اسلامی معارف

بعثت پیغمبر اکرمؐ کے اہم اہداف

تحریر: مولانا محمد علی ۔ طالب علم جامعۃ المصطفی العالمیہ۔ قم ایران

 فہرست مندرجات

مقدمہ

بعثت کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم

بعثت کی ضرورت

بعثت کے مراحل

بعثت کے اہداف

۱۔ تعلیم و تربیت

۲۔ عدل وانصاف

۳۔ انسانوں کی آزادی

۴۔ بشارت اور انذار

۵۔ تذکر اور یادآوری

۶۔  بندگی خد اکی دعوت

۷۔ اکمال عقل

۸۔ اتمام حجت

مقدمہ

تاریخ گواہ ہےکہ حجاز کاعلاقہ ایسا ہےکہ جہاں جہالت اپنے عروج پر تھی، جہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مدتوں لڑا کرتےتھے، ان میں خرافات کا بول بالا تھا، ایسے ماحول میں ہمارے پیغمبر اکرمؐ، عام الفیل والے سال دنیا میں تشریف لائے کہ جن کے دادا عبدالمطلب اور والد عبداللہ اور ان کی والدہ کا نام آمنہ تھا۔ آپؐ کی جائے ولادت کا ماحول بہت پست تھا لیکن بہترین پرورش کے ساتھ خود کو اس خطرناک ماحول سے الگ رکھا۔ اس  طرح ان کی عمر گذرتی رہی۔ اعلان نبوت کے تین سال پہلے خداوندعالم  کی جانب سے حضرت جبرئیل تشریف لائے اور پڑھنے کا حکم دیا (سورہ علق آیت  ۱تا۵) اور نبوت کی بشارت دی حضرت رسول خداؐ تین سال تک پوشیدہ طور سے لوگوں کوخداوندعالم کی طرف دعوت دیتے رہے، آخر کار اعلان نبوت کا حکم آیا اور واقعہ ذوالعشیرہ پیش آیا۔ میں اس مقالہ میں بعثت نبوت کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں کچھ خاص پہلوں کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔ (مناقب آل ابی طالب، ص۶۳)۔

بعثت کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم

کلمہ بعثت کا عربی مادہ “بعث” ہے جس کے معنی ابھارنے اور بھیجنے کے ہیں (معجم مقایس  اللغۃ، ج۱، ص۲۶۶۔ تحقیق فی کلمات القرآن، ج۱، ص۲۹۵)

قرآن کریم میں بعث کے معنی قبر سے دوبارہ اٹھانے کے بارے میں بیان ہوا ہے: «مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا»؛ ہمیں ہماری قبروں سے کون اٹھائے گا۔ (سورہ یس آیت۵۲)۔

اور اسلام کی اصطلاح میں بعثت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی ہدایت اور ان کی سعادت کی طرف راہنمائی کے لئے اپنی طرف سے اپنے خاص رہبر اور نمائندوں کو بھیجے۔ اسی وجہ سے جس دن رسول اللہؐ پر وحی نازل ہوئی اور آپؐ کو دین کے پیغام کو پہنچانے کے لئے حکم دیا گیا تھا اس دن کو ہم روز بعثت یا عیدمبعث کہتے ہیں ۔

