
حضرت فاطمہ زہراؑ؛ عالمین کے لئے اسوہ کاملہ
تحریر: مولانا کاشف رضا گلزار صاحب۔مؤسس و بانی: اقرأ، علمی و ثقافتی مرکز. طالب علم جامعۃ المصطفی(ص) العالمیہ۔ قم ایران
فهرست مندرجات
حضرت فاطمہ زہراؑ؛ عالمین کے لئے اسوہ کاملہ
۱۔ حضرت زہراءؑ کی عظمت کا قرآنی بیان
۲۔ رسول اکرمؐکے ارشادات میں حضرت زہراءؑ
تمہید
اسلام کی تابناک تاریخ میں کچھ ایسی برگزیدہ ہستیاں ابھرتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنے دور کے لئے بلکہ تمام انسانیت اور رہتی دنیا تک کے لئے مشعلِ ہدایت اور نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ انہی آسمانی، نورانی ستاروں میں سے ایک، رسولِ اکرم صلی للہ علیہ وآلہ کی لختِ جگر، سیدۃ النساء العالمین، حضرت فاطمہ زہراءؑہیں۔ آپؑ کی زندگی ایک ایسا آئینہ ہے جو ہر میدان میں کمال کی عکاسی کرتا ہے۔ چاہے وہ عبادت کی گہرائی ہویا عائلی زندگی کی ہم آہنگی، علمی افق کی وسعت ہو یا سماجی و سیاسی جدوجہد کی بے مثال جرئت۔
اس مقالے میں ہم حضرت زہراءسلام اللہ علیہاکی شخصیت کو شیعہ و سنی معتبر مآخذ کی روشنی میں،(البتہ بیشتر اہلسنت مآخذ سے استفادہ کیا گیاہے) عالمین کے لئے ایک زندہ وجاوید نمونہ کے طور پر پیش کریں گے، تاکہ ان کی سیرت سے روشنی حاصل کرتے ہوئے ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکیں۔
۱۔ حضرت زہراءؑ کی عظمت کا قرآنی بیان
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جو اہل بیتؑ کی طہارت اور عظمت کو متعدد مقامات پر بیان کرتا ہے۔ ان آیات میں حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی شخصیت کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے، جو ان کی عصمت و فضیلت کی گواہی دیتی ہیں۔
۱۔ آیۂ تطہیر: “اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا”۔ (سورۂ الاحزاب، 33)۔
صحیح مسلم(صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2424) اور سنن ترمذی(سنن ترمذی، حدیث 3787) میں بیان ہے کہ یہ آیت رسول اللہ، حضرت علی، حضرت فاطمہ، امام حسن اور امام حسین سلام اللہ علیہم کے بارے میں نازل ہوئی، جو اہل بیتؑ کی طہارت اور عصمت کو ثابت کرتی ہے۔
2۔آیۂ مباہلہ: “فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ”…(آل عمران، 61)۔
اہل سنت کے مشہور مفسرین جیسے طبری نے اپنی تفسیر اورقرطبی نے اپنی کتاب الجامع لاحکام القرآن میں لکھا ہے کہ “نساءنا” سے مراد صرف حضرت فاطمہ زہراءؑہیں، جو آپؑ کی منفرد حیثیت ، عظمت ورفعت کو اجاگر کرتی ہے۔
3۔سورۂ دہر: متعدد روایات کے مطابق جب حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے تین دن مسلسل روزہ رکھا اور ہر دن اپنا افطار مسکین، یتیم اور اسیر کو دے دیا، تو یہ آیات نازل ہوئیں: “وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا” (الانسان، ۸) ؛ یہ شان نزول شیعہ و سنی دونوں مصادر میں مذکور ہے(تفسیر طبری اور الدر المنثور للسیوطی)۔
۲۔ رسول اکرمؐکے ارشادات میں حضرت زہراءؑ
رسول خداؐنے اپنی حیات طیبہ میں بارہا حضرت فاطمہ زہراءؑکی عظمت کو بیان فرمایا اور ان کے کردار کو امت کے لئے ایک ابدی معیار قرار دیا۔ یہ ارشادات آپؑ کی فضیلت کے ایسے موتی ہیں جو ہمیشہ چمکتے رہیں گے۔ چند مشہور احادیث یہ ہیں:
خوشنودی فاطمہ ؑ کی عظمت
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے اللہ فاطمہؑ کی رضا سے راضی اور فاطمہ کے غضب سے غضبناک ہوتاہے؛ “فاطمة بضعة مني، يرضى الله لرضاها ويغضب لغضبها”۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3714؛ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2449) یہ حدیث آپؑ کی رضا اللہ کی رضا اور آپ کا غضب اللہ کا غضب بیان کرتی ہے۔ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
جنت میں چار افضل خواتین
