علامه رضوی(ره)علامہ رضوی(ره) کے قلمی آثار

قبورِ اہل بیتِ رسول(ص) کی مسماری کا سبب کیا تھا؟

کیوں عذاب جھیلنے والی قوموں کے آثار کو بچایا اور اسلامی آثار کو مٹایا گیا؟ ملاحظہ فرمائیں رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی مرحوم کی زبانی:

مندرجہ ذیل تحریر میں “یوم غم” کے عنوان سے ۸ شوال المکرم، سنہ 141۴ ہجری، میں رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی مرحوم کی ایک تقریر سے کچھ اہم مطالب و معروضات پر مشتمل ہے۔

شعائر الہی کی تعظیم کا سبب

’’وَ مَنْ يُعَظِّمْ شَعٰائِرَ اللّٰهِ فَإِنَّهٰا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ‘‘ (سورہ حج، آیت32)

خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص خدا کی نشانیوں کی تعظیم کرے ، ان کی عزت کرےتو یہی چیز دلوں کے تقویٰ کی نشانی ہے۔ اس سے دل  کا تقویٰ اور پرہیزگاری ظاہر ہوتی ہے۔ ویسے تو درخت کا ایک پتہ بھی اللہ کی نشانی ہے اور پتھر کا ایک ٹکڑا بھی اللہ کی نشانی ہے ہر چیز اللہ کی نشانی ہے، قدرت کے اشارے پر چلتی ہے لیکن یہاں جو اللہ نے کہا ہے کہ اللہ کی نشانیوں کی بزرگی رکھنا، ان کی عزت کرنا اس سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جن کو دیکھ کرکے انسان کی توجہ خدا کی طرف ہوجائے؛’’إِنَّ الصَّفٰا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعٰائِرِ اللّٰهِ‘‘[1]؛ صفااور مروہ یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اور وہ پہاڑی ہے، اس سے بڑے بڑے پہاڑ دنیا میں ہیں لیکن اس کو دیکھ کر خدا کی یاد نہیں آتی ہے بلکہ یاد آتا ہے تو اس سے ہاجرہ کا واقعہ یاد آتا ہے۔ تو حضرت ہاجرہ  کے واقعہ سے جن دو پہاڑیوں کا تعلق ہے ان کو اللہ کی نشانی قرار دی ہے۔ اور وہ جانور کہ جن کو حج میں قربان کیا جاتا ہے اس کو خداوندعالم نے کہا ہے  ’’ وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰاهٰا لَكُمْ مِنْ شَعٰائِرِ اللّٰهِ‘‘[2] کہ یہ جانور خدا کی نشانیاں ہیں اور اس سے حضرت ابراہیمؑ اور اسمعیلؑ نے جو قربانی پیش کرنی چاہی تھی اس کی یاد تازہ ہوگئی…۔

