
شخصیت و سیرت فاطمیؑ کے تین بنیادی پہلو رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی نگاہ میں
ترجمہ وترتیب: مولانا سید تعلیم رضا جعفری صاحب۔ طالب علم جامعۃ المصطفی(ص) العالمیہ۔ قم ایران
فهرست مندرجات
شخصیت و سیرت فاطمیؑ کے تین بنیادی پہلو
۴۔ پیغمبرؐاور امیرالمؤمنینؑ کے مانند
۶۔ الٰہی معارف کی اعلیٰ ترین بلندی پر مشتمل خطبہ
۷۔ عظیم ہستیوں کی مشکلات میں مدد اور فداکاری
۸۔ ایثار، اللہ کی اطاعت اور عبادت
۲۔ خانہ داری اور شوہرداری کی بہترین مثالی
۵۔ الٰہی انتخاب پر خوشی و رضامندی
۱۔ گھریلو اور سماجی زندگی کا بہترین امتزاج
۲۔ پیغمبرؐ کی پرستاری اور غمگساری
۳۔ راہ خدا میں مختلف سختیوں پرصبروتحمل
۵۔ امامت و ولایت کے دفاع میں جہاد
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ، کی شخصیت، سیرت ، عظمت اور آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے انسانیت کے لیے بے مثال پیغامات اور سبق ملتے ہیں؛ آپؑ ایک ایسی شخصیت ہیں جسے رسول اعظمﷺ، آئمہ معصومینؑ اور اسلامی دنیا کے عظیم اور بزرگ علماء و دانشمندوں نے ایک مکمل رہنما اور بے مثال نمونہ و آئیڈیل کہا ہے۔ یقیناً شہزادی کائناتؑ کی مختصر زندگی کے اس عظیم سمندر سےمعنویت، معرفت اور جدوجہد کے گوہر تلاش کرنے اور مختلف ثمرات سے مستفیض ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس عظیم خاتون کی شخصیت و سیرت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ اور اس سےمعرفت حاصل کریں۔
اس تحریر میں حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای(دامت برکاتہ) کے بیانات کی روشنی میں شہزادی کونین ،حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کی شخصیت و سیرت کے تین اہم پہلوؤں کا ذکر کیا جارہا ہے:
الف۔معنوی و معرفتی پہلو؛ ب۔ خاندانی زندگی کا پہلو ؛ ج۔ سماجی و سیاسی پہلو۔
الف: معنوی اور معرفتی پہلو
۱۔ انبیاءؑکے برابر مقام
اگر حضرت فاطمہ زہراؑ کی شخصیت ہمارے سادہ ذہنوں اور تنگ نظر رکھنےوالوں کے لئےواضح ہوجاتی، تو ہم بھی یقین کی منزل پر پہنچ جاتے کہ فاطمہ زہراؑ،تمام جہان کی خواتین کی سردار ہیں؛ایک ایسی خاتون ہیں جنہوں نے اپنی کم عمری اور مختصر زندگی کے باوجود بلندترین معنوی، علمی اور معرفتی مقامات حاصل کئے، جو انبیاء اور اولیاء کے مقامات کے برابر ہیں۔ درحقیقت، فاطمہ زہراؑ ایک چمکتی ہوئی صبح ہیں جن کے دامن میں ولایت، امامت اور نبوت کا سورج چمکا ہے؛ آپؑ ایک بلند و بالا آسمان ہیں جن کی گود میں ولایت کے چمکتے ہوئے ستارے جگمگا رہے ہیں۔ تمام ائمہؑ اپنی اس عظیم ماں کے لیے ایسا احترام اور عقیدت رکھتے تھے کہ جو بہت کم کسی دوسری ہستی کے لئے دکھائی دیتا ہے۔ (بیان رہبر معظ، تاریخ: 1376/07/30)
۲۔ مثالی عبادت
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی عبادت ایک مثالی عبادت ہے۔ حضرت امام حسن مجتبیٰؑ بیان فرماتے ہیں:
“ایک شب جمعہ میری والدہ عبادت پروردگار میں مشغول ہوئیں اور صبح تک عبادت کرتی رہیں، یہاں تک کہ فجر کا وقت آ گیا۔” یعنی میری والدہ رات کے آغاز سے لے کر صبح تک مسلسل عبادت، دعا اور التماس میں مشغول رہیں۔
حضرت امام حسنؑ مزید فرماتے ہیں”میں نے سنا کہ آپؑ مسلسل مومنین و مومنات کے لیے دعا فرمارہی تھیں؛ دوسرے لوگوں کے لیے دعا کررہی تھیں؛ اسلامی دنیا کے عمومی مسائل کے لیے دعا کررہی تھیں۔ جب صبح ہوئی تو میں نے عرض کیا: “یا أُمّاہ! (اے مادر گرامی!) “لم لا تدعین لِنَفْسِکِ کما تدعین لِغَیرِکِ؟”؛ آپ خود کے لیے کیوں دعا نہیں مانگتی ہیں اور صرف دوسروں کے لیے دعا مانگتی ہیں؟ آپؑ نے پوری رات دعا کی، مگر سب کچھ دوسروں کے لیے طلب فرمایا؟۔
اس پر آپ ؑنے جواب دیا: “یا بنیّ! الجارُ ثمّ الدار!”؛ “اے میرے بیٹے! پہلے پڑوسی، پھر گھر والے!”۔ یہی آپ کی روحانیت کا عظیم و بلند مقام ہے!
