
قرآن کی نظر میں خاندان کی اہمیت
ڈاکٹر سیدباقر ایلیا رضوی، معلم جامعۃ المصطفیؐ العالمیہ قم ایران۔
فہرست مندرجات
۲ ۔ خاندان میں مودت اور معاشرت:
۶ ۔ خاندان میں اختلاف اور نزاع:
خاندان میں اختلاف کے بعض عوامل اور اسباب:
مقدمہ
قرآن انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے ایک مکمل اور بہترین ضابطہ حیات ہے؛ اس تحریر میں “قرآن کی نگاہ میں خاندان کی اہمیت ” کے موضوع پر چند مطالب ملاحظہ ہوں:
۱ ۔ خاندان کا آرام و سکون:
آرام اور سکون ایک ایسی نعمت ہے کہ جو خداوند متعال مختلف راستوں سے انسان کو عطا کرتا ہے، خاندان کی تشکیل اور شادی کرنا ان سے میں ایک راستہ ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے کہ: وہی خدا ہے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے سکون حاصل ہو (اعراف، آیت 189) ۔
یہ آیت اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ خدا نے انسان پر احسان کیا ہے کہ تمام انسانوں کی نسل ایک ہی انسان (حضرت آدمؑ) سے چلی ہے اور سب کا شجرہ نسب ان تک پہنچتا ہے، اور خداوند متعال نے ہر انسان کے لئے انسانوں میں سے ہی اس کا جوڑا مقرر کیا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کے مونس اور ہمدم و یاور رہیں، اور ان دو (شوہر اور زوجہ) سے ایک خاندان کی تشکیل ہو اور انسان کی نسل آگے بڑھے اور نسل انسانی کو بقا اور دوام حاصل رہے۔
ایک دوسری آیت میں خدا فرماتا ہے کہ: اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہیں میں سے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو۔ (روم، آیت 21) ۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ بیویاں ان خصوصیات کے ساتھ جو کہ بیان کی گئی ہیں؛ انسان کے لیے سکون اور اطمینان کا سبب بنتی ہیں، اور جس بیوی سے انسان کو حقیقی سکون میسر ہو وہ واقعی اللہ تعالی کی عظیم اور بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
۲ ۔ خاندان میں مودت اور معاشرت:
قرآن کریم میں گھر اور خاندان کے ماحول میں بچوں سے مودت، اچھی معاشرت اور اولاد کے ساتھ قرب اور عاطفی رابطے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، قرآن میں جہاں والدین کے گھر میں داخل ہونے کے بارے میں انکے مقام اور مرتبے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خصوصی آداب کی بات کی گئی ہے وہاں یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ: ایمان والو تمہارے غلام، کنیز اور وہ بچے جو ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچے ہیں ان سب کو چاہئے کہ تمہارے پاس داخل ہونے کے لئے تین اوقات میں اجازت لیں نماز صبح سے پہلے، اور دوپہر کے وقت جب تم چھوٹے لباس پہن کر آرام کرتے ہو اور نماز عشاء کے بعد یہ تین اوقات خلوت کے ہیں (خصوصی ہیں)۔ اس کے بعد تمہارے لئے یا ان کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے پاس چکر لگاتے رہیں۔ (نور، آیت 58)۔
خداوند متعال نے اس آیت میں ایک ایسے حکم کو بیان کیا ہے جو کہ معاشرے کی عمومی عفت اور پاکدامنی سے مربوط ہے، یہ مسئلہ بالغ اور نابالغ افراد کا والدین کے خصوصی کمروں (بیڈرومز) میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ انسان اگر اجازت کے بغیر والدین کے کمرے میں جائے تو وہ ایسی حالت میں ہوں کہ جو بچوں کے دیکھنے کےلیے مناسب نہ ہو، اور آیت کے آخر میں جو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ “ان تین اوقات کے علاوہ تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ بغیر اجازت کے داخل ہو اور ایک دوسرے کی خدمت کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کے ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کےپاس کھلے دل سے آتے جاتے رہیں اور ایک دوسرے کی خدمت کریں “۔ یہ آیت معاشرت اور اجتماعی تعاون اور خاندان کے افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو بیان کر رہی ہے۔
۳ ۔ خاندان کے حقوق:
خداوند متعال نے قرآن کریم میں انسان کےانفرادی اور اجتماعی حقوق کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے، اسی طرح خداوند متعال نے خاندان کے حقوق کو بھی بہت ساری آیت میں بیان اور انکا ذکر کیا ہے، جیسے سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت نمبر 229 میں شوہر اور زوجہ کے طلاق رجعی کی صورت میں حقوق کو بیان کیا ہے: طلاق (رجعی) دو مرتبہ دی جائے گی، اس کے بعد یا نیکی کے ساتھ روک لیا جائے گا یا حسن سلوک کے ساتھ آزاد کر دیا جائے گا اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ انہیں دے دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ اندیشہ ہو کہ دونوں حدود الہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے، تو جب تمہیں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ وہ دونوں حدود الہی کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں کے لئے آزادی ہے، اس فدیہ کے بارے میں جو عورت مرد کو دے، لیکن یہ حدود الہیہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا اور جو حدود الہی سے تجاوز کرے گا وہ ظالمین میں شمار ہوگا۔ (بقره، آیت 229) ۔