تخریب جنت البقیع کا پس منظر

سنہ 1925 ، عربی حساب سے آج کی تاریخ آتی ہے ( ۸ شوال، 1443 ہجری) جب یہ  جنت البقیع کی قبریں مسمار ہوئی ہیں … اس وقت سنہ 192۵  سے پہلے 1923-24 سے پہلے … جب  فرسٹ ورلڈ وار میں انگریزوں نے ترکی کو کمزور کرنا چاہا تو اس کے لئے اپنے تمام جاسوس بھیجے جس میں بہت مشہور جاسوس کرنل لارنس[3] کہ جو عربی لباس پہنتا تھا ، عربی زبان بولتا تھا اور ایک طرف تو وہ شریف حسین مکہ کا جو گورنر تھا اس کو بھڑکا رہا تھا کہ وہ ترکی سے الگ ہوکرکے اپنی بادشاہی کا اعلان کرے اور اس میں اپنے کو ملک حسین کرلے(بادشاہ ہوجائے)  اور دوسری طرف دوسرا جاسوس یہ عبدالعزیز ابن سعودسےکہہ رہا ہے کہ تم اٹیک کرو شریف حسین پر یعنی تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں شریف حسین سے وعدہ کیا جارہا ہے کہ ہم تم کو حجاز کا بادشاہ بنا دیں گے تم اپنے کو بادشاہ کہدو۔ اوردوسری طرف دوسرا جاسوس جو ہے ان کا وہ عبدالعزیز سے وعدہ کررہا ہے کہ تم اٹیک کرو شریف حسین پر ہم تمہیں سپوٹ کریں گے تو جب ترکی کو شکست دینی تھی تو شریف حسین سے کام لیا گیا اور جب شریف حسین ملک حسین  بن گیا تو اس کے اوپر عبدالعزیز نے اٹیک کردیا اور مکہ پر قبضہ کرلیا ، جدّہ پر قبضہ ہوگیا ، مدینہ پر قبضہ ہوگیا ۔… اس وقت عبد العزیز نے مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے اناؤنس مینٹ کیا تھا ملک حسین کو ختم کرنے کے بعد میرا مقصد بادشاہ بننا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ دونوں کا مستقل انتظام کرنے کے لئے تمام دنیا کے مسلمانوں کی ایک کانفرنس بلاؤں اور وہ لوگ ڈسائڈ کریں گے اور اس کے مطابق اس کا ایڈمنسٹریشن [4]چلایا جائے گا۔ اس جملے کو سن کرکے ، اس اناؤنس مینٹ کو سن کرکے بہت سے لوگ ساتھ ہوگئے اور ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے اس کے اس اناؤنس مینٹ کو اور اس نے اعلان کردیا کہ میں ملک الحجاز ہوں، میں مکہ اور مدینہ کا بادشاہ ہوں تو ایک تو  اس نے وشواش گات  یا بریچ آف ٹرسٹ [5] کیا۔ اور  اس کے بعد جنت المعلیٰ؛ مکہ کے قبرستان کو  توڑ دیا۔ اس کے اوپر ہنگامہ مچ گیا تمام دنیائے اسلام میں تو عبدالعزیز نے یہ صاف کیا کہ یہ میری پولیسی نہیں ہے۔ وایلنس[6] ہیں جنہوں نے یہ کام کیا ہے اور آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔اس کے بعد  مدینہ پر قبضہ ہوا  تو  جنت البقیع کو بھی مسمار کردیا گیا۔

اس کے بعد رسول اللہ(ص) کے روضہ پر توپ لگائی گئی ، دوچار گولے گنبد کے اوپر پڑے لیکن وہ بلڈنگ بہت زیادہ مضبوط تھی اور ان گولوں سے کچھ خاص نقصان نہیں پہونچا اور اس پر بہت زیادہ ہنگامہ ہوا تو اس ہنگامہ سے بچنے کے لئے اس کو چھوڑ دیا گیا۔ لیکن آج تک (معاذاللہ)یہ کہا جاتا ہے کہ یہ صنم اکبرہے ۔ یہ سب سے بڑا بت ہے ۔ رسول اللہ(ص) کا روضہ یہ سب سے بڑابت ہے  ۔

قبور پر تعمیرات کا شرعی جواز

وہابیوں کی طرف سے کہایہ جاتا ہے قبر پر بلڈنگ نہیں ہونی چاہئے، اسلام اس کو منع کرتا ہے تو یہاں اگر حدیثیں بیان کریں  اور یہ بیان کریں کہ حدیث میں کیا خرابی ہے۔حدیث ضعیف ہے، موضوع ہے تو یہ باتیں عام آدمی کو سمجھ میں نہیں آتی ہے لہذا بالکل سیدھی سیدھی باتیں بیان کرتے ہیں تاکہ عام آدمیبھی سمجھ جائے ۔

اصحاب، ازواج اور خلفاء راشدین کا عمل

رسول (ص) کی جب وفات ہوئی تو رسول اللہ(ص) کو ایک بلڈنگ(عمارت)  کے اندر دفن کیا گیا اور دفن کرنے والے سب کے سب صحابہ تھے۔ حضرت  رسول(ص) کی بیوی کا کمرہ تھا تو اس میں رسول(ص) کو دفن کیا گیا۔ اور دفن کرنے کے بعد کسی کی زبان سے یہ نہیں نکلا کہ اس کی دیواریں گرادیں، اس کی چھت گرادیں  تواگرقبر کے اوپر بلڈنگ بنانا حرام ہےتو یہ حرام تو رسول (ص)  کی وفات کے دن کیا گیااور خود صحابہ نے کیا۔ اور اتنا ہی نہیں اس کے بعد پہلے خلیفہ اسی  بلڈنگ میں دفن ہوئے ، اسی چھت کے نیچے دفن ہوئے  اور دوسرے خلیفہ بھی اسی چھت کے نیچے دفن ہوئے۔  یہ سب دفن کرنے والے مسلمان تھے،صحابی تھے، ازواج رسول(ص) تھیں، خلفائے رسول(ص) تھے اور کسی کی زبان سے یہ نہیں نکلا کہ بھائی یہ دیوار کو توڑو، یہ چھت کو اوپر سے گراؤ ، یہ بلڈنگ کے اندر کیسے دفن کیا جاسکتا ہے۔