حسن بصری، جو اسلامی دنیا کامشہور عابدو زاہد فرد بیان کیا جاتا ہے، وہ نقل کرتا ہے کہ:
“نبی کی بیٹی (فاطمہ زہراؑ)اتنی عبادت کرتی تھیں اور محراب عبادت میں اتنی دیر تک کھڑی رہتی تھیں کہ آپ کے قدموں میں ورم آ جاتا تھا!”۔ (بیان رہبر معظم، تاریخ: 1371/09/25)
۳۔ امیرالمؤمنین ؑکے ہم پایہ
فاطمہ زہرا ؑ ظاہری اعتبار سے ایک انسان، ایک خاتون، بلکہ ایک جوان خاتون ہیں؛ لیکن حقیقت کے اعتبار سے ایک عظیم حقیقت، ایک چمکتا ہوا الٰہی نور، ایک نیک کنیز خدا اور ایک نمایاں و برگزیدہ انسان ہیں۔ آپ وہی ہیں جن کے بارے میں رسول اکرمؐ نے امیرالمؤمنینؑ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
«یا علی… انت قائد المؤمنین إلی الجنّة… و فاطمة قد أقبلت یوم القیامة… تقود مؤمنات أمتی إلی الجنّة»؛ ” اے علیؑ!قیامت کے دن آپ، مومن مردوں کو جنت کی طرف لے جائیں گے اور فاطمہ زہراؑ، مومنہ خواتین کو جنت کی راہ دکھائیں گی”۔
اس طرح سے فاطمہ زہراؑ، امیرالمؤمنین ؑ کے برابر، ہم پایہ اور ہمسنگ ہیں۔
آپ ایسی خاتون ہیں کہ جب محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو ہزاروں مقرب فرشتے آپ کی طرف متوجہ ہوتے، آپ کو سلام کرتے، مبارکباد دیتے اور وہی کلام پیش کرتے جو پہلےمریم طاہرہؑ سے کہتے تھے:
«یا فاطمة! إنّ اللہ اصطفاک و طهّرک و اصطفاک علیٰ نساء العالمین».
“اے فاطمہؑ! بے شک اللہ نے آپ کو منتخب فرمایاہے، آپ کو پاک کیا ہے اورآپ کوتمام جہان کی خواتین پر فضیلت دی ہے”۔
یہ حضرت فاطمہ زہراؑ کا عظیم معنوی مقام ہے۔
آپؑ ایک ایسی خاتون ہیں—اور وہ بھی جوانی کی عمر میں— جومعنوی مقام کے اعتبار سے ایسی بلندیوں پر پہنچیں کہ بعض روایات کے مطابق فرشتے آپ سے بات کرتے تھے اور آپ کو حقائقِ غیبیہ سے آگاہ کرتے تھے۔ آپ “مُحَدَّثَہ” ہیں، یعنی وہ شخصیت جس سے فرشتے کلام کرتے ہیں۔ باتیں کرتے تھے۔ آپ کا یہ معنوی مقام، وسیع میدان اور عظیم بلندی، عالم خلقت کی تمام خواتین کے مقابلے میں ہے۔ حضرت فاطمہ زہراؑ، معنویت کی عظیم بلندی پر کھڑی ہیں اور تمام دنیا کی خواتین کو خطاب کرتے ہوئے انہیں اس راہ پر چلنے کی دعوت دیتی ہیں۔(بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1368/10/26)۔
۴۔ پیغمبرؐاور امیرالمؤمنینؑ کے مانند
ہماری روایات و احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے ذمّے صرف نبوت اور امامت کی ذمّہ داری نہیں تھی؛ ورنہ معنوی اعتبار سےپیغمبراکرمؐ اور امیرالمؤمنینؑ سے آپ کی ذات میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ایک اٹھارہ سالہ خاتون—جو فاطمہ زہراؑ کی زیادہ سے زیادہ عمر تھی—معنوی، عرفانی بلندیوں، حکمت، انداز بیان، سیاسی و سماجی مسائل کے گہرے تجزیے، مستقبل بینی، اور اپنے دور کے سب سے بڑے مسائل سے نپٹنے کی صلاحیت کی منزلوں پر فائز تھیں۔(بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1372/09/08)
۵۔ پاکیزگی کا مظہر
حضرت امام رضاؑ کی زیارت میں صلوات کے وقت جب حضرت فاطمہ زہرا ؑ کا ذکر آتا ہے، تو یوں ذکر ہوتا ہے کہ:
«اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَی فاطِمَةَ بِنتِ نَبیِّک»
یہ ایک خصوصیت ہے۔ یقیناً یہ خصوصیت بہت اہم ہے، البتہ یہ ہر کسی کے لیے قابلِ پیروی نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی پیغمبرؐ کی بیٹی نہیں بن سکتی۔ لیکن یہاں پیغمبرؐ کی بیٹی سے منسوب کرکے ذکر کیا جانا، آپ کے لئے ایک بلند مقام کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس کے بعد فرمایا جاتا ہے:
«وَ زَوجَةِ وَلِیِّک»