بعثت کی ضرورت

ہم اس بات کو بہ خوبی جانتےہیں کہ اللہ نے ہم سب کو صاحب عقل بنا کر بھیجا ہے جس سے ہم اپنی زندگی کی ہر چھوٹی اور بڑی چیزوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، اور اسی طرح کچھ اچھائیوں اور برائیوں کے بارے میں بھی اس عقل کے ذریعہ تمیز دے لیتے ہیں کہ  کیا چیز بری  ہے اور کیا اچھی مگر عقل کافی نہیں ہے کیونکہ بہت سی ایسی چیزیں کہ جس کی حقیقت کو ہم درک نہیں کرپاتے ہیں۔ اور اسی طرح بہت سے ایسے مسائل ہماری زندگی میں آتے ہیں کہ جس کا راہ حل ہمارے پاس نہیں ہوتا ہے لہذا ہم کسی ایسے جاننے والے کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ جو ہمارے مسائل کوحل کردے۔ اگر ہم دنیا  میں گھومیں پھریں تو دیکھیں گے کہ ہر مذہب کے اندر کچھ ایسے نامور افراد ہوتے ہیں جو اس قوم کے مسائل کوحل کرتے ہیں جن کو وہ قوم نبی یا رہبر اور الگ الگ ناموں سے جانتی ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کا عقیدہ ہے کہ ایک الہی رہبر کا ہونا ضروری ہے کیونکہ انسان صرف اپنی ناقص عقل کی بنیاد پر زندگی کا سفر طے نہیں کرسکتا ہے، قرآن مجید بھی اس عقیدہ کی تائید کرتا ہے کہ ہر دور میں ایک ہادی کا ہونا ضروری ہے۔ جس کا ترجمہ یوں  ہے “کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ جس میں ڈرانے والانہ آیا ہو” (سورہ فاطر، آیت۲۴)۔

اسی طرح سورہ آل عمران میں فرماتا ہے کہ خداوندعالم نے مومنین پر احسان کیا انہیں میں سے ایک رسول کو بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے (سورہ آل عمران، آیت۱۶۴)۔

بعثت کے مراحل

۱۔ خواب کا دیکھنا یعنی پیغمبراکرم(ص) جو خواب میں دیکھتے تھے وہ خارج میں رونما ہوتا تھا اور کبھی کبھی فرشتہ ان کو رسول اللہ کہہ کر خطاب کرتا تھا۔ (ارزقی، ابن الولید، محمد بن عبداللہ، اخبار مکہ، ج۱، ص۲۰۴)۔

۲۔ غیبی آواز کا سننا یعنی بغیر اس کے کہ کوئی فرشتہ دکھائی دے۔ حضرت رسول اللہ(ص) ۲۷ سال کی  عمر میں آپ کے اندر روحانیت کا وہ عالم تھا کہ گویا آپ احساس کر رہے تھے کہ غیب کا دروازہ ان پر کھل گیا ہے کیونکہ آپ مِخصوص نور کا مشاہدہ کر رہے تھے اور ان پرغیبی  راز ظاہر ہو رہے تھے۔ کئی مرتبہ غیبی آوازیں سنا کرتے تھے لیکن آواز دینے والے کو نہیں  دیکھ پاتے تھے۔ (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج۲، ص۷۱۴)۔

۳۔ فرشتہ وحی کا دیدار؛ بعثت کا آخری مرحلہ یہ تھا کہ آپ(ص) خود حضرت جبرئیل کو دیکھتے تھے اور حضرت جبرئیل  آپ  کو رسول اللہ کہہ کے خطاب کرتے تھے۔ جس قدر بعثت کا زمانہ قریب ہوتا تھا اتنا آپ زیادہ وقت غار حرا میں گزارتے تھے۔ (ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۱، ص۴۴)۔ واضح رہے کہ یہاں جناب جبرئیل کا دیدار ہر مرتبہ ان کی ظاہری اور حقیقی شکل میں نہیں ہوتا تھا بلکہ دو تین مرتبہ کے علاوہ ہمیشہ کسی انسانی شکل میں یہ دیدار ہوتا تھا۔