عدت اور رجوع کا قانون خاندان کی اصلاح اور بھلائی کے کے ساتھ ساتھ میاں بیوی میں افتراق اور جدائی سے بچنے کے لیے تھا، لیکن ابتدائے اسلام کے وقت کچھ نومسلم افراد نے جاہلیت کے زمانے کےمطابق اس قانون سے سوء استفادہ کرنا شروع کردیا تھا، لہذا مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی تاکہ اس برےاورقبیح عمل سے روکا جائے، لہذا اس آیت میں رجوع کے احکام کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا، خداوند متعال نے اس آیت کے آخر میں تمام احکام کی طرف جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں انکی جانب اشارہ کیا ہے اور فرماتا ہے کہ: حدود الہی کی رعایت نہ کرنا یہ خاندان کے حقوق سے مربوط ہے اور اسی طرح مباشرت کی حدود کا خیال نہ رکھنا بھی ایک ظلم ہے اور حدود الہی کو پامال کرنے والے کا شمار ظالموں میں کیا جائے گا۔
۴ ۔ خاندان میں مشاورت:
اسلام نے مشاورت اورمشورے کے موضوع کو ایک خاص اہمیت سے دیکھا ہے؛ پیامبراکرمؐباجود اسکے کہ وحی آسمانی سےمتصل تھے اور ان کو کسی انسان سے مشورے کی ضرورت نہیں تھی لیکن صرف اس وجہ سے کہ مسلمان مشورے کی اہمیت اور افادیت سے آشنا ہو جائیں؛ پیامبرؐ عمومی کاموں میں جوقوانین الہی کے اجراء سےمتعلق تھے ان میں باقاعدہ مسلمانوں سے مشورہ کرتے تھے اور جو لوگ صاحب نظر ہوتے یا اچھے مشورے دیتے تھے پیامبرؐ ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے اور ان پر عمل کیا کرتے تھے۔
مشورے کا ایک اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے اہم امور اور کاموں کو ایک دوسرے کی مشاورت سے انجام دیتے ہیں وہ لغزش اور خطا سے بچ جاتے ہیں، قرآن نے بھی مشورہ اور مشاورت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کام کو پسندیدہ قرار دیا ہے، اور پیامبر اکرمؐ سے خطاب میں ارشاد فرمایا کہ:”وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ ” اور اپنے کاموں میں ان سے [اصحاب اور مسلمانوں] مشورہ کرو (آل عمران، آیت 159) ۔ اسی طرح بچے کے دودھ چھڑانے کے معاملے میں بھی ماں باپ کو آپس میں مشورے کا حکم دیا گیا ہے: اور مائیں اپنی اولاد کو دو برس کامل دودھ پلائیں گی… پھر اگر دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (بقره، آیت 233) اس جگہ بچے کا دودھ چھڑانے کے مسئلہ کا ذکر ہوا ہے لیکن اس کا اختیار ماں اور باپ دونوں کو دیا گیا ہے۔ یعنی حقیقت میں ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچے کی صحت اور زندگی کی مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فکر کریں اور دونوں ملکر کسی نتیجے پر پہنچیں، جسے قرآن کی اصطلاح میں تراضی اور تشاور (رضا اور مشورت) سے تعبیر کیا گیا ہے، لہذا ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ ماں کا دودھ بچے سے چھڑانے کے لیے ایک شیڈول بنائیں اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے نزاع اور جھگڑے اور ایسے کاموں سے جن سے بچے کی زندگی یا اس کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوں اجتناب کریں۔
۵ ۔ خاندان سے لگاؤ اور تعلق:
انسان کو اپنے خاندان کے افرداد سےخصوصی لگاؤ ہوتا ہے، لیکن یہ لگاؤ اتنا شدید نہیں ہونا چاہیے کہ جو خداوند متعال کی ناراضگی اور مذمت کا سبب بنے، کیونکہ خدا وند متعال نے خاندان سے اتنا لگاؤ جس سے خدا، پیامبرؐاور جہاد کی محبت، پس پشت چلی جائے اس کی مذمت کی گئی ہے؛ چنانچہ ارشاد خداوند ہو رہا ہے: پیغمبرؐ آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ دادا، اولاد، برادران، ازدواج، عشیرہ و قبیلہ اور وہ اموال جنہیں تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارے کی طرف سے فکر مند رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں پسند کرتے ہو تمہاری نگاہ میں اللہ، اسکے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الہی آجائے اور اللہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے (توبه، آیت 24) ۔