یہ دوسرا اعزاز ہے۔ یہ بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ اللہ کے ولی کی زوجہ بن سکے؛ لیکن یہ فقرہ بھی اس خاتون کی عظیم شان و منزلت اور آپ کی بلندی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
اس کے بعد آپ کے صفات کا بیان ہوتا ہے کہ: «اَلطُّهرَةِ الطّاهِرَةِ المُطَهَّرَةِ التَّقیَّةِ النَّقیَّةِ الرَّضیَّةِ الزَّکیَّة»
یہ تمام صفات قابل عمل ہیں۔ خصوصاً “طہارت” جس کو تین الفاظ—«طُهرَة»، «طاهِرَة»، اور «مُطَهَّرَة»— کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ الفاظ معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، البتہ تینوں کا تعلق پاکیزگی اور طہارت سے ہے؛ یعنی روح کی طہارت، دل کی طہارت، ذہن کی طہارت، عزت و وقار کی طہارت، اور پوری زندگی کی طہارت۔
یہ صفات ہمارے لیے ایک سبق ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ کو پاکیزہ کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ بغیر باطنی طہارت کے کسی بھی معنوی مقام تک پہنچنا ممکن نہیں ہے ، اور نہ ہی ان عظیم ہستیوں کی ولایت کے دائرے تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ باطنی طہارت ضروری ہے ۔باطن کی طہارت تقویٰ اور پرہیزگاری کے لئے ضروری ہے۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1395/01/11)۔
۶۔ الٰہی معارف کی اعلیٰ ترین بلندی پر مشتمل خطبہ
اس عظیم خاتون کی ظاہری زندگی میں جو چیزیں پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک علم، حکمت اور معرفت ہے۔ یہ بات خاص طور پر آپ کے مشہور خطبۂ فَدَکیہ میں نمایاں ہے، جسے شیعہ بھی نقل کرتے ہیں اور اہل سنت میں سے بھی بعض نے اس کے بعض اجزاء کو اور بعض نے پورے خطبے کو نقل کیا ہے۔ جب آپ اس خطبے کے ابتدائی جملات، حمد و ثنائے پروردگار اور اس کے آغاز کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ حکمت و معرفت کا ایک ایسا سیلاب اس خاتون کی زبانِ مبارک سے جاری ہوا ہے جو آج تک، الحمدللہ۔ ہمارے لیے محفوظ ہے۔
یاد رکھیں کہ یہ خطبہ کسی تعلیمی یا علمی جلسے کے لیے نہیں تھا، نہ ہی اس کا موضوع علم و معرفت کا اظہارتھا؛ بلکہ یہ ایک سیاسی مناظرہ تھا۔ پھر بھی، اس مبارک خطبے میں الٰہی اور اسلامی معارف کو، عالی ترین سطح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو ہمارے لئے قابل فہم ہے ۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1389/03/13)
(حضرت فاطمہ زہراؑ)، علمی لحاظ سے ایک عظیم عالمہ تھیں۔ آپ کا وہ خطبہ جو آپ نے مدینہ کی مسجد میں پیغمبرؐکی وفات کے بعد ارشاد فرمایا تھا، علامہ مجلسی اس خطبے کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ :«فصاحت و بلاغت کے میدان کے بزرگ اور علماء بیٹھیں اور اس خطبہ کے الفاظ و عبارات کی تفسیر کریں »۔ اس قدر یہ خطبہ گہرائی اور معنویت سے بھرا ہوا ہے… شاید آپ نے ایک گھنٹے کے اندر انتہائی خوبصورت الفاظ اور منتخب ترین معانی کے ساتھ اپنی باتوں کو بیان کردیا۔(بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1371/09/25)۔
۷۔ عظیم ہستیوں کی مشکلات میں مدد اور فداکاری
اس عظمت کو ملاحظہ کریں کہ ایک چھوٹی بچی، جب انسانیت کے سب سے عظیم ترین ہستیوں پر سخت ترین آزمائشوں کا وقت آتا ہے، تو فوراً ان کی مدد کے لیے دوڑ پڑتی ہے! یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ یہ وہی فداکاری کا جذبہ ہے جو جوانی کے دور میں—پندرہ، سولہ، اٹھارہ سال کی عمر تک، اور آخر کار اپنی مختصر زندگی کے آخری لمحے تک—اس قدرمعنوی مقامات کا تجربہ کرتی ہیں اور ایسے عظیم کام انجام دیتا ہیں اور تشیّع و اسلام کی تاریخ پر ایسا گہرا اثر چھوڑتی ہیں جس کی وجہ زہراء اطہرؑ، رہتی دنیا تک چمکتے ہوئے سورج کے مانند رہیں گی۔ یہ سارے اثرات ایک جوان خاتون کی زندگی، شخصیت اور خصوصیات سے ظاہر ہوئے ہیں۔(بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1376/06/26)