بعثت کے اہداف

اللہ نے انسان کو خلق کیا اس کو عقل اور شعور جیسی عظیم نعمت سے مزین کیا تاکہ انسان اپنی زندگی کے  ہر مسائل کو حل کرسکے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ انسان  صرف اسی دنیا میں رہنے آیا ہے بلکہ اس دنیا  میں اپنی عمر گذارکر پھر اسی کے بارگاہ میں جانا ہے کہ جہاں سے آئے  ہے جس کی طرف خدا اشارہ کرتا ہے  “… ہم تو اللہ ہی کی طرف سے آئے ہیں اورہمیں اسی کی طرف پلٹ کے جاناہے” (سورہ بقرہ، آیت۱۵۶)۔ اللہ نے ہم کو اس دنیا میں بھیجا ہے خود ہماری خلقت کی وجہ بتاتا ہےکہ “ہم  نے انسان اور جنات کو خلق نہیں کیا مگر عبادت کے لئے” (سورہ ذاریات، آیت۵۶)۔ اور دوسری  جگہ فرماتا ہے کہ “اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سےعمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے”(سورہ ملک، آیت۲)۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ دنیا وادی عمل ہے اور اس عمل کے میدان میں احتمال پایا جاتا ہے کہ کوئی عقل کے باوجود گمراہ ہو جائے لہذا خداوندعالم نے سلسلہ آدمیت کی شروعات ہی معصوم ہادی سے کیا تاکہ کوئی بھی انسان بغیر ہادی نہ رہے ان ہادی اور پیغمبروں کا اس دنیا میں آنے کا بہت سے اہداف ہیں کہ جن میں سے میں یہاں پر کچھ کا ذکر کروں گا۔

۱۔ تعلیم و تربیت

پیغمبراکرم(ص) کے بعثت کا ایک عمدہ ترین ہدف تعلیم و تربیت ہے، جس کی طرف خداوندعالم نے اشارہ کیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے {وہی ہے جس  نے انپڑھوں میں سے ایک رسول  بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کرسناتا ہے اور انھیں پاکیزہ کرتا ہے  اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتاہے جب کہ اس سے پہلے یہ صریح گمراہی میں تھے(سورہ جمعہ آیت۲)۔ کیونکہ تعلیم اور تربیت انسانوں  کی بنیادی ضروریات میں سے ہے جب انسان نے دنیا میں قدم رکھا تو جاہل تھا اور اسی لئے  اللہ نے اس کے لئے ایسے معلم کا انتظام کیا کہ جس کو خود علم کے زیور سے آراستہ کیا ہوا ہے اور اس طرح ہر دور میں ایک معلم کا انتظام کرتا رہا ہے تاکہ انسان جہالت اور کم عقلی کی وجہ سے گمراہ نہ ہوجائے۔

۲۔ عدل وانصاف

پیغمبراکرم(ص) کا اور دوسرے نبیوں کا بھی مہم ترین ہدف معاشرے میں عدل وانصاف قائم کرنا تھا جس کی طرف خداوندعالم اشارہ کر رہا ہے “بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کربھیجا ہے اور ہم  نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں (سورہ حدید، آیت۲۵)۔

اس آیت میں قسط کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے لوگ معاشرے میں عدل و انصاف قائم کریں۔ عدل کا اپنی خصوصی زندگی میں جاری کرنا اور معاشرے میں عدل قائم کرنا ہے، یہ ایک بہترین روش ہے   معاشرے کو بدلنے کا جب تک خود کو انسان اپنی فردی زندگی میں عدل کو جاری نہیں کرے گا اس وقت تک معاشرے میں عدل قائم نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ معاشرہ انسانوں سے الگ نہیں ہے  انھیں کے مجموعہ کا نام معاشرہ ہے۔

۳۔ انسانوں کی آزادی

پیغمبر(ص) کے اہداف میں  سے ایک ہدف انسانوں کی آزادی ظالموں اور ستمگروں کے چنگل سے خداوندعالم اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ پیغمبر بتائیں گے کہ کس  طرح ایک انسان آزاد زندگی گذار سکتا ہے خدا فرماتا ہے: “رحمت ان مومنوں کے شامل حال ہوگی، جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے یہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انھیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیز ان کے لئے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں انکی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے  ساتھ نازل کیا گیا ہے وہی فلاح پانے والے ہیں (سورہ اعراف، آیت۱۵۷)۔

اس آیت سےمعلوم ہوتا ہے کہ انسان کی آزادی خدا اور رسول  اور رسول کے جو مثل نور ہے اس کی پیروی  اور اطاعت ہے کہ جو انسان کو ظالموں اور ستمگروں سے نجات دلاتی ہے، اس مطلب کا شاہد آج  کے دور میں ایران اور باقی مسلمان ملک ہیں، بعض وقت یہ انسان یہ تصور کرتا ہے کہ خدا کی بندگی اور اس کی عبادت انسانوں کو مجبور کرتی ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ خدا اور رسول کی اطاعت  دنیا کے  ظالموں  کے سامنے وہ طاقت عطا کرتی ہے  کہ دنیا محوحیرت ہوجاتی ہے۔