یہ آیت حقیقی ایمان کی نشانیاں بیان کر رہی ہے اور ساتھ ہی اصل ایمان کا شرک اور نفاق سے آلودہ ایمان سے تفاوت اور فرق بھی بیان کیا گیا ہے، اس آیت میں حقیقی مؤمنین اور ضعیف الایمان افراد کی حدود کو بھی مشخص کر دیا گیا ہے، لہذا اس آیت میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ بیان کرد یا گیا ہے کہ اگر مادی سرمایہ کی وہ آٹھ چیزیں جنکو اوپر بیان کیا گیا ہے انسان کی نظر میں خدا، رسول، جہاد اور اس کی اطاعت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہوں اور انسان ان چیزوں سے اتنی محبت رکھتا ہو کہ انکو خدا کی راہ میں فدا اور قربان کرنے سے پس وپیش کر رہا ہو تومعلوم ہوجائے گا کہ اس شخص میں حقیقی ایمان ابھی پیدا نہیں ہوا ہے۔
۶ ۔ خاندان میں اختلاف اور نزاع:
انسانی معاشروں میں کم و بیش تمام جگہوں پر اختلاف نظر آتا ہے، گھر اور خاندان بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں، اور بعض وجوہات کی وجہ سے خاندان کے افراد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن قرآن ان مسائل سے غافل نہیں ہے چنانچہ قرآن میں گھریلو اختلاف کی صورت میں رشتے داروں کے کچھ وظائف بیان کئے گئے ہیں تاکہ وہ ان وظائف کی روشنی میں ان اختلافات کو ختم کروائیں خداوند متعال سورہ مبارکہ نساء کی آیت نمبر ۳۴ اور ۳۵ میں اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے: اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو… اور اگر دونوں کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہے تو ایک حکم (قاضی اور جج) مرد کی طرف سے اور ایک عورت والوں میں سے بھیجو، پھر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو خدا ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر دے گا بیشک اللہ علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔
اس آیت میں مرد اور عورت (زوجہ اور شوہر) کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور جدائی کی علامات ظاہر ہوں تو ان مسائل کے ازالے اور اختلاف کے حل کے لیے اور زوجین میں صلح کی زمین ہموار کرنے کے لیے ایک جج مرد کے رشتے داروں میں سے اور ایک قاضی اور جج عورت کے رشتے داروں میں سے مقرر کیا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان ہونے والے اختلاف اور جھگڑے کو مل بیٹھ کر آپس کی رضامندی سے ختم کریں۔
خاندان میں اختلاف کے بعض عوامل اور اسباب:
قرآن نے خاندان میں اختلاف پیدا کرنے والے چند عوامل کا ذکر کیا ہے، سورہ مبارکہ نساء کی آیت نمبر ۱۲۸ میں تین عوامل کا ذکر کیا گیا ہے، جیسے شوہر کا بیوی سے دوری اختیار کرنا، میاں بیوی کا بخل اور شوہر کی نافرمانی۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اور اگر کوئی عورت شوہر سے حقوق ادا نہ کرنے یا اس کی کنارہ کشی سے طلاق کا خطرہ محسوس کرے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی طرح آپس میں صلح کرلیں کہ صلح میں بہتری ہے اور بخل تو ہر نفس کے ساتھ حاضر رہتا ہے اور اگر تم اچھا برتاؤ کرو گے اور زیادتی سے بچوگے تو خدا تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے۔
عورت اور مرد کے نشوز سے مراد طغیان اور سرکشی ہے، قرآن اس آیت میں مرد کی عورت سے روگردانی کی طرف اشارہ کر رہا ہے، مرد کا نشوز یعنی زوجہ سے اعراض کرنا اور بخل اور کنجوسی کرنا بہت سے اختلافات کا موجب بنتا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہے جب بھی مرد اور عورت اس حقیقت کی جانب توجہ کریں گے کہ بہت سارے مسائل کا سرچشمہ بخل ہے تو اگر وہ اپنی اصلاح کے لیے کوشش کریں اور درگزر کا مظاہرہ کریں تو نہ فقط یہ کہ بہت سارے خاندانی اختلافات ختم ہوجائیں گے بلکہ بہت ساری دوسری اجتماعی مشکلات اور جھگڑے بھی اختتام پذیر ہونگے۔
نشوز یعنی اعراض اور نافرمانی صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ قرآن کی نگاہ میں عورت کی نافرمانی اور سرکشی بھی خاندان اور گھر میں اختلاف کا سبب بنتی ہے لہذا قرآن میں ارشاد خداوندی ہے کہ: اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو انہیں خواب گاہ میں الگ کردو اور تنبیہ کرو (نساء، آیت 34) ۔
قرآن نے سحر اور جادو سے استفادے کوبھی گھر کے اندر اختلاف اور جدائی کے عوامل میں شمار کیا ہے چنانچہ سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۲ میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: اور کافر یہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے… لیکن وہ لوگ ان سے وہ باتیں سیکھتے تھے جس سے میاں بیوی کے درمیان جھگڑا کرادیں…
قرآن نے گھر اور خاندان کے ماحول کے متعلق مسئلہ “خاندان میں دشمنی ” سورہ تغابن کی آیت نمبر ۱۴ میں، اور “اپنے اور خاندان کے نقصان اور خسارے” کے بارے میں سورہ زمر کی آیت نمبر ۱۵ میں اورسورہ شوری کی آیت نمبر ۱۵ میں بھی ان مسائل کا ذکر کیا ہے۔