۸۔ ایثار، اللہ کی اطاعت اور عبادت
ہمیں چاہیے کہ حضرت فاطمہ زہراؑکے راستے پر چلیں۔ ہمیں بھی قربانی دینی چاہیے، ایثار کرنا چاہیے، اللہ کی اطاعت کرنا چاہیے، اور عبادت کرنا چاہیے۔ کیا ہم نہیں کہتے ہیں کہ«حتّی تورّم قدماها» یعنی فاطمہ زہراؑ اس قدر محراب عبادت میں کھڑی رہتی تھیں کہ آپ کے قدموں میں ورم آجاتا تھا۔ تو ہمیں محراب عبادت میں حاضر ہونا چاہئے۔ کچھ حد تک تو عبادت کرنا چاہئے، ہمیں بھی اللہ کا ذکر کرنا چاہیے، اور ہمیں بھی اپنے دلوں میں روز بروز الٰہی محبت کو بڑھانا چاہیے۔
کیا ہم بیان نہیں کرتے ہیں کہ آپ ؑ اپنی کمزوری کے باوجود مسجد تک گئیں تاکہ حق کو قائم کر سکیں؟ تو ہمیں بھی ہر حال میں کوشش کرنی چاہیے کہ حق کو قائم کریں۔ ہمیں بھی کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
کیا ہم نہیں کہتے ہیں آپ اکیلی ہی اپنے زمانے کے پورے معاشرے کے مقابل کھڑی ہوئیں؟(تو ہمیں بھی ولایت کے دفاع میں اپنے اعتبار سے قیام کرنا چاہئے)۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1370/10/05)۔
ب- خاندانی زندگی کا پہلو
۱۔ سادہ مہر اور جہیز
ہجرتِ نبویؐ کے بعد، جب فاطمہ زہرا ؑ، جب بالغ ہوئیں اور حضرت علی بن ابی طالبؑ سے آپ کا نکاح ہوا تو آپ کا مہر اور جہیز وہی تھا جس کے بارے میں شاید آپ سب جانتے ہیں کہ کس قدر معمولی اور فقیرانہ تھا۔ وہ بھی اسلامی دنیا کے سب سے بلند مرتبہ شخصیت (یعنی رسول خدا ؐ) کی اکلوتی بیٹی کی شادی تھی اور کس قدر سادگی اور غربت کے انداز میں یہ شادی ہوئی۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1371/09/25)
۲۔ خانہ داری اور شوہرداری کی بہترین مثالی
کبھی کبھار انسان یہ سمجھتا ہے کہ “شوہرداری” کا مطلب صرف یہ ہے کہ گھر میں کھانا پکانا، کمرہ صاف ستھرا رکھنا، بستر بچھانا، اور پرانے زمانے کی طرح چٹائی بچھا دینا تاکہ شوہر دفتر یا دکان سے آ کر آرام کر سکے! لیکن شوہرداری صرف یہی نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی شوہرداری جو ایک عظیم نمونہ اور بہترین مثال ہے وہ کیسی تھی۔
جب تک دس سال مدینہ میں رسول اللہؐ کی موجودگی رہی، تب تک تقریباً نو سال تک حضرت فاطمہ زہراؑ اور حضرت امیرالمؤمنینؑ، شوہر اور بیوی کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ اس عرصے میں تقریباً ساٹھ چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں—جس میں اکثر جنگوں میں امیرالمؤمنینؑ بھی شریک تھے۔
اب آپ غور کریں کہ فاطمہ زہراؑ ایک ایسی خاتون ہیں جو گھر میں رہتی ہیں، جبکہ آپ کے شوہر مسلسل جنگ کے میدان میں ہیں—اور اگر امام علیؑ جنگ کے میدان میں جائیں تو جنگ میں کامیابی بھی نہیں ملتی، یعنی جنگ آپ پر ہی منحصر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی حالت بھی کچھ خاص نہیں تھی۔ جیسا کہ ہم نے سنا ہے کہ «وَ یُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا، إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ» یعنی واقعاً آپ کی زندگی محض فقیرانہ تھی—حالانکہ آپؑ نہ صرف یہ کہ ایک اسلامی رہنما کی بیٹی تھیں، بلکہ پیغمبراکرمؐ بیٹی بھی تھیں، یہ چیز ایک گہری ذمہ داری کا احساس کرواتی ہے۔