“افضل نساء اهل الجنة اربع: مریم بنت عمران، فاطمه بنت محمد، خدیجة بن خویلد و آسیة امراة فرعون”۔ اس حدیث میں چار خاتون کو جنت میں سب سے افضل قرار دیا گیا ہے جن میں حضرت فاطمہ زہراءؑ بھی شامل ہیں، تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ ان میں سب سے افضل و برتر جناب سیدہ ؑہیں(مسند احمد بن حنبل، ح۲۶۶۳؛ مستدرک حاکم، ح۴۷۴۰)۔
جنتی خواتین کی سرور و سردار
“قال رسول اللّه(ص): سيّدَةُ نِساءِ أَهْلِ الجَنَّةِ فاطِمَة”۔ رسول خداؐ نے فرمایا ہے کہ: جنت کی تمام عورتوں کی سرور و سردار فاطمہ سلام اللہ علیہاہیں(صحيح البخاري، كتاب الفضائل، باب مناقب فاطمة)۔
اسی طرح نقل ہوا ہے کہ”قال رسول اللّه (ص): فاطِمَة سِيِّدةُ نِساءِ أَهْلِ الجَنِّة”۔ رسول خداؐنے فرمایا ہے کہ: میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا جنت کی عورتوں کی سید و سردار ہے(صحيح البخاري، ج3، كتاب الفضائل باب مناقب فاطِمَة ص1374؛ سنن الترمذي ،ج 3، ص226)۔
تمام عورتوں کی سرور و سردار
“قال رسول اللّه(ص): فاطِمَة سيِّدَةُ نِساءِ أُمَّتِي”۔ رسول خداؐ نے فرمایا ہے کہ: فاطمہؑ میری امت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں(صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب مناقب فاطمة)۔
“قال رسول اللّه(ص):”حَسْبُك مِنْ نساءِ العالَميَن أَرْبَع: مَرْيمَ وَآسيَة وَخَديجَة وَفاطِمَة”۔ رسول خداؐ نے فرمایا ہے کہ: تمام جہانوں میں فقط چار عورتیں بہترین ہیں، مریمؑ، آسیہؑ، خدیجہ اور فاطمہؑ (مستدرك الصحيحين ج 3 ، باب مناقب فاطِمَةؑ، ص171)۔
“قال رسول اللّه(ص): خَيْرُ نِساءِ العالَمين أَرْبَع: مَرْيَم وَآسية وَخَدِيجَة وَفاطِمَة”۔ رسول خداؐنے فرمایا ہے کہ: جہان کی تمام عورتوں میں بہترین چار خواتین ہیں، مریمؑ، آسیہؑ، خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہما(الجامع الصغير ،ج 1، ح 4112 ،ص 469 ؛ الإصابة في تمييز الصحابة ،ج 4، ص378)۔
آپ کے فضائل و مناقب کا احصاء ناممکن ہے یہ دریائے فضائل کے کچھ موتی ،مونگ ہیں جنہیں آپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ورنہ آپ کی ذات والا صفات انسانی ادراک سے بالا ترہے۔
عبادت و روحانیت کی معراج
حضرت زہراءؑ زندگی عبادت کی ایک ایسی شمع تھیں جو راتوں کی تاریکی میں بھی روشنی پھیلاتی رہی۔ آپؑ طویل قیام و سجود میں راتیں گزارتیں اور اپنی دعاؤں میں دوسروں کو خود پر مقدم رکھتیں، جو ایثار کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
شیخ صدوقؒ کی “علل الشرائع” اور ابن سعد کی “الطبقات الکبریٰ” میں حضرت امام حسنؑ کا بیان ہے: “میں نے اپنی والدہ کو ہر رات نماز میں مشغول پایا اور انہیں ہمیشہ دوسروں کے لئے دعا کرتے دیکھا”۔
اسی طرح “تسبیح فاطمہؑ”، جو آج بھی امت میں رائج ہے، جو آپ کی عبادت کی زندہ علامت ہے۔قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ و افراد جو آپ کی فضیلت میں اگر اور لیکن کرتے ہیں وہ بھی دن بھر اس تسبیح کا راگ الاپتے ہیں۔ یہ تسبیح 34 مرتبہ “الله أكبر”، 33 مرتبہ “الحمد لله”، اور 33 مرتبہ “سبحان الله” پر مشتمل ہے، جسے خود رسول اللہ ؐ نے تعلیم فرمایا۔(صحیح مسلم، کتاب الصلاة، حدیث 2727؛ الکافی، کتاب الصلاة) ۔
علم و حکمت کی روشنی
حضرت زہراءؑ کا علمی مقام ایسا بلند ہے کہ اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آپؑ کے خطبات، بالخصوص “خطبۂ فدکیہ”، ( جو مختلف کتابوں میں نقل ہوا ہے) قرآن، تاریخ اور فقہ کے ایسے اصولوں کا خزانہ ہیں جو آج بھی اہل علم کے لئے روشنی کا منبع ہیں۔