۴۔ بشارت اور انذار

پیغمبراکرم(ص) کا ایک ہدف لوگوں کو اچھی  چیزوں کا بشارت دینا اور بری چیزوں سے متنبہ کرنا ہے جس کی طرف خدا اشارہ کرتا ہے: “ہم نے تو رسولوں کو صرف بشارت دینے والے اور متنبہ کرنے والا بنا کر بھیجاہے، پھر جو ایمان لائے اور اصلاح کر لئے تو ایسے لوگوں کے لئے نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ نہیں وہ محزون ہوں گے۔ (سورہ انعام، آیت ۴۸)۔

قرآن کریم صاف لفظوں میں کہہ رہا کہ پیغمبر(ص) کو ہم نے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے یعنی راستہ دکھانے والا اور اس راستہ میں کیا کیا برائیاں ہیں یعنی وہ موانع کہ جو مقصد تک رسائی کے لئے مانع ہوتی ہیں اس کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کیونکہ راستہ چلتے چلتے کہیں کسی مشکل و مانع کی وجہ سے گرفتار نہ ہو جائے  لہذا مشکل و مانع کی طرف متنبہ کر دتیے ہیں اور ان سے بچنے اور دور رہنے کے طریقے بھی بتادیتے ہیں لہذا جس طرح اچھی چیزوں کی خبردیتے ہیں اسی طرح بری چیزوں سے ڈراتے بھی ہیں جو ان کے اہم اہداف میں سے ہے۔

۵۔ تذکر اور یادآوری

یہ بھی پیغمبر(ص) کے اہداف میں سے ایک ہے کہ وہ لوگوں کو فطرت کی طرف تذکر دیں کیونکہ اس مادی  دنیا میں انسان اپنی فطرف سےغافل ہوجاتا ہے اور صراط مسقیم سے ہٹ جاتا ہے خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے: یہ قرآن لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو متنبہ کیا جائے اور جاں لیں کہ معبود تو بس ایک ہے اور تیز عقل والے تو نصیحت حاصل کرتے ہیں (سورہ ابراہیم، آیت۵۲)۔

یہ پیغام اور تنبیہ تین چیزوں کے بارے میں ہے ایک خدا کی عبادت کے بارے میں، کیونکہ انسان جگماتی دنیا میں  ایسا گم ہو جاتا ہے کہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا کوئی معبود ہے اور کسی نے ہم کو پیدا کیا ہے لہذا انبیاء (ع)، اس کی طرف یاد آوری کراتے ہیں اور دوسرے خدا کی حاکمیت کو قبول کرنے بارے میں کیونکہ انسان ترقی بھری دنیا میں یہ بھول جاتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی حاکم بھی ہے  جو اس کو چلا رہا ہے لہذا یہ انسان خداوندعالم کی حاکمیت کو بھول کر کہیں وقت کا فرعون نہ بن  جائے اس لئے پیغمبر ہمیشہ اس کی حاکمیت کی یاددہانی کرتے رہتے ہیں اور تیسری چیز جو ہے وہ یہ کہ اس کائنات کا ایک ہی قانون ساز ہے اور اسی کے قانون کو تسلیم کرنا ہے  کیونکہ وہ خالق اور رب ہونے کی حیثیت سے قانون بنانے کا حق اسی کو ہے۔ لہذا یہ بات بھی یاد رہے اسی لئے پیغمبر حضرات ہمیشہ انسان کو یاد دلاتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ: “اور یاد کرو جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں جانشین بنایا اور تمہیں زمین  میں آباد کیا تم میدانوں میں محلات  تعمیر کرتے ہو اور یہاں پہاڑوں کو تراش کرکے مکانات بناتے ہو پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو زمین میں فساد کرتے نہ پھرو (سورہ اعراف، آیت۷۴)۔

