
فاطمہ(س)؛ معیار غضب و خوشنودی خدا و رسول(ص)
فاطمہ(س)؛ معیار غضب و خوشنودی خدا و رسول(ص)
قرآن مجید میں ارشاد ہورہا ہے کہ:
«إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا وَ الَّذينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنينَ وَ الْمُؤْمِناتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتاناً وَ إِثْماً مُبيناً
“یقیناً وہ لوگ جو خدا اور اس کے رسول کی اذیت پہنچاتے ہیں۔ اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت و غضب کرتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے دردناک عذاب آمادہ کرکے رکھا ہے۔ اور وہ لوگ جو مومن مردوں اور خواتین کو اذیت پہنچاتے ہیں ان چیزوں کی وجہ سے جن کا انہوں نے ارتکاب ہی نہیں دیا ہے تو یہ اذیت پہنچانے والے بہتان اور واضح گناہ کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانے والے ہیں”۔ (سورہ احزاب، آیت57-58)۔
مذکورہ دو آیات وہ ہیں جو “آیت صلوات” کے بعد نازل ہوئیں۔ ان دونوں آیتوں میں پیغمبراکرم اور آپ کے اہل بیتؑ کو اذیت پہنچانے اور تکلیف دینے والوں کے بارے میں آیا ہے کہ ان لوگوں پر دونوں جہانوں میں خدا و رسول کی لعنت ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہوگا اور یہ وہ لوگ ہونگے جن کے کاندھوں پر بہتان اور گناہ کا بوجھ لدھا ہوگا۔
فریقین کی تفسیری اور حدیثی کتابوں میں ان آیات کے ذیل میں بہت سی احادیث کا ذکر ہوا ہے ؛ یہاں موضوع سے مربوط چند حدیثوں کا ذکر اور نتیجہ پیش کیا جارہا ہے:
پیغمبراکرمؐ فرماتے ہیں: “مَنْ آذَی شَعْرَهًًْ مِنِّی فَقَدْ آذَانِی وَ مَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَی اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ…”؛ جس نے میرے ایک بال کو بھی اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔ جس نے مجھےاذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنچائی ، ایسے شخص پر تمام آسمان اور زمین والے لعنت کرتے ہیں “(امالی طوسی، ص۴۵۱۔ بحارالانوار، ج۲۷، ص۲۰۶)۔
ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت “إِنَّ اَلَّذِينَ يُؤْذُونَ اَللّٰهَ وَ رَسُولَهُ “ اس وقت نازل ہوئی تھی جب (اہل بیتؑ کے حق میں پیغمبرؐ کی سفارشات اور تاکید کے مقابلے میں) منافقین کہنے لگے کہ محمدؐ تو ہم سے اپنے اہل بیتؑ کی عبادت ہی کروانا چاہتے ہیں، آنحضرتؐ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ ان لوگوں پر دنیا و آخرت میں اللہ لعنت کرتا ہے اور آخرت میں دردناک عذاب آمادہ رکھا ہے”(المناقب، ج۳، ص۲۱۰)۔
ایک حدیث میں پیغمبرؐ نے فرمایا: “ایک گروہ کو کیا ہوگیا ہے کہ جو میرے اقرباء کو اذیت پہنچاتے ہیں ایسے لوگ گویا مجھے اذیت پہنچاتے ہیں اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنچائی”(المناقب، ج۳، ص۲۱۱)۔