ابن طیفور کی “بلاغات النساء” میں یہ خطبہ نقل ہوا ہے، جس میں آپؑ نے نہ صرف ارثِ فدک کا حق طلب کیا بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں،توحید، نبوت، عدل اور امامت کو نہایت بلیغ، مستدل اور دل نشین انداز میں بیان فرمایا۔ آپؑ نے قرآن سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا: “وَ وَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ”(النمل، 16) جو انبیاء کی وراثت کی تصدیق کرتی ہے۔ آپ نے قرآن سے استدلال کرکے یہ بتادیا کہ حسبنا کتاب اللہ کے دعویداروں کا نہ قرآن سے کچھ لینا دینا اور نہ رسول اسلامؐ سے، ساتھ ہی ساتھ غاصبان فدک اور خلافت کے جھوٹے دعویداروں کے چہروں سے منافقت کی نقاب اتارپھینکی اور ان کا اصلی چہرہ دنیای عدالت کے سامنے پیش کیا کہ نہ یہ مسلمان ہیں اور نہ ان کے اندر اسلام ہے ، توکہاں سے رسول اسلام(ص)کے خلیفہ ہوں گے۔
عائلی زندگی اور گھریلو کردار
حضرت فاطمہؑ کی ازدواجی زندگی ہر مسلمان خاتون کے لئے ایک تابناک نمونہ ہے۔ صعوبات ومشکلات کے باوجود آپؑ نے صبر و قناعت کو اپنایا اور حضرت علیؑ کے ساتھ وفاداری اور تعاون کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ کی زینت ہے۔
ابن سعد کی “الطبقات الکبریٰ” اور مسند احمد میں امیر المؤمنین حضرت علیؑ کا ارشاد ہے: “فاطمہؑ نے کبھی مجھے ناراض نہ کیا اور نہ میں نے انہیں کبھی ناراض کیا”۔
آپؑ نے بچوں کی تربیت میں کمال حاصل کیا۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ جیسی ہستیاں آپؑ کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھیں، جو امت کے لئے ابدی روشنی ہیں۔
سماجی و سیاسی کردار
رسول اللہ ؐ کی رحلت کے بعد امت کی بے وفائی اور بد عہدی کسی سے پوشیدہ نہیں؛ جہاں نام نہاد صحابہ نے آل محمدؑکو تنہا چھوڑ دیا۔ مدینہ وہ پہلی اور آخری جگہ ہے جہاں فاطمہؑ، علیؑ ، حسنؑ ، حسینؑ …؛ صحابہ رسول کے ہوتے ہوئے بھی تنہا تھے۔ مگراس پر آشوب ماحول میں بھی حضرت زہراءؑ نےمحمدی کردار اپناتے ہوئے فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور حق کی حمایت میں آواز بلند کی اور غاصبان خلافت و فدک کے سامنے مسجد نبوی میں تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں اسلام کے اصولوں اور اجتماعی عدل پر زور دیتے ہوئے دنیا کو سمجھادیا کہ کون عادل ہے اور کون غاصب اور دنیا کے سامنے ظالمین اور غاصبین کا واقعی چہرہ اجاگر کردیا کہ ان کے پیروکاروں سے چھپائے نہیں چھپتا۔ یہ خطبہ اہل بیتؑ کے حقوق کے دفاع کے ساتھ ساتھ امت کو بیدار کرنے اور اسلام کی اصل روح کو محفوظ رکھنے کا شاہکار ہے(بلاغات النساء، ابن طیفور؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید)۔ اور تشیع کی حقانیت پر بیّن دلیل بھی۔
۳۔ حضرت زہراءؑبطور اسوہ کاملہ
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکی زندگی ہر طبقے کے لئے ایک مکمل نمونہ ہے:
- مردوں کے لئے: حق کی حمایت اور دین پر استقامت کی مثال۔
- خواتین کے لئے: عفت، حیا، صبر اور ایثار کی تجسیم۔
- جوانوں کے لئے: حیا، عزیمت اور خدمتِ دین کی ترغیب۔
- پوری امت کے لئے: ولایت کی حفاظت اور حق و باطل میں امتیاز کی تعلیم۔
یہ سیرت ایک ایسا دریا ہے جو ہر دل کو سیراب کرتا ہے۔
نتیجہ
حضرت فاطمہ زہراءؑکی زندگی ایک مکمل اسوہ ہے جو قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لئے مشعلِ راہ رہے گی۔ آپؑ کی عبادت و زہد، علم و حکمت، عائلی و سماجی زندگی اور حق کے دفاع میں استقامت امت کو یہ پیغام دیتی ہے کہ حقیقی کامیابی اسی راہ پر ہے جوحضرت زہراءؑ کی سیرت سے منور ہے۔ اللہ ہمیں آپؑ کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔
مصادر و مراجع
صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابہ؛ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ؛ مسند احمد بن حنبل؛ مستدرک حاکم نیشاپوری؛ الطبقات الکبریٰ، ابن سعد؛ الدر المنثور، جلال الدین سیوطی؛ تفسیر طبری، امام طبری؛ الجامع لاحکام القرآن، امام قرطبی؛ بلاغات النساء، ابن طیفور؛ علل الشرائع، شیخ صدوق؛ سنن ترمذی، کتاب المناقب؛ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید؛الجامع الصغیر؛ الاصابۃ فی تمییز الصحابہ۔