۶۔  بندگی خد اکی دعوت

خداوندعالم فرماتا ہے “ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا بس انھوں نے کہا اے میری قوم تم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے مجھے تمہارے بارے میں ایک عظیم دن کے عذاب کا ڈر ہے” (سورہ اعراف، آیت۵۹)۔

کیونکہ ایک  ساتھ دو متضاد چیزوں کی بندگی بندگی نہیں ہوسکتی ہے اس لئے خداکی عبادت کےساتھ ساتھ طاغوت کی اطاعت سے پرہیز کرنے کو بھی لازم قرار دیا گیا ہے جیسے کلمہ میں پہلے سارے خداؤں کا انکارکرکے ایک خدا کا اقرار کرتے ہیں  اسی طرح عبادت میں بھی غیراللہ  کا انکار کرکے اللہ کی الولہیت کے اقرار کے ساتھ اسی کی عبادت کرنی ہے یہ چیز انبیاء (ع) کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف ہے جس کے بارے میں خدا اشارہ فرماتا ہے: “اورہم نے  ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم کو اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دے اور طاغوت کی اطاعت کرنے سے پرہیز کرنے کا حکم دے” (سورہ نحل آیت ۲۶)۔

۷۔ اکمال عقل

پیغمبروں کے آنے کا ایک اہم ہدف  انسانوں کی عقل کو کامل کرنا ہے کیونکہ ہر نبی کی عقل اور ان کا علم اپنی امت کے عالموں اور عاقلوں سے بہتر ہوتا ہے۔ حضرت رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں: اللہ نے کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کی عقل لوگوں سے کامل اور اپنی امت کے تمام عاقلوں سے بہتر تھے(کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۱۴۰)۔

اسی طرح حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ انبیا(ع) کا مسلسل آنا اس لئے تھا کہ تاکہ لوگوں کو ان کے فطری عہد و پیمان کی یاد دہانی کرائیں جو خدا نے ان کے وجود میں رکھا ہے اور ان کی چھپی ہوئی عقلوں کو گمراہی کے گرد و خاک سے نکالیں تاکہ وہ وحدانیت کے انعام کو دوبارہ حاصل کرسکیں (نہج البلاغہ، خطبہ۱)۔

۸۔ اتمام حجت

پیغمبروں کا یہ بھی ہدف ہے کہ  لوگوں پر اپنی حجت تمام کریں جس کی طرف  خداوندعالم اشارہ کر رہا ہے “بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے  بعد لوگوں کے لئے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے  اور اللہ بڑاغالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ (سورہ نساء، آیت ۱۶۵)۔

دوسری جگہ فرماتا ہے کہ: “اے اہل کتاب! ہمارا رسول، بیان کرنے کے لئے، رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت تک بند رہنے کے بعد، تمہارے پاس آیا ہے تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور تنبیہ  کرنے والا نہیں آیا، بس اب تمہارے پاس وہ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا آگیا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے(سورہ مائدہ، آیت۱۹)۔

یہ  آیت اس فترت کی طرف اشارہ کررہی ہے جو حضرت عیسی(ع) اور ہمارے رسول(ص) کے درمیان جو فاصلہ تھا یعنی کوئی ایسا دور نہیں تھا کہ جس میں خدا کی طرف سے کوئی و پیغمبر و رہنما نہ رہا ہو اور اسی کے فضل سے ایک حجت آج بھی پردہ غیب میں موجود ہے جو رہنمائی کے فرائض ادا کر رہا ہے اور ایک دن ظاہر ہوکر بعثت پیغمبراکرم(ص) کے تمام اہداف کو مکمل شکل میں دنیا میں نافذ کرے گا اور پوری دنیا پر حکومت الہی کا قیام کرے گا۔ جس کے بارے میں قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: “وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ”؛ “اور ہم چاہتے  ہیں کہ ان لوگوں کو جو اُس زمین میں کمزور اور حقیر بن گئے، قیمتی نعمتیں دے دیں، اور انہیں لوگوں کے رہنما اور زمین کے وارث بنا دیں”(قصص، آیت۵)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button