دوسری آیت کے ذیل میں نقل ہوا ہے کہ : “یُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِینَ یَعْنِی عَلِیّاً وَ الْمُؤْمِناتِ یَعْنِی فَاطِمَهًَْ”؛ مومنین جن کو اذیت پہنچانے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد حضرت علیؑ اور مومنات جن کو اذیت پہنچانے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد حضرت فاطمهؑ ہیں۔ اور قیامت میں جب اس گروہ کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا تو کہا جائے گا کہ: “فَیَقُولُونَ لَهُمْ مَعَاشِرَ الْأَشْقِیَاءِ هَذَا عُقُوبَهًٌْ لَکُمْ بِبُغْضِکُمْ أَهْلَ بَیْتِ مُحَمَّدٍ ” اے اشقیاء یہ سزا اور عذاب ، اہل بیتؑ سے تمہاری دشمنی اور بغض کا نتیجہ ہے (تفسیر قمی، ج۲، ص۱۹۶۔ بحارالانوار، ج۳۶، ص۱۸۸)۔
معلوم ہوا ہے کہ رضایت اور خشنودی پروردگار اور رسول اکرمؐ کا اہم اور بنیادی معیار اہل بیت اطہارؑ ہیں۔ خاص طور پر ولایت امیرالمومنینؑ اور حضرت فاطمہ زہراؑ ۔
حضرت فاطمہ زہراؑ کی خشنودی ۔ اللہ اور رسول خدا کی خشنودی ہے اور آپ سے دشمنی اور آپ کا غضب ، خدا و رسول سے دشمنی اور ان کے غضب کا معیار ہے۔ اس بات کا ذکر واضح طور پر دوسری روایات میں بھی آیا ہے جیسا کہ پیغمبراکرم(ص) فرماتے ہیں:
” إِنَّ فَاطِمَةَ شِجْنَةٌ مِنِّي يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا وَ يَسُرُّنِي مَا يَسُرُّهَا وَ إِنَّ اَللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَيَغْضَبُ لِغَضَبِ فَاطِمَةَ وَ يَرْضَى لِرِضَاهَا صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيهَا “؛ بیشک فاطمہؑ میری شاخ ہے اسے اذیت پہنچانا مجھے اذیت پہنچانا ہے اور اسے خوشحال کرنا مجھے خوشحال کرنا ہے۔ اور بیشک خداوندمتعال فاطمہ ؑ کے غضب کی وجہ سے غضبناک ہوتا ہے اور فاطمہ ؑ کی خوشنودی و رضایت سے راضی ہوتا ہے (معانی الاخبار، ج۱، ص303۔ عوالم العلوم، ج۱۱، ص148)۔
اسی طرح دوسری حدیث میں بیان ہوا کہ پیغمبرؐ نے فرمایا کہ: ” فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي مَا رَابَهَا وَ يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا”؛ فاطمہ ؑ میرا ٹکڑا ہے جس نے انہیں پریشان کیا اس نے مجھے پریشان کیااور جس نے انہیں اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی(الصراط المستقیم، ج۱، ص۱۷۰؛ اثبات الھداۃ، ج۳، ص۴۰۸)۔
حضرت فاطمہ زہراؑ کو خوش رکھنے اور اذیت نہ پہنچانے پر تاکید والی احادیث اہل سنت کی معتبر کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے جن میں سے مشہور حدیث : “فاطمة بضعة منّی فمن اغضبها اغضبنی “ خود صحیح بخاری میں بیان ہوئی ہےکہ رسول اللہؐ نے فرمایا: “فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے جس نے ان کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا”(صحیح بخاری، ج۶، ص۲۲۰، چاپ دارالفکر بیروت، 1433ق)۔
اسی طرح کتاب”فیض القدیر” میں مناوی نے اہل سنت کے ایک بزرگ عالم دین “سہیلی” کے بارے میں بیان کیا کہ : سہیلی نے صحیح بخاری میں نقل ہونے والی اس حدیث سے کو دلیل بناکر کہا ہے کہ: ” ان من سبّها فکفر لانه یغضبه و انها افضل من الشیخین” جس نے فاطمہ ؑ کو برا کہا وہ کافر ہے اس لئے کہ یہ کام پیغمبرؐ کی اذیت کا سبب ہے اور فاطمہ دونوں شیخوں سے افضل ہے(فیض القدیر، ج۴، ص4۲۱، چاپ دارالکتب العلمیہ، 1415ق)۔