آپ سوچیں کہ ایسے حالات میں شوہر کو جنگ کے لیے تیار کرنے، ان کے دل کو گھر والوں اور زندگی کی پریشانیوں سے دور رکھنے، انہیں حوصلہ دینے، اور بچوں کو اس طرح پالنے کے لئے کتنی مضبوطی اورروحانی استحکام کی ضرورت ہوتی ہے۔
اب آپ کہہ سکتے ہیں حضرت امام حسنؑ اور امام حسینؑ تو معصوم امام تھے اور ان دونوں حضرات میں امامت کی فطرت تھی؛ لیکن حضرت زینبؑ تو امام نہیں تھیں— انہیں بھی حضرت فاطمہ زہراؑ نے اسی نو سالہ عرصے میں پالاتھا۔ اور پھر رسول اللہؐ کی وفات کے بعد تو حضرت فاطمہؑ زیادہ دیر تک زندہ نہ رہیں۔
آپؑ نے اس طرح کی خانہ داری اور اس طرح سے شوہرداری کی اور اسی طرح خاتونِ خانہ کی حیثیت کا کام کیا کہ آپ اپنے خاندان کے مرکز بن گئیں اور تاریخ میں ایک لازوال مثال قائم کیں۔ کیا یہ سب باتیں آج کی جوان خاتون، خانہ دار خاتون یا خانہ داری کے دائرے میں داخل ہونے والی خاتون کے لئے ایک نمونہ کامل نہیں ہو سکتی؟۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1377/02/07)
۳۔ بچوں کی عظیم تربیت
حضرت امام رضاؑ کی زیارت میں آیا ہے کہ:
«وَ أُمَّ السِّبْطَیْنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ، سَیِّدَیْ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ…» یعنی وہ ماں جن کے دو بیٹے—امام حسن اور امام حسینؑ—جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ ان دونوں عظیم ہستیوں کی ماں یہی بزرگ خاتون ہیں؛ اور یہی پاکیزہ دامنِ مادری تھا جس نے انہیں پالا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمارے لیے ایک نمونہ اور آئیڈیل بن سکتی ہے۔(بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1395/01/11)
۴۔ شوہر کی خشنودی کا خیال
امیرالمؤمنینؑ نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے بارے میں فرمایا:
«ما أَغْضَبَتْنی وَلا خَرَجَتْ مِنْ أَمْری» یعنی “اس خاتون نے مجھے کبھی بھی غصہ نہیں دلایا اور میری کسی بات کی مخالفت نہیں کی”۔
حضرت فاطمہ زہرا ؑ—جو عظمت اور جلالت کے بلند مقام پر تھیں—اس کے باوجود گھر کے اندر ایک شوہر کی بیوی تھیں اور بالکل ویسے ہی زندگی گزاری جیسے اسلام چاہتا ہے۔(بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1371/09/25)۔
۵۔ الٰہی انتخاب پر خوشی و رضامندی
حضرت فاطمہ زہراؑنے شادی کے خواہشمندوں میں—جن میں دولت مند، باوقار اور نامور لوگ بھی شامل تھے—صرف اس پاک دل جوان کو منتخب کیا جو ہمیشہ خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا رہا اور جنگوں کے میدانوں میں موجود رہتا تھا۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے!
فاطمہ زہراؑ، پیغمبرِ اکرمؐ جو عالم اسلام اور وقت کا طاقتور حاکم تھے، ان کی بیٹی تھیں اور آپ سے شادی کے لئے بہت سے خواہشمندتھے جو خود مال و دولت اور شوہرت والے تھے۔
لیکن اللہ نے ان سب میں سے صرف حضرت علیؑ کو فاطمہ زہراؑ کے لیے منتخب فرمایا تھا اور فاطمہؑ نے اس الٰہی انتخاب پر خوشی اور رضامندی کا اظہار کیا۔ پھر آپؑ نے امیرالمؤمنینؑ کے ساتھ ایسی زندگی گزاری کہ آپ ہر لحاظ سے ان سے راضی تھے۔
آپؑ کی زندگی کے آخری دنوں میں، امیرالمؤمنینؑ سے جن الفاظ کا اظہار فرمایا، وہ اسی حقیقت کی گواہی دیتے ہیں؛ آپؑ نے ہر موڑ پر صبر کیا، اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کی، ولایت کے حق کے لیے جان فشانی سے دفاع کیا، اس راستے میں سخت ترین تکالیف اور ستم برداشت کیے، اور آخر کار اُس عظیم شہادت کو کھلے دل و کھلی آغوش سے قبول کرلیا۔ یہی ہیں فاطمہ زہراؑ۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1373/09/03)۔