اس کے بعد چلئے  اب آیا خلافتوں کا زمانہ اگرچہ وہابی یہ کہتے ہیں کہ ساتویں صدی ہجری کے بعد مسلمان سب کے سب مشرک ہوگئے یعنی  ساتویں صدی تک مسلمان تھے سب لوگ ، باقی اس کے بعد سب مشرک ہوگئے لیکن وہ اب ساتویں تک نہیں جائیں گے ہم تو صرف  خلفائے راشدین کے دور تک چلتے ہیں کہ جن کے عمل کو حجت سمجھا جاتا ہے رسول(ص) کے عمل کے برابر۔ بلکہ بعض معاملات میں رسول(ص) سے بڑھ کر امپورٹنٹ سمجھا جاتا ہے ان کے یہاں۔ قرآن سے بڑھ کر امپورٹنٹ سمجھا جاتا ہے ۔ آپ کہیں گے کہ ہم خوامخواہ کی بات کر رہے ہیں ۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ بیٹی کو حصہ ملے گاباپ کی میراث میں اور خلفائے راشدین نےکہہ دیا کہ فاطمہؑ  کا کوئی حق نہیں ہے محمد(ص) کی میراث میں۔ اس بات کو  مان لیا گیا تو قرآن سے زیادہ اہمیت ان کے قول کی ہوئی۔ جب کھلّم کھلا منبر پر یہ اعلان کیا جائے کہ تین چیزیں رسول اللہ(ص) کے زمانے میں رائج و جائز تھیں اور میں ان کو حرام کرتا ہوں اور ان کو مان لیا جائے تو معلوم ہوا کہ رسول(ص) سے بڑھ کر اختیار خلفا٫ راشدین کو تھا ۔ تو اب خلفا٫ راشدین کا عمل دیکھا جائے ؛عراق فتح ہوا اور حضرت یونسؑ کی قبر آج بھی ہے، روضہ ہے اس کے اوپر کوفہ میں اور اس وقت بھی تھا۔ کیوں نہیں گرائی  گئی وہ قبر اور کیوں باقی رکھی گئی ۔ خلیفہ ثانی کے زمانے میں دمشق فتح ہوا  اور سینٹ جونس کتھیڈرل  کے اندر حضرت یحیی ؑ  کا سر جہاں دفن ہے اس کے اوپرروضہ بنا ہوا ہے۔ سینٹ جونس کتھیڈرل  کہاں ہے؟  جس کو آپ بنی امیہ کی جامع مسجد کہتے ہیں ، جامع اموی  کہا جاتا ہے۔ جس کو ولید ابن عبدالملک ابن مروان نے سنہ ۷۴  ہجری میں سینٹ جونس کتھیڈرل   کو توڑ کر مسجد بنایا اور اس میں آج بھی حضرت یحییؑ کا سر اسی طرح سے دفن ہے جس طرح پہلے تھا۔ جو بھی وہاں جاتا ہے دیکھتا ہے اور زیارت کرتا ہے۔ وہ حضرت عمر کے زمانےمیں فتح ہوا تھا، انہوں نے کیوں نہیں حضرت یحییؑ کے  مدفن کے اوپرجو بلڈنگ تھی اس کو  گروادی؟۔ اس سے آگے بڑھیئےحضرت ابراہیمؑ کی قبر،  حضرت اسحاقؑ کی قبر، حضرت یعقوبؑ کی قبر اور بے شمارقبریں  یروشلم میں۔ ان سب کے اوپر اس زمانے میں  بھی  بلڈنگ بنی تھی اور آج بھی بلڈنگ ہے انہوں نے ان کو کیوں نہیں گروایا اگر جائز نہ تھا ۔

قبروں پر تعمیرات کا قرآنی جواز

قرآن مجید سے بھی ایک بات آپ کے سامنے بیان  کردوں کہ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ اگر وہ کسی کا کوئی، کسی کے کسی کام کو بیان کرتا ہے اور وداؤٹ اینی کمینٹ[7] گزر جاتا ہے یعنی اس کو کنڈم نہیں  کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وہ کنفرم کررہا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی بات ہو اگر اس میں کچھ بھی خرابی ہے تو قرآن مجید اس کو بیان کرکے آگے نہیں بڑھ جاتا ہے ہمیشہ دو ایک لفظ وہاں پر کنڈمنیشن [8]کے لاتا ہے۔ آپ دیکھ لیں سورہ فاتحہ سے لے کرکے سورۂ ناس تک؛ جہاں بھی مشرکین کی کوئی بات آئی ہے یہودیوں کی کوئی بات آئی ہے ،کرشچنوں کی بات آئی ہے،  منافقین کی کوئی بات آئی ہے کہ جس پر قرآن مجید کو کوئی اعتراض ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اعتراض ہے۔ تو اسے صرف بیان کرکے نہیں چھوڑدیا گیاہے بلکہ اس کو ٹوکا ہے قرآن نے۔

