
ماه رمضان کی فضیلت اور روزوں کے فوائد
تحریر: رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپال پوری (رح)
فہرست مندرجات
مقدمہ:
رمضان کا مہینہ، برکتو ں والا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ تمام مہینوں کا سردار ہے اور خدا کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اللہ تعالی اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے اور خدا کا فضل وکرم بندوں کو ہر طرف سے گھیر لیتا ہے اب یہ ہم لوگوں کا کام ہے کہ اس رحمت اور مہربانی سے اپنے دامن کو جہاں تک ممکن ہو بھرلیں اس مہینہ کی سب سے بڑی نعمت روزہ ہے ۔
اللہ تعالی نے کتنے پیار ے انداز میں روزے کا حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ، أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ (بقرہ، ۱۸۳)۔
(اے ایمان لانے والو! تمہارے اوپر بھی روزہ واجب کیا گیا جس طرح ان لوگوں پر واجب کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گذرے ہیں تاکہ تم پرہیزگار بن جاو ٔ تقوی اختیار کرو اور یہ حکم صرف چند معین دنوں کے لئے ہے) ۔ آپ دیکھیں تو سہی آیت شروع ہوتی ہے ” يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا ” سے تاکہ ہمیں یہ یاد رہے کہ ہم اللہ تعالی پر ایمان لا چکے ہیں اور یہ اقرار کرچکے ہیں کہ خدا اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اور امام ہم پر خود ہم سے زیادہ اختیارات رکھتے ہیں جب ہم یہ اقرار کرکے اپنے کو صحیح معنوں میں خدا کا بندہ بنا چکے ہیں، تو پھر خدا جو حکم دے ہمیں خوشی اور شوق کے ساتھ اس پر عمل کرنا ہی چاہئے ہمیں اس کی مصلحت اور وجہ معلوم ہو یا نہ ہو لیکن روزہ کی مصلحتیں اور اس کے فائدے تو ایسے ظاہر اور کھلے ہوئے ہیں کہ ہر شخص اس کو مانتا ہے چاہے وہ مسلم ہو یا غیرمسلم، مومن ہو یا کافر روزے کے فائدے کو سب مانتے ہیں ۔
روزے میں جتنے جسمانی، روحانی، اخلاقی، تمدنی، اور مذہبی فائدے اکٹھا ہوگئے ہیں ان سب کا مفصل بیان بہت مشکل ہے یہاں مختصر طریقے سے چند جملہ بطور اشارہ لکھتا ہوں ۔
جسمانی فائدہ:
ہمارے جسم کے اندر غذا کی بے احتیاطیوں اور نظام زندگی کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے جو خرابیاں پیدا ہوجاتی ہے اور جو فاسد مادے جمع ہوجاتے ہیں روزہ ان سب کا بہترین مداوا اور سب سے عمدہ علاج ہے۔
حکیم اور ڈاکٹرسینکڑوں امراض میں مریضوں کو فاقہ کرلیا جائے تو مکمل شفا حاصل ہوجاتی ہے، اللہ تعالی نے ہمیں منظم طریقے سے فاقہ کرنے پر مامور کیا ہے اور اس کو عبادت قرار دیا ہے یہ بھی اس کی رحمت کا ثبوت ہے کہ ہماری عبادتوں میں اخروی فوائد کے علاوہ دنیاوی فوائدبھی ودیعت کئے ہیں اب بھی ہم اس کی اطاعت سے سرتابی کریں تو یہ ایسی احسان فراموشی ہوگی جس کی نظیر نہیں مل سکتی یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ جہاں تک جسمانی فوائد کا سوال ہے ہم لوگوں کا آج کل کا یہ طریقہ کچھ اچھا نہیں ہے کہ ہم رات کے وقت دن کے کھانے کی کمی سود سمیت وصول کرلیتے ہین اور مزید بر آن کھانے میں ایسی چیزیں شامل کرلیتے ہیں جو دیر ہضم اور ثقیل ہوتی ہیں، مناسب طریقے تو یہ ہے کہ ہم رات کے وقت ہلکی اور زود ہضم غذائیں معتدل طریقے سے استعمال کریں اگر ہم اپنا یہ طریقہ رکھیں تو ہمیں روزہ کاروحانی فائدہ بھی حاصل ہوگا ۔
روحانی فائدہ:
ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ روح کی اصل غرض خلقت کمالات عالیہ کا حصول ہے اور وہ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ملاٴاعلی اور بارگاہ قدس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور وہاں سے کسب کمال اور تحصیل شرف کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ جسم کا نظام درست رکھے اور اس کی دیکھ بھال کرتی ہے ہم جب تک جاگتے رہتے ہیں اس کے علاوہ جب تک ہمارے معدہ کی چکی رہتی ہے ۔ روح بیچاری کو جسم کی دیکھ بھال میں اس قدر مشغول رہنا پڑتا ہے کہ اس کو بارگاہ الہی کی طرف متوجہ ہونے کا موقع نہیں ملتا اور اس کے اصل مقصد خلقت کے حاصل کرنے میں رکاوٹ پڑتی ہے روزہ کی وجہ سے دن کے وقت بھی ہمارا بدن ہلکا رہتا ہے اور اگر ہم ہلکی اور صرفا بقدر ضرورت غذا شب میں استعمال کریں تورات کو بھی روح کو جلد فرصت مل سکتی ہے اور اس کو اتنا موقع مل سکتا ہے کہ وہ ایک مہینہ تک مسلسل بغیر کسی زیادہ جھنجھٹ کے ملاءاعلیٰ سے اپنا لگاو قائم رکھے اور اخروی و نورانی درجات کو شوق و ذوق کے ساتھ حاصل کرتی رہے۔
اخلاقی فائدہ:
دنیا میں بہت سے خدا کے بندے ایسے ہیں جن کو کبھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا یہ وہ لوگ ہیں جن کا حق امیروں کی دولت میں اللہ تعالی نے قرار دیا ہے اور فرمایا کہ: فقرامیرسےعیال ہیں اور اغنیاء میرے امیں ہیں امیروں کو جب تک خود تجربہ نہ ہو اس کا احساس نہیں ہوسکتا کہ فاقہ کش غریبوں پر کیا گذرتی ہے اس لئے خداوند عالم نے امیر وغریب سب پر روزہ فرض قرا ر دیا تاکہ امرا کو بھوک کا ذائقہ معلوم ہوجائے اور وہ سمجھ سکیں کہ غریبوں کے دل پر بھوک کے عالم میں کیا گذرتی ہے امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا ہے کہ روزہ اس لئے فرض کیا گیا کہ امیر و غریب دونوں مساوی ہوجائیں اور امیر بھوک کی اذیت محسوس کرے تاکہ غریبوں پر سچے دل سے رحم کرے او ان کی اعانت شوق سے کرے۔
مذہبی فائدہ:
اس مبارک مہینہ میں روزہ کا حکم دےکر اللہ تعالی نے ہماری مذہبی ٹریننگ اور ریاضت کا سامان مہیا کردیا ہے ہم سب خوب جانتے ہیں کہ جو لوگ کسی چیز کی ٹریننگ حاصل کرنے جاتے ہیں ان کو ٹریننگ کے زمانے میں آرام نہیں ملتا بلکہ اس کے برخلاف پچاسوں قسم کی مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں مثلا کوئی سپاہی ٹریننگ کیلئے جائے تو دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے کسی وقت کو وہ اپنا وقت نہیں سمجھ سکتا۔ کھانا، پینا سب قواعدو ضوابط کے ماتحت ہوگا۔ سونے جاگنے کے اوقات مقرر مشق اور ریاضت لازمی ہوگی۔ میلوں تک پہاڑوں اور خطرناک راستوں پر اس کو چلایا جاتا ہے ۔ بوریا بستر اور خوراک دوش پر لادے ہانپتا کانپتا بیچارہ سپاہی بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ہر قدم پر بیٹھ جانے کو جی چاہتا ہے۔ پاؤں میں سوجن آجاتی ہے لیکن کمانڈنگ آفیسر ایسی حالت میں بھی رحم نہیں کرتا بلکہ (quick march) کا حکم برقرار رکھتا ہے۔ یہ کیوں؟ کیا اس لئے کہ اس کا آفیسر اس کا دشمن ہے؟ نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس ٹریننگ میں انتہائی سخت مشکل اور صبرآزما منزلوں سے اس سپاہی کو گذارا جائے اور ملازمت کے زمانہ میں آئندہ جس قسم کے حالات میں اس کو زندگی بسر کرنی ہوگی۔ اس سے بھی زیادہ سخت حالات اس کے سامنے پیش کردئے جائیں اور ان کا عادی کردیا جائے تاکہ جب سخت حالات اس کے سامنے پیش کردئے جائیں اور ان کا عادی کردیا جائے تاکہ جب اصل ڈیوٹی کا وقت آئے تو اس کو وہ ڈیوٹی سہل اور آسان معلوم ہوا اور وہ خوشی سے اپنے فرائض کو انجام دے.