اسی طرح مذکورہ حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کو اہل سنت کے بزرگوں نے نقل کیا ہے جس میں سے احمد بن حنبل اور ترمذی(مسند احمد بن حنبل، ج۴، ص۳۲۸۔ سنن ترمذی، ج۲، ص۳۱۹)، متقی ہندی (کنزالعمال، ج۶، ص۲۱۹، حدیث34237-34240) حاکم نیشاپوری(مستدرک الصحیحین،ج ۳، ۱۵3-154) ، ذہبی(میزان الاعتدال، ج۲، ص72)۔
ابن قتیبہ دینوری نے اس سلسلے میں ایک اہم واقعہ کا ذکر کیا ہے حضرت فاطمہ زہراؑ نے دونوں (غاصب) خلفاء سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ: کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ: فاطمہؑ کی خشنودی میری خشنودی ہے اور فاطمہؑ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے ۔ جس نے فاطمہؑ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے فاطمہؑ کو راضی و خشنود کیا اس نے مجھے راضی و خشنود کیا ، جس نے فاطمہؑ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا”۔ یہ سن کر ان دونوں نے اعتراف کیا کہ ہاں پیغمبرؐ نے ان باتوں کو بیان فرمایا ہے(الامامۃ و السیاسۃ ، ج۱، ص17)۔
مذکورہ روایت میں مزید بیان ہوا ہے کہ:
حضرت فاطمہؑ نے جب ان دونوں سے اقرار لے لیا تو فرمایا: «فانّى اُشهد الله و ملائکته أنکما اسخطتُمانى و ما أرضیتُمانى، و لئن لقیتُ النبى لأشکونّکما الیه»؛ «میں اللہ اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے غضباک کیا اور مجھے راضی نہیں رکھا، اب میں جب نبیؐ سے ملاقات کروں گی تو ضرور تم دونوں کے خلاف ان سے شکایت کروں گی»؛ پھر یہ بھی فرمایا: «و الله لأدعونّ الله علیک عند کلّ صلوة اُصَلّیها»؛ «واللہ! میں ہر نماز میں اللہ سے تمہارے خلاف بددعا (لعنت)کرتی رہوں گی»۔(الامامۃ و السیاسۃ ، ج۱، ص17، چاپ1418ھ ق)۔
اس واقعہ کو اہل سنت کے دیگر محدثین اور مورخین نے کچھ جملات کو حذف کرتے ہوئے نقل کیا ہے(انساب الاشراف بلاذری، ج۱، ص79؛ السقیفہ و فدک، جوہری، ص104؛ رفع الحاجب سبکی، ج۲، ص308)۔
مذکورہ روایت اور تاریخ کی روشنی میں واضح ہے کہ شہزادی کائنات حضرت فاطمہؑ، اللہ و رسول کی خشنودی اور غضب ناک ہونے کا اہم معیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو سخت ترین مصائب اور اذیتوں میں مبتلا کرنے والے، نہایت دشمنی کا مظاہرہ کرنے والے اور اہل بیتؑ کے حق امامت اور دیگر حقوق کو غصب کرنے والوں نے بھی ناکام کوشش کی کہ آخری وقت میں شہزادی ؑ کو راضی کر لیں لیکن شہزادی نے مرتے دم تک ملاقات سے منع کردیا اور کوشش کرنے پر منھ پھیر کر اپنی ناراضگی کا اعلان فرمایا۔ یہاں تک اپنے تجہیز و تکفین و تدفین میں بھی آنے سے منع کردیا اور رہتی دنیا تک حقیقی توحید پرستوں اور عاشقان رسولؐ اور انصاف پسندوں کے لئے حقانیت و صداقت کا معیار قائم کردیا اور بہت سے سوالات چھوڑ دیئے کہ کائنات کے عظیم رسولؐ کی اکلوتی بیٹی جو اللہ و رسولؐ کی خشنودی اور غضب کا معیار تھیں ان کو کن لوگوں نے ناراض کیا اور کن لوگوں نے خوش رکھا۔ کیوں ایک اکلوتی بیٹی کو ستایا گیا؟۔ کیوں پوشیدہ طور پر ان کی تدفین ہوئی؟ کیوں ان کی قبرکے نشانات آج بھی نامعلوم ہیں۔




