسی وجہ سے یہ نعرہ لگایا جاتا رہا ہے کہ :«اُنصُر اَخاکَ ظالِماً اَو مَظلوما» اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ لیکن اسلام نے ہمیشہ سے ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کا اعلان کیا ہے پھر چاہے وہ کوئی بھی ہو، یہاں رشتہ داری یا تعلقات کی قید نہیں ہے جو بھی ظلم کا مرتکب ہوگا اس کی مخالفت کرنا لازم ہے اسی طرح جو بھی مظلوم ہے اس کی حمایت کرنا عین اسلام ہے؛  قرآن مجید مسلمانوں سے خطاب کرتا ہے کہ:

“وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا”؛ “اور آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں،عورتوں اور بچوں کے لئے جہاد نہیں کرتے ہو جنہیں کمزور بناکر رکھا گیا ہے اور جو برابر دعا کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں اس قریہ سے نجات دے دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے کوئی سرپرست اور اپنی طرف سے مددگار قرار دے دے” (سوره نساء،  آیت۷۵)۔

یقینی طور پر اس آیت میں قتال اور جہاد کا مفہوم وسیع ہے اور میدان جنگ میں قتال ہی نہیں ہے بلکہ ہر وہ کام جو مظلوم کے دفاع اور اس کی حمایت کے لئے ممکن ہے یہاں آیت کے مصداق میں شامل ہوتا ہے لہذا کسی کے پاس یہ بہانہ نہیں رہ جاتا ہے کہ مظلوموں کی حمایت کے لئے ظالموں سے جنگ کرنا، ان سے قتال کرنا چونکہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے لہذا ہم پر کوئی فریضہ نہیں ہے، اسی طرح آیت کا حکم بھی کسی خاص قریہ، علاقے  اور زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر زمانے میں جہاں بھی کوئی بھی مظلوم واقع ہورہا ہو، اس کی حمایت اور مدد کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا لازم اور ضروری ہے ۔

 احادیث کی روشنی میں تو اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اپنے دینی بھائیوں اور مظلوموں کی فریاد پر آنکھ کان موند لیتا ہے تو وہ مسلمان بھی کہلانے کے لائق نہیں ہے جیسا کہ پیغمبراکرمؐ کا مشہور ارشاد گرامی ہے کہ:

 “مَنْ أَصْبَحَ لَا يَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يُنَادِي يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِم”‏؛ جو شخص بیدار ہواور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اہتمام نہ کرے تو وہ ان میں سے نہیں ہے اور اگر کوئی بھی شخص مسلمانوں کو مدد کے لئے پکارے اور وہ سن کر بھی اس کی مدد نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے(الکافی کلینی، ج۲، ص۱۶۴۔ بحارالانوار مجلسی، ج۷۱، ص۳۳۹)۔

حضرت علی  ؑ جنہوں نے اپنی پوری زندگی مظلوموں کی حمایت کے لئے گزاری، اپنی آخری وصیت میں فرماتے ہیں:

“كونا لِلظّالِمِ خَصْما وَ لِلْمَظْلومِ عَوْنا”؛ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا(نہج البلاغہ، نامہ۴۷)۔ مذکورہ آیت اور احادیث کے علاوہ بہت سی  دوسری آیات اور احادیث ہیں جن میں تاکیدکے ساتھ مظلوم کی حمایت و مدد، ظالموں سے دشمنی، انکی مخالفت اور ان سے مقابلہ کرنے  کا ذکر کیا گیا ہے یہاں ظالم اور مظلوم کوئی بھی ہو، شرط اور قید نہیں ہے ۔ ظالم کوئی بھی ہواس کا مقابلہ اور مظلوم کوئی بھی کسی بھی مذہب کا حق ہواس کی حمایت اور مدد کرنا ہم سب پر لازم و ضروری ہے جیسا کہ پیغمبراکرمؐ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ:

“اِتَّقوا دَعْوَةَ الْمَظْلومِ وَإنْ كانَ كافِرا فَإِنَّها لَيْسَ دونَها حِجابٌ”۔ مظلوم کی آہ و فریاد سے ڈرو !چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ مظلوم کی آہ و فریاد کے سامنے کوئی حجاب نہیں ہوتا ہے(نہج الفصاحۃ، ح۴۸)

یعنی مظلوم کی آہ  وفریاد سیدھے اللہ کی بارگاہ میں سنی جاتی ہے اور دیگر کئی حدیثوں کے مطابق ظالم کو فوری طور پر اسی دنیا میں ظلم و ستم کی سزا دی جاتی ہے۔لیکن یہاں جو مسئلہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ ظالم اور مظلوم کے ساتھ تیسرا وہ گروہ ہوتا ہے جو ظلم و ستم کے حوادث اور مناظر کو دیکھتا سنتا ہے، اس گروہ کے لئے بھی بہت سخت مرحلہ اور سخت امتحان ہوتا ہے اور وہ اپنے وظائف کو جاننا اور ہر ممکن طور پر ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کرنا ہے۔

دور حاضر میں دنیا کے مختلف علاقوں میں خاص طور پر فلسطین اور لبنان میں امریکہ،  غاصب اسرائیل اور ان کے ہمنوا ممالک کی جانب سے جومظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں ہماری اہم ذمہ داری ہے کہ ہم مظلوموں کی حمایت اور ظالم کی مخالفت کے لئے ہر ممکنہ کوشش کریں ؛ مظلوم کی حمایت مالی، زبانی، تحریری، اظہار ہمددری، ان کے حق کا دفاع کرنے سے وغیرہ اور اسی طرح ظالم کے مقابلے میں اظہار برائت، ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ اور ان کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button