 اصحاب کہف کے بارے میں جب وہ تین سو نو سال سو کرکے اٹھے اور پتہ لگ گیا قوم والوں کو کہ یہ کون لوگ ہیں اور پھر آئے اور آکرکے سوئے تو سوئے رہ گئے اور اس کے بعد وہ لوگ آئے تو یہ ہوا کہ اب ان لوگوں کو کیا کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’قالَ اَلَّذِينَ غَلَبُوا عَلى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِداً‘‘[9]  ؛ وہ لوگ کہ جن کی بات غالب ہے یعنی جن کی بات مان لی گئی ان لوگوں نے یہ کہا کہ ہم ان کے اوپرایک مسجد بنائیں گے۔ اب اصحاب کہف جہاں پر سو رہے ہیں، جہاں دفن ہیں ، اس جگہ کے اوپر مسجد  بنانے کا ذکر ہے اور قرآن مجید کہہ رہا ہے کہ بغیر اس بات کو کنڈیم کئے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو خدا کے خاص بندے ہوں ، برگزیدہ بندے ہوں ؛ اگر ان کی قبر کے او پر مسجد بنائی جائے، وہاں پر نماز پڑھی جائے تو یہ نماز خدا کی  ہوگی، اصحاب کہف کی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر امام حسین علیہ السلام کے سرہانے، قبر کے پاس ہم نماز پڑھتے ہیں تو یہ نماز خدا کی ہوگی ، حسینؑ ابن علیؑ  کی نہیں ہوگی۔ اوراصحاب کہف کے مقام پر نہ صرف بلڈنگ بنانا بلکہ بلڈنگ  میں عبادت کرنا کہ ’’  ہم یہاں پر مسجد بنائیں گے‘‘ اور انہوں نے مسجد بنائی بھی  تو اگر بلڈنگ بنانا  حرام ہوتا قرآن مجیدوہاں پر ضرور ضرور کوئی دوچار لفظ اس کو فکس اپروو [10]کرنے کےلئے بیان کردیتا۔

آل محمد(ص) کے آثار مٹانے کا سبب؟

وہابیوں کو   لانس ویگاس[11] میں جاکرکے گیمبملنگ[12] بدعت نہیں نظر آتی ہے، ہوٹلس میں   فاحشہ عورتوں کے ساتھ رات گذارنا وہ بدعت نہیں نظر آتی ہے۔ واہیات چیزوں پر پیسے کو، خدا کی دی ہوئی دولت کو صرف کرنا، کپڑوں میں سونے تک کا استعمال کرنا،  یہ سب ان کو بدعت نظر نہیں آتی ہے۔  دنیا کی کوئی چیز بدعت نہیں نظر آتی ہے لیکن جہاں بھی کچھ بھی ہسٹوریکل تعلق اسلام کی اور آل رسول(ص) کی تاریخ سے ہے وہ ہر چیز ان کو بدعت نظر آتی ہے ۔آخر اس کا سبب کیا ہے؟یہ غور کرنے کی بات ہے۔ عبدالعزیز ابن سعود کے زمانے میں سگریٹ پینے پر قتل کئے جاتے تھے لوگ۔ آج ان کی اولاد شراب پیتی ہے اور ان کا کچھ نہیں بگڑتا ہے۔ گانا سننے پر سزا دی جاتی تھی آج مکہ معظمہ میں گھر گھر میں گانا ہوتا ہے ریڈیو کے طفیل میں، اورٹی وی کے طفیل میں ۔ اور اگر مکہ سے مدینہ یا مدینہ سے مکہ یا جدہ سے مکہ یا مدینہ جائیےتو وہ جتنی دیر کا بھی سفر ہو آپ مفت کا گناہ حاصل کرتے  رہیں گےتو یہ کوئی چیز بدعت نہیں ہے۔  … قرآن کے نام پر شراب امپورٹ کی جائے، کتاب کے نام پر شراب امپورٹ کی جائے یہ سب کچھ جائز ہے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ خرابی صرف یہ ہے کہ سجدہ گاہ پر، مہر پر سجدہ نہ کرو۔ رسول(ص) کی ضریح کو بوسہ مت دو۔ قبر کے اوپر بلڈنگ مت بناؤ۔ بس یہی لے دے کر دنیا بھر میں شرک کا ایک کورس باقی رہ گیا ہے اور سب کو انہوں نے دور کر دیا ہے ، سب چیز مٹا دی ہے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ …

اس مقام پر علامہ رضوی(رہ) انگلینڈ، امریکہ، فرانس، بیلجیم  ، ہندوستان وغیرہ کی مختلف تاریخی مثالوں کو پیش کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ لوگ آج اپنی تاریخی عمارتوں، تاریخی آثار کو بچانے کے لئے تمام تر کوششیں کرتے ہیں ، حتی کہ متعدد مقامات پر فرضی جگہوں، فرضی کرداروں اور ان سے منسوب جگہوں کی حفاظت کے پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن مسلمانوں نے اسلامی آثار اورآل محمد(ص) سے منسوب مقامات کو مٹانا ہی اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ علامہ رضوی(رہ) اس کی علت کے بارے میں مزید بیان کرتے ہیں کہ:

اسلام کی ہسٹری کی یہ خصوصیت تھی کہ رسول اللہ(ص) کی پیدائش سے لے کرکے اور مرنے تک ہر جگہ موجود تھی اور لوگ جانتے تھے کہ یہاں رسول اللہ(ص) پیدا ہوئے تھے ۔ یہ حضرت خدیجہؑ کا مکان تھا،  اس میں  رہتے تھے ۔ یہاں حضرت فاطمہؑ پیدا ہوئی تھیں۔  یہ حضرت ابوبکر کا مکان تھا، یہ  دار  ارقم تھا کہ جہاں پر رسول(ص) پوشیدہ طریقے سے تبلیغ کیا کرتے تھے۔اور لوگ آکرکے ملتے تھے    جتنی جگہیں  رسول اللہ(ص) کے نام سے تھیں،  سب کو زمین میں ملا دیا گیا۔  ابوبکر صاحب کا جہاں پر مکان تھا  وہاں پر ہوٹل بنا دیا ،  دار ارقم کو  جس کی اسلامی ہسٹری میں بڑی حیثیت حاصل تھی  ، وہیں پر تبلیغ ہوتی تھی۔  اس کو صفا اور مروہ انسٹریکشن[13] میں لے کرکے بالکل مٹا دیا۔ رسول اللہ(ص) کی پیدا ئش جہاں ہوئی تھی اس  جگہ پہلے کبھی مسجد تھی  وہ مسجد توڑی گئی  لائبریری بنائی گئی، اب پتہ نہیں کیا  ہے۔  حضرت خدیجہؑ کا مکان  تھا  وہاں  ڈولیپمینٹ کے نام پر ایک شوپینگ سینٹر بنا دیا  اب پتہ ہی نہیں چلےگا کہ حضرت خدیجہؑ کہاں رہتی تھیں، رہتی بھی تھیں کہ نہیں؟۔ کوئی تھیں یا نہیں؟ تو جتنی ان حضرات کی زندگی سے اسلام کی ہسٹری سے تعلق  رکھنے والی چیزیں ہیں ان سب کو جان بوجھ کر  ڈولیپمینٹ  کے نام پر مٹایا جارہا ہے اوراسی طرح میدان احد، اور جنگ خندق میں جو مدینہ کے اطراف میں خندق کھودی گئی تھی ان سب کے کچھ آثار موجود تھے ان کو بھی مٹادیا گیا اور وہاں روڈ بنا دیا گیا  …   ڈولیپمینٹ کے لئے تو میرا خیال یہ ہے کہ یہاں مذہب کم ہے اسلامی ہسٹری کے تمام  وہ ایسے ثبوت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جنگ ہوئی تھی، اس طرف ہوئی تھی، یہاں رسول اللہ(ص) کو لٹایا گیا ، یہاں پر خندق کھودی گئی تھی، یہاں پر آکرکے ہجرت کے وقت رسول اللہ(ص) چھپے تھے ۔ یہ تمام چیزیں اس طرح مٹا دی جائیں کہ  رسول اللہ(ص) کی ذات بس میتھیکل  رہ جائے  جیسے کہ حضرت موسیٰؑ کی ہے، حضرت عیسیٰؑ کی ہے کہ جس کے لئے کوئی سولڈ[14] پروف نہیں ہے کہ یہ واقعی تھے بھی کہ نہیں۔

 سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ  یہ قوم ثمود جس کے اوپر عذاب آیا حضرت صالح کی اونٹنی کو انہوں  نے ہلاک کردیا تھا  اور اس کے بعد وہ عذاب آیا  تو  ایکسگویشن[15] میں قوم ثمود کے نشانات ملے ہیں  ۔ اوڈینس، وہاں پر  مین انٹرنس کے اوپر بڑے بورڈ پر جو وارننگ لکھی ہوئی تھی  وہ فوٹو ہم نے دیکھا کہ یہاں کی کسی چیز کو نقصان پہونچانا  یہ  بڑی سزا ہے  یعنی قوم ثمود کی نشانیاں اسی طرح باقی رہنا چاہئے جیسے کہ وہ نکلے ہیں ایکسگویشن  کے بعدلیکن محمد(ص) اور آل محمد(ص)  اور اصحاب محمد(ص) یا ازواج محمد(ص) کی نشانیوں کو باقی رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہے اصل مینٹالٹی[16]  جس قوم کے اوپر عذاب آیا اس کی نشانیوں  کو ٹچ کرنا حرام ہے۔ اس کے لئے شاید وہ روحانی تعلق ہو لیکن ظاہر  ہے کہ محمد(ص) و آل محمد(علیہم السلام)سےان کا تعلق ہے نہیں  لہذا اس کو جہاں تک ہو مٹاتے جاؤ، تو اس طرح سے یہ سب کچھ کیا گیا  ۔

بقیع کی مظلومیت

لیکن … ہمیں یقین ہے کہ جیسے کہ اور لوگ آئے اور مٹ گئے،   اب ان کی  قبروں  کا بھی پتہ نہیں  ہے اور  ایسے مٹے کہ کوئی نشان بھی نہیں ہے۔ اسی طرح یہ  آئمہ طاہرینؑ، بقیع ونجف و کربلا پر مظالم کرنے والے آل سعود اور وہابی بھی مٹ جائیں گے ۔اللہ انصاف کرے گا  اور ہم  سب اسی امید پر زندہ ہیں کہ جنت البقیع میں روضے تعمیر ہوں۔

 ایک شخص دعا کر رہا تھا فارسی زبان  اور وہ دعا مجھے بہت پسند آئی ۔ واقعی دل میں لگنے والی دعا تھی وہ میں آپ لوگوں کو سنا دوں۔ اس نے مجلس پڑھی فارسی میں  اور آخری میں جو دعائیں شروع کی، اس کی آخری دعا یہ تھی کہ خداوندا! تو ہمیں موت نہ دینا جب تک ہم ان قبروں کو دوبارہ پھر سے اچھی حالت میں نہ دیکھ لیں۔ یہ جملہ  اور دعا خود ایک مستقل مصائب ہے۔ یہی دعا واقعی ہمیں کرنا چاہئے کہ خداوندعالم ہمیں ہماری زندگی میں، ہماری نظر کے سامنے یہ موقع فراہم کر دے کہ ہم جناب سیدہؑ  کی قبر کو ، امام حسن ؑ کی قبر کو، امام زین العابدینؑ کی قبر کو،  امام محمد باقرؑ کی قبر کو، امام جعفرصادقؑ کو، حضرت خدیجہؑ کی قبر کو، حضرت ابوطالبؑ کی قبر کو، حضرت عبداللہؑ  کو ، حضرت عبدالمطلبؑ کی قبر کو  پھر سے اچھی حالت میں دیکھیں، ان کی شان و شوکت دوبارہ واپس آجائے۔ اس کے بعد پھر موت ہمارے لئے  میٹھی موت ہوگی۔ لیکن جس عالم میں نظر آتی ہیں یہ قبریں ، کسی فقیر کی قبر بھی ایسی نہیں ہوگی جیسے کہ دنیا اور آخرت کے شہنشاہ ہوں کی قبریں ہیں،  دل پر چوٹ لگتی ہے۔

[1] سورہ بقرہ، آیت158۔

[2] سورہ حج، آیت36۔

[3] Colonel Lawrence

[4] Administration

[5] Breach of Trust

[6] Violence

[7] Without any comment

[8] Condemnation

[9] سورہ، کہف، آیت21۔

[10] Fix Approve

[11]  Lance Vegas

[12] Gambling

[13]  Instruction

[14] Solid

[15] Excavation

[16] mentality

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×