اسی طرح خداوند عالم نے اس ماہ مبارک میں روزہ کے اوقات می حلال چیزوں کو بھی ہمارے لئے حرام قرار دے دیا کھانے اور پانی جیسی ضروری چیزیں ہمارے لئے منع کردی گئی جو لذتیں دوسرے دنوں میں جائز بلکہ بعض اوقات باعث ثواب تھیں وہ ان دونوں میں قطعی ناجائز گناہ اور حرام کردی گئیں کیوں؟ تاکہ ہمیں احکام خدا کی پابندی کی عادت پیدا ہوجائے اور حلال و طیب چیزوں سے بھی ہمیں اس کا بھی احساس ہوجائے کہ خد ا نے جتنی چیزیں ہمارے لئے جائز کی تھیں وہ صرف اس کی مہر بانی ہے ورنہ وہ انہیں چیزوں کو ہمیشہ کے لئے حرام کرسکتا تھا لیکن یہ اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے ہمارے لئے زیادہ چیزوں کو حلال اور بہت کم چیزوں کو حرام قرار دیاہے۔
بہر حال رمضان کی اس ریاضت سے ہم کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ باقی دنوں میں حرام اور ناجائز چیزوں سے بچنے میں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوسکتی آخر ایک مہینہ تک بظاہر انتہائی ضروری اور حلال چیزو ں سے بھی ہم پرہیزکرسکتے ہیں تو اس کے بعد صرف ناجائز اور غیرضروری بلکہ روحانی اور جسمانی لحاظ سے نقصان دہ چیزوں سے پرہیز کرنے میں ہمیں کون سی وقت محسوس ہوسکتی ہے ۔
یہی مطلب ہے خداوند حکیم کے اس ارشاد کا کہ تم پر روزہ اس لئے فرض کیا گیا” لعلکم تتقون” تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاویوں سمجھئے کہ رمضان کے فیض سے ہم سال کا ۱-۲ حصہ خدا کی مکمل اطاعت میں گذارتے ہیں گویا اپنی زندگی کا بارہواں حصہ خدا کی مرضی کے مطابق بسر کرتے ہیں اب اگر رمضان کی اس ریاضت کا صحیح فائدہ ہم اٹھالیں تو سال کے باقی دنوں میں خدا کی خوشنودی کے مستحق بن سکتے ہیں اور یہ زندگی کا بارہواں حصہ بڑھتے بڑھتے آدھی زندگی یا پوری زندگی بن سکتا ہے بس شرط صرف اتنی ہے کہ رمضان میں اطاعت الہی کا جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اس کا کچھ اثر بعد میں بھی باقی رہے ۔
روزوں کی اہمیت:
روزہ کی اہمیت اس حدیث قدسی سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ الصوم لی وانا اجز ی بہ (ارشاد الہی ہے کہ روزہ خاص میرے لئے ہے اورخود میں اس کی جزا دوں گا) یعنی روزہ کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ فرشتے بھی اس کا احاطہ نہیں کرسکتے بلکہ خود خدائے قادر علیم اس کی جز ادے گا جو عبادت اتنی مہم بالشان ہو اگر اس کے بجالانے میں ہمیں تھوڑی سی تکلیف بھی اٹھانی پڑے تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے ۔
بقول سعدی:
به رنج اندر است ای خردمند گنج ۔ نیابد کسی گنج نابرده رنج