ج- سماجی اور سیاسی پہلو
۱۔ گھریلو اور سماجی زندگی کا بہترین امتزاج
اس عظیم خاتون (حضرت فاطمہ زہراؑ)کی معمولی زندگی میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ آپؑ نے ایک طرف، ایک مسلمان خاتون کی حیثیت سے شوہر اور بچوں کے ساتھ اپنے بہترین سلوک، گھر میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی—اور دوسری طرف ایک غیور، نڈر اور نہ تھکنے والی مجاہدہ کی حیثیت سے رسولِ اکرمؐ کی وفات کے بعد پیش آنے والے اہم سیاسی واقعات کے بعد مسجد میں جا کر تقریر کرنے، موقف اختیار کرنے، حق کا دفاع کرنے، تقریر کرنے اور ہر لحاظ سے ایک مکمل جہاد کرنے والی، نہ تھکنےوالی، محنت کش اور مشکلات برداشت کرنے والی شخصیت کا مظاہرہ کیا— اور آپؑ نے ان دونوں پہلوؤں کو ایک ساتھ جمع کیا۔
اسی طرح آپؑ ایک عابدہ اور نمازگزار خاتون بھی تھیں، آپ اندھیری راتوں میں اللہ کے لیے قیام کرتی تھیں، اپنے پروردگار کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ سجدوں میں رہتی تھیں اور یہ جوان خاتون محرابِ عبادت میں قدیم اولیاء کی طرح اللہ سے راز و نیاز اور عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔
آپؑ نے ان تینوں پہلوؤں—خاندانی ذمہ داری، سیاسی جہاد اور معنوی عبادت— کو ایک ساتھ جمع کرلیا تھا۔ یہی حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی زندگی کا درخشاں پہلو ہے۔ آپؑ نے ان تینوں جہات کو الگ الگ نہیں رکھا۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص عبادت میں مشغول ہو، وہ صرف ایک عابد، متضرّع، دعا گو اور ذکر الٰہی کا عادی ہوتا ہے اور سیاست سے کنارہ کش رہتا ہے۔ اور کچھ یہ خیال رکھتے ہیں کہ جو شخص سیاست میں فعال ہو—خواہ وہ عورت ہو یا مرد— اور جہاد فی سبیل اللہ کے میدان میں موجود ہو تو اگر وہ عورت ہے تو وہ گھریلو فرائض، ماں اور بیوی کی ذمہ داریوں کو انجام نہیں دے سکتی اور اگر مرد ہے تو وہ گھر، دکان اور عام زندگی کے کاموں میں مصروف نہیں رہ سکتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں ایک دوسرے کے منافی ہیں۔
لیکن اسلامی نقطہ نظر سے یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے خلاف یا متضاد نہیں ہیں؛ بلکہ کامل انسان کی شخصیت میں یہ ایک دوسرے کی مددگار ہوتی ہیں۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1368/09/22)
۲۔ پیغمبرؐ کی پرستاری اور غمگساری
ایک ایسی بیٹی جو مکہ میں پیغمبرؐ کی سخت ترین جہادی کشمکش کے حالات کے وقت پیدا ہوئیں وہ “شعب ابی طالبؑ” کے دوران اپنے والد کی ہمدرد اور ساتھی بنیں۔ ایسی بیٹی جو تقریباً سات، آٹھ یا دو تین سال کی تھیں تو اس وقت جب خدیجہ الکبریٰؑ اور ابوطالبؑ دونوں دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، اُن مشکل حالات کو برداشت کیا۔
پیغمبر اکرمؐ ان دنوں میں تنہا تھے، کوئی آپ کا ہمدرد نہ تھا پھر بھی سب ان کی پناہ میں رہتے تھے۔ لیکن کون تھا جو ان کے چہرے سے غم کا غبار مٹاتا؟ پہلے خدیجہؑ تھیں، لیکن اب وہ نہیں رہیں۔ ابوطالبؑ تھے، جو اب نہیں رہے۔ ایسے ہی مشکل حالات میں—جس میں تین سالہ “شعب ابی طالبؑ” کی بھوک، پیاس، سردی اور گرمی کے سخت ترین دنوں میں پیغمبرؐ اور چند گنے چُنے مسلمانوں کو وادی میں زبردستی تبعید کا سامنا تھا— یہی بیٹی پیغمبرؐ کے لیے فرشتۂ رحمت کی طرح تھیں؛ اپنے باپ کے لیے ماں کی طرح تھیں؛ اور اُس عظیم انسان کے لیے ایک بڑی پرستار کی طرح تمام مشکلات کو برداشت کیں۔
