
فاطمہ(س) اور مودّتِ قُربیٰ
فاطمہ(س) اور مودّتِ قُربیٰ
قرآن مجید میں مسلمانوں کی جانب سے اجررسالت ادا کرنے کے اظہار کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
«…قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فيها حُسْناً إِنَّ اللهَ غَفُورٌ شَكُورٌ» (شوریٰ، آیت ۲۳) ۔
احادیث اور تفاسیر کے مطابق یہ آیت پیغمبراکرمؐ کے نزدیکی رشتہ داروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس میں صرف اہل بیت اطہارؑ شامل ہیں۔ جیسا کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ:
«لَمَّا نَزَلَتْ قُلْ لا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً الْآیَةَ قَالُوا یَا رسول اللهؐمَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِینَ أُمِرْنَا بِمَوَدَّتِهِمْ قَالَ علِیٌّ وَ فَاطِمَةَ وَ وُلْدُهُمَا»؛
” جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ؐ سے پوچھا گیا کہ کون لوگ ہیں جن کی مودت کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے؟ تو آنحضرتؐ نے فرمایا: علیؑ و فاطمہؑ اور ان کے بیٹے اس سے مراد ہیں
(تفسیر اهل بیت ؑ، ج ۱۳، ص ۶۰۲ بحارالانوار، ج ۲۳، ص ۲۲۹)۔
اسی طرح ائمہ ؑ نے متعدد موقعوں پر اس آیت کے ذریعہ اپنی خاص فضیلت و منقبت کا اظہار فرمایا ہےجیسا کہ حضرت امام حسنؑ فرماتے ہیں:
«أَنَا مِنْ أَهْلِ بَیْتٍ افْتَرَضَ اللَّهُ مَوَدَّتَهُمْ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ»؛
میں وہ اہل بیتؑ کی فرد ہوں جن کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہے
(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۳، ص ۶۰۰؛ بحارالانوار، ج ۲۳، ص ۲۵۱) ۔
اسی طرح حضرت امام حسینؑ نے فرمایا کہ:
«إِنَّ الْقَرَابَةَ الَّتِی أَمَرَ اللَّهُ بِصِلَتِهَا وَ عَظَّمَ حَقَّهَا وَ جَعَلَ الْخَیْرَ فِیهَا قَرَابَتُنَا أَهْلَ الْبَیْتِؑالَّذِینَ أَوْجَبَ حَقَّنَا عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ»؛ “
وہ رشتہ دار جن کے بارے میں خداوندعالم نے حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے، ان کے حقوق کو بڑا سمجھا جائے اور ان کے حق میں خیر و نیکی کی جائے، وہ رشتہ داری ہم اہل بیتؑ کی ہے، جن کے حق کو خداوندعالم نے ہر مسلمان پر واجب قرار دیا ہے “
(تفسیر اهل بیتؑ، ج ۱۳، ص ۶۰۴؛ بحارالانوار، ج ۲۳، ص ۲۵۱) ۔




