اسلامی معارف

عزاداری کا عبادی اور جہادی پہلو آیۃ اللہ جوادی آملی کی نظر میں

ترجمہ و ترتیب: ڈاکٹر باقر ایلیا رضوی۔ معلم جامعۃ المصطفی(ص) العالمیہ۔ قم

عزاداری کے ایام میں جب ہم ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں، عزاداری کی قبولیت اور امام حسین  ؑ کے قاتلوں سے بدلہ لینے کے لئے دعا کرنا ہوتا ہے اور یہ ہماری عزاداری کا ایک اہم نعرہ ہے :

”اعظم الله اجورنا و اجوركم بمصابنا بالحسين(عليه السلام) و جعلنا و ايّاكم من الطالبين لثاره”۔ یعنی خدا ہمیں عزاداری امام حسین ؑ کے بدلے بہترین اجر عنایت فرمائے اور ہم کو آپ کے قاتلوں سے بدلہ لینے والوں میں شمار کرے۔

آیۃ اللہ جوادی آملی اپنے درس اخلاق میں مذکورہ  نعرے کی اہمیت اور اس کے دو اہم پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“ہم مسلمانوں کا یہ بنیادی نعرہ دو حصوں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ ہم جو عزاداری برپا کرتے ہیں اورضروری ہے کہ اسے برپا کریں،اسے خدا اپنی بارگاہ میں قبول کرے یہ اسکا عبادی پہلو ہے اور دوسرا اسکا جہادی پہلو ہےیعنی خدا ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم حسین ؑبن علیؑ کے خون کا انتقام لیں “ثار” یعنی خون کا بدلہ نہ کہ خون- خدا ہمیں یہ توفیق  دے کہ ہم اہل قیام و استقامت بنیں اور امام حسین کے خون کا بدلہ لیں یہ ہمارا بنیادی نعرہ ہے،پہلے جملے کا معنی واضح ہے،عزاداری امام حسین کو قائم کرنا عبادت ہے، ضروری ہے حلال مال سے ہو،  قصد قربت سے ہو۔ خدا سے دعا کریں کہ ہم اس عزاداری کو قائم کریں اور خدا بھی اسے قبول کرے یہ پہلے جملے کا معنی ہے”۔

 اور دوسرے جملے کا معنی کیا ہے؟خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم امام حسین کےخون کا بدلہ لیں۔ واقعہ کربلا میں بعض قاتلین تھے اور بعض وہ جنہوں نے بعنوان توابین بعد میں قیام کیا قیام مختار اور دیگرافراد کا قیام ۔ بعض قاتلین کربلا کو دردناک عذاب میں مبتلا کر کے قتل کیا اور بعض دوسرے عذاب الہی کی بنا پر واصل جہنم ہوئے،ابھی ان میں سے کوئی بھی رؤئے زمین پر باقی نہیں رہا پس یہ جو ہم خدا سے دعامانگتے ہیں کہ ہمیں امام حسینؑ کے خون کا طالب قرار دے یعنی کیا؟یہ ایک سوال ۔

اور دوسرا سوال یہ کہ اسکا ہم سے کیا ربط ہے؟(آیہ و حکم قرآنی ہے کہ)”من قُتِل مظلوماً قفد جعلنا لوليّه سلطانا”؛ جو بھی مظلوم مارا جائے اسکے ورثاء خون کابدلہ لیں گے، (پس انتقام خون حسین  ؑ کا مسئلہ) ہم سے کیسے مربوط ہوگا؟ہم خون کا بدلہ لینے کے طالب ہیں؟۔

 یہ دو سوال ہمارے رسمی نعروں میں پائے جاتے ہیں۔

پہلے سوال کاجواب یہ ہے کہ امام حسینؑ کے واقعہ کی بازگشت انکی حقیقی شخصیت کے بجائے قانونی شخصیت کی طرف ہوتی ہے۔ امام حسین حقیقی شخصیت کے لحاظ سے دوسرے بیٹوں کی مانند امام علی کے فرزند ہیں ایک عادی انسان ہیں جن پر “كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ” (ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے) کا حکم لاگو ہوتا ہے۔ لیکن ایک بعنوان امامت انکی قانونی شخصیت ہے آپ نےحسین بن علی ہونے کے لحاظ سے جنگ نہیں کی بلکہ فرزند رسول اور امامت کے دعویدارہونے کے عنوان سے جنگ لڑی۔بنا بریں دشمن شخص امام کے بجائے امامت سے برسر پیکارتھے اور امام نے مدینے میں یہی فرمایا تھا کہ جب  یزید حاکم بن گیا ہے تو اسلام کا فاتحہ پڑھ دینا چاہیے:

«بعد الاسلام السلام اذ بليت الامّة براعٍ مثل يزيد»؛

(امام ؑکے اس بیان میں) یزید ایک مثال ہے یعنی اس میں یزید کی کوئی خصوصیت نہیں جو بھی یزیدی فکر رکھتا ہو امام حسین ؑکے بجائے جو بھی مقام امامت کا مالک ہواس کیلئے خصوصیت رکھتا ہے۔ خود امام نے فرمایا کہ جب حکمران یزیدی سوچ کے مالک بن جائیں جیسا کہ آپ تیونس،مصر،لیبیا،یمن،بحرین اور سعودی عرب کے بعض علاقوں میں آج سب دیکھ رہے ہیں۔ پس امام نے فرمایا کہ اگر یزید کی طرح کا کوئی حاکم بن جائے تو اسلام باقی نہیں بچے گا۔

پس  ان دو نکات کی بنا پر ایک یہ کہ امام حسینؑ کی قانونی شخصیت انکی امامت کی طرف پلٹتی ہےدوسرا یہ کہ امام نے ہم مسلمانوں کا فریضہ تاروز قیامت معین کردیا ہے کہ اگر کوئی حاکم یزید کی طرح ہو جائے توخاموش نہیں بیٹھنا چاہیے اس بنا پر امامت اور شہید کے خون کا بدلہ لیا جا سکتا ہے۔ 

لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ہی کیوں امام کے خون کا بدلہ لیں ؟ (جواب یہ ہے کہ)اس لیے کہ ہم امام حسینؑ کی (معنوی)اولاد ہیں، ہمارے باپ کو شہید کیا گیا ہے۔ چنانکہ رسول ؐ نے فرمایا کہ:

”أنا و علي ابوا هذه الامّه”

میں اور علیؑ اس امت کے دو باپ ہیں۔ پس نبی ؐنے  سب کو بتلا دیا کہ اے لوگو!تمہارے ایک نسبی والدین ہیں جنکا نام تمہارے شناختی کارڈ میں درج ہے اور ایک معنوی والدین ہیں  آؤ ہم تمہیں اپنی فرزندی میں قبول کرتے ہیں ہم نے بھی تسلیم کرلیا،ہم شیعہ ہو گئے اور ان بزرگواروں کو بعنوان امام تسلیم کیا اب اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ تمہاری ماں کون ہے؟ جواب ہوگا : فاطمہ زہراء ؑ اور باپ کون ہے؟ علی بن ابی طالبؑ۔ اگر ہمارے باپ کو شہید کیاجائے تو تا روزقیامت اسکے خون کا بدلہ لینے کے طالب ہیں۔

آیت الله جوادی آملی مزید عزاداری کے حوالے سے فرماتے ہیں: آپ دیکھتے ہیں کہ سبھی ان ایام میں بالخصوص روز عاشورا اسطرح سر وسینے پر ماتم کرتے ہیں اسلیے ہے کہ انکے باپ کو شہید کیا ہے۔ رسول [ص]نے فرمایا کہ ہمارے بیٹے بن جاؤ تو ہم نے بھی قبول کرلیا۔لہذا جب ہمارے باپ کو شہید کیا تو تاروزقیامت ہم انکے خون کا بدلہ لینے کے طالب ہیں۔  پس یہ نعرہ ہمارا فریضہ بھی ہےایام عزاداری میں ایک دوسرے سے کہیں:

«اعظم الله اجورنا و اجوركم بمصابنا بالحسين(ع) و جعلنا و ايّاكم من الطالبين لثاره».