دوسری عبادتوں کے مقابلے میں روزہ کو اتنی خصوصیت اللہ نے کیوں بخشی ہے؟ دیکھئے نمازی کو دوسرے لوگ نماز پڑھتے دیکھ سکتے ہیں۔حج اور جہاد دوسروں کی ہمراہی اور میعت میں دوسروں کے ساتھ ساتھ انجام دیاجاتا ہے۔ خمس اور زکوۃ و صدقات کے ادا کرنے کی خبر کم سے کم اس مستحق کو تو ہوہی جاتی ہے جس کو وہ رقم ملتی ہےاس طرح ہم دیکھتے ہیں تمام عبادتوں کی خبر اور اطلاع دوسروں کو ہوجاتی ہے اور ایسی صورت میں ریاکاری کا زیادہ موقع مل سکتا ہے لیکن روزہ ایسی عبادت جس میں ظاہری طور سے کوئی عمل نہیں کرنا پڑتا بلکہ صرف نیت کر کے کچھ کاموں سے بچے رہنا پڑتا ہے اس لئے دوسروں کو اس کی خبر نہیں ہوسکتی کہ فلاں شخص روزہ دار ہے جب تک وہ خود اس کو ظاہر نہ کرے اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ روزہ میں ریاکاری کا امکان اور موقع دوسری عبادتوں کے مقابلہ میں کم ہے شاید اسی لئے خدا نے اسے خاص طور سے اپنی عبادت قرار دے کر اس کا ثواب دینا اپنے ہی ہاتھ میں رکھا ہے ہم میں سے کچھ لوگ روزہ رکھتے ہیں تو ہر وقت منھ بنائے رہتے ہیں تیوری چڑھی ہوتی ہے بات بات پر جھنجھلاتے ہیں گھر والے اور نوکر چاکر ڈر کے مارے دور رہتے ہیں ادنی سی بات خلاف مزاج ہوئی اور انہوں نے چیخ پکار مچائی اور سارا گھر سر پر اٹھالیا، جیسے انہوں نے اپنا فریضہ انجام دے کر دوسروں پر کوئی احسان کیا ہے ۔ اس طریقہ عمل کی وجہ سے روزہ کی یہ خصوصیت ختم ہوجاتی ہے کہ وہ ایک پوشیدہ عباد ت ہے اگر ہم روزہ کو روزہ کی طرح رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بد اخلاقی سے پرہیز کرنا چاہئے ۔
روزوں کے درجات
میں مناسب سمجھتا ہوں کہ یہاں پر روزہ کی تین حیثیتوں کا بیان کروں؛ روزہ کے بہت سے درجے اور زینے ہیں ان میں پہلا زینہ تو یہ ہے کہ ہم صرف ان چیزوں سے بچے رہیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور جن کو مفطرات کہا جاتا ہے یہ سب سے پہلا درجہ ہے، اور اس کا فائدہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم تارک الصوم کے عذاب سے بچ جاتے ہیں اور روزہ داروں کی فہرست میں ہمارا نام لکھ لیا جاتا ہے لیکن ہمیں صرف اتنے ہی پر قناعت کرلینا مناسب نہیں ہے ہمیں کم سے کم اس کی کوشش کرنی چاہئے کہ کم سے کم اس سے اگلے درچے پر پہونچ جائیں تاکہ روزہ کے جو روحانی فائدے ہیں ہو وہ ہمیں حاصل ہوجائیں اور روزہ داروں کی جو فضیلتیں ہیں ان کا کچھ حصہ ہمیں بھی مل جائے ۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ جس طرح روزہ میں ہم پیٹ اور جنسی تعلقات پر پابندی لگادیتے ہیں ۔ اسی طرح آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، اور پاوں پر پابندی لگادیں ۔
۱) آنکھ پر یہ پابندی ہو کہ کسی نا محرم پر نظر نہ ڈالیں، کسی ایسی چیز کو نہ دیکھیں جس کا دیکھنا جائز نہیں ہے ۔
۲) کان پر یہ پابندی ہو کہ کسی کہ برائی یا غیبت نہ سنیں، گانے بجانے کی آوازوں سے پرہیز کریں، جھوٹی باتوں سے الگ رہیں۔
۳) زبان پر یہ پابندی ہو کہ فضول اور ناجائز باتیں زبان پر نہ آئیں، کسی پر غصہ نہ کریں، لڑائی جھگڑا سے پرہیز کریں، غیبت، بہتا ن اور دل آزاری سے دور رہیں۔