آپؑ پیغمبر کی ہمدرد بنیں، ان کی ذمہ داریوں کو اٹھایا، اللہ کی عبادت کی، اپنے ایمان کو مضبوط کیا، خود کو سجایا، اور الٰہی معرفت و نور کا راستہ اپنے دل میں کھول لیا۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو انسان کو کمال تک پہنچاتی ہیں۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1371/09/25)۔
۳۔ راہ خدا میں مختلف سختیوں پرصبروتحمل
حضرت فاطمہ زہراؑ کی شخصیت، سیاسی، سماجی اور جہادی پہلوؤں کے اعتبار سے ایک نمایاں اور برجستہ شخصیت ہیں، جس سے دنیا کی تمام مبارز، انقلابی، سیاسی اور نمایاں خواتین آپ کی مختصر مگر پُرمعنی زندگی سے سبق لے سکتی ہیں۔
وہ خاتون جو انقلاب کے گھر میں پیدا ہوئیں اور اپنی پوری بچپن کی زندگی اُس باپ کی گود میں گزاری جو ایک عظیم، عالمی اور ناقابلِ فراموش جہاد میں مصروف تھے۔
وہ خاتون جس نے بچپن ہی میں مکہ کے جہادی دور کی سختیاں برداشت کیں اور”شعب ابی طالبؑ” میں لے جائی گئیں، بھوک، مشکلات، خوف اور مکہ کے جہادی دور کی ہر قسم کی سختیوں کا تجربہ کیا۔ پھر جب مدینہ ہجرت کی تو اُنہوں نے ایسے مرد سے نکاح کیا جس کی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ پر منحصر تھی۔ فاطمہ زہراؑ اور امیرالمؤمنینؑ کی تقریباً گیارہ سالہ اس مشترکہ زندگی میں ایسا کوئی سال—بلکہ کوئی آدھا سال بھی—نہیں گزرا جب یہ شوہر، جہاد فی سبیل اللہ کے لیے آمادہ اور جنگ کے میدان میں نہ گیا ہو۔ اور یہ عظیم اور فداکار خاتون، ایک مجاہد، جنگجو اور میدانِ جنگ کے ہمیشہ موجود رہنے والے سربار اور سردار کی ہمسری کے لائق تھیں۔(بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1368/10/26)۔
۴۔ ایک مکمل رہنما
حضرت فاطمہ زہرا ؑ ایک مکمل اورحقیقی رہنما کے طور پر نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ امام خمینی نے فرمایا: “اگر فاطمہ زہراؑ مرد ہوتیں، تو پیغمبر ہوتیں۔”
یہ بہت قابل تعجب اور بہت بڑی بات ہے— ایسی بات جو صرف ایسے شخص کی زبان سے سنی جا سکتی ہے جو خود عالم، فقیہ اور عارف ہو۔ عام انسان ایسی بات نہیں کہہ سکتا، لیکن اُن بزرگ نے یہی کہا ہے۔
یعنی فاطمہ زہراؑ واقعی معنی میں ایک مکمل رہنما ہیں— بالکل ویسے ہی جیسے کوئی پیغمبر یا پوری انسانیت کا ہادی ہوتا ہے۔ اس حد تک اور اتنی بلند عظمت تک زہرائے طاہرہؑ — وہ بھی ایک جوان بیٹی— پہنچی ہیں۔ یہی واقعی اسلامی خاتون ہیں۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1395/12/29)۔
۵۔ امامت و ولایت کے دفاع میں جہاد
حضرت حضرت فاطمہ زہراؑ کا مختلف میدانوں میں جہاد اور کوشش کرنا، ایک مثالی جہاد ہے؛ آپ نے اسلام کے دفاع میں، امامت و ولایت کے دفاع میں، پیغمبر ؐ کی حمایت میں، اور اسلام کے سب سے بڑے سردار—یعنی امیرالمؤمنینؑ ،جو آپ کے شوہر تھے— ان کی حفاظت میں میں جہاد کیا ہے۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1371/09/25)۔
اگر ہم پیغمبراکرمؐ کی وفات کے بعد مدینہ کی نہایت حساس صورتحال کو سمجھیں اور مسئلے کو صحیح طرح سے جانیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ فاطمہ زہراؑنے کتنا عظیم کام انجام دیا ہے۔
حالات انتہائی مشکل تھے—یہاں تک کہ خاص لوگوں کے لیے بھی سمجھنا مشکل تھا۔ پیغمبرؐ کے تمام صحابہ میں سے صرف دس، بارہ افراد ہی مسجد میں حاضر ہوئے اور امیرالمؤمنین ؑ کے حق اورآپؑ کی عظمت کے دفاع کے لیے کھڑے ہوئے۔
اس وقت اتنے سارے صحابہ، بزرگ، قرآن خوان، اور بدر و حنین کے مجاہدین موجود تھے—اور ایسا بھی نہیں تھا کہ سب کے سب عناد رکھتے تھے؛ نہیں، مسئلہ اتنا واضح نہیں تھا کہ خاص لوگ بھی اسے صحیح طرح سے سمجھ پائیں۔