یہ اس وجہ سے ہے اورشکرگزار ہیں کہ ہم صالح فرزند ہیں۔ 

آیۃ اللہ جوادی آملی مزید جہادی پہلو کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جہاد کی تین قسمیں ہیں۔جہاد اصغر، جہاد اوسط اور جہاد اکبر-  امام حسینؑ نے تینوں اقسام کوانجام دیا،بعض لوگ دو قسموں کے جہاد کو انجام دیتے ہیں، اور بعض لوگ ایک ہی جہاد کو انجام دے پاتے ہیں؛ جہاد اصغر یہ کہ انسان دشمن سے لڑے،اس میں استعمال ہونیوالی چیز لوہا ہے،جہاد اوسط میں انسان اپنے نفس اور خواہشات سے لڑتا ہے یہاں لوہے کا کام نہیں بلکہ گریہ و زاری کام آتی ہے  چنانچہ دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں:

«و سلاحه البكاء»؛ یعنی خدایا نفس،ہوا ہوس اور شیطان کے مقابلے کیلئے ہمارا اسلحہ صرف گریہ ہے، ایک مغرور انسان فریب کھاجاتا ہے لیکن ایک متواضع اور فروتن انسان دھوکہ اور فریب کا شکار نہیں ہوتا۔جہاد اوسط میں ہمارا اسلحہ خدا کی بارگاہ میں گریہ وزاری ہے۔

سید الشہداء تینوں قسم کے جہاد کے مالک تھے،جہاد اصغر بھی کہ دشمنوں سے برسر پیکار ہوئے،جہاد اوسط بھی کہ اپنے نفسانی اوصاف سے بھی جنگ کی عادل امام تھے اور جہاد اکبر بھی  آپ نے انجام دیا جس کو عام طور پر بیان نہیں کیا جاتااوراسی جہاد اوسط کو ہی اکبر کا نام دیا جاتا ہے جبکہ نفس کے ساتھ جنگ، تہذیب نفس ،تزکیہ نفس،انسان کا عادل ہونا،متقی اور جنتی ہونا یہ سب جہاد اوسط ہے نہ کہ جہاد اکبر۔

جہاد اکبر اس کیلئے ہے جوجہاد اوسط کے محاذ پر کامیاب رہا ہو یعنی ایسا انسان جو عادل، متقی، وارستہ ، اہل تہجد،پاک ومنزہ اور اہل بہشت ہو لیکن چاہتا ہو کہ جہاد اکبر میں شریک ہو اور جہاد اکبر یہ ہے کہ انسان جدوجہد کرے یہیں سے جنت اور جہنم کا مشاہدہ کرے،اگر کوئی سعی کرے کہ جنتی بن جائے تو یہ جہاد اوسط میں ہے اور مسئلہ اخلاق ،تہذیب نفس سے مربوط ہے لیکن اگر جنت وجہنم کو دیکھنے کی سعی کرے تو یہ جہاد اکبر ہے یہ یا تو اصلا بیان نہیں ہوتا یاکسی کتاب کے ایک گوشے میں کسی ایک صاحب نظر کیلئے بیان ہوتا ہے اور اسے کسی بھی طرح سے شمار نہیں کیا جاتا لہذا جہاد اوسط کو ہی جہاد اکبر کہا جاتا ہے۔ جہاد اکبر یہ کہ انسان جنت کا مشاہدہ کرے اور امام حسین جنت کا مشاہدہ فرمارہے تھے اور شب عاشور میں بعض کو دکھایا بھی تھا۔ ان کا شب عاشور میں امتحان لینے کے بعد فرمایا کہ اے لوگو! یہاں موت کے علاوہ کچھ نہیں ہےمیں تمہیں بتا رہا ہوں کہ نہ تو ہم صلح کریں گے اور نہ ہی وہ راضی ہونگے جوبھی یہاں رہے گا مارا جائے گا مبادا یہ مت کہنا کہ ہمیں معلوم نہ تھا اور میں تمہارے زمانے کا امام ہوں اور تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت اٹھا رہا ہوں،ابھی رات ہے اگر جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ،کربلا کا راستہ (دشمنوں کی طرف سے) بند ہے مگر یکطرفہ نہ کہ دوطرفہ یعنی جو بھی میری مدد کو آنا چاہے اسکا راستہ روکیں گے لیکن اگر کوئی ہمیں چھوڑ کر جانا چاہے تو اسکے لیے راستہ کھلا ہے،آنا منع ہے نہ کہ جانا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان تمام مراحل میں راستہ بند ہے مگریکطرفہ طور پر،نہر فرات جسے بہت سارے تیر اندازوں نے بند کر رکھا ہے صرف امام حسینؑ اور انکے ساتھیوں کیلئے ہی نہیں تھا کہ پانی نہ لیں بلکہ پانی کا راستہ بھی بند کیا ہوا تھا کیونکہ فرات کے اس کنارے پر پہت سارے دیہات تھے ،یہ فرات ایک نہر ہے جو دریائے دجلہ سے جدا ہوکرکربلا کے شمال مشرق میں آتی ہے اس نہرکے اس پار بہت سارے دیہات تھے ممکن تھا کہ وہ پانی امام اور انکے ساتھیوں تک پہنچا دیں،یہ ایک گذرگاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا یہاں سے رفت وآمد آسان تھی وہاں پر تیر انداز بٹھائے گئے کہ تم اس اہم نہر کے محافظ ہو اس میں بعض ایسی جگہیں ہیں جن سے آنا جانا آسان نہیں ہے جبکہ بعض دوسری جگہوں پر جہاں ایک طرف نرم جھاڑیاں ہیں وہاں سے آیا جا سکتا ہے اسے شرعہ اور شریعہ کہا جاتا ہےیہا ں سے رفت وآمد ہو سکتی ہے اس مقام پر تیراندازوں کا پہرا بٹھا دیا کہ مبادا کوئی اس شریعہ سے اندر آئے آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اس  اہم نہر پر بھی پہرا تھا کہ کوئی پانی کے راستے کربلا نہ آئے اور امام حسینؑ  کی مدد نہ کرےآپ نے شب عاشور فرمایا کہ جانا آسان ہے رات بھی ہے کوئی تمہیں دیکھ بھی نہیں سکتا بیعت بھی تمہاری گردن سے اٹھا لی ہے جو بھی رہے گا مارا جائے گاکوئی بھی زندہ باقی نہیں بچے گا حتی کہ یہ شیر خوار بچہ بھی شہید ہوگا یہ فرمایا تو حضرت قاسم ؑ نے عرض کی چچا جان یہ خیام میں آجائیں گےفرمایا جب تک میں زندہ ہوں خیام داخل نہیں ہوسکتے۔ عرض کی کہ یہ شیرخوار بچہ تو چل کر میدان نہیں جائے گااسے کیسے شہید کریں گے فرمایا:

 ”اذا جفّت روحه عطشا”؛

جب جگر مکمل طور پر کباب اور لب خشک ہو جائیں گے تو کہوں گا  ”ولّوني” مجھے لا دو میں اسے سیراب کرتا ہوں اس موقعہ پر تیر آئے گا اور میری گود میں ذبح ہو جائے گا۔

امام ؑکے  یہ فرمانے کے بعد کہ مطمئن رہو یہاں صرف موت ہے اور یہ فقط مجھ سے سروکار رکھتے ہیں تم سے انہیں کوئی کام نہیں اگر جانا چاہتے ہو تو آزاد ہویہ شب عاشور میں فرمایا۔ سب سے پہلے جو شخص کھڑا ہوا اور کہا ممکن نہیں کہ ہم آپ کو تنہا چھوڑ دیں، قمر بنی ہاشم تھے،عباسؑ بن علیؑ تھے جو کھڑے ہوئے پھر تمام شہداء نے باری باری عرض ادب کیااور کہا کہ ہم آپ کو کسی صورت تنہا نہ چھوڑیں گے۔ قاسمؑ نے عرض کی کل میں بھی شہید ہونگا فرمایا موت کو کیسا پاتے ہو؟تو عرض کی کہ:

 ”احلي من العسل”

فرمایا ہاں تو بھی شہید ہوگا۔ بنابریں جب یہ واقعہ اپنےاختتام کو پہنچا اتمام حجت ہوئی معلوم ہوا کہ جہاد اصغر کا مرحلہ سر کررہے ہیں جہاد اوسط کو سرکرچکے ہیں پھر جہاد اکبر میں داخل کیا اور انہیں جنت دکھائی بنابریں جہاد اکبر یہ نہیں ہے کہ انسان ایمان رکھتا ہو کہ جنت و جہنم ہے، جہاد ہے،جہاد اکبر یعنی حلال مال اور حلال سوچ اور حلال غذا ،نماز تہجد اور روح کی طہارت میں اتنی کوشش کرے کہ خدا کے علاوہ کچھ نہ سوچے تاکہ جہنم وجنت کو دیکھے۔

والسلام مع الاکرام

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button