۴) ہاتھ پر یہ پابندی ہو کہ ہم اس سے کسی کو نقصان نہ پہونچائیں، لوگوں کو ستانے سے پرہیز کریں ناجائز طریقوں سے پیسہ حاصل کرنے سے باز رہیں
۵) پاوں پر یہ پابندی ہو کہ ہم ان راستوں پر قدم نہ بڑھائیں جو گناہ کی طرف لے جاتے ہیں سینما تھیٹر ایسے ہی دوسرے گناہ کے اداروں سے دور رہیں۔
اگر ہم ان پابندیوں کے ساتھ روزہ رکھیں گے تو انشا اللہ تعالی ہمارا روزہ خدا کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔
روزہ میں سونا بھی عبادت قرار دیا گیا ہے رسالتمآبؐ نے فرمایا ہے کہ رمضان میں تمہاری سانس تسبیح اور تمہاری نیند عبادت، نیند کو عبادت قرار دینے کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیند کے عالم میں روزہ دار ان تمام برائیوں سے بچا رہتا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور گناہوں سے محفوظ رہتا ہے ۔
شائد کوئی یہ خیال کرے کہ آدمی جب بھی سوتا ہے گناہوں سے دور رہتا ہے اس لئے رمضان ہی کیا خصوصیت ہے کہ اس میں سونا عبادت ہے اور دوسرے مہینوں میں سونا عبادت نہیں ہے ۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے روزہ کے علاوہ کوئی دوسری عبادت ایسی نہیں ہے جو نیند کے عالم میں کوئی نہیں دے سکتا حج کے ارکان اور جہاد کی دوڑ دھوپ نیند کی حالت میں نہیں ادا ہوسکتی لیکن روزہ وہ عبادت ہے جو نیند کی حالت میں بھی جاری رہتی ہے اور باطل نہیں ہوتی، اس لئے روزہ دار ہی کی نیند کو عبادت کہا جاسکتا ہے۔ غیر روزہ دار کی نیند عبادت کا درجہ حاصل نہیں کرسکتی۔
بہر حال روزہ کا دوسرا درجہ جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے وہ منفی Negative کیر یکٹر کا ہے یعنی اس درجہ میں انسان برائیوں سے بچتا ہے ۔
جب اس منزل میں پختگی آجائے تو اس کے بعد تیسرا درجہ آتا ہے جو مثبت Positive کیریکٹر کا ہے یعنی اس میں اچھائیوں کے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو برادر مومن اس درجے کو حاصل کرنا چاہے تو یہ لازم ہے کہ صرف برائیوں سے بچنے پر اکتفاء نہ کرے بلکہ اس کے مقابل، اچھائیوں پر بھی عمل کرے اور اپنے تمام اعضا وجوارح اور باالخصوص آنکھ، کان، زبان اور پاؤں کو نیکیوں میں مشغول رکھے۔
۱-آنکھ سے قرآن، دعا اور حدیثوں کی تلاوت کرے، راتوں کو عبادت الہی میں جاگے، غم حسینؑ میں آنسو بہائے، خوف خدا سے گریہ کرے ۔
۲- کانوں سے خدا اور رسولؐ کی باتیں سنے، مسائل کو غور سے سنے اور یاد رکھے مجالس میں شرکت کرکے اہل بیتؑ کے فضائل ومناقب کو سنے اور ان کے اسوہ ٔحسنہ پر عمل کرنے کی نیت سے ان کے حالات معلوم کرے ۔
۳- زبا ن کو ہمیشہ ذکر خدا میں مشغول رکھے جن لوگوں کے متعلق امید ہو کہ اس کی بات مانیں گے ان کو نیک کاموں کی ترغیب دے اور برائیوں سے منع کرے۔