جناب عمّار دفاع کررہے تھے، ابوذر دفاع کررہے تھے، زبیر(ابتدائی دور میں) دفاع کرنے والوں میں تھے—یہی وہ لوگ تھے جو منبر کے پاس کھڑے ہوئے اور انہوں نے امیرالمؤمنینؑ کے حق کا دفاع کیا۔ تاریخ میں صرف دس بارہ افراد کے نام درج ہیں، اور زبیربھی انہی میں شامل تھے— اس بات کو ذہن نشین رکھیں۔
ایسےحالات، ایسےمشکل وقت میں پیغمبرؐ کی بیٹی مسجد میں آتی ہیں اور اپنا وہ عظیم الشان خطبہ— وہ حیرت انگیز بیان—پیش کرتی ہیں جس کے ذریعہ آپ نے حقیقتوں کو بے نقاب کردیا۔
یا پھر وہ خطبہ جو آپ نے مدینہ کی خواتین کے سامنے بیماری کے بستر پر ارشاد فرمایا—جو تاریخ میں محفوظ ہے اور مکمل طور پر موجود ہے۔
یہ معنوی(پوشیدہ) پہلو کی باتیں نہیں ہیں؛ بلکہ یہ وہی پہلو ہیں جو ہماری سمجھ میں آتاہے۔ عام عقلی نگاہ سے بھی اسے سمجھا جا سکتا ہے، لیکن پھر بھی یہ پہلو اس قدر عظمت کا حامل ہے جس کی پیمائش ممکن نہیں—یعنی آپ کی قربانی کا کسی دوسری قربانی سے موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1395/12/29)۔
۶۔ لوگوں کے لئے مرکزِ رجوع
حضرت فاطمہ زہراؑ کی زندگی تمام جہات سے ایک ایسی زندگی ہے جو محنت، کوشش، روحانی ترقی اور کمال کی طرف گامزن ہے۔ آپ کے جوان شوہر ہمیشہ جنگ کے میدانوں میں موجود رہتے ہیں، لیکن مشکل حالاتِ زندگی کے باوجود، فاطمہ زہرا ؑ، لوگوں اور مسلمانوں کے لیے ایک “مرکزِ رجوع” کی طرح ہیں۔ آپ حلال مشکلات پیغمبرؐ کی بیٹی ہیں، اور ایسے ہی حالات میں آپ نے اپنی زندگی کو مکمل عزت و وقار کے ساتھ آگے بڑھایا۔
آپ نے امام حسنؑ، حسینؑ اور زینبؑ جیسی اولاد کی پرورش فرمائی۔ علیؑ جیسے شوہر کی خدمت کی۔ اس باپ کی خشنودی اور رضایت کو حاصل کیا جو خود اللہ کا عظیم پیغمبرؐ ہے۔
جب فتوحات کے دروازے کھلتے تھے اور غنائم کی بارش ہوتی تھی تب بھی پیغمبرؐ کی اس بیٹی نے دنیا کی لذتوں، تقریبات، زیورات اور ان چیزوں کی طرف جن کی طرف ذرا برابر توجہ نہیں کی جن کی طرف عام جوان خواتین اور عورتوں دل سے مائل ہوتی ہیں۔ (بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1371/09/25)۔
۷۔ضرورتمندوں پر احسان
جب پیغمبراکرمؐ نے ایک بوڑھے مستحق شخص کو حضرت امیرالمؤمنینؑ کے دروازے پر بھیجا اور فرمایا: «جاؤ، اپنی حاجت ان سے مانگو»، تو فاطمہ زہراؑنے اس چمڑے کا بچھونا جن پر حسنینؑ سوتے تھے اور جو ان کا واحد بستر تھا— اور گھر میں اس کے سوا کچھ نہ تھا—اسی کو آنے والے سائل کے حوالے کردیا اور فرمایا: «لے جا کر اسے بیچ دینا، اور اس کی قیمت سے اپنا کام چلا لینا»۔(بیان رہبر معظم۔ تاریخ: 1371/09/25)
۸۔معاشرے میں فعال کردار
مسلم خواتین کو چاہیے کہ اپنی ذاتی، سماجی اور خاندانی زندگی میں حضرت فاطمہ زہراؑ کی زندگی کو اپنا نمونہ عمل اور رہنما بنائیں—چاہے وہ سمجھداری، دانشمندی،عقلمندی، معرفت کے پہلو ہوں، یا عبادت، جہاد، بڑے سماجی فیصلوں کے میدان میں موجودگی، خانہ داری ، شوہرداری اور نیک فرزندوں کی تربیت کے پہلو ہوں۔ کیونکہ اس عظیم اسلامی خاتون نے اپنی مختصر سی زندگی میں یہ ثابت کردیا کہ ایک مسلم خاتون سیاست کے میدان، کاروبار و محنت کے عرصے اور معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ علم حاصل کر سکتی ہیں، عبادت کر سکتی ہے، اچھی بیوی بن سکتی ہے، اور نیک فرزندوں کی پرورش کر سکتی ہے۔ اور اس طرح حضرت فاطمہ زہراؑ کی پیروی کر سکتی ہے اور اللہ کے عظیم الشان پیغمبرؐ کی محبوب بیٹی کو اپنا الگو قرار دے سکتی ہے۔(بیان رہبر معظم۔ تاریخ: ۱۳۷۲/۰۹/۱۷)۔