۴- ہاتھ سے غریبوں، یتیموں، مسکینوں، اور مجبوروں کی مدد کرے، مال اور طاقت سے ان کی مشکل دور کرنے کی کوشش کرے ۔ رشتہ داروں اور ہمسائیوں کی حاجتیں پوری کرے،
۵-پاؤں سے برادران مومن کی حاجت برآری کیلئے کوششیں کرے۔ مسجدوں اور امامباڑوں میں جائے۔ نماز جماعت کا ثواب حاصل کرے، اگر ہم کوشش کریں تو ایک گھنٹہ کے اندر اندر روزہ کے دوسرے اور تیسرے درجہ کو حاصل کرسکتے ہیں، یہی تیسرا مرتبہ اور درجہ وہ ہے جس کو رسالتمآب ؐ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:
“ایها الناس…”! (اے لوگو! ماہ رمضان میں) اپنے فقیروں اور غریبوں کو صدقہ دو، بزرگوں کی عزت کرو، چھوٹوں پر رحم کرو، رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ لوگوں کے یتیموں پر رحم کرو۔ نماز کے وقت اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کرو، کیوں کہ وہ سب سے افضل وقت ہے اس وقت خدا اپنے بندوں پر رحمت کی نظر کرتا ہے ۔
“ایها الناس”! تمہاری جان تمہاری بد اعمالیوں کے بدلے گردی ہے۔ استغفار کرکے اس کو آزاد کراؤ، تمہاری پیٹھ تمہارے خراب اعمال کے بوجھ سے ٹوٹی جارہی ہے لمبے سجدےکرکے اس کو بچاؤ۔
“ایها الناس”! جو اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے اس کو اللہ تعالیٰ ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب دے گا جو اس مہینہ اپنا اخلاق ٹھیک کرے وہ قیامت میں صراط سے آسانی سے گذر جائے گا جب کہ دوسروں کے قدم پھسلتے ہوں گے جو اپنے غلاموں پر اس مہینے میں لوگوں کے ساتھ بد خلقی اور برائی نہ کرے خدا قیامت کے دن اس کو اپنے غضب سے محفوظ رکھے گا جو اس مہینے میں رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے خدا قیامت کے دن اس پر اپنی رحمت نازل کرے گا ۔ اور جوا س مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے برائی کرے خدا قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے دور کرے گا۔ اس مہینے میں ایک آیت تلاوت کرنے کا ثواب دوسرے مہینے میں قرآن ختم کرنے کے برابر ہے جو اس مہینے میں رسولؐ اور ائمہؑ پر بکثرت صلوات پڑھے خدا اس کی نیکیوں کا پلہ قیامت کے دن بھاری کردے گا جب کہ دوسروں کے پلے ہلکے ہو رہے ہوں گے یہ رسالتمآب ؐ کے ایک خطبہ کے چند متفرق جملے ہیں جنہیں میں نے اس مضمون کی زینت بنایا ہے اس خطبہ کے خاتمہ پر امیر المومنین ؑ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، اس مہینے میں سب افضل عمل کون سا ہے ۔ رسالت مآب نے فرمایا کہ اے ابوالحسنؑ:
” افضل الاعمال فی هذ الشهر الورع عن محارم الله”؛ اس مہینے میں سب سے افضل عمل یہ ہے کہ انسان خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے پرہیز رکھے۔ یہ ایک جملہ مبارکہ دین و دنیا کی تمام بھلائیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم کم ازکم صرف اس ایک جملے پر پوری طرح عامل ہوجائیں۔ آمین یا رب العالمین